''سانحہ مشرقی پاکستان مفروضے اور حقائق'' ممتاز دانشوروں، تجزیہ کاروں اور کالم نویسوں کے ان مضامین پر مبنی کتاب ہے جو ماہنامہ ہلال کے مختلف شماروں میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ کتاب میں شامل مضامین ان مفروضوں اور فیک پروپیگنڈے کو رد کرتے ہیں جن کا ایک عرصے سے ڈھنڈورا پیٹا جا تارہا ہے اور پاکستان کے اداروں کی جگ ہنسائی کا موجب بنے ۔ کتاب میں شامل ہر تحریر اپنے تئیں سانحہ مشرقی پاکستان کے مختلف پہلوئوں کو نہ صرف حقیقی معنوں میں اجاگر کرتی دکھائی دیتی ہے بلکہ ہراس ابہام کو بھی دور کرتی ہے جنہیں الزامات کا روپ دے کر تاریخِ پاکستان کو مسخ کرنے کی ایک قبیح حرکت کی گئی۔
کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ باب اول میں شامل مضامین سانحہ مشرقی پاکستان کے سیاسی پسِ منظر کاتجزیہ کرتے ہوئے ان عوامل پر روشنی ڈالتے ہیں جو اس سانحے کی وجہ بنے۔ بابِ دوم جنگ اکہتر کے اسباب، مفروضوں اور حقائق پر مبنی ہے ۔یہ اس امر کو انتہائی دلیل کے ساتھ واضح کرتی ہے کہ مشرقی پاکستان میں بھارت کا کردار کیا رہا؟ کس طرح بھارت اپنی منظم کردہ تنظیم مکتی باہنی کی پشت پناہی کرتا رہا اور پھرمکتی باہنی کی پرتشدد اور ظالمانہ کارروائیوں کو پاکستانی اداروں کے ذمے لگانے کی سازش میں شریک رہا۔
باب سوئم 1971 کی جنگ کے معرکوں اور ہیروز پر مشتمل ہے جو مشکل وکٹھن حالات میں بھی انتہائی جانفشانی سے لڑتے رہے اور شہید یا غازی جیسے اعلی شرف و مراتب پر فائز ہوئے۔
باب چہارم بھی دل دہلا دینے والے جنگی معرکوں پر مبنی ہے جو دنیا کے لیے ایک مثال ٹھہرے کہ کس طرح نامساعد حالات میں بھی افواج پاکستان کے جری سپوت آخری دم تک ڈٹے رہے۔
باب پنجم اردو ادب اور سانحہ مشرقی پاکستان کے اثرات پر مبنی ہے اور اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح ہمارے شعرا اور نثر نگار، اپنی تخلیقی خدمات کے ذریعے اپنے سپوتوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ گویا سانحہ مشرقی پاکستان ایک ایسا سانحہ تھا جس نے پوری قوم کو رنجیدہ کیا لیکن اس کتاب میں اپنے دلیر سپوتوں کی کہانیاں اور دانشوروں کی تحاریر کے بے لاگ تجزئیے پڑھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں اس وقت دشمن اور اس کے ہمنوائوں نے ایسے حالات پیدا کردیئے تھے کہ سقوطِ ڈھاکہ ناگزیرہو گیا۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے اس سے قبل بھی سیکڑوں کتابیں منظر عام پر آئیں۔ سرمیلا بوس کی ڈیڈ رینکنگ اور سانحہ مشرقی پاکستان سے قبل ڈھاکہ یونیورسٹی کے آخری وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین شاہ کی کتاب شکستِ آرزو سمیت متعددکتب سانحہ مشرقی پاکستان کے اصل حقائق کو سامنے لے کر آئیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح مفروضوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کی بنیاد پر تاریخ مسخ کی گئی۔
پاکستان سے محبت کرنے والے اس وقت بھی دل و جان سے وطن کے ساتھ تھے اور شیخ مجیب الرحمن اور مکتی باہنی کے معاون نہیں تھے۔ انہیں مشرقی پاکستان میں اپنے انہی نظریات کی بنیاد پر شہید کردیا گیا یا پابند سلاسل کردیا گیا۔ گزشتہ چند برسوں میں بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی حکومت نے بنگلہ دیش کے ان بزرگ شہریوں کو جیلوں سے نکال نکال کر پھانسی پر لٹکا دیا جن کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے تھے۔ یہ اسی ظلم و جبر کا شاخسانہ ہے کہ بنگلہ دیش کے محب وطن شہریوں نے کئی برسوں سے مکتی باہنیوں کے لیے ملازمتوں کے کوٹوں اور دیگر سہولیات کے دیے جانے سے تنگ آکر مزاحمت کا راستہ اختیا رکیا اورحسینہ واجد کو حکومت چھوڑ کر بنگلہ دیش سے فرار ہونے پر مجبور کردیا۔ جو اس امر کی عکاسی کرتاہے کہ شیخ مجیب الرحمن اور مکتی باہنی ایک سازش اور پروپیگنڈے کو بنیاد بناکر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا موجب بنے۔
'' سانحہ مشرقی پاکستان مفروضے اور حقائق'' جیسی قلمی کاوش ان حقائق کوعوام کے سامنے لے کر آئی ہے جن کو بہ وجوہ پس پشت ڈالا گیا اور پروپیگنڈے کے ذریعے 1971 میں پاکستان کے ایک بازوکو اس سے الگ کردیا گیا۔
یہ کتاب یقینی طور پر اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک ریفرنس بک کا درجہ حاصل کرے گی اور آئندہ آنے والی نسلیں جب اس موضوع پر تحقیق کریں گی تو انہیں یہ کتاب ایک بہترین حوالے کے طور پر میسر ہوگی۔
تعارف: مضمون نگار ادیب اور کالم نویس ہیں۔
[email protected]
تبصرے