بادشاہ کا ایک خاص باز اُڑ کر کہیں چلا گیا۔ بادشاہ کو اس سے بڑی محبت تھی۔ اس لیے وہ خود ہی اسے تلاش کرنے محل سے نکل پڑا۔ باز ایک بڑھیا کے گھر جا پہنچا۔ بڑھیا اس خوبصورت پرندے کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئی۔اسے پکڑ کر کہنے لگی،’’ تو کس نااہل کے ہتھے چڑھا ہوا تھا؟اس نے تیری قدر نہ جانی، تیرے ناخن کس قدر لمبے ہو گئے ہیں‘‘، یہ کہہ کر اس نے باز کے پائوں باندھے اور اس کے پَر اور ناخن کاٹ دیے۔
یہاں مولانا رومیؒایک شعر کہتے ہیں جس کا مطلب ہے، ’’جاہل اگر تم سے محبت بھی کرے تووہ اپنی جہالت کی وجہ سے تکلیف ہی دے گا۔‘‘
بادشاہ باز کو تلاش کرتے کرتے آخر کار اس بڑھیا کے گھر پہنچ گیا۔ باز کو اس قدر برے حال میں دیکھ کر بادشاہ کے آنسو نکل آئے۔ وہ باز سے کہنے لگا،’’ حقیقت میں تیری بے وفائی کی سزا یہی ہے کیونکہ تو ہماری وفاداری پر قائم نہ رہا۔‘‘
باز اپنے پروں کو بادشاہ کے ہاتھ پرپھیرتے ہوئےزبان حال سے کہنے لگا، ’’میں نے آپ سے جدائی کا نتیجہ دیکھ لیا، مجھ سے خطا سرزد ہوئی۔ اے بادشاہ! میں شرمندہ ہوں، معافی کا طلب گار ہوں اور عہد کرتا ہوں کہ آئندہ ایسی حرکت نہ کروں گا۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو میں کہیں اورجا کر کسی اور کے دروازے پر بیٹھ جائوں گا۔اگر تیرا رحم و کرم شامل حال ہو جائے تو ناخنوں اورپروں کے بغیر بھی میں شہباز ہوں۔‘‘
باز کی پشیمانی دیکھ کر بادشاہ کو رحم آ گیا۔ اس کے دل میں باز کے لیے پہلے جیسی محبت جاگ اُٹھی۔ بادشاہ نے پھر سے باز کو اپنے پاس رکھ لیا۔
یہاں رومیؒ ایک اور شعر لکھتے ہیں جس کا مطلب ہے ، ’’جو شخص کسی جاہل کی صحبت اختیار کرے گا اس کا یہی حال ہوگا، باز جیسا واقعہ اس کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے۔ باز کے پَر اور ناخن ہی تو اس کے کمالات تھے جن سے وہ شکار کرتا تھا۔ جاہل بڑھیا کو وہی کمالات معیوب نظر آئے جس کی وجہ سےاس نے باز کو بے کار کر دیا۔‘‘
تبصرے