میجر اویس شہید کے حوالے سے رابعہ رحمان کی جذبوں بھری تحریر
صوبیدار ریٹائر عارف حسین 1978 ء میں سپاہی بھرتی ہوئے اورایک سگنل بٹالین میں پوسٹ ہوئے۔ 3مارچ 1980ء میں پری کمیشن کورس کے لیے سلیکشن ہوئی اسی دوران صوبیدار (ریٹائرڈ) عارف حسین نے ایف اے پاس کیا، محنت اور ترقی کے شوق اور لگن نے1981ء میں ISSBمیں پہنچادیامگر شومئی قسمت سلیکشن نہ ہوسکی اور وہ اپنی سگنل بٹالین میں واپس چلے گئے۔ زندگی کا سفر رواں دواں تھا، مختلف علاقے مختلف اپوائنمنٹ سے آگے بڑھتے جب1990ء آیا توجیون ساتھی کے ساتھ زندگی کا نیا سفر شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے صوبیدار عارف حسین کو چار بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا، انہی میں ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیرکرنے والے میجراویس 22جنوری 1993ء میں پیدا ہوئے۔
میجرمحمداویس شہید اپنے بہن بھائیوں میں خاصی انفرادیت رکھتے تھے۔ سب کا دوست، سب کا ساتھی، والدہ کے پائوں چومنے والے میجر اویس اپنی ریت روایت اپنے ماحول اور تقاضے کے دلدادہ تھے۔ سادہ مزاج اتنے کہ کبھی کسی خواہش کا اظہار ہی نہیں کیاکرتے تھے۔ والدین ضرورت کا پوچھتے توکہتے الحمداللہ میرے پاس سب کچھ ہے۔ یقینا جس کے پاس عجز وانکسار ہو وہ صوفی ہوجاتاہے۔میجراویس اپنے والد کی آنکھوں میں ہمیشہ سے فوجی افسر کا خواب دیکھتے تھے۔ ان کی زندگی کا سفر ان کے سامنے تھا، وہ اپنے والد صوبیدار میجر عارف حسین کے سامنے افسر کی وردی پہن کر انہیں سیلوٹ کرنا چاہتے تھے۔ بچپن میں ہی ان کی لگن نے انہیں مختلف کیڈٹ سکولز کے لیے امتحان دینے پہ آمادہ کرلیا اور تیسری بار امتحان دینے میں وہ ملٹری کالج جہلم کی چار دیواری میں بڑے فخر،مان اور عزم کے ساتھ داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اب میجر اویس شہید کو اپنے والد کی خواہشوں کا سورج طلوع ہوتے نظرآنے لگامگر سفر تو ابھی لمبا تھا۔
ملٹری کالج جہلم میں میجراویس کو اپنے ٹیچر کرنل بشیرکی صورت میں اپنا آئیڈیل مل گیا۔ کرنل بشیر(ر) قرآن پاک کی تلاوت میجراویس شہید سے کرواتے پھر تفسیر اور ترجمہ بیان کرتے۔ زندگی کے ہرمرحلے کوپار کرنے کے لیے وہ کرنل بشیر(ر)سے مشورہ کرتے تھے۔2012ء میں ان کیISSBمیں سلیکشن ہوگئی سب کی خوشی دیدنی تھی۔ اپنی سلیکشن کی خبر اللہ پہ یقین کی انتہا کے ساتھ اصل نتیجہ آنے سے پہلے ہی میجراویس نے دے دی تھی۔
ادھورا خواب مکمل ہوگیا، عارف حسین (والد) نے کہاکہ میں اپنے بیٹے کو جب کاکول چھوڑنے گیا تومیرا سینہ فخر سے پھولاجارہاتھا۔ شکرانے کے آنسوگالوں پہ ڈھلک رہے تھے۔ 15اکتوبر2012ء کو ٹریننگ کے لیے کاکول گئے اور بہترین رپورٹ اور رزلٹ کے ساتھ 18نومبر 2014 ء کو سیکنڈلیفٹیننٹ بن کے والد کی 47سگنل بٹالین میں پوسٹ ہوئے۔ والد نے کہاکہ PMAکی سخت ترین ٹریننگ کا میجر اویس کی صحت پہ جو اثرہوا توماں دیکھ کر پریشان ہوگئی، کبھی ماتھا چومتی، کبھی ہاتھ چومتی، کبھی سینے پہ ہاتھ پھیرتی اور کہتی جاتیں میرا بچہ اتنا کمزور ہوگیا، ماں کا دل تو اولادکی محبت میں بھیگے بادل کی طرح برستا ہی رہتاہے۔ پھر دھیرے دھیرے میجراویس صحت پکڑتے چلے گئے۔ بہنوں کا لاڈلا مگر سب ہی ان کی عزت کرتے۔ پہلے محلے کے دھوبی عارف حسین صوبیدار (ر) کی وردی استری کرتے تواویس سائیکل پہ لینے جاتے۔ جب انہی محلے کے دھوبیوں اور درزیوں نے جو بزرگ ہوچکے تھے۔ سیکنڈلیفٹیننٹ اویس کی وردی دیکھی تو اویس کو ہمیشہ سیلوٹ کرنے کھڑے ہوجاتے ۔
47سگنل میں پوسٹ ہونے کے بعداویس ایک ماہ تک سپاہیوں کے ساتھ رہے، اپنے والد کی گزری زندگی کا اندازہ لگاتے اور والد کا احترام اور ان پہ فخر بڑھتا جاتا۔
کامیابی سے آگے بڑھتے ہوئے انفٹنٹری سکولز کے کورسزکیے،FCبلوچستان میںAttachmentآئی۔ پھر اکتوبر 2017 میں Software Engineering کی ڈگری حاصل کی۔ پڑھنے کا شوقین تھا۔ اپنے آپ کو انسانیت کی خدمت میں بھی مصروف رکھتا، ماں اور بہن بھائی تو میجراویس(شہید) کا انتظارکیاہی کرتے تھے مگر ان کے دوست افسر اور سپاہی ان کے بغیربہت جلد اداس ہوجاتے۔ یہ ان کی محبت اور اخلاق کا صلہ تھا۔ دسمبر2022میں ٹوچی سکائوٹس میں تبادلہ ہوگیا۔
باتوں باتوں میں صوبیدار عارف حسین(ر) نے میجر اویس کی منگنی کا واقعہ سنایاکہ میجرغلام رسول(ر)کی بیٹی کے لیے میجراویس کے رشتے کی بات صوبیدار عارف(ر) کے دوست نے چلائی تو سب سے پہلے میجراویس نے اپنے استاد اور آئیڈیل شخصیت کرنل بشیر(ر)سے مشورہ کیا اورپھر اپنے والدین کو صاف الفاظ میں بتایا کہ مجھے والدین کی خوشی چاہیے لیکن آپ جہاں بھی میرا رشتہ دیکھیں ان کو پہلے سے بتادیں کہ ان کی بیٹی کو ہماری روایت کے مطابق میرے والدین کے ساتھ زیادہ رہنا پڑے گا۔ ہم جس طرح کے ماحول میں رہتے ہیں وہاں اکثر ایک ہی تھال میں کھاتے ہیں اور انہوں نے اپنے والدین سے یہ بھی کہاکہ آپ میرا رشتہ وہاں کریں جہاں آپ کو کم مائیگی کاہرگز احساس نہ ہو کیونکہ میرے لیے میرے والد کاصوبیدار(ر) ہوناکسی بڑے عہدے سے کم نہیں اورمیری ماں اور بہنوں کا سادگی پسند ہونا بہترین عمل مانتا ہوں۔ وہاں رشتہ کریں جہاں آسانی سے اور ایک ہی مقام پہ رہ کے مل جل سکیں۔
فائزہ(مسزاویس) سے پہلی بار مل کر اویس کے والدین نے کھل کر بات چیت کی اور فائزہ نے اچھے اخلاق اور تربیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس رشتے کوقبول کیا۔8مارچ 2019ء میں دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ اللہ نے 20جون2022 میں حمزہ کی صورت میں ننھا فرشتہ ان کی دنیا کو محبت کے رنگوں سے مزین کرنے کے لیے عطاکیا، حسین زندگی کا سفر دلفریب تر تھا۔
ان کی جب بھی کہیں پوسٹنگ ہوتی تو وہ ماں سے کہتے کہ ماںمیرے ماتھے پہ ہاتھ رکھیں اور دعاکریں کہ اللہ مدینے کی پوسٹنگ دے تو سب کوعمرہ کروائوںگا۔ ہمیشہ سے شہادت کے لیے راضی رہاکرتے اورکئی مساجدپہ شہادت کے حوالے سے آیات پرنٹ کراکے لگوایاکرتے ۔وہ اپنی اس پوسٹنگ پہ ساری رات جاگتے اور دن کو آرام کرتے کیونکہ دشمن کی حرکات کو رات کو دیکھنا بہت ضروری ہوتاہے۔ رات کے اندھیرے میں ہی بھیڑیا اور دشمن حملہ کرتاہے۔ والد نے بتایاکہ دوماہ سے میں تہجد پڑھتاتھا اور اللہ سے یہ دعامانگتا کہ اللہ میرا بیٹا اپنی ہرذمہ داری احسن طریقے سے نبھائے اور اگر اسے شہادت کا رتبہ بھی عطاکردے گا تومیں تب بھی شکرانے کے مقام پہ رہوں گا۔بیگم اویس(شہید)نے بتایاکہ میری زندگی کے چھ سال یوں گزرے کہ جیسے ماں باپ نے مجھے پھولوں کی طرح ہتھیلی پہ رکھاہو، نہ غصہ ،نہ گلہ، نہ فرمائش، نہ حق کا دعویٰ، وہ تو جیسے رشتے نبھانے اور وطن کے لیے فرض ادا کرنے کے لیے ہی پیدا ہوئے تھے، جتنی محبت اور عزت اپنے والدین کو دیتے تھے اگراس کا پچیس فیصد بھی آج کی اولاد اپنے والدین کو دے تومیں کہہ سکتی ہوںکہ تمام اولڈہومز ویران ہوجائیں۔
ہم اپنے ادھورے کام اپنے بیٹے کے آنے پہ مکمل کرتے تھے مگرجبسات ڈویژن سے کرنل مقصودکی کال آئی کہ آپ کے بیٹے کی طرف سے آپ کے لیے خوشخبری بھی ہے اور جدائی کا دکھ بھی تومیں سمجھ گیاکہ میرا بیٹا شہید ہوگیاہے۔ جوبیٹا صرف والدکی آنکھوں کا خواب دل کا ارمان پوراکرنے کے لیے ان کی خواہش کوجنون کی طرح چاہنے لگے اور آخرفخر کا وہ مقام دے کر رخصت ہوجائے ،و الدکے ماتھے کا جھومر اور ماں کے آنچل کا ستارہ بن جائے ،ایسے بیٹے صرف مسلمان اور پاکستانی کے گھرمیں ہی پیداہوسکتے ہیں۔
ہرقدم پہ فائزہ کے والدین اور اویس شہید کے والدین نے ان کا ساتھ دیا، فائزہ کہتی ہیں کہ اللہ نے مجھے ایک بہترین شوہر ہی نہیں بہترین ہمدرد، غمگسار اورمحبت کرنے والے سسرال سے بھی نوازا۔ فائزہ کے لیے فوجی ماحول نیا نہ تھا کیونکہ ان کے اپنے والد بھی ایئرڈیفنس کے تھے۔ میجراویس شہید چھ سالہ شادی کے عرصے میں فائزہ سے جو گفتگو ہوئی اس کا بیشتر حصہ ہتھیار، آپریشن گھاٹیوں کے منظرنامے،خوارجیوں کی ساخت و چہرے کے بارے میں ہوئی، میجراویس شہید اپنے آپ کو گھرآکربھی اپنے علاقے، پوسٹنگ اور وردی سے جوڑے رکھتے اورمزے سے گفتگو کرتے کہ سب لطف لیتے اور ان کا ڈر خوف سب ختم ہوجاتا۔
فائزہ ان کی باتوںپہ غورکرتیں تو اللہ سے ان کی اور باقی لوگوںکی بھی امان مانگتیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اپنی کسی پریشانی کو اپنے شوہر پہ ظاہرنہیں کرتی تھی لیکن آپریشن ایریا کی پوسٹنگز میں فکرمند ضرور ہوتی تھی۔
وہ اپنی زندگی مکمل طور پر وطن کے لیے وقف کرچکے تھے۔خاندان کے بچوں کے آئیڈیل تھے۔ چھٹیوں میں سب بچوں کو اکٹھاکرلیتے جب حمزہ اویس پیداہوا توکہنے لگے اللہ نے اپنے باغ میں سے مجھے یہ پھول عطاکیاہے۔ حمزہ اویس کے لییساری خریداری اویس(شہید)کی چھٹی پہ ہوتی اور فائزہ اکیلے حمزہ کے لیے کچھ نہیں خریدتی تھیں۔ پارک میں جھولوں پہ لے جانا بھی اویس کی پسندیدہ سرگرمی ہوتی مگر وہ فائزہ کو یہ بھی کہتے کہ ہم وردی والے زندگی کی منصوبہ بندی نہیں کرتے ،اس لیے بس اتنا کہوں گاکہ ہم دونوں نے حمزہ اویس کو ایک اچھا انسان بناناہے۔میجراویس (شہید)کانام حضرت اویس قرنی کے نام پہ رکھاگیاتھا اور حمزہ کا نام امیرحمزہ کے نام پہ تھاتاکہ یہ بہادر اور جری انسان بنے۔
فائزہ کومیجر اویس نے کہا ہواتھاکہ جب کبھی میری پوسٹ پہ حملہ ہوا میں سب سے آگے بڑھ کرمقابلہ کروںگا اورپھر وہی ہوا،جیسے ہی ان کی پوسٹ پہ حملہ ہوا تومیجر اویس سب سے آگے تھے اور انہوں نے اپنے سینے پہ گولیاں کھائیں، اپنے تمام سپاہیوں کو بچالیا۔
25دسمبرکوان سے آخری دفعہ بات ہوئی اور26دسمبر کو شہادت ہوگئی۔
رات ہی میں نے ان سے پوچھاکہ کوئی خطرہ تو نہیں تو انہوں نے کہاکہ سب خیرہے آپ بالکل فکرنہ کریں۔ فائزہ ہمیشہ سب جوانوں اور افسروںکا پوچھتیں کیونکہ وہ کہتی ہیں کہ وہ بھی توکسی کے بھائی ، بیٹے باپ اور شوہر ہیں، میں سب کے لیے پوچھ کردعاکرتی تھی۔
فائزہ کو چاربجے میجراویس کے شہید ہوجانے کا پتہ چلا، نارتھ وزیرستان سے میجراویس شہیدکاجسدخاکی پہلے پنڈی لایا گیا، وہاں سے خصوصی ہدایات اور انتظام کے مطابق فائزہ اویس کو طیارے میں بٹھایاگیا کیونکہ شکرگڑھ کا سفرطویل تھا اور سفرکرنے والے ذہنی اور روحانی تکلیف کا شکاربھی تھے اس لیے فائزہ کہتی ہیں کہ میں خاص طور پر چیف آف آرمی سٹاف اور دیگر افسران کا تہہ دل سے شکریہ اداکرتی ہوںکہ انہوں نے شہید کی بیگم کو اتنی عزت اور وقار کا احساس دلایا۔ انہوں نے ملک کے عوام اور سیاست دانوں کو خاص پیغام دیاہے کہ افواج پاکستان جس طرح وطن اور قوم کے لیے قربانیاں دے رہی ہیں اور ان کے والدین اور بیوی بچے جس طرح بعد میں زندگی گزار رہے ہیں اس کومدنظر رکھتے ہوئے خدا کے لیے اپنی تنقید اور وردی کے لیے منافقانہ رویہ چھوڑ دیں، یہ شہید ہوتے ہیں تو ہم پوری قوم کو محفوظ کرنے کے لیے ان کی قربانیاں اپنے ذاتی عناد اور تفرقے کے نظریے کی بنا پر رائیگاں نہ جانے دیں، متحدہوجائیں۔
حمزہ تو اب ساری عمر باباکے پیارکوترسے گامگر دادا کہتے ہیں کہ مجھے حمزہ کی شکل میں اویس مل گیاہے۔فائزہ کہتی ہیں کہ ان شاء اللہ حمزہ کو میں اویس کی وردی پہنائوں گی۔
تعارف:مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے