رات کا وقت تھا۔ زینب اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔ وہ پیدائشی طور پر بصارت سے محروم ایک باہمت اور ذہین لڑکی تھی۔والدین نے کبھی اسے معذوری کا احساس نہیں ہونے دیا تھا۔اس وقت زینب کے سامنے میز پر ایک ’’بریل بک‘‘(بصارت سے محروم افراد کے رسم الخط والی کتاب) کھلی پڑی تھی۔ یہ کتاب تحریک پاکستان سے متعلق تھی۔ زینب کتاب کے صفحات پر اُبھرے ہوئے الفاظ پر انگلیاں پھیرتے ہوئے اسے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔اسی لمحے زینب کے ابو کمرے میں داخل ہوئے اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولے،’’میری بیٹی کو اپنے وطن سے بہت محبت ہے اسی لیے تو آج بھی تاریخ پاکستان پڑھی جا رہی ہے ۔‘‘
’’ میںیومِ پاکستان کے حوالے سے ایک تقریر تیار کر رہی ہوں۔‘‘ زینب نے محبت سے اپنے بابا کا ہاتھ تھام کر کہا۔
’’ مجھے یقین ہے کہ ہر سال کی طرح یہ مقابلہ بھی میری بیٹی ہی جیتے گی۔‘‘ ان کی حوصلہ افزائی پر زینب دھیرے سے مسکرائی اور پھر کچھ سوچتے ہوئے بولی، ’’ہمارے قومی پرچم کا رنگ سبز اور سفید ہے۔ ٹیچر بتا رہی تھیں کہ سفید رنگ بہت اُجلا اور بے داغ ہوتا ہے۔بابا! سبز رنگ کیسا ہوتا ہے ؟‘‘
’’ سبز رنگ میں تازگی اور ٹھنڈک کا احساس ہوتاہے۔ اسے دیکھ کر سکون محسوس ہوتا ہے۔‘‘بابا جان نے جواب دیا۔
یہ سن کر زینب اپنی جگہ سے اُٹھی اور آگے بڑھ کر کمرے کی کھڑکی کھول دی۔ کھڑکی کھلتے ہی اس کے ابو کو جو منظر سب سے پہلے دکھائی دیاوہ دُور روشنیوں سے نہایا ہوا مینارِپاکستان تھا۔یہ گھر زینب کے دادا جان نے بنوایا تھا۔ انہوں نے خاص طور پراس سمت ایک کھڑکی رکھی تھی جہاں سے تازہ ہوا ہی نہیں بلکہ مینارِ پاکستان کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی۔ زینب کے دادا کچھ عرصہ قبل انتقال کر گئے تھے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے سر گرم کارکن تھے۔ انہیں قرار دادِ پاکستان کے جلسے میں شمولیت کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا۔ وہ اکثر زینب کو تحریک پاکستان کے واقعات سناتے رہتے تھے۔
’’ بابا جان !رات کے وقت مینارِ پاکستان دُور سے کیسا دکھائی دے رہا ہے ؟‘‘ اس نے اپنے والد سے پوچھا۔
’’ بہت پُر وقار اور ہمیشہ کی طرح اپنی عظمت کا احساس دلانے والا۔ ‘‘
زینب نے گہری سانس لی اور کہا،’’کاش!اس بریل بک میں اُبھرے ہوئے الفاظ کو چھو کر سارے پاکستا ن کو محسوس کیا جا سکتا اور مجھے کبھی اپنے جھنڈے کا رنگ نہ پوچھنا پڑتا۔ ‘‘
بیٹی کی خواہش سن کر بابا جان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے، ’’بیٹی! تم اس ملک کا قیمتی اثاثہ ہو ۔ جس محنت سے تم تعلیم حاصل کر رہی ہو، مجھے امید ہے کہ ایک دن تم اپنے وطن کے لیے فخر کا باعث بنو گی۔ ‘‘بابا جان نے زینب کے ماتھے پر بوسہ دیا اور اسے جلد سوجانے کی تلقین کر کے اپنے کمرے میں چلے گئے۔
زینب وہیں کھڑی قرار دادِ پاکستان کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اچانک اسے اونگھ محسوس ہوئی۔ اسی لمحے زینب کو اپنے دادا جان کی شفقت بھری آواز سنائی دی۔
’’ آج ہماری بیٹی اُداس کیوں ہے ؟‘‘
’’ میں ان اندھیروں سے نکل کر اپنے وطن کی خوب صورتی دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ زینب جیسے خواب میں بول رہی تھی۔
’’ ہم ضرور اپنی بیٹی کی خواہش پوری کریں گے... آئو میرے ساتھ....‘‘
دادا جان نے زینب کا ہاتھ تھاما تو اگلے ہی لمحے منظر بدل گیا۔ اب وہ دونوں ایک خوبصورت پارک میں موجود تھےاورمینارِ پاکستان اُن کے سامنے تھا۔
’’اُف خدایا...میںیہ سب دیکھ سکتی ہوں۔یہ مینار،یہ قومی پرچم اور یہ سر سبز میدان؛ سب کچھ میرے سامنے ہے ۔‘‘ زینب خوشی سے جھوم اُٹھی۔
’’ بہت خوب... آئو میں اپنی بیٹی کو بتاتا ہوں کہ مینارِ پاکستان ہمیں کیا پیغام دے رہا ہے۔ ‘‘ وہ زینب کا ہاتھ تھام کرآگے بڑھے اور بولے، ’’ اس وقت ہم اقبال پارک میں موجود ہیں۔قیامِ پاکستان سے قبل اسے منٹو پارک کہا جاتا تھا۔یہی وہ جگہ ہے جہاں 23مارچ 1940ء کو قائد اعظمؒ کی زیرصدارت منعقدہ مسلم لیگ کے اجلاس میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی۔
’’ کاش میں بھی وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتی!‘‘ زینب نے حسرت سے کہا۔
’’کوئی بات نہیں!آج ہم اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ ‘‘وہ چند قدم آگے بڑھے اور کہنے لگے، ’’مینارِ پاکستان میں 5گیلریاں اور 20منزلیں ہیں۔اس کی تعمیر میں پاکستان کے ابتدائی دور میں پیش آنے والی مشکلات کی تصویری عکاسی کی گئی ہے۔مینارِ پاکستان کےنچلے بیرونی حصے پر سنگِ مرمر کی7فٹ لمبی اور 2فٹ چوڑی 19تختیاں نصب ہیں جن پر آیاتِ قرآنی اور اسمائے حسنہ کے علاوہ آزادی کی مختصر تاریخ، قومی ترانہ، قائد اعظمؒ کی تقاریر کے چند اقتباسات، علامہ اقبالؒ کی نظم اور قرار دادِپاکستان کا مکمل متن اُردو، بنگالی اور انگریزی زبانوں میں کندہ ہے۔ صدر دروازے پر اللہ اکبر آویزاںہے۔ ‘‘
’’ مجھے تو یہ سب کسی خواب کی مانند محسوس ہورہا ہے۔ میں سوچ بھی نہیںسکتی تھی کہ میں یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھوں گی۔‘‘ زینب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔
’’ پاکستان کی ترقی اور مستقبل، نوجوانوں سے وابستہ ہے۔ اس زمین کے سارے رنگ تم جیسے لوگوں سے ہیں۔ تمہارے جیسے نوجوان اس دھرتی کی شان ہیں۔ آئو !اب ماضی کے اُن کرداروں سے ملتے ہیں جن کے مشن کو آگے بڑھاکر تم اپنے وطن کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہو۔‘‘
دادا اور زینب آگے بڑھے تو انہیں تحریکِ پاکستان کے نعرے سنائی دینے لگے :
’’ بن کے رہے گا پاکستان...‘‘
’’لےکے رہیں گے پاکستان...‘‘
’’پاکستان کا مطلب کیا...‘‘
’’دادا جان!کیا آپ بھی نعروں کی آواز سن رہے ہیں ؟‘‘ زینب حیرت زدہ تھی۔
’’ یہ ولولہ انگیز نعرے ہر وہ پاکستانی سن سکتا ہےجسے اپنے وطن سے محبت ہے۔جو اپنے وطن کی ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ ‘‘دادا جان نے جواب دیا۔
زینب اب قریب سے مینارِپاکستان کو دیکھ رہی تھی۔ وہ تختی پر لکھی جس تحریر کو چھوتی،اس کے ذہن میں اُجالا ہو جاتا تھا۔اسی لمحے ایک بار پھر منظر تبدیل ہوااور مینارِ پاکستان کا میدان منٹو پارک میں بدل گیا ۔ وہاں 23 مارچ 1940ءکااجلاس جاری تھا اور ترانے گونج رہے تھے۔ وہ حیرت سے یہ سب دیکھتی ہوئی دادا جان کے ساتھ جلسہ گاہ میں داخل ہوگئی۔اسے ہر طرف نعرے سنائی دے رہےتھے۔
اُسی لمحے اس کے کانوں میں قائد اعظمؒ کی آواز پڑی۔انہوںنے تقریر شروع کی تومیدان میں مکمل خاموشی چھا گئی۔زینب بھی حیرت اور عقیدت سے قائد اعظمؒ کی تقریر سننے لگی۔تقریر ختم ہوئی تو کارکن اپنے قائدؒ کے حق میں نعرے لگانے لگے۔ ان نعروں میں زینب اور اس کے دادا کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ پھر وہ چندقدم چل کر سٹیج کے نزدیک پہنچ گئی اور پُر جوش لہجے میں بولی:
’’ شکریہ قائداعظمؒ... آپ نے پاکستان بنایا۔ ہم دل و جان سے اس کی حفاظت کریں گے اور اپنا پرچم کبھی سرنگوںنہیں ہونے دیں گے۔ ‘‘
اسی پَل زینب کو اپنے چہرےپر ٹھنڈی ہوا کاجھونکا محسوس ہوااور وہ خواب کی دنیا سے نکل آئی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا، لیکن اب اس کا ذہن پہلے سے زیادہ روشن ہو چکا تھا۔ وہ کچھ دیر خاموش کھڑی رہی اور پھر کھڑکی بند کر کے اپنی کرسی پر جا بیٹھی۔کتاب ابھی تک میزپر کھلی پڑی تھی۔اس نے کتا ب کے اُبھرے ہوئے حروف پر انگلیاں رکھیں تو انہیں پہچانتے ہی قومی ترانے کے آخری بول اس کے کانوں میں رس گھولنے لگے: ’’سایہ خدائے ذوالجلال!‘‘
تبصرے