انسان نے آج تک جتنی ترقی کی ہے اس کی قیمت وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی صورت میں ادا کررہا ہے۔ماحولیاتی تبدیلی کونہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کا اس وقت سب بڑا چیلنج کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔کیونکہ جیسے جیسے دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے ویسے ویسے سرسبز جنگلات ختم ہوتے جارہے ہیں اور ان کی جگہ کنکریٹ کے جنگل لیتے جارہے ہیں۔جب زمین بہت تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی کے دور سے گزرے گی تو عالمی درجہ حرارت میں اضافہ تو ہوگا۔زراعت متاثر ہو گی تو فصلوں کی پیداوار میں بھی ہر سال واضح کمی ہو گی۔شاید یہی وجہ ہے کہ نہ صرف زمین کی سیم وتھور بڑھ رہی ہے بلکہ اسکا کٹائو بھی بڑھ رہا ہے۔
یہ ماحولیاتی تبدیلی کا ہی نتیجہہے کہ آج زمین کادرجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے موسموں میں شدت آ گئی ہے۔ انسان ہوں یا حیوان، سب اس سے پریشان ہیں ۔ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پوری دنیا کو سیلاب اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا۔ حدت بڑھنے سے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے دریائوں میں سیلاب آ رہے ہیں اور کئی خطے خشک سالی کا شکا ر ہو رہے ہیں ۔ جیسے پاکستان کو ہر سال بارشوں اور سیلا ب کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ افریقا اور لا طینی امریکا کے بعض خطے خشک سالی کا شکا ر ہو رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا نے ایک دہائی کے دوران مہلک ترین گرمی برداشت کی ہے، گزشتہ10سال گرم ترین سال ثابت ہوئے ہیں جن میں سال 2024بھی شامل ہے۔اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے اپنے سال نو 2025ئکے پیغام میں کہا ہے کہ ہمیں تباہی کے اس راستے کو چھوڑنا ہوگا اور ہمارے پاس کھونے کے لیے مزید وقت نہیں ہے، 2025 میں ممالک کو کاربن کے اخراج میں ڈرامائی کمی اور قابل تجدید مستقبل کی جانب منتقلی میں کردار ادا کرکے دنیا کو ایک محفوظ راستے پر گامزن کرنا ہوگا۔کیونکہ درجہ حرارت میں تیز رفتار تبد یلی عندیہ دے رہی ہے کہ اس سے پہلے دیر ہو جائے اور اس دنیا کے کئی علاقوں میں زندگی نا قابل برداشت بن جائے، موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
سائنسدان اور موسمی ماہرین بار بار خطرے کا بگل بجا ر ہے ہیں کہ زمین کو مو سمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات لینے کی ضرورت ہے کیونکہ جیسے جیسے انسانی سر گرمیاں بڑھتی ہیں ،کاربن ڈائی آکسائیڈکے اخراج میں اضافہ ہوتا ہے جس سے درجہ حرارت زیادہ ہورہا ہے۔ سب سے پہلے تو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ پوری دنیا کو شجرکاری مہم کے اوپر فوکس کرنا چاہیے ۔ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا صرف اربوں درختوں کی شجرکاری سے ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے کیلئے شجرکاری بہترین ہتھیار ضرور ہے مگر صرف یہی کافی نہیں ہے۔اس کیساتھ انسانوں کو اور بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
ماحولیا تی تبدیلیوں پر قابو پانے کے لیے شجرکاری سب سے سستا اور موثر طریقہ ہے کیونکہ درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں ، اس سے سیلاب اور زمین کے کٹائو کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔کسی علاقے میں درختوں کی موجودگی آب و ہوا کو خوشگوار بناتی ہے اوردرجہ حرارت کی شدت کو کم کر دیتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق اگر امریکہ جتنے علاقے پر درخت لگا دیے جائیں تو دنیا بھر میں سے25فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کم ہوسکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے آج پاکستان سمیت پوری دنیا میں شجرکاری مہم کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے ۔
اس وقت ایشیا اور افریقہ کے کچھ علاقوں میں شجرکاری کیلئے سنجیدہ کوششیں بھی ہو رہی ہیں ،افریقہ میں گریٹ گرین وال کے نام سے آٹھ ہزار کلومیٹر وسیع علاقے پرجنگل لگا یا جارہا ہے۔ اسی طرح سعودی گرین انیشیٹو کے تحت دارالحکومت ریاض میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔سعودی گرین انیشیٹو کے زیر اہتمام سعودی عرب میں 10 بلین درخت لگانے کا منصوبہ ہے۔اس منصوبے کے تحت فضائی آلودگی میں کمی کے لیے ریاض میں7.5 ملین درخت لگائے جائیں گے۔ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں 2030تک95ملین ہیکٹر ایریا پر جنگلات کا اضافہ کرنے کا منصوبہ ہے۔اس طرح پاکستان میں بلیئن ٹری پروگرام لایا گیا جس کے بعد شجر کاری کوتحریک ملی جس کا سلوگن یہ تھا کہ ہر بشر دو شجر کاشت کرے تو ملک میں ہریالی لائی جا سکتی ہے۔
پاکستان کو شجرکاری کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے۔جرمنی کے ایک ماحولیاتی تھنک ٹینک کی سال 2020کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں سے پانچویں نمبر پر ہے، جنہیں سخت ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطرات کا سامنا ہے۔ کلائمیٹ رسک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی تباہ کاریوں سے گزشتہ دو دہائیوں میں لگ بھگ10 ہزار سے زائدلوگ جان سے گئے جبکہ ملکی معیشت کو تقریبا ً3 ارب 80 کروڑ ڈالر مالیت کا نقصان بھی اٹھانا پڑا۔
ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ اگرچہ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والی گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پھر بھی ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کی سزاپاکستان بھگت رہا ہے۔ترقی یافتہ ممالک نے کلائمیٹ فنانسنگ کے تحت ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنے کا عہد تو کیا ہوا ہے لیکن وہ اپنے اس وعدے کو پوری طرح پورا نہیں کر پارہے۔ترقی پذیر ممالک کے کئی سربراہان، تجزیہ کار اور ایکٹوسٹس ایک عرصے سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ ماحولیاتی بحران میں سب سے بڑا حصہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک کا رہا ہے کیونکہ یہ ممالک اقتصادی ترقی کے لیے ایک طویل عرصے سے فوسل فیولز جلاتے آ رہے ہیں تو ایسے ترقی یافتہ ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی کے نتائج کی زیادہ بڑی قیمت ادا کرنی اور زیادہ ذمے داری لینی چاہیے۔
پاکستان کو جہاں غربت بیروزگاری اور دہشت گردی جیسے عوامل کا سامنا ہے وہاں ایک سب سے بڑا ابھرتا ہوا مسئلہ موسمیاتی تبدیلی سے نبرد آزما ہونا بھی ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کو اقوام متحدہ اور عالمی بینک سے مالی معاونت تو ملتی ہے مگر پاکستان میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلوں کی مد میں پاکستان کا نقصان کئی گناہ زیادہ ہو جاتاہے ۔ گزشتہ سال آذربائیجان میں ہونے والی کانفرنس کوپ29میں پاکستان کے وزیر اعظم نے موسمیاتی تبدیلوں سے ہونے والے نقصان کا بھی تذکرہ کیا جو کہ کم ازکم 30ارب ہے ۔ پاکستان کو امداد کے بجائے موسمیاتی انصاف کی بات کرنا چاہیے کیوں کہ امداد، دیگر ممالک احسان سمجھ کردیتے ہیں جب کہ ہمیں ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کاربن کے اخراج کی صورت میں پہنچنے والے نقصان کا ازالہ درکار ہے۔ اس کے لیے دنیا کو اپنا مقدمہ ٹھیک طریقے سے پیش کرنے کے ساتھ سفارتی دبائو کو بھی استعمال کرنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کلائمیٹ فنانس کے حوالے سے اپنے وعدوں کو پورا کریں۔جہاں ترقی یافتہ ملکوں کی سنجیدگی کا مسئلہ ہے وہیں المیہ یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا ادراک تو ہے مگراس کی روک تھام کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ دکھائی نہیں دیتے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ ادارے اس مسئلے کو لے کر سنجیدہ اقدامات اٹھائیں۔ عالمی سطح پر اپنا سفارتی اثر و رسوخ استعمال کرے اور اس خطرناک چیلنج سے موثر انداز سے نبردآزما ہوکر اس پر قابو پایا جائے۔
تعارف:مضمون نگارایک اخبار کے ساتھ بطورایسوسی ایٹ ایڈیٹرمنسلک ہیں۔
[email protected]
تبصرے