صوبہ بلوچستان اپنے مختلف موسموں، قدرتی رنگ، حسین مناظراور روشن تہذیب و تمدن کی وجہ بن کر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے ۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں ایک طرف تو صاف و شفاف نیلگوں بحیرہ عرب ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آتا ہے تو دوسری جانب سونے جیسے زرد ریت پر مشتمل صحرا کا تاحد نگاہ ذخیرہ موجزن ہے۔ ایک جانب پاکستان کا گرم ترین خطہ سبی موجود ہے تو کچھ ہی گھنٹے کی مسافت پر زیارت جیسا پرفضا مقام آپکو خوش آمدید کہتا ہے ۔ ایک جانب جدید سہو لتوں سے لیس کوئٹہ ہے تو دوسری جانب مہر گڑہ کے قدیم آثار عظمتِ رفتہ کے جھرکوں میں پہنچا دیتے ہیں ۔
الغرض پاکستان کے اس صوبے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی فیاضی سے خوب نوازا ہے ۔ بلوچستان مختلف باغوں سے چنے ہو ئے پھولوں کا وہ گلدستہ ہے جو ہر طرح کی خوشبو اور رنگینی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
آج ہم آپکو پاکستان کے سب سے پر فضا مقام زیارت کی سیر کرواتے ہیں ۔ دراصل اس جگہ کا نام 'زیارت 'اس وجہ سے پڑا کہ یہاں ایک عظیم صوفی بزرگ خرواری بابا کا مزار ہے۔ لوگ ان کے مزار پر جوق در جوق تشریف لاتے اور ان کے مزار کی زیارت کرتے تو اسی مناسبت سے یہ زیارت کے نام سے مشہور ہوگیا ۔
آپ 'زیارت 'جانا چاہتے ہیں تو کوئٹہ شہر سے بآ سانی براستہ سڑک یہاں پہنچ سکتے ہیں وادیٔ زیارت کوئٹہ سے تقریباً130کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جو سطح سمندر سے 2543 میٹر یعنی 8343فٹ بلند ہے۔ اسکا ٹوٹل ایریا 1489مربع کلومیٹر ہے۔
آپ جب براستہ سڑک کراچی سے زیارت کی سیر کے لیے نکلتے ہیں تو سفر کے آغاز پر بلوچستان کے بلند و بالا سنگلاخ چٹانوں کا راج شروع ہو جاتا ہے۔ اسی سڑک پر آپکا سفر مزید آگے کی جانب ہوتا ہے تو آپ خضدار سے ہوتے ہوئے قلات کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں سے منظر یکسر تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔جا بجا سیب ، خوبانی ، انگور اور آڑو کے باغات آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ان باغات سے نکلنے والی محسور کن خوشبو سفر کی تھکان کو رفو چکر کردیتی ہے ۔ ابھی آپ اس ماحول کے سحر سے محظوظ ہی ہورہے ہوتے ہیں کہ آپکی بس کو بریک لگ جاتی ہے اور اسکا فائدہ اٹھاتے مقامی بچے سیب ، انگو ر اور دیگر موسمی پھلوں کے تھیلے اٹھائے بس میں داخل ہو جاتے ہیں اور شہری لوگوں کو اگر یہ تازہ پھل میسر آجائیں تو پھر اور کیا چاہیے ۔
کوئٹہ شہر سے محض 30 منٹ قبل چلتن ہزار گنجی نیشنل پارک موجود ہے جہاں 300 سے 400مارخور ،800کے قریب چلتن آئی بیکس ، انڈین بھڑیئے ، بلوچستانی چیتے، لومڑی اور دیگر جانور اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں ۔ مختلف قیمتی جڑی بوٹیاں بھی جابجا نظر آتی ہیں۔ جنگلی حیات اور دلکش موسم آپکو دعوت نظارہ دیتے ہیں ۔
کراچی سے 11یا12 گھنٹے کا حسین سفر کرتے ہوئے آپ کوئٹہ شہر پہنچ جاتے ہیں ۔ کچھ دیر آرام کے بعد جب اپنی اصل منزل زیارت کے لیے نکلتے ہیں تو آدھے گھنٹے میں آپ کچلاک پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں سے ایک سڑک سیدھی پشین اور بلوچستان کے آخری شہر چمن کی جانب رواں دواں ہوتی ہے لیکن ہمیں دائیں جانب مڑنا ہے جس کا اختتام بلوچستان کے سب سے خوبصورت اور تفریحی مقام زیارت پر ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے اس روڈ کو زیارت روڈ بھی کہا جاتا ہے ۔ لیکن مزید آگے جانے سے پہلے ہم کچلاک میں بلوچی ڈش روسٹ کھائے بغیر کیسے جاسکتے ہیں ۔ سارے پاکستان میں یہاں کا روسٹ سب سے زیادہ ذائقہ دار ہوتا ہے۔
زیارت روڈ پر ہمارا سفر جاری و ساری ہے لیکن دائیں جانب موجود ایک دلکش رنگوں اور نقش و نگار سے مزین مسجد ہمیں مزید آگے سفر سے روک دیتی ہے۔ کیا ہی خوبصورت چھوٹی سی مسجد ہے جو کسی عرب ملک کی جانب سے ہمارے لیے تحفے کے طور پر تعمیر کی گئی ہے۔ سیاحوں کا اس مسجد کا وزٹ کیے بغیر گزرنا تقریباًناممکن ہے ۔ کچلاک کے بعد بوستان کا قصبہ آتا ہے ۔ یہاں سے ریل کے ذریعے آپ بلوچستان ، پاکستان کے آخری شہر چمن تک جاسکتے ہیں ۔
دورانِ سفر ا ب ایسا مقام آجاتا ہے جہاں سے ہم سیدھے ہاتھ زیارت روڈ کی طرف مڑ جائیںگے۔ اگر ہم سیدھے اسی ہائی وے پر مزید آگے سفر جاری رکھیں تو خانو زئی، مسلم باغ ، قلعہ سیف اللہ، لورالائی اور پھر پنجاب کے فورٹ منرواور ڈیرہ غازی خان کی سیر کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اس سڑک کی ایک برانچ ژوب (ڈیرہ اسماعیل خان) سے ہوتی ہوئی اسلام آباد تک جاتی ہے جس سے آپ اس کی تجارتی اہمیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
اب ہمار ا سفر زیارت کی طرف تیزی سے جاری ہے۔ آہستہ آہستہ منظر تبدیل ہوتا جا رہا ہے ۔ سڑک کے دونوں جانب وسیع و عریض علاقوں پر سیب، خوبانی، اخروٹ، آڑو اور انگور کے باغات منظر کو دیدہ زیب بناتے ہیں ۔ یہاں باغبانی کے لیے پہاڑوں سے آنے والے پانی یا زیر زمین ٹیوب ویل کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ ان پہاڑوں سے نکلنے والے چشموں کو باغات تک پہنچانے کے لیے کاریز سسٹم کا استعما ل کیا جاتا ہے۔ مطلب حرف عام میں پانی کو زیر زمین نالوں کے ذریعے مختلف باغات تک پہنچایا جاتا ہے تاکہ سخت گرمی کے موسم میں بھی پانی کا بھرپور استعمال کیا جاسکے اور پانی بھاپ کی شکل میں ضائع نہ ہونے پائے ۔
کچلاک سے تقریباً ایک سے ڈیڑہ گھنٹے کی مسافت کے بعد دلکش صنوبر کے جنگلات کا آغاز ہوجاتا ہے ۔ موسم میں خنکی اور بھینی بھینی خوشبو آپ کو اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ اب زیارت قریب ہی واقع ہے ۔ جیسے جیسے ہم وادی زیارت کے قریب ہوتے جاتے ہیں، صنوبر کے قیمتی اور قدرتی جنگل مزید گھنے ہوتے جاتے ہیں ۔ زیارت پاکستان کا سب سے پرفضا اور ٹھنڈا مقام ہے اور اسی مناسبت سے مقامی لوگ اسے ٹھنڈا زیارت بھی کہتے ہیں۔
بلند و بالا پہاڑوںاور حسین صنوبر کے جنگلات کے درمیان سفر کرتے ہو ئے آپ ایک استقبالی دروازے تک پہنچ جاتے ہیں جسے بابِ زیارت کہتے ہیں۔ جی ہاں اب آپ زیارت میں داخل ہورہے ہیں ۔ اپنے چاروں طرف نظر دوڑائیں تو حد نگاہ پہاڑوں پر صنوبر کے دلکش جنگلات اور جابجا سیب ، خوبانی، انگور ، آڑو اور اخروٹ کے باغات آپ کو خوش آمدید کہتے نظر آئیں گے۔
مقامی باشندے پہاڑوں پر اپنی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ چراتے نظر آتے ہیں یہ تمام منظر قابل دید ہوتا ہے اور آنکھوں کو خیر ہ کر دینے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ یہاں کئی مقام پر شہد نکالنے کے فارم ہائوسز بھی نظر آتے ہیں ۔ آپکی گاڑی زیارت کے اکلوتے اور مختصر بازار میں داخل ہوجاتی ہے ۔ آپ کے بائیں طرف سرکاری دفاتر اور دائیں جانب مختلف دوکانیں، ہوٹل اور ریسٹورنٹ نظر آئیں گے ۔ جگہ جگہ کوئلے کی انگیٹھی پر چڑھی سجی اور کڑاہی گوشت کی خوشبو آپکی بھوک کو جھنجھوڑ کر جگا دے گی ۔
مختلف ہوٹلوں کے نمائندے آپ کو گھیر لیں گے۔ زیارت میں مناسب معاوضے پر صاف ستھرے ہوٹل مل جاتے ہیں۔ زیارت کی مرکزی سڑک پر سیاح چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیں یہی سڑک آگے کو مستونگ اور لورالائی تک جاتی ہے ۔ پاکستان اور صوبہ بلوچستان میں زیارت کو ایک اہم اور تاریخی اہمیت اس لیے بھی حاصل ہے کہ یہاں بانی پاکستان قائداعظم نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے آج اسکو قائد اعظم ریزیڈنسی کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے ۔ قائد اعظم ریزیڈنسی کی عمارت 1892ء میں تعمیر کی گئی ۔
قائداعظم ریزیڈنسی خالصتاً لکڑی سے بنی ہوئی دو منزلہ عمارت ہے جس میں قائداعظم کے زیرِ استعمال چیزیں بڑے قرینے سے رکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ تاریخ پاکستان سے وابستہ قائدین کی تصاویر بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں ۔ 15 جون 2013 ء کو خوارج کے حملے میں قائد کی رہائش گاہ کو مکمل طور پر تباہ کردیا گیا ۔ قائد اعظم ریزیڈنسی کی موجودہ عمارت دراصل اس اصل عمارت کی کاپی ہے جو پاک آرمی کے تعاون سے تعمیر کی گئی ہے۔
جب سیاح زیارت کی خوبصورت وادی کا دیدار کرتے ہیں تو وہیں اپنے قائد سے وابستہ نشانی دیکھے بنا کیسے جاسکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وادی زیارت دوسرے سیاحتی مقامات میں منفرد و یکتا مقام رکھتی ہے۔ زیارت ریزیڈنسی کے ساتھ ایک خوبصورت باغ بھی موجود ہے ۔ قائداعظم ہر شام اپنی بہن کے ساتھ اس باع میں چہل قدمی کیا کرتے تھے ۔ حکومت پاکستان نے اس عمارت کو قومی یادگار کا درجہ بھی دیا ہو ا ہے۔ یہ قومی یادگار صبح گیارہ بجے سے شام پانچ بجے تک سیاحوں کے لیے کھولی جاتی ہے ۔
قائد ریزیڈنسی کے بائیں ہاتھ کو ایک راستہ مزید اوپر کو جاتا ہے جہاں کا منظر کیا کمال ہوتا ہے۔ قدرتی جنگلات سے نکلنے والی ایک منفرد خوشبو دل و دماغ کو تر و تازگی بخشتی ہے ۔ یہ خوبصورت مقام کیمپنگ کے لیے موزوں ترین ہے۔ ایک جانب بلند وبالا پہاڑی سلسلہ ہے تو دوسری جانب سبز ہ ایک وسیع علاقے میں دور تک پھیلا ہوا ہے جہاں مقامی لوگوں کی بھیڑ ۔ بکریاں چرتی نظر آتی ہیں جو قدرتی ماحول کو اور زیادہ پرکشش بنادیتی ہے۔ یہاں سے کچھ ہی فاصلے پر سفر کے بعد آپ ایک ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جو غا لباً زیارت میں سیاحوں کے لیے سب سے اونچا مقام ہے جسے پراسپیکٹ پوائینٹ کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسکی بلندی سطح سمندر سے تقریباً 2713میٹر ہے اور یہاں اکژ اوقات بادلوں کا راج رہتا ہے ۔
یہاں سے وادی کی سب سے اونچی چوٹی خلافت پیک کا نظارا بھی دیدنی ہوتا ہے۔ یہاں ایک ایسا قدیم درخت بھی ہے جو لفظ اللہ کی شکل میں موجود ہے۔ سیاح حضرات اس درخت کے ساتھ فوٹو گرافی کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہاں سے ا یک سڑک وادی کی دوسری جانب جاتی ہے جہاں ایک صوفی بزرگ خراواری بابا کا مزار ہے اور انہی کی نسبت سے اس پوری وادی کا نام زیارت پڑ گیا ۔ جب آپ مزار سے مزید آگے کی جانب سفر کر یں گے تو ڈومیل چشمہ اور آبشار کی خوبصورتی حیرت میں مبتلا کردیگی اور آپ کواللہ کی ثناء کرنے پر مجبور کردے گی ۔ اسکے علاوہ تنگی کے نام سے بھی کئی دیدہ زیب مقام آپ کے منتظر ہیں۔
پاکستان کے تمام شہروں سے آپ بذریعہ بس اور ریل بآسانی پہنچ سکتے ہیں ۔ ریل سے سفر کمال مناظر سے لبریز ہوتا ہے ۔ یہ پاکستان کاسب سے خوبصورت ریلوے ٹریک تصور کیاجاتا ہے اور بالخصوص سبی تا کوئٹہ ٹریک تو اپنی مثال آپ ہے ۔ یہ ریلوے ٹریک انگریز دور میں سنگلاخ چٹانوں کا سینہ چیر کر کافی جانوں کی قربانی کے بعد بنایا گیا ہے۔
سبی تا کوئٹہ ریلوے ٹریک دلچسپ مناظر اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ اسی ٹریک پر21ٹنل تعمیر کیے گئے ہیں جن کو الگ الگ ناموں سے پکا را جاتا ہے جن میں مشہور Cascade ٹنل ، Windy Cornerٹنل وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ پاکستان ریلوے کے ٹرین وادی بولان کے مختلف ٹنل اور آبی گزر گاہوں پر بنے منفرد پلوں سے ہوتی کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پہنچتی ہے ۔ بلندی کی وجہ سے سبی تا کوئٹہ پر سفر کے دوران ٹرین کے آگے اور پیچھے دو نوں جانب انجن لگائے جاتے ہیں ۔
وادیِ زیارت میں واقع صنوبر کے قیمتی جنگلات نہ صرف اس علاقے بلکہ پاکستان کی پہچان ہیں ۔ ان وسیع جنگلات میں بعض درخت ساڑھے پانچ ہزار سال سے بھی پرانے ہیں۔ دنیا میں صنوبر کے یہ جنگلات اپنی عمر کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آتے ہیں ۔ یہ جنگلات پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔ صنوبر کے یہ جنگلات سال میں صرف ایک انچ ہی بڑے ہوتے ہیں۔ چنانچہ گورنمنٹ کی جانب سے ان درختوں کی کٹائی پر مکمل پابندی عائد ہے اور جا بجا تنبیہ کے بورڈ نصب کیے گئے ہیں ۔
وادیِ زیارت کا یہ سیاحتی مقام مئی تا ستمبر سیاحوں سے بھرا رہتا ہے جبکہ اکتوبر تا فروری شدید برفباری کی زد میں رہتا ہے اور اگر آپ ان مہینوں میں زیارت کا رخ کریں تو وادی مکمل طور پر برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے ۔ وادیِ زیارت میں صنوبر کے جنگلات اور قدرتی حسن اس کی اصل پہچان ہیں جس کی رعنائی آپ کی روح میں سما جاتی ہے اور بلاشبہ یہی وجہ ہے کہ اس وادی کو پاکستان کا سب سے پرفضا ء مقام تصور کیا جاتا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے ان خوبصورت مقامات کو پرنٹ ، الیکڑانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے بھرپور کوریج دی جائے تاکہ زیارت کی خوبصورتی کو مزید اجاگر کیا جاسکے۔ حکومت کو چاہیے کہ وادی زیارت میں ایک چیئر لفٹ کا اضافہ کر دے تاکہ اس وادی کے حسن کو دوبالا کیاجاسکتا ہے جو ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرنے کاایک ذریعہ بن سکتا ہے۔
تعارف:مضمون نگار سماجی، معاشرتی اور سیاحتی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے