شہید سپاہی علی رضا کی داستانِ شجاعت،نسیم الحق زاہدی کے قلم سے
اسلام میں فلسفہ شہادت انتہائی واضح ہے ۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہادت بلند ترین اعزاز ہے ۔ ارشاد باریٰ تعالیٰ ہے:''کہ اگرتم اللہ کے راستے میں مارے جائو ،تب بھی اللہ کی طرف سے ملنے والی رحمت ومغفرت ان چیزوں سے کہیں بہتر ہے جو یہ (کافر)جمع کررہے ہیں''(سورة آل عمران 157)شہادت کی موت کو حیات ابدی سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ''جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں،انہیں مردہ مت کہو،درحقیقت وہ زندہ ہیں مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور وادراک نہیں ہے۔''(سورة البقرہ 154)1965ء کی جنگ 1971ء کی جنگ میں صف آرائی ،کارگل کے محاذ اور اب 2001ء سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دشمن کی جارحیت کا مکمل جوش وجذبے سے جواب دیتے ہوئے ہزاروں جوانوں اور افسروں نے شہادت کا رتبہ پایا۔ قوم کو ان شہیدوں پر فخر ہے ۔کیونکہ انہوں نے ہمارے بہتر مستقبل کی خاطر اپنا تن من دھن وطن عزیز پر قربان کردیا ۔وطن کے ایک ایسے ہی بہادربیٹے سپاہی علی رضا نے اس دھرتی سے اپنی والہانہ محبت کا حق ادا کرتے ہوئے شہادت کا جام پی کر خود کو ہمیشہ کے لیے امر کرلیا۔
شہید سپاہی علی رضا 31مارچ 1992ء کو فیصل آباد کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔مڈل تک تعلیم آبائی گائوں سے حاصل کی، میٹرک کا امتحان گورنمنٹ اقبال ہائی اسکول سے پاس کیا جبکہ ایف اے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج سمندری سے مکمل کیا۔ علی رضا کے چھوٹے بھائی محمد طیب جو کہ اس وقت بطور سپاہی میڈیکل کور، سی ایم ایچ راولپنڈی میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ اُن کو بچپن سے ہی آرمی میں جانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ ان کا خاندانی پس منظر بھی فوج سے متعلق تھا۔شہید بھائی سے ان کی والہانہ محبت کا اثرتھا کہ بھائی بھی ان کی طرح فوجی بننا چاہتا تھا۔یہ شوق علی رضا کو 2011ء میں آرمی سلیکشن سنٹر فیصل آباد لے گیا جہاںانہوں نے ٹیسٹ دیا اور وہ کامیاب ہوگئے۔ بھائی ٹریننگ کے لیے مردان سنٹر روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے آٹھ ماہ کی ٹریننگ مکمل کی۔ان کی پہلی پوسٹنگ پنجاب رجمنٹ یونٹ گارڈ آف آنر سیالکوٹ میں ہوئی جہاں انہوں نے چھ ماہ ڈیوٹی انجام دی ۔اس کے بعد شہید کی دوسری پوسٹنگ جنوبی وزیرستان کے علاقہ سروکئی میں ہوئی،اس کے بعد سرگودھا پھر سکردواور آخری پوسٹنگ شمالی وزیرستان میں تھی ۔شہید کے بھائی بتاتے کہ شہید انتہائی سادہ طبیعت کے مالک اور ایک ملنسار انسان تھے ،جب ان کی شمالی وزیرستان میں پوسٹنگ ہوئی تونیٹ ورک کی وجہ سے ان سے رابطہ کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا ،بھائی جب بھی چھٹی پر گھر آتے تو ایک ہی لفظ کہتے کہ اُدھر کے حالات اچھے نہیں، کیا پتہ اگلی مرتبہ مجھے سبز ہلالی پرچم میں لپیٹ کرگھرلایاجائے تو اس پر والد ہ،بھابھی،بہنیں اور سبھی گھر والے تڑپ کر رہ جاتے مگر بھائی علی رضا کہتے کہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے نصیب میںشہادت کی موت لکھ دے۔
شہید کی دوشادیاں تھیں۔ پہلی شادی 2017ء میں ہوئی جس سے ایک پانچ سالہ بیٹاایان حسن ہے، جب کہ دوسری شادی 2021ء میں ہوئی جس سے ایک دوسالہ بیٹامحمد عمر اور ایک بیٹی میرب فاطمہ ہے ۔ میرب ابھی صرف بیس دن کی تھی جس دن بھائی شہید ہوئے۔ شہید کے بھائی محمد طیب بتاتے ہیں کہ بھائی کو کھانے میں چاول،گوشت اور دیسی مرغی کی یخنی پینا بہت پسند تھا۔شہید پانچ وقت کا پکا نمازی اور ایک درد مند دل رکھنے والا انسان تھا۔ گائوں میں پڑھنے والے غریب بچوں کو کتابیں اور بیگ خرید کر دیتا ،مستحق لوگوں کی چپکے سے مدد کرتا ۔ہماری اپنی زمینیں ہیں،والد صاحب کھیتی باڑی کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ شہید سمیت ہم چار بھائی اور ہماری دو بہنیں ہیں ،شہید بہن کے بعد دوسرے نمبر پر تھے ۔ الحمدللہ ! اللہ تعالیٰ نے اپنی سبھی نعمتوں سے نواز رکھا ہے ۔ہمارے والدین نے ہماری پرورش بڑے خوبصورت انداز میں کی ہے ،ہمیشہ دوسرے لوگوں کا احساس کرنے اور کمزور لوگوں کی مدد کرنے کا درس دیا ہے ۔یقین کیجیے کہ ہم سارے گائوں والے ایک گھرانے کی طرح رہتے ہیں ۔سبھی ایک دوسرے کے دکھ درد ،خوشی اور غمی میں برابرکے شریک ہوتے ہیں ۔مگر شہید علی رضا بہت ہی الگ طبیعت کا مالک تھا،چھٹی پر جب گھر آتا تو پورے گائوں کا چکر لگاتا ،یقین کریں کہ وہ جب گھر ہوتا تو پورا گائوں ہمارے گھر ہوتا۔گائوں کے بوڑھے ،مائیں ، بچے اور جوان سبھی ساری ساری رات اس سے پاک فوج کے جوانوں کی بہادری کے قصے سنتے ۔جس پر والدہ اکثر کہہ دیتیں کہ علی پتر، آپ تو گائوں والوں سے ملنے آتے ہوتو شہید مسکر ا کر کہتے کہ اب کے بار چھٹی گھر آئوں گاتو صرف آپ کے پاس بیٹھوں گا ۔جس پر سب گھر والے مسکر ادیتے ۔ مورخہ 16مئی 2024ء کورات گیارہ بجے دہشت گرد وںنے سنائپر سے پوسٹ کو نشانہ بنایا ،گولی ان کے ماتھے پر لگی اور وہ شدید زخمی ہوگئے ،جوانوں نے اس دہشت گردانہ حملے کا بھرپور جواب دیا ،رات 3بجے بھائی کو CMHڈیر ہ اسماعیل خان لایا گیا ۔17مئی 2024ء کو صبح 9بجے بھائی محمد سہیل ارشد کو کال آئی کہ اس طرح حملے میں سپاہی علی رضا زخمی ہوگئے ہیں ،اورانہیں CMHپشاور شفٹ کیا جارہا ہے۔ آپ محمد طیب کا نمبر دیں ۔مجھے دن ساڑھے دس بجے کے قریب یونٹ سے کال آئی کہ اس طرح بھائی علی رضاحملے میں زخمی ہوچکے ہیں اور ان کو بذریعہ ہیلی کاپٹر CMHپشاور لے جایا جارہا ہے،کچھ دیر بعد کال آئی کہ انہیں CMHراولپنڈی شفٹ کیا جارہا ہے ۔ آپ فوراً ادھر آجائیں ،میں ابھی راولپنڈی پہنچا ہی تھا کہ ساڑھے چار کال آئی کہ سپاہی علی رضا زخموں کی تالاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش فرماچکے ہیں ۔میں نے گھر میں کال کی اور والدہ محترمہ سے دعا کے لیے درخواست کی ،مگر بھائی محمد سہیل نے گھر والوں کو بھائی علی رضا کی شہادت کا بتادیا تھا ،والدہ کہنے لگیں کہ مجھے علم ہے کہ میرا علی شہید ہوچکا ہے۔ میں خوش ہوں کہ اللہ نے میرے بیٹے کی خواہش پوری کی اور اس کو شہادت کے منصب پر فائز کیا ۔الحمداللہ ! میں ایک شہید کی ماں بن چکی ہوں۔
17فروری 2024ء کو رات ساڑھے آٹھ بجے ڈیرہ اسماعیل خان میں شہید کا نماز جنارہ ادا کیا گیا،رات اڑھائی بجے کے قریب سبزہلالی پرچم میں لپیٹے ہوئے شہید سپاہی علی رضاکے جسد خاکی کو آبائی گائوں لایا گیا ۔جہاں رات کے اس پہر بھی لوگوں کے جم غفیر نے سیکڑوں من پھولوں کی پتیوں کے ساتھ والہانہ انداز میں اُن کا استقبال کیا ،والدہ نے خوشی کے ساتھ بیٹے کی شہادت کی مبارکبادیں وصول کیں ۔ہر آنکھ اشک بار تھی ۔ہر شخص کی زبان پر شہید بھائی کی اچھائیوں کا تذکرہ تھا ۔یہاں میں بحیثیت ایک فوجی ان لوگوں کو پیغام دینا چاہوں گاجو کہتے ہیں کہ فوج کاتو کام ہی لڑنا ہے ،فوج پر باتیں کرنا آسان ہے مگر گھروں ،اپنے والدین،بہن بھائیوں اور بیوی بچوں سے سیکڑوں میل دور سرحدوں پر ڈیوٹی دینا (جہاں پل کی خبر نہیں ہوتی کہ دشمن کی گولی کہاں سے آلگے )بہت مشکل کام ہے ۔اس پاک دھرتی کی قدر ان بوڑھے والدین سے جاکر پوچھیے جنہوں نے اس کی حفاظت اور ناموس پر اپنے جوان بیٹوں کو قربان کیا ہے۔18مئی 2024کو صبح دس بجے اس عظیم دھرتی کے ایک اور عاشق کو سیکڑوں سوگواران کی موجودگی میں آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ۔شہید کے جنازے میں پاک فوج کے افسران،پنجاب پولیس کے افسران، سیاسی وسماجی شخصیات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔شہید کی تدفین پورے فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی ،گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں ۔وطن کے عاشق کی قبر پر سبز ہلالی پرچم لہرادیا گیا۔اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو قبول فرمائے۔آمین۔
اے شہیدو اے شہیدو تم حیات ہو۔۔اے شہیدو تم وفا کی کائنات ہو
مضمون نگار سماجی موضوعات پر مختلف قومی اخبارات اور رسائل میں لکھتے ہیں اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے