کسی بھی ملک کی ترقی میں وسائل اور آبادی کے درمیان تناسب اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک اس لیے ہی دنیا کی صف اول میں ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی آبادی کو اپنے دستیاب ملکی وسائل کے مطابق کنٹرول کیا ہے جبکہ ترقی پذیر ملکوں میں آبادی میں ہوشربا اضافہ ایک اہم چیلنج کے طور پر سامنے آرہا ہے ۔ اس سنگین مسئلے نے غربت ، افلاس ، جہالت ، بیماریوں اور پسماندگی کو فروغ دیا ہے ۔
پاکستان دنیا کے ان آْٹھ ممالک میں شامل ہے جو 2050 تک دنیا میں بڑھنے والی کل آبادی میں پچاس فیصد حصہ ڈالیں گے ۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے 24 اکتوبر 2024 کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ 2030 تک پاکستان کی شہری آبادی کا تناسب بڑھ کر چالیس فیصد ہو جائے گا اور دس کروڑ کے لگ بھگ لوگ شہروں میں آباد ہوں گے ۔ وفاقی ادارہ شماریات نے پاکستان کی ساتویں لیکن پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کی تفصیلی رپورٹ اگست 2023میں جاری کی جس کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ نوے ہزار ہے جس میں 51.5 فیصد مرد اور 48.5 فیصد خواتین ہیں ۔اس طرح پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں دیہی آبادی 61 فیصد اور شہری آبادی 39 فیصد ہے ۔
آبادی میں اضافے کی شرح اڑھائی فیصد سالانہ ہے اور قومی وسائل میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ملکی آبادی میں ہر سال پچپن لاکھ سے زائد نفوس کے اضافے سے تعلیم ، خوراک ، پانی ، ذرائع آمد و رفت اور رہائش کی سہولیات کم ہو رہی ہیں جبکہ ملازمت کے مواقع بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق سندھ کی آبادی 5 کروڑ چھپن لاکھ نوے ہزار ہے جبکہ بلوچستان کی آبادی ایک کروڑ 48 لاکھ نوے ہزار ہے ، اسی طرح اسلام آباد کی آبادی 23 لاکھ ساٹھ ہزار ، پنجاب کی آبادی 12کروڑ 76 لاکھ نوے ہزار ہے جبکہ کے پی کی آبادی چار کروڑ سے زیادہ ہے ۔
آبادی میں ہوشربا اضافہ ملکی وسائل پر دبائو کا باعث بن رہا ہے ۔ پہلے ہی ملک کی غذائی ضروریات مقامی پیداوار سے پوری نہیں ہو رہیں ، روزگار کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ توانائی کی کھپت اتنی زیادہ ہے کہ بجلی اور گیس کی بلا تعطل فراہمی مشکل ہو جاتی ہے ۔ تعلیمی اداروں اور مراکز صحت کی تعداد بھی ناکافی ہے ۔ بڑھتی ہوئی آبادی کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ملکی آبادی میں نوجوانوں کا حصہ مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ اس وقت قریباً دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جنہیں تعلیم ،تربیت اور روزگار کے مواقع چاہئیں مگر کمزور معیشت کے سبب یہ سب ممکن نہیں ۔
بے روزگاری ، غربت ، مہنگائی میں اضافہ ، تعلیم و صحت کے معیار کی تنزلی ہمارے سماج کے بنیادی مسائل بن کر سامنے آئے ہیں ۔ ان محرومیوں سے جرائم ، دھوکہ دہی اور اخلاقی گراوٹ کی مختلف صورتیں پیدا ہو رہی ہیں ۔ چنانچہ عوام کو زندگی کی بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے آبادی کی شرح کنٹرول کرنا حکومت کے لیے ایک ایسا چیلنج ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ۔ ملک کی آبادی بڑھنے کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو آبادی میں مسلسل اضافے کا سامنا ہے۔ دو بندرگاہوں اور ملک کا اہم ترین کاروباری مرکز ہونے کی وجہ سے کراچی میں معاشی مواقع زیادہ ہونے کے باعث لوگ بہتر روزگار کی تلاش میں کراچی آتے ہیں ۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث مختلف خطوں میں آنے والی آفات سے متاثرہ لوگ بھی کراچی کا رخ کرتے ہیں ۔ 1905 کی دہائی میں پانچ لاکھ آبادی والے شہر کراچی کی آبادی اب تقریباً سوا دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے ۔
آبادی کے بے ہنگم پھیلائو سے ہسپتال ، سکول ، کالجز ، سیوریج کا نظام ، پارک ، کھیل کے میدان ، تھانے اور بجلی کا انتظام و دیگر سہولیات کم پڑتی جا رہی ہیں ۔ سرسبز زمینوں میں کالونیوں اور شہروں میں کئی کئی منزلہ پلازوں کی تعمیر جاری ہے ۔ ملک میں شرح پیدائش میں اضافہ کافی ہے جس کی وجہ سے آبادی میں توازن بگڑ رہا ہے ۔ پاکستان میں دیکھا جائے تو سماجی رسومات کے تحت کم عمر کی شادیاں عام ہیں ، اولاد نرنیہ کی خواہش کے تحت خاندان کے افراد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ پاکستان میں اقوام متحدہ کے تعاون سے ''یو این پاپولیشن فنڈ ''پاکستان میں بھی کام کر رہا ہے ۔
آبادی کی منصوبہ بندی 1955سے پاکستان کے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں میں شامل رہی ہے ۔ 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں وزارت بہبود آبادی کو ختم کر کے ایک پاپولیشن پروگرام ونگ قائم کیا گیا جو ابتدائی طور پر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی سرپرستی میں کام کرتا تھا ۔ 2013 میں اسے وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن اینڈ کوآرڈنیشن میں منتقل کر دیا گیا اور پاپولیشن ویلفئیر کے محکموں کو اس وزارت کے کام سونپے گئے جو چاروں صوبوں میں کام کرنے لگے ۔ صوبائی ڈائریکٹوریٹ کی سربراہی ڈائریکٹر جنرل کرتے ہیں اور اسے 36 ضلعی اور 121تحصیل پاپولیشن ویلفئیر آفسز کے ذریعے فیلڈ میں لاگو کیا جاتا ہے ۔ پی پی ڈبلیو میں ایک میڈیا ایڈوائزری کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے ۔ ملک بھر سے علمائے کرام بھی اس پروگرام میں شامل ہیں ۔
دنیا میں دیکھیں تو بہت سے ممالک نے اپنی آبادی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے ، چین کی مثال سب کے سامنے ہے ، ترقی پذیر ممالک میں بنگلہ دیش کی مثال لی جا سکتی ہے انہوں نے اپنی آبادی پر بہت کام کیا ، دیہی علاقوں میں خواتین کو بھرتی کیا گیا اور انہیں بہبود آبادی کی تربیت دی گئی ۔ تربیت یافتہ خواتین نے گھر گھر جا کے ادویات تقسیم کیں ، بنگلہ دیش میں فی خاتون چھ بچے کی شرح سے کم ہو کر تین بچوں تک آ گئی ۔ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک انڈونیشیا نے بھی انتہائی کامیابی کے ساتھ بہبود آبادی کے منصوبے پر عمل کیا جس کے لیے گھر گھر مہم چلائی گئی اس مہم کے تحت ہیلتھ ورکرز کی جدید خطوط پر تربیت کی گئی ۔
آبادی کے عفریت کو قابو کرنا صرف حکومت یا اس کے اداروں کی ہی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اس کے لیے اجتماعی عوامی کوششوں کی ضرورت ہے ۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا آج سے دس سال بعد کہاں کھڑی ہوگی اور وسائل کی تقسیم افراد میں کس طرح کی جائے گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک پاکستان کو آبادی میں اضافے کی وجہ سے اب بھی مشکلات کا سامنا ہے اوراگر اس ہنگامی صورتحال پر قابو پانے کے لیے فوری اور بہتر اقدامات نہ کیے گئے تو ہمیں خدانخواستہ ایک المیے کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے ۔
تبصرے