مولانا رومی جنہیں تاریخ کئی ناموں سے پکارتی ہے ایک جید عالم دین، محدث، فقیہ اور مفسر قرآن ہونے کے ساتھ ایک عظیم مفکر اوربلندپایہ صوفی شاعر بھی تھے۔مولانا محمد جلال الدین رومی کا نام محمد اور لقب جلال الدین تھا۔ انہوں نے مولانا روم کے نام سے شہرت پائی۔آپ کے والد کا نام بھی محمد اور لقب بہاؤالدین تھا جو ایک نابغہ روزگارعالم دین تھے جن کے حلقہ ارادت میں امام فخر الدین رازی اور محمد خوارزم شاہ جیسی بلند شخصیات شامل تھیں ۔
آپ کی پیدائش6 ربیع الاول 604 ہجری بمطابق 30 ستمبر 1207 عیسوی بلخ میں ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔
نہ اٹھا پھر کوئی رومی عجم کے لالہ زاروں سے
وہی آبِ گل ایراں ، وہی تبریز ہے ساقی
حضرت محمد بہاؤالدین کی ملاقات جب خواجہ فریدالدین عطار سے ہوئی تو اس وقت مولانا رومی بھی والد کے ہمراہ تھے اور ان کی عمر چھ برس تھی۔ خواجہ فریدالدین عطار نے مولانا روم کو دیکھ کر حضرت محمد بہائو الدین کو تاکید کی کہ وہ اپنے صاحبزادے کی پرورش میں کوئی کوتاہی نہ کریں اور اسے دینی علوم سے بہرہ مند فرمائیں۔
حضرت محمد بہاؤالدین کی خصوصی توجہ سے مولانا روم نے دینی علوم اور تمام موجہ کتب پر عبور حاصل کیا ۔ مولانا روم کی عمر ابھی اٹھارہ برس تھی کہ آپ کی شہرت ہر جگہ پھیل گئی۔ والد صاحب کے ساتھ آپ بغداد آئے۔ یہاں مدرسہ مستنصریہ نے آپکی علمی نشوونما میں اہم کردار ادا کیا۔مولانا محمد جلال الدینان بزرگ ہستیوں میں سے ہیں جن کا قلب ہمیشہ حق کے لیے بیتاب رہتا ہے۔ وصالِ حق کے لیے تڑپ ان کے قلب کو گرمائے رکھتی ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ آپ کا دور قتل و غارت کا دور تھا ،آپ ابھی گیارہ برس ہی کے تھے کہ تاتاریوں کا فتنہ شروع ہوا۔ انسانیت کا قتل اس دور میں بہت زیادہ ہوا تقریباً نوے لاکھ آدمیوں کو قتل کیا گیا۔ مذہبی منافرت بہت زیادہ تھی۔مولانا محمد جلال الدین رومی کی شادی اٹھارہ برس کی عمر میں گوہر خاتون سے ہوئی جو سمرقند کے ایک بااثر شخص کی صاحبزادی تھیں ان سے آپ کے دو بیٹے تولد ہوئے۔
علامہ محمد اقبالکو مولانا رومی سے دلی عقیدت تھی۔ علامہ صاحب نے اپنے کلام میں جا بجا مولانا رومی سے عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ ان کو اپنا پیرو مرشد مانتے اور ان کے افکار و خیالات سے بے حد متاثر تھے۔ اقبال اپنی عقیدت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
چو رومی در حرم دا دم اذاں من
ازو آمو ختم اسرارِ جاں من
بہ دورِ فتنہ عصرِ کہن او
بہ دورِ فتنہ عصرِ رواں من
آپ نے تدریس اور فتویٰ کے ذریعے اُمت کی رہنمائی فرمائی ۔آپکی خدمت میں بے شمار علمائے دین اور طلبہ حاضر ہوتے اور آپ سے علمی مسائل دریافت فرماتے تھے۔آپ نے قونیہ میں ایک جامع مسجد کی بنیاد رکھی۔
آپ جب تقریر یا واعظ کرتے تو ہزاروں لوگوں کا مجمع جمع ہوجاتا۔ لوگ آپ کی باتوں کو سنتے لکھتے اور عمل بھی کرتے۔
آپ کی بے شمار تصانیف ہیں۔ آپ کے مکتب میں بے شمار علمی کتابیں موجود تھیں۔ مولانا کی 3500 غزلیات اور 2000 رباعیات کے علاوہ رزمیہ نظموں، قصیدوں، قطعات و ملمعات پر مشتمل ہے۔'فیہ ما فیہ' مولانا کے ملفوظات پر مشتمل ہے جبکہ'مجالس سبعہ' ان کے خطبات اور 'مکتوبات'مولاناکے خطوط کا مجموعہ ہے۔
مولانا جلال الدین رومی کاسب سے بڑا کارنامہ''مثنوی مولانا روم'' ہے ۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنی مثنوی کے اشعار مختلف اوقات میں کہے جنہیں آپ کے شاگرد لکھتے رہتے تھے اور ان اشعار کو بعد میں یکجا کر کے مثنوی مولائے روم کے نام سے ترتیب دیا گیا ۔
''مثنوی معنوی رومی''کے سرورق پر لکھا ہے :
''ہست قرآن درزبان پہلوی''
( یہ فارسی زبان میں قرآن ہے)
تاریخ میں روایت ملتی ہے کہ شاہ شمس کو خواب میں بشارت ہوئی کہ تم روم چلے جاؤ۔ وہاں ایک ہستی تمہاری منتظر ہے، اس کو تمہاری راہنمائی کی ضرورت ہے۔ ایسا خواب تین دن مسلسل آتا رہا ،شاہ شمس نے اس خواب کا ذکر اپنے مرشد بابا کمال الدین سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر دوبارہ یہ خواب دیکھو تو مجھے بتانا۔ جب تین دن مسلسل ایک ہی خواب آتا رہا تو آپ کے مرشد نے آپ کو جانے کی اجازت دے دی۔
تاریخ میں ایک اور روایت بھی ہے کہ شاہ شمس تبریز نے دعا مانگی تھی اپنا علم اپنا عشق کسی اعلیٰ اور نیک ہستی میں منتقل کرنے کی تو انہیں بشارت ہوئی۔ شاہ شمس تبریز اور مولانا کی ملاقات کی بہت سی روایتیں ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی سوانح روم میں اس واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں۔
ایک دن مولانا رومی تالاب کے کنارے کتاب کا مطا لعہ کر رہے تھے۔ پاس اور بھی کتابیں پڑی تھیں، شاہ شمس تبریز وہاں سے گزرے تو ان سے پوچھا.. "ایں چیست..؟" (یہ کیا ہے..)مولانا رومی نے ان کو کوئی عام ملنگ سمجھ کر جواب دیا..
"ایں آں علم است کہ تو نمی دانی"
( یہ وہ علم ہے جسکو تو نہیں جانتا)
شاہ شمس یہ جواب سن کر چپ ہورہے۔ تھوڑی دیر بعد مولانا رومی کسی کام سے اندر کسی جگہ گئے.. واپس آئے تو اپنی وہ نادر و نایاب کتابیں غائب پائیں.. چونکہ شاہ شمس وہیں بیٹھے تھے تو ان سے پوچھا۔شاہ شمس نے مکتب کے اندر کے پانی کے تالاب کی طرف اشارہ کیا اور کہا.. " میں نے اس میں ڈال دیں.. "یہ سن کر مولانا رومی حیران و پریشان رہ گئے.. جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں.. اتنی قیمتی کتابوں کے ضائع ہونے کا احساس ا ن کو مارے جارہا تھا.. ( تب کتابیں کچی سیاہی سے ہاتھ سے لکھی جاتی تھیں.. پانی میں ڈالنے سے ان کی سب سیاہی دھل جاتی تھی.. ) آپ شاہ شمس سے دکھ بھرے لہجے میں بولے.. " میرے اتنے قیمتی نسخے ضائع کردیے.. "
شاہ شمس انکی حالت دیکھ کر مسکرائے اور بولے.. " اتنا کیوں گھبراگئے ہو.. ابھی نکال دیتا ہوں.. "یہ کہ کر شاہ شمس اٹھے اور تالاب سے ساری کتابیں نکال کر مولانا رومی کے آگے ڈھیر کردیں.. یہ دیکھ کر مولانا رومی کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ سب کتابیں بالکل خشک ہیں ..
مولانا چلا اٹھے.. " ایں چیست..؟ " (یہ کیا ہے.)
شاہ شمس نے جواب دیا..
''ایں آں علم است کہ تو نمی دانی''
(یہ وہ علم ہے جس کو تو نہیں جانتا)
یہاں پر ایک روایت اور بھی سامنے آتی ہے کہ شاہ شمس تبریز نے جواب دیا تھا کہ:
علم در سینہ است
نہ کہ در کتاب است
یہ کہ کر شاہ شمس چل پڑے۔ ادھر مولانا رومی کے اندر کی دنیا جیسے الٹ پلٹ چکی تھی۔ اپنی دستار پھینک کر شاہ شمس تبریز کے پیچھے بھاگے اور جا کر ان کے پاؤں میں گرپڑے کہ'' خدا کے لیے مجھے معاف کردیجیے اور مجھے اپنے قدموں میں جگہ دیجیے.. "
شاہ شمس نے انہیں اٹھا کر سینے سے لگایا اور کہا.. " میں تو خود ایک عرصے سے تیری تلاش میں تھا''۔
مولانا کا سب سے اہم شاہکار ان کی شہرہ آفاق''مثنوی معنوی''ہے''کشف الظنوں'' یہ مثنوی 6بسیط دفاتر پر مشتمل تقریباً 26ہزار اشعارپر محیط ہے۔ چھٹا دفتر مولانا نے چھوڑ دیا تھا اور فرمایا تھا کہ:
باقی ایں گفتہ آیدبی گماں
ترجمہ: ''جس شخص کی جان میں نورہوگا اس مثنوی کا بقیہ حصہ اس کے دل میں خود بخود اتر جائے گا''
اس پیش گوئی کے مطابق بہت سے لوگوں نے اسکو مکمل کرنے کی کوشش کی لیکن ایک روایت یہ بھی ہے کہ مولانا نے اس کو خود مکمل کر لیا تھا ،جس میں اخلاق و عقائد کی باتیں نہایت پرکشش اور دلچسپ پیرائے میں بیان کی گئی ہیں۔ ''مثنوی معنوی''دراصل عملی حرارت پیداکرنے والی ایک ایسی چنگاری ہے جواپنی ابتدائے تخلیق سے تاہنوز پیہم سلگ رہی ہے اور ہرشخص اپنی فہم و فراست کے مطابق اس سے حرارت حاصل کررہا ہے۔یہ جہاں عمل سے عاری مردہ قوموں کے لیے صورعمل ہے ،وہیں پریشان حال قلوب کے لیے متاع مسکّن بھی ہے۔اس کااصل امتیازاس کی یہی روحانی فکر ہے، جو اپنے اندر معانی کا ایک ایساسمندرسمیٹے ہوئے ہے جس کی گہرائی کا اندازہ لگاناممکن نہیں۔
''پیراہن یوسفی'' اس مثنوی کا منظوم ترجمہ ہے۔مولانا روم کی مثنوی کو جس قدر شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی، فارسی کی کسی کتاب کو آج تک نہیں ہوئی ''مجمع الفصحا'' نے لکھا ہے کہ ایران میں چار کتابیں جس قدر مقبول ہوئیں کوئی نہیں ہوتیں۔ وہ چار کتابیں درج ذیل ہیں۔ شاہ نامہ ،گلستان ،مثنوی روم،دیوان حافظ ۔
اگر ان چاروں کتب کا موازنہ کیا جائے تو مقبولیت کے لحاظ سے مثنوی کو ترجیح ہو گی۔ مقبولیت کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ علماء اور فضلاء نے مثنوی کو جس قدر اہمیت دی اور کسی کتاب کو نہیں دی۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ عام روش کے خلاف مولانا نے ضرورت شعری کے مطابق اپنا تخلص 'خاموش'، 'خموش'یا 'خمش' استعمال کیا ہے۔
مثنوی معنوی' اپنی سادگی، صفائی، سلاست و روانی، منقولات و معقولات، نصیحت آمیز جملوں، تلمیحات و استعارات اور دلچسپ واقعات و تمثیلات کی وجہ سے عوام و خواص میں ہمیشہ سے مقبول رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آغاز تصنیف سے آج تک کے دانشوروں نے مختلف زبانوں میں اس کے تراجم و شروحات لکھ کر اس میں موجود معانی کے سمندر سے چشمے بہائے ہیں۔اس تعلق سے
'مثنوی معنوی' کی کچھ اہم شروحات کاذکر'کشف الظنون' میں آیاہے جسے علامہ شبلی نے اپنی کتاب 'سوانح مولانا روم' میں شامل کیا ہے۔نیکولسن نے اپنے نسخہ کے مقدمہ میں ہندو ایران سے شائع ہونے والی اردو و دیگر شروحات و تراجم کا ذکر کیا ہے۔ آربری نے بھی اپنی کیٹلاگ کی جلد2 اور جلد 6 کے صفحہ 301ـ4پر اردو اور'مثنوی معنوی' کی دوسری قدیم ترین ایشیائی مطبوعات کا ذکر کیا ہے۔
جان رپکا کہتے ہیں کہ
''مثنوی مولانا روم دراصل تصوف کی بائبل ہے''
اس مثنوی کے ذریعے اصلاحِ معاشرہ کا کام با احسن لیا گیا معاشرتی برائیاں جھوٹ ،ریاکاری ،رشتوں کے تقدس کی پامالی، ظاہر اور باطن میں فرق ، قول و فعل میں تضاد،آدابِ زندگی سے ناواقفیت ،اسلام کی حقیقی روح سے نا بلد۔ اس مثنوی کے ذریعے سے ہر طرح کے انسان نے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق سبق حاصل کیا ۔
مولانا رومی ایک صوفی بزرگ تھے۔ صوفیانہ رنگ ان کی مثنوی میں جھلکتا ہے۔ مولانا روم لکھتے ہیں کہ صوفیوں کا دل تجلیاتِ الہیٰ کا مرکز ہوتا ہے،ذات کی خوشبو من جانب اللہ انہیں حق کی جانب کھینچتی ہے،ان کے دل اللہ کی یاد سے ہر وقت منور رہتے ہیں۔
مولانا جلال الدین رومی بیان کرتے ہیں کہ'' تمام گمراہیاں اور برائیاں نفس کی مکاریوں میں پوشیدہ ہیں، جب تم اپنی اصلاح کرنے کی بجائے عذر شیطان پرڈالو گے تو وہ جواباً یہی کہے گا کہ میں نیک اور بد بنانے کا مالک نہیں ہوں''۔
تصوف کی منازل کو بیان کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں کہ'' اللہ تعالیٰ کے عاشق اللہ تعالیٰ سے اس طرح کلام کرتے ہیں کہ جیسے کوئی اپنے محبوب سے کرتا ہے اور عاشقوں کا مذہب صرف اللہ ہے اور ان کا مقصود بھی صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ پس خود کو عشق میں ایسا پختہ کر لو کہ تمہیں ما سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی شے کی طلب باقی نہ رہے''۔
''جو شخص صبر سے کام لیتا ہے اور مصائب پرصبر کرتا ہے اور ہر حال میں اللہ کا شکر گزار بندہ بنتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بے شمار انعام و کرام سے نوازتا ہے ''۔
''اگر انسان اپنی حقیقت جاننا چاہتا ہے تو اسے وہ آنکھ چاہیے جس سے وہ اپنے باطن کا مشاہدہ کر سکے۔ جب انسان اپنے باطن سے آگاہی حاصل کر لیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے راز اس پر آشکارا ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر وہ بلند مرتبے کا حامل ہوتا ہے اور مخلوق اسکی اطاعت و فرماں برداری میں فخر محسوس کرتی ہے''۔
مولانا رومی کہتے ہیں کہ'' اللہ پر بھروسہ کرنے والے ہمیشہ آزمائش کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ اس آزمائش سے مومن کا ایمان اور توکل مضبوط ہوتا ہے ''۔
المختصریہ کہ آٹھ صدیاں گزر جانے کے باوجود مولانا کی مثنوی روم مسلمانان عالم میں عقیدت و احترام سے پڑھی جا رہی ہے۔ مولانا کی شخصیت اور ان کا کلام دونوں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بقول شبلی نعمانی '' فارسی میں جس قدر کتابیں نظم و نثر میں لکھی گئی ہیں، کسی میں ایسے دقیق نازک اور عظیم الشان مسائل اور اسرار نہیں مل سکتے جو مثنوی میں کثرت سے پائے جاتے ہیں''_
مولانا رومی نے استاد اور شاگرد کے رشتے کو بھی مضبوط بنیاد عطا کی ہے۔دورِ حاضر کے اساتذہ اور طلبہ میں بھی اگر روحانیت آ جائے تو بہت سے تعلیمی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ہمارے اساتذہ اور طلبہ دونوں کو ایسے عظیم لوگوں کے افکار و نظریات سے مستفید ہونا چاہیے تا کہ اساتذہ اور طلبہ کا رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔ مولانا رومی خود کہتے ہیں کہ میں شاہ شمس تبریز کی شاگردی سے پہلے صرف ایک مولوی تھا۔
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریز نہ شد
تعارف:مضمون نگار ایپسیکس(APSACS) سیکریٹریٹ میں اردو کوارڈینیٹر کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔
تبصرے