23مارچ1940ء کا دن وہ اہم اور تاریخی دن ہے جب بابائے قوم کی صدارت میں منٹو پارک( اقبال پارک) کے وسیع و عریض میدان میں (جہاں اب مینار پاکستان موجود ہے) مسلمانوں کے حقوق کا پہلا عَلم بُلند کیا گیا اور اس عظیم مِلّت کے فرزانِ توحید نے اعلانیہ طور پر اپنے لیے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کیا۔ قائد اعظم کا یہ مطالبہ ایک کھلا اعتراف تھا کہ دو مختلف تہذیبوں کے لوگ قطعاً ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔ گویا یہ ان کے مل کے رہنے کی کاوشوں اور ہندوئوں کی سازشوں کی ناکامی کے اعلان کا دن تھا جو برصغیرپاک و ہند کے مسلمانوں اور ہندوئوں کو کسی نہ کسی صورت میں متحد کرنے کے لیے کی گئی تھیں۔ اسی دن مسلمانان ہند نے متحدہ و متفقہ طور پر اپنے تہذیب وتمدن، اپنے اعتقادات و نظریات اور اپنی بقاء و ترقی کے لیے علیحدہ وطن کا مطالبہ کردیا تھا۔
اسی مبارک دن پر مسلم لیگ کے جلسئہ عام میں علاقے اور صوبے کے نمائندوں نے اپنے اپنے علاقے کی ترجمانی کرتے ہوئے قرار داد پاکستان منظور کی تھی۔ اس قرار داد کی منظوری کے ساتھ ہی ہندوئوں کے سینے میں آگ بھڑک اُٹھی۔ ہندو لیڈر، ہندو پریس اور انگریز اس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے لیکن مسلمان قوم اپنی جان پر کھیلنا جانتی ہے، وہ بھی سر پرکفن باندھے سڑکوں پر نکل آئے، لاکھوں کی تعداد میں جلسے منعقد ہوئے، جلوس نکالے گئے اور ان کی ہر چالاکی اور کوشش کو مسلمانوں نے ناکام بنا دیا۔ ہماری یہ عظیم تہذیب مخالفتوں کے عناد سہتی ہوئی حالات کے بھنور سے گزرتی ہوئی14اگست1947ء کو ''پاکستان'' کے نام سے دنیا کے نقشے پر اُبھری۔
23مارچ1940ء کی لاہور قرارداد کوئی ناگہانی یا حادثاتی اظہار نہیں تھی بلکہ ایک مسلسل تاریخی عمل کا نتیجہتھی۔ برِصغیر کے مسلمان جن تلخ تجربات اور نفسیاتی نشیب و فراز سے گزرے تھے یہ ان کا ایک قدرتی لازمہ تھا۔ 23مارچ1940ء کو وہ دن آگیا تھا جب ایک الگ راستے اور الگ وطن کا صاف اور واضح اعلان کیا جائے تاکہ اس کے حصول کے بعد اس مملکت خداداد میں اسلام کے سنہری اصولوں کے ساتھ زندگی گزاری جاسکے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال اپنی زندگی میں پاکستان کی صورت میں آزاد ملک تو نہ دیکھ سکے تھے لیکن مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ آزاد مملکت کا تصور ضرور پیش کردیا تھا اورساتھ ہی مسلمانوں میںآزادی کی روح پھونک دی تھی، جس نے تشکیلِ پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا۔ قائد اعظم نے بھی اپنا نقطہ نظر نہایت واضح الفاظ میں پیش کیااور کہا کہ ''اگر برطانوی حکومت چاہتی ہے کہ ہندوستانیوں کو امن و سکون حاصل ہو تو اس کی صرف ایک صورت ہے کہ ہندوستان کو تقسیم کر کے مسلمانوں کے لیے جدا گانہ وطن منظور کیاجائے''۔
وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی محسوس ہونے لگا کہ مسلمانوں کے حقوق اور تحفظ کی ضامن صرف مسلم لیگ ہے۔ آخر وہ دن بھی آپہنچا جس دن مسلمانوں نے اپنی آزادی کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جسے ''قرارداد پاکستان'' کا نام دیا گیا جس کی رو سے سخت اور کٹھن جدوجہد کے بعد مسلمانوں کا نصب العین متعین ہوگیا۔ وہ دن 23مارچ1940ء کا تھا ۔ اس اجلاس میں تقریباً ایک لاکھ افراد نے شرکت کی جن کے سامنے شیرِبنگال مولوی فضل الحق نے تاریخی قرار داد پیش کی۔ مسلمانوں نے اس قرار داد کا زبردست خیر مقدم کیا اور انہیں اپنی منزل قریب نظر آنے لگی۔ مسلمانوں میں جوش و ولولہ تازہ ہوا اور اس قرار داد کے بعدا نہوں نے اجتماعی طور پر محمد علی جناح کو اپنا قائد مانتے ہوئے ان کی قیادت میں ایک الگ مملکت کے حصول کی جدوجہد کا آغاز کردیا۔
تبصرے