شیراز اپنے محلے میں پھیلنے والی گندگی سے بہت پریشان تھا۔ وہ بہت اچھا اور صاف ستھرا بچہ تھا۔ اسے اپنے کپڑوں اور جسمانی صفائی کا بہت خیال رہتا تھا لیکن وہ جس محلے میں رہتا تھا وہاں کے لوگ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ گندگی اچھی چیز نہیں ہوتی۔ وہاں کی خواتین اپنے گھرکے باہرکوڑا کرکٹ کا ڈھیر لگا دیتی تھیں جس پرمکھیاں بھنبھناتی رہتیں۔ جب کوڑا کرکٹ نالیوں میں جاتا تو نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہوجاتا اور نالیاں گندے پانی سے ابلتی رہتیں۔ اتنی زیادہ گندگی کی وجہ سے شیراز سمیت محلے کے بہت سے بچے بھی بیمار رہنے لگے تھے۔
محلے کے ڈاکٹر کی بھی چاندی ہو گئی تھی۔ رات دن اس کے کلینک پر عورتوں اور بچوں کا رش لگا رہتا۔ بچے کھانستے رہتے اور بخار سے زرد پڑ جاتے۔ شیراز بھی دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ آج اس کا دل کھانا کھانے کو بھی نہیں چاہ رہا تھا ۔ اس کی امی نے کئی بار اس سے کھانے کا پوچھا تو اس نے انکار کر دیا۔
شیراز کی اس حالت پر اس کی امی بہت پریشان ہو گئیں۔ انھوں نے شیراز کے ابو کو اس کی حالت کے بارے میں بتایا تو وہ شیراز کو قریبی ہسپتال لے گئے، جہاں اس کا علاج معالجہ ہوا۔ تندرست ہونے کے بعد شیراز نے سوچا کہ اپنے محلے کی بہتری کے لیے کچھ عملی اقدام اُٹھانے چاہئیں۔وہ پندرہ برس کا تھا۔ اس نے اپنے دوستوں اور محلے کے بچوں کے ساتھ مل کر ایک صفائی مہم کا آغاز کیا ۔گلی محلے سے کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے انھیں میونسپل کی گاڑیوں میں پہنچایا اوربند نالوں کو کھولنے کے لیے کئی صفائی کرنے والے سینٹری ورکرز کی خدمات حاصل کیں۔
علاقے کے بزرگ یہ سب دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔جب ایک خاتون نے اپنے گھر کا کوڑا باہر پھینکنا چاہا تو صاف ستھری گلی دیکھ کر اس کی ہمت نہ ہوئی اور وہ گندگی پھیلانے کے عمل سے باز رہی۔ آہستہ آہستہ تبدیلی کا یہ سفر جاری رہا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کی یہ کاوش دیکھ کرمحلے کے بڑے بھی اس میدان میں اتر آئے۔انہیں اپنے بچوں پر فخر تھا۔ انہوں نے مل کر چندہ جمع کیا اور دیواروں پر نیا پینٹ کروادیا۔نالیوں کے کنارے پختہ کر کے سیوریج کے نظام کوبہتر بنایا اور گٹروں کی صفائی بھی کروائی۔ چند دنوں میں پورے محلے کا نقشہ ہی بدل گیا۔ اب وہاں مکھیاں تھیں نہ مچھر اور نہ ہی کوڑا کرکٹ کے ڈھیر دیکھنے کو ملتے تھے۔
خاور صاحب جو محلے کے سرکردہ شخص تھے، انہوںنے شیراز کی بہت تعریف کی اور کہا کہ انفرادی کوشش سے اجتماعی سوچ میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور یہ مثبت تبدیلی شیراز لے کر آیا ہے۔ ہم بڑے تو خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے لیکن شیراز اوراس جیسے پیارے پیارے بچوں نے اس محلے کو اپنا گھر سمجھ کر صاف کیا جس کے لیے وہ سب مبارکباد اور انعام کے حقدار ہیں۔خاور صاحب نے بچوں کو نقد انعام دیے اوران کی خوب حوصلہ افزائی کی جس سے وہ سب اچھے اچھے کام کرنے کے لیے اور بھی پُرعزم ہوگئے۔
تبصرے