''آزاد اور خود مختار پاکستان کے قیام کے بعد یہ ہماری پہلی عید ہے۔ تمام عالم اسلام میں یہ یومِ مسرت ہماری مملکت کے قیام کے فوراً بعد نہایت مناسب طور پر آیا ہے۔ لہٰذا یہ ہم سب کے لیے خصوصی اہمیت اور مسرت کا حامل ہے۔ میں اس مبارک موقع پر تمام مسلمانوں کو، خواہ وہ کسی بھی خطۂ ارض پر ہوں، پُر مسرت عید کا ہدیۂ تبریک پیش کرتا ہوں۔ مجھے اُمید ہے کہ یہ عید خوشحالی کا نیا باب وا کرے گی اور اسلامی ثقافت اور تصورات کے احیا کی جانب پیش قدمی کا آغاز کرے گی۔ میں خدائے قادر و قیوم کے حضور دست بہ دعا ہوں کہ وہ ہم سب کو اپنے ماضی اور تابناک تاریخ پر عامل بنادے۔ اور ہمیں اتنی طاقت عطا فرمائے کہ ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں جملہ اقوام عالم میں ایک عظیم قوم بناسکیں۔
بلا شُبہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ہے۔ لیکن یہ تو صرف منزل کی طرف ہمارے سفر کا آغاز ہے۔ ہمارے کاندھوں پر جتنی ذمہ داریاں آپڑی ہیں ان سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے ہمارا عزم بھی اتنا ہی عظیم ہونا چاہیے۔ تعمیر ملت بھی ان ہی کوششوں اور قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے جن کی حصولِ پاکستان کی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ضرورت تھی۔ اب اصل ٹھوس کام کرنے کا وقت آگیا ہے اور مجھے اس بات پر کوئی شُبہ نہیں کہ مسلم ذہانت اپنی قوتوں کو بروئے کار لاکر ان دشواریوں پر قابو پالے گی جو اس رستے میں ہیں جو بظاہر سنگلاخ ہے اس موقع پر ہمیں اپنے ان بھائیوں اور بہنوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جنہوں نے صرف اس لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا کہ پاکستان قائم ہوسکے اور ہم زندہ رہ سکیں۔'' (قائد اعظم محمد علی جناح۔ عید الفطر کے موقع پر قوم کے نام پیغام۔18اگست۔1947)
مارچ 2025ء اپنے دامن میں رمضان المبارک کا تقدس لے کر آرہا ہے۔ عید الفطر کی خوشیوں کا دن بھی اور 23مارچ قرار داد پاکستان کا عظیم یوم بھی۔ 1940 میں اسی دن بر صغیر کے مسلمانوں نے اپنے مخلص رہنمائوں کے توسط سے ایک طرف اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ اپنے لیے ایک الگ وطن حاصل کرکے رہیں گے ، اپنا تن من دھن سب قربان کریں گے، انگریز سامراج سے آزادی حاصل کریں گے۔ ہندو رام راج کو اپنے اکثریتی علاقوں پر مسلط نہ ہونے دیں گے، دوسری طرف انہوں نے تاریخ اور جغرافیے کے ساتھ ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط بھی کیے کہ ہم اپنی اس نئی مملکت کو آنے والے زمانوں کے تقاضوں کے مطابق تعمیر کریں گے۔ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیں گے جہاں ایک فرد کو ساری آزادیاں میسر ہوں گی۔ یہ ایک ایسی مملکت ہوگی جہاں زندگی کی جدید ترین سہولتیں فراہم کی جائیں گی، جہاں قانون کا نفاذ سب کے لیے یکساں ہوگا، جہاں ایک ایسا نظام حکومت قائم ہوگا کہ اکثریت اوراقلیت دونوں کو سارے حقوق حاصل ہوں گے۔ کوئی ادارہ دوسرے اداروں کی حدود میں مداخلت نہیں کرے گا۔
قائد اعظم کے اس پیغام میں ملاحظہ کیجیے کہ وہ فرمارہے ہیں:
'' بلا شُبہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ہے۔ لیکن یہ تو صرف منزل کی طرف ہمارے سفر کا آغاز ہے۔ ہمارے کاندھوں پر جتنی ذمہ داریاں آپڑی ہیں۔ ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہمارا عزم بھی اتنا ہی عظیم ہونا چاہئے۔''
ان سطور میں غور طلب الفاظ ہیں۔'ذمہ داریاں' اور دوسرے یہ کہ ان سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے اتنا ہی عظیم عزم۔ ایک صاحب بصیرت قائد بہت دور تک دیکھتا ہے اور وہ اپنے پیروکاروں کے سامنے اہم ذمہ داریوں کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔کلیدی عہدوں پر اہل افراد کو ہی متعین کرتا ہے۔
آج 85سال بعد جب ہم 23مارچ کو یوم پاکستان (یوم اسلامی جمہوریہ پاکستان) منارہے ہیں تو جب اپنی کامیابیوںاور ناکامیوں کا شُمار کرتے ہیں تو جو بنیادی خامی ہر عشرے میں ابھر ابھر کر سامنے آتی ہے وہ یہی ہے کہ ہم ان تاریخی ذمہ داریوں کا بھرپور ادراک نہ کرسکے جو ایک آزاد اور خود مختار قوم کی تعمیر کے لیے ضروری تھا۔ ہمارے بزرگوں نے طاقت ور انگریز سامراج سے ٹکر لی، ہندوئوں اورسکھوں سے مقابلہ کیا، حصول پاکستان کے لیے تو تحریک بہت شدو مد سے چلی لیکن ان علاقوں میں زیادہ تھی جنہیں پاکستان کا حصہ نہیں بننا تھا۔ مگر قیام پاکستان کے بعد استحکام پاکستان کے لیے جس ہمت، ادراک ،بصیرت اور تدبر کی ضرورت تھی، وہ کم ہوتا گیا اور ہم اس عظیم عزم کا مظاہرہ نہ کرسکے جس پر بانیٔ پاکستان نے زور دیا تھا۔ کلیدی عہدوں پر افراد اہلیت کے مطابق فائز نہیں کیے گئے۔
23 مارچ ہو یا 14اگست یہ دن ہر سال ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہمارے اکابرین اور ہمارے آبائو اجداد کیسے صدیوں غیر مسلموں کو برداشت کرتے رہے۔ ان کا استحصال اور مظالم سہتے رہے۔ کیسی کیسی آفات کا سامنا کرتے رہے۔ مگر قائد اعظم کی قیادت میں انہوں نے بالآخر ایک الگ وطن حاصل کرلیا جس کا محل وقوع بہت اہم اور حساس تھا۔ ایک طرف مغربی پاکستان ، جہاں مشرق بعید کو مشرق وسطیٰ میں جانے کے لیے گزرنا پڑتا تھا۔ ایشیا کو یورپ میں داخل ہونے کے لیے جہاں سے ہوکر جانا پڑتا تھا۔ ادھر مشرقی پاکستان سے جنوبی ایشیا کو مشرق بعید کا رُخ کرنے کے لیے ڈھاکا چٹا گانگ سے گزرنا ناگزیر تھا۔
23مارچ 1940ء کی بار باریہ تصویر دیکھ رہا ہوں جس میں قائد اعظم کے ساتھ تحریک پاکستان کے سارے اہم رہنما صف بستہ ہیں۔ جب یہ تصویر ان دنوں شائع ہوئی ہوگی توکوئٹہ سے آسام تک کے مسلمانوں کے حوصلے کیسے دو چند ہوئے ہوں گے۔ آسام، بنگال،بہار، یوپی، پنجاب ، سرحد، بلوچستان اور سندھ کے سب مسلمان رہنما موجود ہیں۔ سب اپنے اپنے لباس میں، شیروانیوں میں، سوٹ میں، تنگ پائجامے میں، کھلے پائجامے، شلواریں، مختلف ٹوپیاں، پگڑیاں، ایک خاتون وہ بھی مکمل حجاب میں۔ یہ قرار داد جہاں مسلمانوں کے اس وقت کے سارے مسائل کا احاطہ کرتی ہے، ان کا تنظیمی، تعلیمی، آئینی، سیاسی، سماجی، تاریخی اور جغرافیائی حل تجویز کرتی ہے وہاں ان عظیم قائدین کے تمتماتے چہرے، ان کا لباس بھی ان کی علاقائی ثقافتوں، تہذیبوں اورسماجوں کی ترجمانی کرتا ہے، جن کی نمائندگی کے لیے وہ لاہور میں جمع ہوئے اور مسلمانوں کی اکثریتی علاقوں کے لیے، الگ دستور الگ نظام کی قرارداد منظور کی۔
میری تو تمنّا رہی ہے اور اس کا اظہار میں نے اکثر کیا بھی ہے کہ ہر 23 مارچ کو اگر ہمارے موجودہ رہنما اپنے تمام سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر یکجہتی کا مظاہرہ کریں، اپنے اپنے لباس میں اسی طرح صف بستہ ہوں مینار پاکستان کے سائے میں، تو پوری قوم کو کیسا پیغام جائے گا۔ دنیا بھر کو کیا ادراک ہوگا کہ ہر ترقی یافتہ قوم کی طرح پاکستان کے لوگوں میں بھی بعض پہلوئوں پر الگ الگ رائے ہے۔ لیکن منزل سب کی ایک ہے اور اپنے قومی دنوں پر وہ قوم کی تعمیر کے لیے اکٹھے ہوجاتے ہیں ۔
1940 کو تو ریاست پاکستان وجود میں نہیں آئی تھی۔ اب تو ریاست موجود ہے۔ اس لیے اب اس قطار میں نہ صرف منتخب حکومت کا پورا ڈھانچہ موجود ہو بلکہ کلیدی عہدوں پر فائز افسر بھی، آرمی چیف، نیول چیف، فضائی چیف، چیف جسٹس سپریم کورٹ، سارے ہائی کورٹس کے چیف جسٹس، سب کی زبان پر یہ نغمہ ہو۔'' اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں''۔ ہم ایک ہیں۔ پھر دیکھیں بحرانوں سے دوچار قوم میں کس طرح ایک نیا ولولہ پیدا ہوتا ہے۔
23مارچ1940 سے 23مارچ 2025۔ 85سال، آٹھ عشرے۔ دنیا کتنی بدل گئی ہے، میڈیا میں،معاشرے میں، روز مرہ کی زندگی میں کتنی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ ہمارے قائد اعظم نے اپنی تقریروں میں بار ہا جن عزائم کی نشاندہی کی ، جن بیماریوں کی تشخیص کی اور جن سماجی خرابیوں سے احتراز کی ہدایت کی ۔ صوبائیت، علاقائیت، فرقہ پرستی، کرپشن، ذخیرہ اندوزی، دشمن کے گماشتوں کی فتنہ پروری، اپنی آئینی حدود سے تجاوز، ان کا تجزیہ کریں۔ ہمیں جن المیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ان کے اسباب کیا وہی عناصر نہیں ہیں جن کا بانیٔ پاکستان بار بار احساس دلاتے تھے۔
لیکن ہمیں اپنے عوام اپنی اکثریت کو خراج عقیدت پیش کرنا ہوگا کہ 1947سے اب تک عام پاکستانیوں نے ہر قسم کی تنگدستی، مفلوک الحالی، غربت، دولت کی نا منصفانہ تقسیم ، اپنے ازلی دشمن بھارت کی سازشوں اور دوبار جنگی جارحیت کے باوجود بڑی استقامت سے تعمیرِ قوم میں حصّہ لیا ہے۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والی قومیں تو ہم سے بہت آگے بڑھ گئیں۔ خاص طور پر ہمارا دائمی دوست چین، جو اَب دنیا کی دوسری معیشت بن گیا ہے۔ اقبال نے تو چین کی آزادی کی پہلے پیشگوئی کردی تھی۔
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
چین کی قیادت نے اپنی یکجہتی ، یگانگت اور پارٹی ڈسپلن سے اپنی پوری قوم کو سیسہ پلائی دیوار بنادیا ہے۔ 1949سے اب تک پوری دنیا میں کتنی تبدیلیاں آئی ہیں۔ نقشہ بدل گیا ہے۔ دنیا پہلے دو بلاکوں میں منقسم تھی۔ پھر یک طاقتی دنیا ہوئی۔ سوویت یونین منہدم ہوگیا، مگر چین نے اپنے آپ کو مستحکم رکھا، متحد رکھا۔ اس طرح ہمارے پڑوس میں متحدہ عرب امارات، خلیجی ریاستیں سعودی عرب کہاں سے کہاں جا پہنچے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایک بہت ہی اہم محل وقوع سے نوازا ہے۔ گزشتہ 85 سال میں بار بار رفتار عالم نے سیاسی، سماجی، علمی، جغرافیائی طور پر ثابت بھی کیا کہ ہم پاکستانی دنیا کے کس اہم مقام پر رہائش پذیر ہیں۔ 1949 میں چین کا ظہور ہوا، پھر ایران میں تیل کی دریافت،1979میں افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت، مشرق وسطیٰ میں انقلابات، دس ہزار میل دور،عالمی طاقت امریکہ کو پاکستان کا اتحادی بننا پڑا۔ پاکستان کی مدد کے بغیر اس کے منصوبے مکمل نہ ہوسکے۔
پاکستان نے اس عرصے میں تمام مشکلات، اندرونی ناکامیوں کے باوجود تعلیم، دفاع، زراعت، معیشت، صنعت میں پیش رفت کی ہے۔ ہمارے شہر از خود پھیلتے گئے، سنورتے گئے۔
بہت سی منزلیں ہم نے حاصل کیں، بہت سے معرکے سر کیے، لیکن قائد اعظم پاکستان کو جہاں دیکھنا چاہتے تھے وہاں ہم نہیں پہنچ سکے۔ اس کے کیا اسباب ہیں۔
میں پاکستان کا ہم عمر ہوں، بلکہ کچھ سال بڑا۔ میں تاریخ کا طالب علم ہوں اور ایک طویل عرصے سے پاکستانی معاشرے کے اتار چڑھائو کا عینی شاہد۔ معروضی انداز میں جائزہ لیتا آرہا ہوں۔ مارچ 1940 میں ہمارے پاس ریاست نہیں تھی لیکن ریاست کے حصول کا جذبہ تھا، ایک ولولہ تھا۔ اگر ہم 85سال کا تجزیہ جدید دور کے علوم کی روشنی میں کرتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ ہم پر جذباتیت غالب رہی ہے۔ مسائل کے انتظامی حل کی بجائے ہم جذباتی ردّ عمل ظاہر کرتے رہے ہیں۔ ہمارے جذباتی انداز کی بنا پر ہمارا استحصال بھی کیا گیا ہے۔اس جذباتیت نے ہی ہمیں اس مقام تک نہیں پہنچنے دیا، جہاں اس وقت ہمیں ہونا چاہیے تھا۔
اب 2025 میں ' میں تو پُر امید ہوں کہ اس وقت سوشل میڈیا نے جس طرح پاکستانی نوجوانوں کو ایک سمت دے دی ہے، اطلاع کی تیز رفتاری اور دنیا بھر میں زندگی کی آسانیاں جس طرح پاکستانی نوجوانوں کے سامنے آرہی ہیں، زندگی گزارنے کا ایک سسٹم ، ایک مقصد اپنی قطعیت کے ساتھ ابھر کر آتا ہے۔ اس سے انہیں ادراک ہورہا ہے کہ ہمارا آئندہ کا روڈ میپ کیا ہونا چاہیے۔ ہماری ترجیحات کیا ہونی چاہئیں۔ سوشل میڈیا کے خلاف ایک واویلا بھی مچتا ہے۔ لیکن یہ جس طرح ذہانت کو تیز کررہا ہے، ہر فرد کو اپنی ذہانت کے استعمال کا آزادانہ موقع دیتا ہے، اس سے صلاحیتیں بجا طور پر استعمال ہونے لگی ہیں۔ اہلیت بروئے کار آرہی ہے۔ ہر فرد کو یہ احساس ہورہا ہے کہ اس کے سماجی فرائض کی کیا حدود ہیں۔ قومیں کس طرح آگے بڑھتی ہیں۔ معیشت کیسے ترقی کرتی ہے۔
میرے خیال میں افراد کی یہ آگہی قوم کی ذہانت بھی بن سکتی ہے۔ پاکستانی قوم کی اکثریت سماجی اور علمی طور پر کبھی بھی اتنی باشعور نہیں تھی۔ اس شعور کو ایک طاقت میں قومی قیادت ہی ڈھال سکتی ہے۔ قومی قیادت کو صرف سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ ہماری یونیورسٹیاں، ہمارے دینی مدارس، تحقیقی ادارے، میڈیا ہائوسز ہمارے قلمکاراور دانشور ،یہ سب قیادتیں ہیں جو اپنے اپنے انداز میں قوم کو آگے لے جاتے ہیں۔ مجھے یہ قوی احساس ہے کہ اس وقت پاکستانی قوم، بالخصوص نوجوان، علاقائی حدوداور صوبائی تعصبات پار کرکے ایک قوم کے انداز میں سوچ رہا ہے کیونکہ اسے شدت سے احساس ہے کہ دنیا میں اس کا وجود ایک پاکستانی قوم کی حیثیت سے ہے۔ اس کا سبز پاسپورٹ ہی اس کی شناخت ہے۔ اس کا صوبہ، اس کی زبان، اس کی پہچان نہیں ہے۔ ساری زبانیں، ثقافتیں، تہذیبیں، اپنی جگہ قابل قدر ہیں۔ وہ ایک فرد کی تعمیر اور سماج کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ لیکن آگے بڑھنے کے لیے ایک ملّت کی حیثیت ناگزیر ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
ایسے سماجی شعور، سیاسی ادراک اور معروضی فکر کے غلبے کے دوران جب 23مارچ آرہی ہے تو جو بھی ملّت کی گاڑی کے اسٹیئرنگ پر بیٹھے ہیں، انہیں اس شعور کو تحفۂ خداوندی اور تاریخ کا عطیہ سمجھتے ہوئے ایسا روڈ میپ بنانا چاہیے کہ ہم آئندہ ہمیشہ اس بیداری اور آگہی کے ثمرات سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔
اس وقت اطلاع تیز تر ہے۔ تمنّائیں سوشل میڈیا کی اسکرینوں پر روشن ہیں۔
اب تاریخ سے ہم پھر 1940 کی طرح ایک یادداشت پر دستخط کریں۔ اب تو ہمارے پاس ایک ریاست ہے، 24کروڑ جیتے جاگتے لوگ ہیں، سونا، تانبا، گیس، تیل، قیمتی پتھروں کے خزانے ہیں، زرخیز زمینیں ہیں۔ عالمی ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ اگر پاکستان اپنے وسائل کو استعمال کرنے کے لیے ایک منظّم راستہ اختیار کرلے، کلیدی عہدوں پر وژن رکھنے والے، اہل افراد متعین ہوں تو پاکستان میں ایک مثالی اقتصادی وحدت اور ایک کامیاب ریاست بننے کے لیے پورے امکانات موجود ہیں۔ ان میں 60 فی صد نوجوان ، جن کے دست و بازو ہیں، ذہنوں میں توانائیاں ہیں آگے بڑھنے کی بے تابی ہے۔
آئیے پھر ایک قرار داد منظور کریں۔ ایک مستحکم، متحداور منظّم پاکستان کی۔
آئیے پھر تحریک پاکستان کا آغاز کریں۔
پاکستان کی نشاة ثانیہ ہماری منتظر ہے۔
تعارف:مضمون نگارنامورصحافی' تجزیہ نگار' شاعر' ادیب اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے