آج سکول میں ’’کامیابی کی کہانی‘‘ کا دن تھاجس میں سکول کے چند ہونہاراور قابل فخر بچوں کو ان کی کا میابی کی کہانیاں سنانی تھیں۔دانیال ان بچوں میں سے ایک تھا جو دسویں جماعت میں بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کرکے اپنے ہی سکول کے ہال کے سٹیج پر کھڑا تھا۔ اس کے سامنے بچے اور نوجوان بیٹھے تھے جو دلچسپی سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔
دانیال نے مائیک سنبھالا اور مسکرا کر کہنے لگا:’’آپ میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جو کبھی ناکام ہوئے؟‘‘
کئی ہاتھ کھڑے ہوئے۔ دانیال نے سر ہلایا اور بولا، ’’میں بھی آپ میں سے تھا۔ آج میں آپ کو اپنی کہانی سناتا ہوں۔‘‘
’’چند سال پہلے دانیال ایک عام سا لڑکا تھا جسے صرف کھیل کود میں دلچسپی تھی۔ وہ ہمیشہ پڑھائی سے جی چراتا تھا۔ اس کے والد کی کمائی اتنی ہی تھی کہ اس سے بمشکل گزرا ہو پاتا تھا۔ اس کے دن دوستوں کے ساتھ کھیل کود میں گزرتے اور رات کو ٹی وی دیکھتے ہوئے نیند آ جاتی۔ایک لا ابالی لڑکا جسے اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ بھی لطف دیتی تھی۔
جب فرسٹ سمسٹر کے امتحانات کے رزلٹ کا دن آیا تو اس کے والدین اس کا نتیجہ لینے اسکول گئے۔ کلاس ٹیچر نے دانیال کارزلٹ والدین کو دیا اور بتایا:’’دانیال ذہین بچہ ہے، لیکن وہ پڑھائی میں دلچسپی نہیں لیتا۔ اگر وہ محنت کرے تو یقیناً بہترین طلباء میں شامل ہو سکتا ہے۔‘‘
دانیال کسی مضمون میں بھی پاس نہیں ہو سکا تھا۔اسے اس بات کی پروا نہیں تھی۔ وہ تو سکول بھی صرف مزے کرنے آتا تھا۔ دانیال کے والد بظاہر خاموش رہے لیکن چہرے پر غم و غصہ عیاں ہو گیا۔ جیسے ہی گھر پہنچے، انہوں نے دانیال کو بلایا اور سخت لہجے میں کہا:’’یہ کیا نتیجہ ہے؟ تمہیں سمجھ نہیں آئی کہ ہم تمہارے لیے کتنی محنت کرتے ہیں؟ کس قدر مشکل سے تمہارے سکول کی فیس دیتے ہیں ۔اگر اب بھی تم نہ سمجھے تو مستقبل میں پچھتاوے کے سواکچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ہم تمہیں معاشرے میں ایک کامیاب انسان دیکھنے کے لیے اس قدر محنت کر رہے ہیں۔‘‘
لیکن دانیال کو اس کی پروا نہیں تھی۔وہ غیر ذمہ دار تھا۔ وہ نظریں جھکا ئے خاموش کھڑا تھا۔ اس کی والدہ خاموش رہیں۔ رات کو سونے سے پہلے وہ اس کے کمرے میں آئیں، اس کا ہاتھ تھاما اور جو کہا اس نے دانیال کی زندگی بدل دی۔
’’بیٹا!ہمیں تم پر بھروسا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تم کر سکتے ہو۔ تم صرف اپنی وہ صلاحیتیں پہچاننے کی کوشش کرو جو تمہارے رحیم و کریم اللہ نے تمھیں عطا کی ہیں۔ اگر تم نے انہیں استعمال نہ کیا تو قیامت کے دن اللہ اس بارےمیں ضرور سوال کرے گا۔ سیکھنے کا ایک حصہ ناکامی بھی ہوتا ہے۔ اب بھی بہت وقت ہے سمجھ جا ؤ ۔یہ دنیا میں اپنا مقام پیدا کرنے اور اللہ کے سامنے سرخرو ہو نے کے لیے بہت ضروری ہے۔میرا پیارا بیٹا سمجھدار ہے وہ اپنی ماں کا مان رکھے گا۔‘‘ دانیال نے سر ہلایا لیکن اس کے ذہن میں اب بھی الجھن تھی۔
کچھ دنوں کے بعد سکول میں ایک نئی استانی آگئیں۔ انہوں نے دانیال کو کئی بار کسی اور خیال میں گُم دیکھا۔ ایک دن انہوں نے اسے کلاس سے باہر بلا کر کہا،’’دانیال، کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم میں ایک خاص صلاحیت موجود ہے؟ تم جو خواب دیکھتے ہو انہیں حقیقت میں بدل سکتے ہو۔ لیکن اس کے لیے تمھیں خود پر یقین کرنا ہوگا۔‘‘
استانی کی بات اور ماں کے محبت بھرے الفاظ دانیال کے دل میں گھر کر گئے۔اس نے آہستہ آہستہ کتابیں کھولنا شروع کیں۔ابتدائی دنوں میں اسے مشکل محسوس ہوئی لیکن والدہ کا حوصلہ دینا اوراستانی صاحبہ کی نصیحت اسے آگے بڑھنے میں مدد دیتی رہی۔رفتہ رفتہ اس نے اپنے کھیلنے کا وقت ختم کردیا اور ہرروز کئی گھنٹے پڑھائی میں لگانے لگا۔ سکول میں اس کے نتائج بہتر ہونے لگے جس سے اس کےعزم وہمت میں اضافہ ہوا۔کبھی کبھی تھکن سے آنکھیں بوجھل ہو جاتیں لیکن اس کا جذبہ اسے آگے بڑھنے پر مجبور کرتا۔
چند دن بعد دانیال کے والد کو ایک حادثہ پیش آیا جس کے باعث وہ کئی ہفتوں کے لیے بستر پر پڑ گئے ۔جہاں کام کرتے تھے وہاں سے تنخواہ بھی پوری نہ ملی۔ گھر کی مالی حالت بگڑنے لگی۔ دانیال نے سوچا کہ اسے ہمت نہیں ہارنی۔کسی بھی طرح اس مشکل سے نکلنا ہے۔ اس نے شام کے وقت ایک مقامی سٹور پر کام کرنا شروع کردیا تاکہ گزارا چلتا رہے۔ اس نے سکول میں بھی فیس معافی کی درخواست دے دی جو منظور ہوگئی۔ وہ سخت محنت کرنے لگا۔ دن بھرکی تھکن کے باوجود وہ رات کو کتابیں کھول کر بیٹھ جاتا۔ اس کی آنکھوں میں تھکن کے باوجود اُمید کی چمک تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اگراب ہار مان لی تو اس کے والدین کا خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔
ایک دن وہ اسکول کے بعد کام سے واپس آ رہا تھا کہ راستے میں اس کے دوست احمد اور عمران مل گئے، ’’کیا تمہیں لگتا ہے کہ تم اس طرح کچھ بن جاؤ گے؟‘‘احمد نے پوچھا۔
دانیال نے مسکرا کر جواب دیا:’’ہاں، کیونکہ میں نے خواب دیکھنا سیکھ لیا ہے ۔اب میں ان خوابوں میں رنگ بھرنے کی کوشش کررہا ہوں ۔‘‘
دانیال کے عزم نے احمد اور عمران کوحیران کر دیا۔ دانیال نے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ اپنی کلاس میں بہتری دکھانے لگا۔ اساتذہ بھی اس کی محنت سے متاثر تھے۔امتحانات کے دن دانیال پُراعتماد تھا۔ اس نے پورے اطمینان سےپرچے دیے۔ جب نتیجہ آیا تو اس کی آنکھوں میںخوشی سے آنسو آگئے۔ وہ اسکول کے بہترین پانچ طلبامیں شامل تھا۔اس کے دوست حیران تھے۔اساتذہ نے بھی اس کی خوب تعریف کی۔وہ دن اور اس کے بعد آنے والا ہر دن دانیال کےآگے بڑھنے کے جذبے،حوصلے اور عزم کو بڑھاتا چلاگیا۔ الحمد للہ! آج دانیال بورڈ کا ٹاپر اور آپ کے سامنے ہے۔
دانیال نے سیکھا کہ کامیابی صرف اُنہیں ملتی ہےجو مشکلات کے سامنے ڈٹے رہتے ہیں اور اپنے خوابوں کے لیے لڑتے ہیں۔ برا وقت زندگی کا حصہ ہے لیکن جدوجہد اور حوصلہ کامیابی کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔
دانیال نے مسکراتے ہوئے کہا،’’آج میں آپ سب کے سامنے کھڑا ہوں کیونکہ میں نے ہار نہیں مانی۔اگر میں کر سکتا ہوں تو آپ بھی کر سکتے ہیں۔کبھی اپنے خوابوں سے پیچھے نہ ہٹیں۔‘‘
ہال میں موجودتمام بچے دانیال کو داد دینے کے لیے کھڑے ہو کر زور زور سے تالیاں بجا رہے تھے۔ہر بچہ پُرجوش تھا اور اپنے دل میں نیا عزم اور حوصلہ محسوس کر رہاتھا۔ دانیال کا سراپنے رب کے حضور شکر گزاری کے ساتھ جھکا ہوا تھا۔
تبصرے