5 فروری - یومِ یکجہتی کشمیر کے حوالے سے خصوصی کہانی
ہاشم مقبوضہ کشمیر کے ایک گاؤں میں رہتا تھا۔وہ کئی روز سے اپنے علاقے کے بارے میں معلوماتی ویڈیوزیوٹیوب پرڈال رہا تھا۔ فیصل اپنے اس ہم عمر دوست کی ہر ویڈیو شوق سے دیکھتا تھااورکمنٹس میںاپنے تاثرات بھی لکھتا تھا۔ان دونوں میں ایک دوستانہ تعلق قائم ہو گیا تھا۔ فیصل کو اتنا تو معلوم تھا کہ کشمیر کے ایک حصے پر بھارت نے ناجائز قبضہ جما رکھا ہے جبکہ باقی علاقہ جو پاکستان کے پاس ہے آزاد کشمیر کہلاتا ہے، اس سے زیاد ہ جاننے کی اُس نے کبھی کوشش نہیں کی تھی۔
آج سکول کا کام مکمل کرکے اس نے اپنا موبائل فون اُٹھایا تو حسب معمول سب سے پہلے ہاشم کا چینل ہی دیکھا۔ توقع کے عین مطابق ایک نئی ویڈیو اس کی منتظر تھی۔
’’ آئو پاکستان کی سیر کریں۔‘‘
ویڈیو کے عنوان نے فیصل کو چونکا دیا۔ایک ایسا بچہ جو کبھی پاکستان آیا ہی نہیں،کیسے اپنے ناظرین کو یہاں کی سیر کرا سکتا ہے ؟ یہ سوال ذہن میں آتے ہی فیصل کا تجسس بڑھ گیا۔ویڈیو شروع ہوتے ہی ہاشم کے یہ الفاظ سنائی دیے:
’’آداب ساتھیو !میں ہوں آپ کا دوست ہاشم... اور ہاشم آج آپ کو سیر کرائے گا پاکستان کی... وہ پاکستان جو ہمیں اپنی جان سے بھی پیارا ہے۔‘‘
اس کے بعد ہاشم کیمرہ ایک خوب صورت باغیچے میں لے گیا اور بولا:
’’تو دوستو! یہ ہے میرا پاکستان... یقیناَ آپ سوچ رہے ہوںگے کہ ایک باغیچہ کیسے پاکستان کہلا سکتا ہے۔ میں آج یہی راز تو بتانے والا ہوں۔یہ باغیچہ میرے شہید والد نے گھر کے عقب میں بنایاتھا۔وہ آزادی کی خاطر لڑتے ہوئے بھارتی فوج کا نشانہ بنے۔اُنہوں نے اس باغیچے کا نام گلشنِ پاکستان رکھا تھا۔اس میں چار کیاریاں ہیںجو پاکستان کے چاروں صوبوں کی علامت ہیں۔ ہرکیاری میں لگائے گئے خوبصورت پھولوں والے پودوں کو ہم نے پاکستانی شہروں کے نام دیے ہیں ... اور یہ پانچویں کیاری جس کے درمیان خاردار تارلگائی گئی ہے، کشمیر جنت نظیر ہے، جسے دو حصوںمیں بانٹ دیا گیا ہے ... سب سے اہم اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کیاریوں میں مجھے سرزمین پاکستان کی مٹی کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔ میرے والد کہتے تھے کہ کشمیر کی مٹی پاکستان کی سرزمین ہے۔اس کی خوشبو مجھے یہاںکے پھولوں میں بھی محسوس ہوتی ہے ... مجھے جب بھی اپنے شہیدباباکی یادستاتی ہے،میں اس پاکستان میں آ جاتا ہوں۔‘‘
یہ دس منٹ کی ویڈیو فیصل کئی بار دیکھ چکا تھا۔ آج4 فروری تھااور اگلے روز یوم یکجہتی کشمیر کی چھٹی تھی مگر فیصل اس چھٹی کی اصل روح سے ناواقف تھا۔ہاشم کی باتوں نے اس میں ایک نیا ولولہ پیدا کردیا تھا۔ اب وہ کشمیر کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر اُٹھ کر سٹڈی روم میں چلا گیا جہاں اس کے والد مطالعے میں مصروف تھے۔وہ خاموشی سے ان کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ جیسے ہی ابو جان کو اس کی آمد کا احساس ہوا،وہ محبت سے اسے دیکھ کر مسکرا دیے :
’’کیسے ہو بیٹا...لگتا ہے کسی خاص معاملے میں میری مدد چاہیے؟‘‘
’’جی ہاں! آپ سےکچھ پوچھنا چاہتا ہوں‘‘، وہ ان کے نزدیک ہو گیا۔
’’ہاں ضرور...‘‘ ابو جان نے کتاب میز پر رکھ دی۔
’’میں کچھ اُلجھ سا گیا ہوںاور جاننا چاہتا ہوں کہ کشمیر دو حصوںمیں کیسے بٹ گیا ؟‘‘ اس نے اپنی آمدکا مقصد بیان کیا۔
’’یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تم نے اس پہلو پر غور کیا۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ مختصر الفاظ میں تمھیں یہ معاملہ سمجھا سکوں۔‘‘
فیصل کا تجسس دیکھ کر ابو جان نے چند لمحے خاموشی اختیار کی اور پھر کہنے لگے :
’’کشمیر کو صدیوں سے اس خطے میں ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔یہ بہت خوبصورت علاقہ ہے جس میں برف پوش پہاڑ، ندیاں، دریا، سرسبز میدان اور وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جنہوں نے اسے زمین پر جنت کا روپ دے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں آنے والے حکمران کشمیر میں دلچسپی لیتے رہے اور پھر ایک ایسا وقت آیا جب انگریزوں نے صرف 75 لاکھ نانک شاہی(اس دور کی کرنسی کا نام) میں کشمیر کی وادی ڈوگرہ حکمران کے ہاتھوں فروخت کر دی۔ ‘‘
’’کیا ... صرف 75 لاکھ ...؟‘‘ فیصل نے حیرت سے کہا۔
’’ہاں بالکل۔ وقت گزرتا رہا، تقسیم ہند کے وقت جن مسلم اکثریت والے علاقوں کو پاکستان میں شامل ہوناتھا ان میں جموں و کشمیر بھی شامل تھا۔برصغیر کی تقسیم کے ایجنڈے کے مطابق طے پایا کہ پرنسلی اسٹیٹس(شاہی ریاستیں) پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کرنے میں آزاد ہوںگی لیکن اس سلسلے میں وہاں کے عوام کی اکثریت کی رائے، جغرافیہ اور نسلی، لسانی، مذہبی پہلو کو مدنظر رکھا جائے گا۔ کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت کے ساتھ خفیہ معاہدہ کرکے ریاست کشمیر کا الحاق بھارت سے کرنے کی کوشش کی حالانکہ وہاں کی 90 فی صد سے زائد آبادی مسلمان تھی۔مہاراجہ ہری سنگھ کے اس عمل کو کشمیری مسلمانوں نے ماننے سے انکار کردیا اوراس کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے۔ کشمیریوں کے ان جذبات کو دبانے کے لیے بھارت نے وادی میں فوج داخل کر دی۔اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت میںجنگ کا آغاز ہوگیا۔پاک فوج نے ڈٹ کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ عین اس وقت جب کشمیر آزاد ہونے کے قریب تھا، بھارت اس معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ اقوام متحدہ نے نہ صرف کشمیریوں کے حق کو تسلیم کیا بلکہ یہ بھی طے پایاکہ انہیں اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے رائے شماری کا حق دیا جائے گا۔بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو فیصلے کا حق دے گا...لیکن بعد میں بھارت نے کشمیریوں کو ان کا حق دینے سے انکار کر دیا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے لگا۔اس وقت سے اب تک کشمیر دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔‘‘
’’ یہ تو سراسر نا انصافی ہے۔ اس پر کشمیریوں نے کیا کہا؟‘‘ فیصل نے پوچھا۔
’’کشمیریوں نے کبھی بھارت کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا۔وہ آج بھی پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔بے شمار کشمیری آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ ان کی پاکستان سے محبت کبھی کم نہیں ہوئی‘‘والد نے وضاحت کی ۔
جواب میں فیصل نے انہیں ہاشم کا بنایا ہوا وی لاگ دکھایا۔ ابو جان بھی ہاشم کے جذبے سے متاثر ہوئے۔انہو ں نے فیصل کو مشورہ دیا کہ کل 5 فروری کوجب پوری قوم کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کا دن منائے گی، تم بھی ہاشم تک اپنے دلی جذبات پہنچائو اوراسے بتائوکہ پاکستان میں صرف بڑے نہیں،بچے بھی کشمیر سے محبت کرتے ہیں اور اسے پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ فیصل کو اپنے ابو کی تجویز بہت پسند آئی۔
اگلے روز اس نے ہاشم کا چینل دیکھا تو وہاں نئی ویڈیو موجود تھی۔ہاشم پاکستانی پرچم تھامے اپنے باغیچے میں کھڑا تھا، لیکن باغیچے کی حالت یوں تھی کہ جیسے وہاں ہل چلا دیا گیا ہو۔نہ تو کوئی کیاری سلامت دکھائی دے رہی تھی اور نہ ہی پھول پودے۔ہاشم کا انداز گزشتہ روز سے زیادہ پُرجوش تھا۔وہ بتارہاتھا پاکستان میں اس کے کل والے وی لاگ کو بہت پسند کیا گیا ہے ... یہ بات بھارتی فوج کو پسند نہیں آئی۔ وہ اس کے گھر میں گھس آئی اور سارا باغیچہ برباد کرنے کے بعد خبر دار کیا کہ آئندہ ایسی ویڈیو بنانے پر سخت سزا دی جائے گی۔
ہاشم کے لہجے میں خوف کا شائبہ تک نہ تھا۔وہ ایک شہید باپ کا بہادر بیٹا تھا اور مسلسل پاکستان زندہ باد ... کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگارہا تھا۔
ہاشم کی پاکستان سے محبت نے فیصل کو بھی پُر جوش بنا دیا تھا۔ اس نے فوراََ ہاشم کی ویڈیوپر اپنے دلی جذبات تحریر کر دیے:
’’ تمام پاکستانی بچے کشمیریوں کے ساتھ ہیں اور ان سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور بہت جلد ہم ایک ہو جائیں گے۔ ‘‘
اس کے بعد فیصل موبائل لے کر باہر نکل گیا تاکہ اپنے دوستوں سے بھی ہاشم کے ساتھ اظہار یکجہتی کے تاثرات پوسٹ کروا سکے ... وہ آج اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا حق ادا کر دینا چاہتاتھا۔
تبصرے