آصف اور ناصر دونوں ہم جماعت تھے۔ آصف نے میٹرک کیا تو اس کے ابو نے اس کا داخلہ گائوں سے دورشہر کے ایک کالج میں کروا دیا تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکے۔ ساتھ ہی اسے چھوٹاساموبائل بھی لےدیاتاکہ شہر آنے جانے کے دوران اس سے رابطہ رکھ سکیں۔ وہ موبائل پر کال سننے اور میسج بھیجنے کے علاوہ سوشل میڈیا پر ایسا مصروف ہوا کہ پڑھائی سے اس کی توجہ ہٹ گئی۔
آصف اس دفعہ گائوں آیا تو اس نے اپنے دوست ناصر سے موبائل کے زیادہ استعمال کا ذکر کیا۔ اسے معلوم تھا کہ موبائل کا زیادہ استعمال اس کی پڑھائی پر اثرانداز ہورہا ہے لیکن چاہتے ہوئے بھی اس کی عادت چھوٹ نہیں رہی تھی۔
ایک دن آصف اسی سرگرمی میں مصرو ف تھا کہ ناصر کو مذاق سوجھا۔ اس نے اپنی جیب سےقینچی نکالی اور ہینڈ فری کی تار کاٹ دی۔ آواز آنا بند ہو گئی تو آصف اپنا موبائل ٹٹولنے لگا۔ جب اس نے ناصر کو دیکھا تو وہ غصے سے لال پیلا ہوگیا۔
’’تم ایسے ہی اس لت سے باز آئو گے‘‘، ناصر نے ہنستے ہوئے کہا۔
آصف کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
اسی دوران ناصر کی نظر سامنے چوراہےپرپڑی ،جہاں چچا افضل اپنا محبوب ریڈیو بغل میں دبائے آگے بڑھ رہے تھے۔ وہ گائوں کے بزرگ تھے اور کسی زمانے میں ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہ چکے تھے۔ پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے سبھی گائوں والے ان کی بہت عزت کرتے تھے اور بڑے احترام سے انہیں چچا جان کہتے تھے۔
ناصر کہنے لگا، ’’چلو ! چچا جان سے بات کرتے ہیں۔ ‘‘
چچا جان میدان میں رکھی چارپائیوںمیں سے ایک پر بیٹھ گئے۔ وہاں اور لوگ بھی موجود تھے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ روزانہ تھوڑی دیرکےلیے وہاں اکٹھے ہوتے تھے۔چارپائی پر بیٹھنے کے بعد انہوں نےریڈیو کو بڑے احترام کے ساتھ ایک تکیےپررکھ دیا۔ریڈیو پرانے دورکا تھا جس کے اوپر سامنے کی طرف ایک اسکرین تھی جس میں سرخ رنگ کی ایک سوئی حرکت کرتی نظر آتی تھی۔اس کے پیچھےکچھ نمبرز لکھے تھے۔دائیں طرف نیچے دو بٹن لگے تھے۔ مشین کے سر کی جانب ایک انٹینا بھی تھا۔
جب سب لوگ چچا جان کی طرف متوجہ ہو گئے تو انہوں نے ریڈیو کا انٹینا اونچا کیا،بڑے والا بٹن گھمایا تو سوئی حرکت کرنے لگی اور ساتھ ہی ریڈیو کے اسپیکر سے شور آنے لگا۔ تھوڑی دیر میں وہ شور ایک آواز میں تبدیل ہو گیا۔ وہ کسی خاتون کی آواز تھی جو خبریں پڑھ رہی تھی۔
اسی دوران آصف اور ناصر بھی وہاں پہنچ گئے۔چچا جان نےانہیں اپنے پاس بٹھا لیا۔ حال احوال کے بعد ناصر نے آصف کا مسئلہ بیان کیا۔
چچاجان نے اس کی بات سنی تو ریڈیو بند کرتے ہوئے کہنے لگے،’’بیٹا!یہ صرف اس کا مسئلہ نہیں ہے، آج کے دور میں والدین نے ہر بچے کو موبائل تھما دیا ہے۔ اب تقریباَ ہر بچہ مسلسل سکرین دیکھ کر اپنا وقت بھی ضائع کرتا ہے اور اپنے دماغ میں فضول چیزیں بھی بٹھاتا ہے۔‘‘
’’سوشل میڈیا نے ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیا ہے جس کی وجہ سے جھوٹ عام ہوگیا ہے۔ حقائق کو مسخ کرکے خبریں اور افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ اس سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ تم اس دور کے لوگ ہو۔ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئےان چیزوں کاخیال رکھناتمہارافرض ہے‘‘،چچا نے ناصر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’چچا جان! ریڈیو اور سوشل میڈیا میں کیا فرق ہے۔ ریڈیو کا استعمال پرانا نہیں ہوگیا کیا...؟‘‘ آصف نے سوال کیا۔
دیکھو بیٹا! آج کے دور میں سوشل میڈیا سمیت میڈیا کے بہت سے ذرائع دستیاب ہیں جن پر بہت سارا مواد نشر کیا جا رہا ہے۔ ریڈیو بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اس کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اسے آپ کسی وقت اور کسی بھی جگہ استعمال کر سکتے ہیں۔ ریڈیو طویل عرصے سے اظہار خیال کا موثرذریعہ اور سب سے زیادہ بااثر ذرائع ابلاغ رہا ہے۔ یہ ہمیں منفرد معلومات تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ ریڈیو پر بہت سے پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ آپ اس پر گانے، ڈرامے، دیگر پروگراموں کےعلاوہ حالات حاضرہ کے پروگرام بھی سن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایک ایسا میڈیم ہے جو آج بھی کئی ملکوں میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔ لوگ ڈرائیونگ کے وقت ریڈیو سنتے ہیں۔ ریڈیو ٹیکنالوجی آج کل اتنی وسیع پیمانے پراستعمال ہوتی ہے کہ ہم اکثراسے معمولی سمجھتے ہیں۔ ریڈیواورٹیلی ویژن کے علاوہ یہ ٹیکنالوجی سیل فون، وائرلیس نیٹ ورکنگ، ریڈار، سیٹلائٹ کمیونیکیشن، خلائی کمیونیکیشن، نیوی گیشن سسٹم جیسے GPS، وائرلیس ریموٹ کنٹرول اوربہت کچھ میں استعمال ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں برطانیہ، امریکا، اٹلی،فرانس، روس، برازیل، میکسیکو، ترکیہ، فلپائن ریڈیو کے حامل ہیں۔ ‘‘
محفل خوب جم چکی تھی اورسب کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے چچا اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھے،’’چلیں! میں آپ کو قیام پاکستان کے بعد ریڈیو کے تاریخی کردار کے بارے میں بتاتاہوں‘‘۔
’’قیام پاکستان سے پہلے یہ آل انڈیا ریڈیو کے نام سے موجود تھامگر قیام پاکستان کے بعد یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کہلایا۔ 13 اور 14 اگست 1947کی درمیانی شب سب سے پہلے جس میڈیم نے ہمیں قیام پاکستان کی خوشخبری سنائی،وہ ریڈیو ہی تھا۔ مصطفیٰ علی ہمدانی وہ خوش نصیب انائونسر تھے جنہوں نے قیام پاکستان کا اعلان کیا۔‘‘
’’قیام پاکستا ن کے بعد پہلی پاک بھارت جنگ 1965 کے دوران ہمیں ریڈیو کا اہم کردار دیکھنے کو ملا جس نے ہماری پوری قوم اور فوج کو متحد کر دیا۔ اسی دور میں کلاسیکی موسیقی کے نامور گائیک اور اردو ادب کے اعلیٰ پائے کے شاعر،ادیب اور لکھاری ریڈیو سے وابستہ ہوئے جس کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ریڈیو سننے والوں میں شامل ہو گئی۔ انہوں نے اپنے منفرد فن، ملی نغموں اور گیتوں سے قوم کے خون کو گرمائے رکھا۔ یہ واحد میڈیم تھاجہاں سے موسیقاروں، گلوکاروں، شاعروں، براڈکاسٹرز، ڈرامہ نگاروں اور لکھاریوں کے فن کو نکھار کر عوامی سطح پر پیش کیا جاتا تھا۔ ‘‘
ان معلومات کے بعد تھوڑی دیر کے لیے خاموشی چھا گئی اور پھر چچا جان کہنے لگے،’’ریڈیو کی تاریخی اہمیت اور کردار کی بدولت دنیا بھر میں ہر سال 13 فروری کو ریڈیو کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد ریڈیو کی اہمیت اورعوام میں اس کے استعمال کا شعور اجاگر کرنا ہے۔‘‘
چچا جان اپنی بات مکمل کرتے ہوئےآصف کو ایک نصیحت کرنے لگے، ’’بیٹا!اگر دیکھا جائے تو ریڈیو ،ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا،یہ سب انتہائی مفید ذرائع ہیں جو ہمیں دنیا بھرکی معلومات اور تفریحی مواد فراہم کرتے ہیں لیکن انہی پر ایسا مواد بھی پایا جاتا ہے جو ملک و قوم کے خلاف ہوتا ہے۔ ہمیں اس سے با خبر رہ کر اپنی سوچ میں تبدیلی لانی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم سوشل میڈیا کو اسلامی اور قومی اقدار کو سامنے رکھ کر استعمال کریں۔ غیر اخلاقی اور انتشار پھیلانے والے مواد سے باخبر رہیں، بغیر تصدیق کوئی مواد شیئر کریں اور نہ کسی ایسی مہم کا حصہ بنیں جو ہماری شخصیت ، خاندان اور ملک کے وقارکو نقصان پہنچانے کا باعث ہو۔ کسی بھی چیز پر یقین کرنے سے پہلے مصدقہ ذرائع سے تصدیق کرلیں۔‘‘
چچا جان نے اپنی بات مکمل کی تو ناصر نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا ڈبہ نکالا جس میں ایک خوبصورت نیا ہینڈ فری تھا۔آصف نے وہ لیا اور اسے شکر گزارنظروں سے دیکھنے لگا جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہا ہو کہ وہ آئندہ اس کا استعمال دانشمندی سے کرے گا۔
تبصرے