اسلام خیرو فلاح اور امن و رحمت کا دین ہے اور جنگ و امن ہر صورت میں ظلم و جبر کی ممانعت کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی وجہ سے جنگ کے دوران بھی عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے، بستیوں کوجلانے، یہاں تک کہ درخت کاٹنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ تمام شعبہ ہائے زندگی میں امن کا قیام اسلام کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔
امن کیا ہے؟
امن سماج کی اس کیفیت کا نام ہے جہاں تمام معاملات معمول کے ساتھ بغیر کسی پرتشدد اختلافات کے چل رہے ہوں۔ امن کا تصور کسی بھی معاشرے میں تشدد کی غیر موجودگی یا پھر صحت مند، مثبت بین الاقوامی یا بین الانسانی تعلقات سے تعبیر کیا جاتاہے۔ اس کیفیت میں معاشرے کے تمام افراد کو سماجی، معاشی مساوات اور سیاسی حقوق و تحفظ حاصل ہوتے ہیں۔
امن و امان کی اہمیت:
امن و امان کے سائے تلے ہی عبادت کالطف محسوس ہوتا ہے۔ امن کی بدولت نیند، سکون اورکھانا مزیدار اور پینا راحت جان لگتا ہے۔ امن و امان ترقیاتی جدوجہد کے ستون اور ہر معاشرے کی منزل مقصودہے۔ ہر قوم امن و امان کی آرزو اور تمنا کرتی ہے۔ اسلامی معاشروں میں تو امن و امان بنیادی تعلیمات کا حصّہ ہوتا ہے۔
اسلام میں امن و سکون کی تعلیمات:
جس معاشرہ کا شیرازہ امن بکھرتا ہے اس کی پہلی زد انسانی جان پر پڑتی ہے۔ اسلام سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی مگر اسلام نے انسانی جان کو وہ عظمت و احترام بخشا کہ ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کا قتل قرار دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مِن اجلِ ذلِک ط کتبنا علی بنِی اِسرآئِ یل انہ من قتل نفسام بِغیرِ نفس او فساد فِی الارضِ فکانما قتل الناس جمِیعا.
(المائد،) 5: 32
اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر (نازل کی گئی تورات میں یہ حکم) لکھ دیا (تھا) کہ جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی کی سزاکے بغیر ناحق قتل کر دیا تو گویا اس نے معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کرزندہ رکھا تو گویا اس نے معاشرے کے تمام لوگوں کو زندہ رکھایعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا۔
انسانی جان کی عظمت کا ایسا عالمگیر اور وسیع تصور اسلام سے قبل کسی مذہب و تحریک نے پیش نہیں کیا۔ اسی آفاقی تصور کی بنیاد پر قرآن اہلِ ایمان کو امن کا سب سے زیادہ مستحق اور علمبردار قرار دیتا ہے۔ ایک اور آیت قرآنی کامفہوم ہے کہ:
دونوں فریقوں (مسلم اور غیر مسلم)میں امن کا کون زیادہ حقدار ہے، اگر تم جانتے ہو تو بتائو جو لوگ صاحب ایمان ہیں اورجنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم و شرک کی ہر ملاوٹ سے پاک رکھا ہے، امن انہی لوگوں کے لیے ہے اور وہی حق پر بھی ہیں۔(الانعام)
اسلام قتل و خونریزی کے علاوہ فتنہ انگیزی، دہشت گردی اورجھوٹی افواہوں کی گرم بازاری کو بھی سخت ناپسند کرتا ہے اور اس کو ایک جارحانہ اور وحشیانہ عمل قرار دیتا ہے۔
امن پوری انسانیت اور ہمارے پیارے وطن کی خود مختاری اور سا لمیت کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں اس کی اہمیت مسلمہ اور تصدیق شدہ ہے۔ قرآن مجید میں اس کا عطیہ الٰہی کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اسلام میں امن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تعمیر کعبہ کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعائیں کیں ان میں سب سے پہلی دعا امن کے قیام کی تھی۔ قرآن میں اس دعا کا ذکر یوں کیا گیا:
رب اجعل ہذا البلد آمنا.
(اے میرے رب اس شہر مکہ کو امن والا بنادے۔)
اس دعا سے ابراہیم علیہ السلام کا مقصود یہ تھا کہ اے اللہ! مکہ میں امن قائم کرنے کا حکم دے دے اور مکہ کو حرم بنادے اور حدود مکہ میں قتل، خون ریزی کو خصوصیت کے ساتھ منع فرمادے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور مکہ کو حرم بنادیا حتیٰ کہ زمانہ جاہلیت میں کفار بھی مکہ مکرمہ میں باہم قتل اور خون ریزی سے باز رہتے تھے۔
دعائے ابراہیمی کی قبولیت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب ۖ کی جائے پیدائش (حرم مکہ)کو گہوارہ امن وآشتی قرار دے دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
من دخلہ کانا آمنا.
(اس کے سایہ میں داخل ہونے والا ہر شخص صاحب ایمان ہوگا۔)
احادیث مبارکہ میں بھی امن و امان کی ضرورت و اہمیت سے متعلق بے شمار ہدایات موجود ہیں۔ ارشاد نبوی ۖ ہے:
''ظلم سے بچو، اس لیے کہ ظلم قیامت کی بدترین تاریکیوں کا ایک حصہ ہے۔ نیز بخل و تنگ نظری سے بچو، اس چیز نے تم سے پہلے بہت سی قوموں کو ہلاک کردیا ہے۔ اسی مرض نے انہیں خونریزی اور حرام کوحلال جاننے پر آمادہ کیا''۔
ایک اور موقع پر آپ ۖ نے عصبیت اور تنگ نظری کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے اور جو عصبیت کی بنیاد پر قتل کرے۔
ایک اور موقع پر اہلِ معاہدہ اور کمزوروں پر ظلم کی نفی کرتے ہوئے فرمایا: ''خبردار جو کسی معاہد پر کوئی ظلم کرے گا یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا یا طاقت سے زیادہ اس پر بوجھ ڈالے گا یا اس کی مرضی کے بغیر اس سے کوئی طاقت یا جبر سے چیز حاصل کرے گا تو قیامت کے دن میں خود اس کے خلاف دعویٰ پیش کروں گا''۔
ایک اور موقع پر فرمایا کہ ''جس نے کسی معاہد (ذمی غیر مسلم)کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا''۔
اس طرح کی متعدد روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں امن کی جو تعلیمات ہیں وہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہیں جن میں ظلم و جبر سے بچنے، پرامن زندگی گزارنے، دوسروں کے حقوق کی ادائیگی، فتنہ و شر انگیزی سے اجتناب اور خیر کی اشاعت، عمل خیر میں زیادہ سے زیادہ شرکت، روئے زمین میں ایک امن پسند خوشگوار اور مثبت ماحول کی تشکیل، عام انسانوں کے ساتھ فراخدلی اور رواداری اور ہر مذہب و قوم کے مذہبی روایات و شخصیات کے احترام کی پرزور تلقین کی گئی ہے۔
آج کا جدید اور ترقی یافتہ دور جو سیاسی، سماجی، معاشی، سائنسی اور علمی میدان میں اپنی انتہائی بلندی کو چھو رہا ہے، اس دور میں بھی دنیا امن و امان کے مسئلے سے اس طرح دوچار ہے، جس طرح آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کا سماج امن اور سلامتی کے مسئلے سے دوچار تھا۔ انسانوں کی عزتیں، مال و جائیداد محفوظ نہیں ہیں۔ مذہبی اور فکری تحفظ نہیں ہے۔ آج بھی رنگ و نسل، ذات پات، وطنیت کا بھوت شیشے میں بند نہیں ہوا، اونچ نیچ کا فرق ختم نہیں ہوا۔ دنیا میں جتنے بھی نظریات آئے کسی نے انسان کے بنیادی مسائل کو حل نہیں کیا۔ لیگ آف نیشنز اور اقوام متحدہ جیسے ادارے ہونے کے باوجود امن و امان کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔
حاصل کلام:
امن و امان کا حاصل ہونا سب سے بڑی نعمت ہے ۔ایمان تب ہی سلامت رہ سکتا ہے جب شہر میں امن ہو، ملکوں میں امن امان ہو، تمام لوگوں کی جان،مال اور عزت وحرمت محفوظ ہو۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں کہ جب اندلس میں امن نہ رہا اور مسلمانوں کی جانیں عیسائی حکمرانوں کے ہاتھوں محفوظ نہ رہیں تو کتنے مسلمانوں کو قتل کردیا گیا اور کتنے مسلمان جبراً عیسائی بنادیئے گئے۔ آذان، نماز باجماعت اور دیگر اسلامی شعائر اسی وقت قائم کیے جاسکتے ہیں، جب ملک میں مسلمانوں کو امن حاصل ہو۔ بھارت کی مثال سامنے ہے۔ کتنے ہی مسلمانوں کو شدھی کردیا گیا، وہاں گائے کی قربانی نہیں کی جاسکتی۔ہمارے اجداد بتاتے ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر جو آج بھی بھارتی افواج کے تسلط میں ہے اور دنیا اسے بھارتی مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کے نام سے جانتی ہے، جب وہاں پر ڈوگرہ راجہ حکمرانی کیا کرتے تھے، وہاں کے مسلمان تب بھی عید الاضحی کے موقع پر گائے کی قربانی نہیں کرسکتے تھے۔ اب تک وہاں صورت حال جوں کی توں ہے، مسلمان بچوں کو ہندی سکولوں میں بندے ماترم کا ترانہ زبردستی پڑھنا پڑتا ہے۔مسلمانوں کی مساجد تک محفوظ نہیں ہیں اس لیے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ مسلمانوں کے ملک میں امن قائم ہو۔
یاد رکھیںکہ صحت کے حصول کے لیے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں تک پہنچنا تب ہی ممکن ہے جب ملک میں امن ہو۔ لسانی اور فرقہ وارانہ فسادات میں کتنے بچے یتیم ہوجاتے ہیں، بعض گھروں کے کفیل فسادات کی نذر ہوجاتے ہیں، جن کی وجہ سے پورا گھرانہ مصائب کا شکار ہوجاتاہے۔ مصائب و مشکلات کا سامنا صرف وہ کرتے ہیں جن کے پیارے وطن دشمن اور ان کے آلہ کارو سہولت کاروں کے ظلم وستم سے دہشت و وحشت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ غرض یہ کہ بدامنی سے دین کا بھی نقصان ہوتا ہے اور دنیا کا بھی، ہنگاموں اور بلوئوں میں وطن دشمنوں کے ہاتھوں میں دانستہ یا غیر دانستہ طور پر کھیلتے ہوئے شعور و اخلاقیات سے عاری شر پسند عناصر عام عوام میں گھس کر سرکاری و نجی املاک، ڈاکخانے اور بنک جلا دیتے ہیں، گاڑیاں جلادیتے ہیں،ٹریفک سگنل توڑ دیتے ہیں۔ یہ سب قومی اور ملی نقصان ہوتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنا سب کچھ دیکھتے بھالتے ہوئے بھی ہم میں اجتماعی سوچ نہیں رہی۔ ہم ہجوم سے قوم نہ بن سکے ۔
انبیاء کی دعائوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امن معاشرے کی تشکیل میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب معاملات کی بات ہو تو قرآن حسنِ معاشرت کی تعلیم دیتا ہے۔ انصاف کی بات ہو تو مساوات کا پیغام دیا جاتا ہے اور حقوق کی باری آئے تو قرآن کریم ہمیں لوگوں کے ساتھ نرم لہجے میں بات کرنے کا درس دیتا ہے بلکہ والدین کے سامنے اُف تک کہنے سے بھی منع کرتا ہے۔ ان تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ معاشرے میں امن و سکون انہی باتوں پر عمل کرنے سے آسکتا ہے۔ الحمدللہ پاکستان نے ہر موقع پر اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس کے پلیٹ فارم سے لے کر ہر فورم سے ہمیشہ دنیا بھر میں امن کی آواز اٹھائی اور دامے، درمے،قدمے، سخنے، دنیا میں امن وامان برقرار رکھنے لیے اپنے ہر ممکن اور دستیاب وسائل استعمال کرنے میں ہمیشہ پہل کی اور اپنی بہترین حکمت عملی سے دنیا میں امن و امان کی کوششوں کو پروان چڑھایا، جس کا ثبوت دنیا بھر میں امن مشنز، سونامی اور زلزلہ جیسی قدرتی افتاد سے نمٹنے میں مصروفِ عمل پاکستان کی مسلح افواج کے جری بہادر اور جفاکش، جوانوں، ملاحوں اور شاہینوں کی زبردست کارکردگی کا مظاہرہ ہے جسے ساری دنیا کے امن پسند حلقوں میں شاندار اور فقید المثال پذیرائی ملی اور سراہا گیا جو شاید دنیا کے کسی اور ملک اور اس کی مسلح افواج کو حاصل نہیں،یہتب ہی ممکن ہے جب عوام اور افواج ایک صفحہ پر ہوں، افواج محاذ پر دشمن سے دو دو ہاتھ کرنے میں مشغول ہوں اور عوام اپنی اخلاقی مدد اور نطم و اتفاق سے اپنی مسلح افواج کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان کی پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہوں۔
مضمون نگار عسکری، سماجی و قومی موضوعات پر لکھتے ہیں
[email protected]
تبصرے