ہم میں سے اکثر لوگ دو طرح کی پریشانیوں میں مبتلا رہتے ہیں ۔ ایک وہ طبقہ ہے جو ماضی میں گم رہتا ہے کہ کاش میں یہ پلاٹ لے لیتا تو اتنافائدہ ہو جاتا ۔ اس کام میں پیسے ڈال دیتا تو اتنا فائدہ ہو جاتا، حالانکہ ماضی وہ میدان ہے جو گزر چکا ۔ اس میں گھوڑے دوڑانے سے کچھ فائدہ نہیں ۔ سوائے اپنی دماغی صلاحیتوں کو ضائع کرنے اور پریشان ہونے کے ۔ اسی طرح بعض لوگ مستقبل کے متعلق پریشان رہتے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے ۔ کچھ خراب نہ ہو جائے ۔ اوپر مضمون کے ٹائٹل میں جو فارسی کا شعر لکھا ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ماضی اور مستقبل کے متعلق سوچنے سے انسان کے مثبت ارادوں اور خدا کے درمیان ایک حجاب ہو جاتا ہے اور وہ ہر وقت مایوسی میں گھرا رہتا ہے ۔ ایسے لوگ اکثر احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں کہ مجھے یہ کیوں نہیں ملا، فلاں کو یہ مل گیا ۔ بعض ا وقات ایسا آدمی تکبر اور بڑائی کا شکار ہوتا ہے کہ میری حیثیت بڑی ہے لیکن مجھے کم ملا ۔ ایک دلچسپ اور سبق آموز قصہ آپ کے گوش گزار کرتا ہوں ۔
ایک بادشاہ کا وزیر تھا ۔ وزیر کی عادت تھی کہ جب بھی کوئی نئی صورتحال پیش آتی تو وہ کہتا " اس میں بھی خیر ہے "۔ ایک دفعہ دربار میں بادشاہ کی کسی وجہ سے انگلی کٹ گئی تو وزیر حسب عادت بولا " اس میں بھی خیر ہے ۔" بادشاہ جلال اور غصے میں آگیا ۔ اس نے سوچا کہ میری انگلی کٹ گئی اور یہ کہہ رہا ہے اس میں خیر ہے ۔ یہ میرا بدخواہ ہے ۔ چنانچہ اس نے حکم دیا کہ اس وزیر کو جیل میں بند کر دو ۔ جب سپاہی وزیر کو پکڑ کر جیل میں لے جارہے تھے تو وزیر پھر بولا " اس میں بھی خیر ہے "
بادشاہ کا معمول تھا کہ وہ وزیر کے ساتھ شکار پر جاتا تھا ۔ ایک دن وہ شکار کی تلاش میں جنگل میں بہت دور نکل گیا اور اکیلا رہ گیا ۔ اچانک اس کو کچھ جنگی قبائل نے گھیر لیا ۔ وہ اس کو اپنے سردار کے پاس لے گئے ۔ سردار نے حکم دیا کہ اس کی بھینٹ اور قربانی دیوتا کے لیے دی جائے ۔ بادشاہ کے اوسان خطا ہو گئے کہ اب جان گئی ۔ چنانچہ انہوں نے بادشاہ کے جسم کا معائنہ کیا تو ایک انگلی کٹی ہوئی پائی ۔ سردار نے کہا کہ اس میں عیب ہے اور اس کی قربانی نہیں دی جا سکتی چنانچہ اسے چھوڑ دیا گیا ۔ بادشاہ واپس اپنی سلطنت میں پہنچا تو سب سے پہلے حکم جاری کیا کہ وزیر کو نکالا جائے ۔ وزیر کو پیش کیا گیا ۔ بادشاہ نے اس سے کہا کہ اس میں تو مجھے سمجھ آگئی کہ میری انگلی کٹنے میں خیر تھی کہ میں بھینٹ چڑھنے سے بچ گیا لیکن جب تجھے جیل لے کر جارہے تھے تو اس وقت تو کہہ رہا تھا کہ " اس میں بھی خیر ہے " تو تجھے جیل جانے میں کون سی خیر مل گئی ۔ وزیر بولا حضور مجھے آپ سے بھی بڑی خیر مل گئی کیونکہ میں آپ کے ساتھ شکار پر جاتا تھا، اگر میں جیل میں نہ جاتا تو آپ کے ساتھ شکار پر جاتا ۔ جنگلی قبائل آپ کو تو عیب کی وجہ سے چھوڑ دیتے لیکن مجھے نہ چھوڑتے اور آپ کی جگہ مجھے ذبح کر دیتے ۔
اس سبق آموز قصے سے واضح ہوا کہ ہر چیز اور ہر کام میں ہمارے لیے بہتری ہوتی ہے ۔
آج کل بہت سے نوجوان بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہیں اور ہر وقت کہتے ہیں کہ خودکشی کر لیں گے ۔ حالانکہ نوکری کا چلے جانا یا بچوں کا امتحان میں کامیاب نہ ہونا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے کہ اپنی زندگی ختم کر لی جائے ۔ ایک در بند سو در کھلے ۔ جب پریشانیاں انتہا کو پہنچ جائیں تو سوچنا چاہیے کہ اب آسانیوں کا دروازہ کھلنے والا ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اولاد کی بیماری نہیں دیکھی جاتی اور ہم خود کشی کرلیں گے ۔ حالانکہ اب تو ان کے سر پر باپ کا سایہ ہے ۔ جب یہ بھی اٹھ جائے گا تو یہ تپتے آسمان تلے تنہا ہو جائیں گے اور مصائب کا بوجھ ان پر لد جائے گا ۔ یہ کیسا خود غرض باپ ہے جو اپنی پریشانی سے جان چھڑانا چاہ رہا ہے لیکن بچوں کو مصائب اور پریشانیوں کے حوالے کرتا جا رہا ہے ۔ ہم اگر اپنی زندگی پر نظر دوڑائیں تو زیادہ وقت ہمیں راحت اور آرام کا نظر آئے گا ۔ کبھی کبھار غم بھی نظر آئے گا ۔ ویسے یہ دنیا دارالمحن ہے ، امتحانات کا گھر ہے ۔ بعض اوقات انسان سمجھتا ہے کہ میرا یہ مسئلہ حل ہو جائے تو زندگی کے سب مسائل حل ہو جائیں گے ۔ صاحب ذرا نیا سورج تو نکلنے دو۔ ہمارے ایک بزرگ فرماتے تھے کہ ہر نیادن نئے مسئلے لے کر نکلتا ہے ۔
آپ کبھی ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں جا کر کسی مریض کا حال معلوم کریں تو وہ آپ کو بتائے گا کہ میں نے پوری رات ایک ایک منٹ گن کر گزارا ہے اور انتہائی کرب وتکلیف میں رات گزری ۔ ہم روز آرام سے سوتے ہیں اور پھر صبح عافیت کے ساتھ اٹھ جاتے ہیں ۔ آج کل گردوں کے اتنے مریض آرہے ہیں کہ الامان و الحفیظ ۔ ایک صاحب نے بتایا کہ کہ ان کے ڈائلسز ہو رہے ہیں اور ہفتے میں دو دفعہ ڈائلسز ہوتے ہیں۔ اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ جیسے دو دفعہ ہفتے میں روح ڈالی گئی اور نکالی گئی ۔ایک صاحب بتا رہے تھے کہ کہ ان کے دماغ اور آنکھوں کے درمیان رابطہ ختم ہوگیا ہے ۔ یعنی وہ عصب یا nerve خراب ہوگئے ہیں جو دماغ تک آنکھوں سے دیکھی گئی چیزیں لے جاتے ہیں چنانچہ اب وہ چیزیں دیکھ سکتے ہیں لیکن دماغ میں محفوظ نہیں کر سکتے ۔ ہم اگر اپنے گردوپیش اور اپنے جسم پر نظر دوڑائیں تو ہمیں بے شمار نعمتیں محسوس ہوں گی ۔ ایک بزرگ کچھ بیمار ہوگئے اور انہیںبخار ہوگیا ۔ لوگ جب تیمارداری کرنے آئے اور حال پوچھا تو فرمانے لگے کہ خدا کا شکر ہے میرا دل صحیح کام کر رہا ہے ۔ میرے گردے صحیح کام کر رہے ہیں ۔ میرا جگر صحیح کام کر رہا ہے ۔میرا معدہ صحیح کام کر رہا ہے ۔ بس تھوڑا سا بخار ہوگیا ہے ۔ ایک یہ طریقہ ہے مرض کا اظہار کرنے کا اور ایک واویلا مچانا ہے کہ ہائے مجھے بخار ہوگیا ۔ ایک بزرگ کہیں جا رہے تھے اور حالت ایسی خراب تھی کہ پائوں میں جوتا بھی نہیں تھا ۔ انہوں نے دل میں کچھ شکوہ کیا کہ اے اللہ میرے پاس جوتے بھی نہیں ہیں ۔ کچھ آگے گئے تو دیکھا کہ ایک آدمی کا پائوں کٹا ہوا تھا تو انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میرا پائوں تو موجود ہے ۔
اس تحریر کو لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ ہم موجود نعمتوں اور آسانیوں پر اللہ کا شکر ادا کریں اور زندگی کو صبر و شکر کے ساتھ گزاریں ۔
تبصرے