عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی آبادی نے جہاں بے تحاشا مسائل کو جنم دیا ہے، وہیں ان کے حل کے لیے کچھ نئے نظریات، فلسفے اور طریقے بھی اختیار کیے گئے ۔جن سے فائدہ اٹھا کر بنی نوع انسان کو درپیش سنگین چیلنجز کی شدت کو کم کرنے کی کوششیں جاری ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک نے تو ان مسائل پر قابو پا لیا ہے حتیٰ کہ انہوں نے آبادی کی رفتار پر بھی قدغن لگائی ہے ،جس کا مقصد ریاستی وسائل کے اندر رہتے ہوئے اپنے مسائل کا حل ہے ۔ تاہم ترقی پذیر ممالک جہاں آج بھی آبادی کا پھیلائو ریاستی وسائل سے کئی گنا زیادہ ہے، وہیں مسائل کا انبار لگا ہوا ہے جن میں سر فہرست سالڈ ویسٹ کے ایشو ہیں۔ تاہم "زیرو ویسٹ مینجمنٹ " کا فلسفہ بھی ترقی یافتہ ممالک کے بعد ترقی پذیر ممالک میں بھی اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد سالڈ ویسٹ کی پیداوار کو کم سے کم کرنا اور وسائل کی بحالی کو زیادہ سے زیادہ کرنا ہے۔یعنی ویسٹ مینجمنٹ یا ویسٹ ڈسپوزل میں وہ عمل اور اقدامات شامل ہیں جو کچرے کو اس کے آغاز سے لے کر اس کے آخری ٹھکانے تک کے انتظام کے لیے درکار ہیں ۔ اس میں فضلہ کو جمع کرنا ، نقل و حمل ، ٹریٹمنٹ اور ٹھکانے لگانے کے ساتھ ساتھ ویسٹ مینجمنٹ کے عمل کی نگرانی اور ریگولیشن اور کچرے سے متعلقہ قوانین ، ٹیکنالوجیز اور اقتصادی میکانزم شامل ہیں ۔
ویسٹ مینجمنٹ کا مقصد ماحولیات اور انسانی صحت پر ایسے فضلے کے خطرناک اثرات کو کم کرنا ہے۔ فضلہ کے انتظام کا ایک بڑا حصہ میونسپل ٹھوس فضلہ سے متعلق ہے ، جو صنعتی، تجارتی اور گھریلو سرگرمیوں سے پیدا ہوتا ہے۔ فضلہ کے انتظام کے طریقے(ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک )میں یکساں نہیں ہیں ؛ علاقے (شہری اور دیہی علاقے ) اور رہائشی اور صنعتی شعبے سبھی مختلف طریقے اختیار کر سکتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ لینڈ فلز اور جلانے کی بجائے فضلہ کو ختم کیا جائے اور اس کے بجائے، مصنوعات اور سسٹمز کو اس طرح سے ڈیزائن اور آرگنائزر کیا جائے جس سے وسائل کا تحفظ ممکن ہو سکے، آلودگی کم ہو اور زمین کی پیداواری اور پائیداری کی صلاحیت کو فروغ ملے۔زیرو ویسٹ مینجمنٹ سے جو فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں ان میں گرین ہائوس گیسوں کے اخراج میں کمی، قدرتی وسائل کا تحفظ، کچرے کو ٹھکانے لگانے کے اخراجات میں کمی، ری سائیکلنگ اور پائیداری کے شعبوں میں ملازمتوں کے مواقع اور صحت عامہ اور ماحولیاتی معیار میں بہتری شامل ہیں ۔
زیرو ویسٹ مینجمنٹ کے کلیدی اصولوں میں کھپت کو کم کرنا ، پائیدار مصنوعات کا استعمال کر کے دوبارہ استعمال کرنے اور دوبارہ استعمال کرنے کے لیے بھی مصنوعات کو ڈیزائن کرکے فضلہ کی پیداوار کو کم سے کم کرناشامل ہیں۔مصنوعات اور مواد کو ضائع کرنے کے بجائے جب بھی ممکن ہو دوبارہ استعمال کریں ۔ ایسے مواد کو ری سائیکل کریں جنہیں دوبارہ استعمال نہیں کیا جا سکتا اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ قابلِ استعمال اشیا کو مناسب طریقے سے تیار کیا گیا ہے ۔غذائی اجزا سے بھرپور مٹی بنانے کے لیے کھاد نامیاتی فضلہ، جیسے کھانے کا فضلہ وغیرہ ،ری سائیکلیبلٹی کو ذہن میں رکھتے ہوئے مصنوعات اور پیکیجنگ کو ڈیزائن کیا جائے تاکہ انہیں آسانی سے ری سائیکل اور دوبارہ استعمال میں لایا جا سکتا ہو۔
زیرو ویسٹ مینجمنٹ کو قابل عمل بنانے کے لیے افراد، کاروبار، حکومتوں اور کمیونٹیز کی جانب سے باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ ماحول کو صاف رکھنے کے نکتہ نظر سے صفر فضلہ حاصل کرنے کے لیے حکومتوں کو بھی آگے بڑھ کر ذمہ دار کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جبکہ حکومت کے کرنے والے کاموں میں فضلہ میں کمی اور ری سائیکلنگ کے پروگراموں کو نافذ کرنا،کھپت کے لیے جامع سسٹم کو فروغ دینا،پائیدار مصنوعات کی ڈیزائننگ اور مینوفیکچرنگ، سرکاری سطح پر حکومت اور نجی کمپنیوں کے درمیان اشتراک اور تعاون کی حوصلہ افزائی کرنا اور فضلہ سے وسائل تکنیکوں کی حمایت کرنا وغیرہ ۔
عالمی ماہرین کے مطابق پائیدار اور قابل رہائش شہروں کی تعمیر کے لیے کچرے کا مناسب انتظام ضروری ہے، لیکن یہ بہت سے ترقی پذیر ممالک اور شہروں کے لیے ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کچرے کا موثر انتظام نسبتاً مہنگا ہے، جو عام طور پر میونسپل بجٹ کا20سے50فیصدہوتا ہے۔ اس ضروری میونسپل سروس کو چلانے کے لیے مربوط نظاموں کی ضرورت ہوتی ہے جو موثر، پائیدار، اور سماجی طور پر معاون ہوں۔ فضلہ کے انتظام کے طریقوں کا ایک بڑا حصہ میونسپل سالڈ ویسٹ (MSW) سے نمٹتا ہے جو کہ گھریلو ، صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے فضلے کا بڑا حصہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل (IPCC) کے مطابق ، میونسپل ٹھوس فضلہ کے 2050 تک تقریباً 3.4 Gt تک پہنچنے کی توقع ہے ۔ تاہم، پالیسیاں اور قانون سازی دنیا کے مختلف علاقوں اور شہروں میں پیدا ہونے والے فضلے کی مقدار کو کم کر سکتی ہے۔ فضلہ کے انتظام کے اقدامات میں سرکلر اکانومی کے مربوط تکنیکی اقتصادی میکانزم کے لیے اقدامات شامل ہیں ، ٹھکانے لگانے کی موثر سہولیات، برآمد اور درآمدی کنٹرول اور تیار کی جانے والی مصنوعات کا زیادہ سے زیادہ پائیدار ڈیزائن ، اس مسئلہ کا بنیادی حل ہے ۔
وطن عزیز کے حوالے سے بات کریں تو پاکستان میں زیرو ویسٹ مینجمنٹ ایک ابھرتا ہوا تصور ہے جس کا مقصد فضلہ کی پیداوار کو کم سے کم کرنا اور وسائل کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنیادوں پر استعمال کرنا شامل ہے۔پاکستان کو کچرے کے انتظام میں اہم چیلنجز کا سامنا ہے، جس میں ناکافی انفراسٹرکچر، عوامی آگاہی کی کمی اور ناکافی فنڈنگ شامل ہیں۔ ملک سالانہ لاکھوں ٹن فضلہ پیدا کرتا ہے، جس میں ایک اہم حصہ پلاسٹک کا ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے، مختلف اقدامات شروع کیے گئے ہیں، جن میں وسائل کو محفوظ کرنے اور کچرے کو کم سے کم کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اختیار کی گئی ہے جسے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے لیے تجویز کیا گیا ہے۔ایک قومی اتحاد جو ڈی کاربنائزیشن کے لیے کام کر رہا ہے اور فضلے کے دوبارہ استعمال اور ذرائع میں کمی کو فروغ دے رہا ہے۔ ایک ویسٹ مینجمنٹ ایکشن پلان ترتیب دیا گیا ہے جس کا مقصد پاکستان میں ایک موثر ویسٹ مینجمنٹ سسٹم تیار کرنے کے لیے ایک روڈ میپ جس میں ایک ادارہ جاتی فریم ورک قائم کرنا اور کچرے کو جمع کرنے اور ٹھکانے لگانے کی صورتحال کو سمجھنا شامل ہے۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ ملک کچرے کے انتظام کے مسائل سے دوچار ہے، لیکن رحیم یار خان میں "زیرو پلاسٹک ویسٹ سٹی" پراجیکٹ جیسے اقدامات مزید پائیدار مستقبل کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔اس وقت صوبہ پنجاب میں"ستھرا پنجاب پروگرام "کے تحت صوبے بھر کے شہروں کو صاف ستھرا اور عمدہ ماحول فراہم کرنے کے لیے ایک نئے باب کا آغاز ہو چکا ہے اور اس حوالے سے پورے پنجاب میں کام کیے جا رہے ہیں، آگاہی پروگرام چلائے جا رہے ہیں جبکہ اس حوالے سے نجی شعبے میں کئی طرح کے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں ۔
مجموعی طور پر، جہاں پر کئی طرح کے چیلنجز موجود ہیں وہیں پاکستان ویسٹ مینجمنٹ کے طریقوں کو اپنانے کی جانب قدم اٹھا رہا ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت، پرائیویٹ سیکٹر اور سول سوسائٹی کی مسلسل کوششوں اور تعاون سے ملک کچرے سے پاک مستقبل کے ساتھ ساتھ بہتر ماحول کے حصول اور تحفظ کی طرف بڑھ سکتا ہے، شرط صرف مسلسل اور جاندار پالیسوں پر عمل درآمد کی ہے ۔ اس کے علاوہ فضلہ سے لبریز گندے پانی کے نقصان سے ہم سب واقف ہیں۔ اس حوالے سے ریاستی سطح پر قانون سازی کرتے ہوئے انڈسٹری کو پابند بھی کیا جائے تاکہ پاکستانی عوام کو اندھی موت سے نجات مل سکے۔ موثر پالیسوں اور قوانین پر عمل کرنے سے ہی پاکستان میں ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے اور اب حکومت کو کسی قسم کی نرمی کا مظاہرہ کیے بغیر ایک محفوظ پاکستان کے لیے شدت سے اور مسلسل کام کرنے کی ضرورت ہے ۔
مضمون نگار : صحافی،کالمسٹ ، فکشن رائٹر اور شاعرہ ہیں، سماجی اور غیر سماجی موضوعات پر کئی قومی اخبارات اور ماہانہ مجلوں کے لییلکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے