اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 04:52
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے اداریہ : مارچ 2024 یہ وطن امانت ہے  اور تم امیں لوگو!  وطن کے رنگ    جادوئی تاریخ مینارِپاکستان آپ کا تحفظ ہماری ذمہ داری پانی ایک نعمت  ماہِ رمضان انعامِ رمضان سفید شیراورہاتھی دانت ایک درویش اور لومڑی السلام علیکم نیا سال، نیا عزم نیا سال مبارک اُمیدِ بہار اے جذبہء دل معراج النبیﷺ   علم کی شمع روشنی قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری نئی زندگی سالِ نو،نئی اُمید ، نئے خواب ! کیا تمہیں یقین ہے صاف توانائی ، صاف ماحول پانی زندگی ہے! تندرستی ہزار نعمت ہے! قہقہے اداریہ  ہم ایک ہیں  میرے وطن داستان ِجرأت پائلٹ آفیسرراشد منہاس شہید کامیابی کی کہانی  امتحانات کی تیاری ہم ہیں بھائی بھائی ! حکایتِ رومی : جاہل کی صحبت  حسین وادی کے غیر ذمہ دار سیاح مثبت تبدیلی  چچا جان کا ریڈیو خبرداررہیے! ستارے پانی بچائیں زندگی بچائیں! قہقہے بسم اللہ الرحمن االرحیم پہلی بات  السلام علیکم ورحمتہ اللہ ! زندہ قوم  قرار دادِ پاکستان پاکستان سے رشتہ کیا رمضان المبارک   عید مبارک! عید آئی  پیاری امّی! بوجھو تو جانیں! موسم کے رنگ مقصد ِحیات زیرو ویسٹ چیلنج فضائیں وطن کی ہمارے پانی آباد رہیں! 22 مارچ پانی کے عالمی دن پر خصوصی تحریر انگور پاکستان کا قومی جانور مارخور 3 مارچ ... ورلڈ وائلڈ لائف ڈے پرخصوصی تحریر قہقہے
Advertisements

ہلال کڈز اردو

میرے وطن

فروری 2025

تری جنت میں آئیں گے اک دن!
کشمیر سے محبت اس کے دل میں ہمیشہ سے تھی اور وہ تب اور بھی پختہ ہو گئی جب اس نےاس خطے کی خوبصورتی،یہاں کے لوگوں کا محبت بھرا لہجہ اور اپنائیت محسوس کی۔جب اس کے منہ سےاپنی مادری زبان کےکچھ الفاظ ادا ہوتے تو احمد اور اس کے گھر والےفیضان کے اس محبت بھرے لہجےپر مسکرانے لگتے۔ اس لمحے دونوں دوست اپنے آپ کو فاصلوں اور سرحدوں کی قید سے آزاد محسوس کرتے۔ احمد کشمیری زبان کا اُبھرتا ہوا نوجوان شاعر تھا اور فیضان کو ادب کے ہر اس گوشے سے دلچسپی تھی جس میں دنیا ایک آئینے کی طرح دکھائی دے ۔



یہ کیسے ممکن ہے ؟
ان خوبصورت وادیوں میں بہتے قدیم جھرنے 
ہماری فتح کے گیتوں میں شامل نہ ہوں! 
یہ کیسے ممکن ہے ؟ 
پرندے اپنے پروں پہ آزادی کا سندیسہ باندھ کر اُڑیں 
اور کائنات ان کی واپسی کے انتظار تک 
خوشی کے نغمے نہ گنگنائے ؟
ہم تب تک جدو جہد کریں گے 
جب تک آزادی لے کر 
دریا کے اس پار نہ پہنچ جائیں ...
احمد اپنی سر زمین سے وابستہ جدوجہد اور خوبصورتی کو منظر عام پر لانے کے لیے اپنی شاعری کا ترجمہ کر کے دنیا بھرمیں اردو سمجھنے والوں کو فراہم کرتا تھا۔
فتح کے گیت سے مراد آزادی کی وہ شدید تڑپ تھی جو تمام کشمیریوں کی طرح  احمد کے دل میںبھی موجود تھی۔پرندوں کی اُڑان تو بذات خود آزادی کا استعارہ تھی اور دریا کے اس پار کا مطلب تھا کہ دریائے نیلم کے اس پار بھی اس جدوجہد کو کوئی راستہ مل سکے۔ بس انہی خوبصورت خیالات کی وجہ سے اور بہت سے لوگوں کی طرح فیضان کو بھی احمد بہت پسند تھا۔
پیارے دوست احمد علی ...
السلام علیکم!
 آپ میرے پسندیدہ کشمیری شاعر ہیں۔آپ کی شاعری میں آزادی کی تڑپ کے ساتھ ساتھ اس زمین کی تازگی کی خوشبو بھی موجود ہے۔یہ میرے لیے باعث اعزاز ہے کہ مجھے آپ کو پڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔یہاں پاکستان میں بھی ہر محب ِ وطن شہری کو یقین ہے کہ ایک دن کشمیر بنے گا پاکستان ۔ اس بار بھی یہاں یوم یکجہتی کشمیر منایا جا رہا ہے۔ ہم سب پاکستانیوں کی دلی خواہش ہے کہ ایک دن یہ خواب حقیقت کے روپ میں ڈھل جائے ...
تمہارا بھائی فیضان 
 پاکستان 
یہ فیضان کی طرف سے احمد علی کوبھیجی جانے والی پہلی ای میل تھی۔ احمد کے الفاظ پڑھ کر فیضان کا دل اکثر اوقات بھر آتا ، وہ اس زمین کے آنسو اپنے دل پر گرتے ہوئے محسوس کرتا۔کشمیر کے خطے سے محبت ہی فیضان کو احمد علی سے نہ صرف قریب لائی بلکہ آہستہ آہستہ یہ قربت خوبصورت دوستی میں بھی بدل گئی تھی۔
 فیضان کو معلوم ہوا کہ ویسے تو احمد انگریزی ادب کا طالب علم ہے مگر شاعری کشمیری زبان میں کرتا ہے۔ وہ اپنے پڑھنے والوں کی سہولت کے لیے اُردو اور انگریزی زبان میں ترجمہ کر کے مختلف پلیٹ فارمز پر شیئر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ احمد روزانہ ڈائری بھی لکھتا ہے جس میں اس کے معمولات کے علاوہ وہ باتیں بھی شامل ہوتی ہیں جو وہ اونچے پہاڑوں، کھلی فضائوں اور دریائوں سے کرتا ہے۔ کبھی کبھاراحمد کشمیر میں ہونے والی کشیدگی پر بہت پریشان ہو جاتا مگر کشمیریوں کا عزم ہمیشہ زندہ رہا ہے، یہی سوچ کر وہ پُرامید ہوجاتا اور آزادی کے گیت اس کے قلم سے جاری ہوجاتے۔
 فیضان کو اپنے دوست کے ساتھ ساتھ وہاں بسنے والوں کی مشکلات کا بھی شدت سے احساس تھا۔احمد کی امی جان بھی فیضان سے محبت کا اظہار کرتیں۔ انہوں نے فیضان کو بتایا کہ ان کے لیے یہ بات کسی خوشی سے کم نہیں کہ پاکستان میں قلم کی بناء پر کشمیر اور احمد جیسے لوگوں سے محبت کرنے والے موجود ہیں۔ احمد کی امی نے فیضان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ضرور کوشش کریں گی کہ اسے تحفے میں کشمیری جبہ بجھوا سکیں۔فیضان ان کا بے حد شکر گزار تھا، اس نے اس لمحے سوچا، ہمارے کشمیری بہن بھائی کس قدر خوبصورت دل کے مالک ہیں۔بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں آزادی اظہار رائے پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔تاہم جب کبھی سگنلز آتے تو احمد علی پہاڑ کے دامن میںبیٹھ کر سوشل میڈیاکے ذریعے اپنے دل کا احوال بتاتا ، یہاں کس قدر شفاف آسمان ہے ، دھوپ کس قدر چمکیلی ہے ، شام کا منظر کس قدر حسین ہے، رات میں جگنو چمکتے دکھائی دیتے ہیں، چشمے کا پانی کس قدر میٹھا ہے ، بارش کی آواز کتنی خوبصورت ہے اور پہاڑوں پر جمی برف کے تو کیا ہی کہنے۔ کشمیر سے اس قدر پیاری تصاویر دیکھ کر اور احمد کی اپنے وطن سے محبت کو محسوس کر کے فیضان کو اپنا دل سرحد کے اس پار جاتا دکھائی دیتا۔ یہ فیضان اور احمد کی دوستی کا مسلسل تیسرا سال تھا۔احمد نے فیضان کو بتایا تھا کہ اسے پرندے قید کرنا ہرگز پسند نہیں۔ اس لیے اسے اپنا قلم کھلی اور شفاف فضاء میں اڑتے پرندوں کے پروں جیسا یعنی آزادی کا استعارہ معلوم ہوتا ہے۔ احمد کو یقین تھا کہ الفاظ کی یہ جدوجہد کہیں نہ کہیں اپنا راستہ بنا لے گی۔
احمد نے بتایا تھا کہ وہ انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد مزید تعلیم کی غرض سے کسی اچھی یونیورسٹی میں داخلے کاخواہشمند ہےاور پاکستان آنا چاہتا ہے۔ دعا کرو کہ ویزہ مل جائے۔ فیضان کے لیے یہ بات انتہائی خوش کن تھی۔ اس نے سوچ رکھا تھا کہ اگر احمد کی یہ خواہش پوری ہو گئی تو وہ اسے اپنے گھر میں مہمان بنا کر رکھے گا۔پاکستان میں ایک کشمیری مہمان اس کے لیے باعثِ اعزاز ہو گا۔ اس نے احمد کو بتایا کہ وہ فکر نہ کرے ،ابو جان نے ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا ہے اور سب گھر والے احمد کی اس سوچ کو سراہ رہے ہیں ۔ فیضان کو اس بات کا انتظارر تھا کہ ممکن ہے دونوں دوست مل سکیں اور ایک دوسرے کے گلے لگ کر ان خوبصورت خطوں کی خوشبو کو اپنے دلوں میں محسوس کر سکیں۔ تاہم اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ 
لیکن وہ پُرامید تھا۔ یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر احمد علی کی ایک اور نظم نے پڑھنے والوں میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کر دیا تھا۔ وہ بھی اپنے قلم کے ذریعے کشمیری مجاہدین کے شانہ بشانہ اس جہاد میں شریک اور کشمیر کی آزادی کا خواہشمند تھا کیونکہ جلد یا بدیر’ کشمیر بنے گا پاکستان‘ ۔