نسیم الحق زاہدی کی سپاہی راشد جنجوعہ شہید کے حوالے سے تحریر
پاکستان کی مٹی دفاعِ وطن میں جان قربان کرنے والے شہداء کے خون سے رنگی ہے۔ امن دشمنوں نے جب بھی سرزمین پاکستا ن کو میلی آنکھ سے دیکھا پاک فوج کے بہادر سپوتوں نے جان کی پروا کیے بغیر وطن کی پکار پر لبیک کہا۔جس قوم کی مائیں اپنے بچوں کو شہادت کا درس دیتی ہوںاس قوم پر کبھی زوال نہیں آسکتا اور جس ملک کے نو جوان میں جذبہ شہادت بیدارہو ، دنیا کی کوئی طاقت انہیں غلام نہیں بناسکتی ۔ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان پر کبھی زوال نہیں آسکتاکیونکہ یہاں اپنی دھرتی سے والہانہ عشق کرنے والے شہید سپاہی راجہ راشد جنجوعہ جیسے لاکھوں بیٹے اپنے وطن کی ناموس پر قربان ہونے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔شہید سپاہی راجہ راشد جنجوعہ 1992ء کو ضلع راولپنڈی، تحصیل کلرسیداںکے گائوں سمبل کے ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول سمبل سے حاصل کی جبکہ میٹرک اور ایف اے تحصیل کہوٹہ میں مدرسہ بگھار شریف سے پاس کیااور قرآن کریم بھی وہیں سے مکمل کیا۔ انہوں نے دوسپارے حفظ بھی کیے تھے۔
اُن کے چھوٹے بھائی راجہ عامر جنجوعہ جو کہ اس وقت پاکستان پنجاب رینجرمیں بطور سپاہی اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ ہمارے والد محمد مرتضیٰ جو پاک آرمی سے ریٹائرڈ ہیں اور روزگار کے سلسلے میں کافی عرصہ سے بیرون ملک مقیم رہے ہیں ۔ انہوں نے ہماری تربیت کچھ اس انداز سے کی کہ تینوں بھائیوں کو اپنی دھرتی سے جنون کی حد تک عشق ہے ۔شہیدبھائی راجہ راشد جنجوعہ کو بچپن سے ہی آرمی میں جانے کا شوق تھا۔ شہید راجہ راشدکو ان کا شوق 2007ء میں آرمی بھرتی سنٹر لے گیا جہاں انہوں نے ٹیسٹ دیا اوروہ کامیاب ہوگئے۔اور ٹریننگ کے لیے گلگت ٹریننگ سنٹر روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے اپنی ایک سال کی ٹریننگ مکمل کی۔ شہید کی پہلی پوسٹنگ NLIیونٹ وزیرستان میں ہوئی ۔وہ وزیرستان میں تین سال تک ڈیوٹی دیتے رہے، دوران ڈیوٹی ان سے ٹیلی فونک رابطہ بہت کم ہوپاتا تھا ۔پورا گائوں ان کے اخلاق اور شرافت کی تعریف کرتا ہے۔ وہ تین چار ماہ بعد جب چھٹی پر گھر آتے تو گھر میں عید کا سماں ہوتا، سارا گائوں (جوکہ سارا ہمارا ہی خاندان ہے) ہمارے گھر امڈ آتا ،شہید جتنے دن گائوں میں رہتے ان کی روز کسی نہ کسی عزیز کے گھر دعوت ہوتی۔ وہ انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ کھانے میں سبزیاں اور چکن پسند تھا مگر جو مل جاتا کھا لیتے ۔راجہ عامر بتاتے ہیں کہ شہید پانچ وقت کے پکے نمازی اور ایک سچے مسلمان تھے ،چھٹی پر گھر آتے تو زیادہ وقت مسجد میں گزارتے ،چلتے پھرتے قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہتے ۔شہید کی شہادت کی خواہش کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے استخارہ کروایا کہ آیا اُن کے نصیب میں شہادت ہے یانہیں ؟تو استخارے میں معلوم ہوا کہ ان کو شہادت کی موت نصیب ہوگی ۔ وہ والدہ سے بھی کہتے کہ وہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے نصیب میں شہادت لکھ دے جس پر ایک مرتبہ والدہ نے کہا کہ راشد تم کو شہادت کی اتنی خواہش ہے؟تو ایک ماں کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے لخت جگر کو شہادت کی موت نصیب فرمائے ۔اس پر شہید بھائی راجہ راشد کہنے لگے کہ انہوں نے علماء کرام سے سنا ہے کہ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریمۖ نے فرمایا :''جو شخص بھی جنت میں داخل ہوتا ہے وہ پسند نہیں کرتا کہ دوبارہ دنیا کی طرف لوٹ کر جائے حتیٰ کہ اسے دنیا کی ہر چیز دے دی جائے ،مگر شہید کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ وہ دنیا میں دوبارہ واپس لوٹ جائے اور دس مرتبہ اللہ کی راہ میں شہید کیا جائے ''(صحیح بخاری،صحیح مسلم)
اسی طرح سیدنا ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسولۖ نے فرمایا :''قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے،میری آرزو اور تمنا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید کیا جائوں ،پھر زندہ کیا جائوں ،پھر شہید کیا جائوں ،پھر زندہ کیا جائوں اور پھر شہید کیا جائوں ''(صحیح بخاری،مشکوة)شہید کے بھائی راجہ عامر بتاتے ہیں کہ شہید کو شہادت کی فضیلت کے حوالے سے متعدد احادیث اور قرآنی آیات زبانی یاد تھیں۔ گھروالے سب شہید بھائی کو شادی پر مجبور کررہے تھے،خصوصاً والدہ اور بہن تو چاہتی تھیں کہ ایک لمحہ میں بھائی کی شادی ہوجائے مگر شہید بھائی یہ بات ہر اگلی چھٹی پر ٹال دیتے مگر اس مرتبہ انہوں نے کہا کہ اگر میں اس چھٹی سے پہلے شہید نہ ہوا تو شادی کے لیے تیار ہوں،اس بات پر سب گھر والے خوش تھے،کیونکہ یہ گھر کی پہلی خوشی ہونی تھی،راشد شہیدبہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے ۔یہ طے تھا کہ اس مرتبہ چھٹی پر شہید بھائی کی منگنی یا نکاح کا پروگرام تھا، مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔شہید بھائی اس وقت لکی مروت میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے ۔ 9جون 2024ء کو ان کی گاڑی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے لیے جارہی تھی کہ دشمن کی آئی ڈی بلاسٹ ہونے کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہوگئے ،دھماکے کے بعد دہشت گردوں اور پاک فوج کے جوانوں میں فائرنگ ہوئی اور اسی فائرنگ کے دوران کچھ دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے اور باقی مارے گئے ،اس حملے میں سپاہی راشد جنجوعہ اور کچھ دیگر جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
9جون کودوپہر3بجے والد صاحب کو فون آیا کہ آپ کا بیٹا سپاہی راجہ راشد جنجوعہ ملک دشمن دہشت گردوں کے ساتھ انتہائی بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرماگئے ہیں اور شہید کے جسد خاکی کو آپ کے آبائی گائوں سمبل لایا جارہا ہے۔ والدصاحب نے یہ خبر سنتے ہی رب تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور پھر یہ خبر والدہ کو سنائی جس پر والدہ محترمہ نے کہا اے اللہ میں تیری رضا میں راضی اورخوش ہوں کہ تو نے مجھے شہید کی ماں ہونے کا اعزاز بخشا۔چند لمحوں میں یہ بات پورے گائوں میں پھیل گئی ۔سارا خاندان ہمارے گھر جمع ہوگیا،باوجود سخت گرمی کے ساری رات ہم نے جاگ کر گزاری۔ 10جون کو صبح پانچ بجے سبزہلالی پرچم میں لپٹے ہوئے اُن کے جسد خاکی کوگھر لایا گیا،یقین کیجیے کہ لوگوں نے منوں پھولوں کی پتیوں کے ساتھ شہید کا استقبال کیا ،ہر آنکھ اشک بار تھی ،پورا گائوں سوگوار تھا ۔والدہ محترمہ اور بہن نے بار بار شہید بھائی کا آخری دیدار کیا ۔شہید بھائی کے چہر ے پر انتہائی سکون اور اطمینان تھا ،یوں لگ رہا تھا کہ جیسے مسکرارہے ہوں اور ابھی اٹھ کر ہمیشہ کی طرح گلے لگ جائیں گے۔میں یہاں یہ بات کرنا چاہوں گا کہ نرم گرم بستر پر بیٹھ کر باتیں کرنا بہت آسان ہے مگر گلیشئر کی منفی کی سردی اور صحرائوں کی تپتی دھوپ میں،اپنے والدین،بیوی بچوں سے سیکڑوں میل دور سرحدوں کی حفاظت کرنا آسان کام نہیں ۔وطن کی قدر اس بوڑھے والد سے جاکر پوچھیے جس نے اپنے جوان بیٹے کے جنازے کو کندھا دیا ہے،میرے بوڑھے والدین روز شہید کو یاد کرتے ہیں۔والدہ توشہید بھائی کے لیے شادی کا جوڑا سلوا رہی تھیں،اس ماں سے جاکر پوچھیے کہ اس کے دل پر کیا گزرتی ہوگی؟آخر دن گیارہ بجے اس مقدس دھرتی کے ایک اور لعل کو سیکڑوں سوگواران کی موجودگی میں ان کے آبائی قبرستان گائوں سمبل میں سپرد خاک کردیا گیا ۔
شہید کے جنازے میں پاک فوج کے افسران ،پنجاب پولیس کے افسران سمیت دیگر سیاسی وسماجی شخصیات کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔شہیدکی تدفین پورے فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی، گارڈ آف آنرپیش کیا گیا اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔وطن کے ایک اور عاشق کی قبر پر پاکستان کاسبز ہلالی پرچم لہرادیا گیا۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اُن کی شہادت کو قبول فرمائے اور وطن پاکستان کی حفاظت فرمائے۔آمین
میری وفا کا تقاضا کہ جان نثار کروں۔۔۔اے وطن تری مٹی سے ایسا پیار کروں
مضمون نگار سماجی موضوعات پر مختلف قومی اخبارات اور رسائل میں لکھتے ہیں اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے