فروری 1948 کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے اُردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا۔ اردو کو قومی زبان کا درجہ دینے کا فیصلہ ایک تاریخی سنگ میل تھا، جس نے نہ صرف ملک کی زبانوں کی تہذیبی یکجہتی کی راہ ہموار کی بلکہ اردو ادب کو ایک نئی زندگی عطا کی۔ اس فیصلے نے اردو زبان کو قومی شناخت کا ایک اہم جزو بنایا اور اس کے بعد اس کی ترویج و ترقی کے لیے مختلف سرکاری ادارے قائم کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی شعرا اور ادیبوں کی کاوشوں نے اس زبان کو عالمی سطح پر مقبولیت دلوائی۔ اردو زبان کی کے فروغ اور ترقی کے بارے میںبات کرتے ہوئے اکثر ایک اہم عنصر کو نظر انداز کردیتے ہیں اور وہ ہے موسیقی , فلم اور ڈرامہ ۔ دنیا بھر میں اردو کے فروغ میں کتاب سے زیادہ موسیقی اور فلم نے کردار ادا کیا ہے۔اس حوالے سے تاریخ ہمیشہ فلم رائیٹرز ،ڈائریکٹرز،نغمہ نگاروں اور موسیقاروں کی ممنون رہے گی۔
ان اداروں کے ساتھ ساتھ کچھ جگہوں اور بیٹھکوں نے غیر رسمی کردار ادا کیا جہاں شاعر ادیب ،محققین ،نقاد اور مفکرین کبھی ادبی اجلاس منعقد کرکے اورکبھی محفلیں سجا کر مباحث اور مذاکرے جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں سب سے نمایاں ترین نام لاہور کے پاک ٹی ہائوس کا ہے جہاں گزشتہ اسی سالوں سے یہ سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔
ابتدائی سالوں میں، اردو زبان اور ادب عربی، فارسی، اور ترکی زبانوں سے بہت زیادہ متاثر تھے، جو مغلیہ سلطنت کے دوران اس خطے میں متعارف ہوئی تھیں۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو نے اپنی ایک الگ شناخت اور اسلوب استوار کیا۔ پاکستان کے قیام کے وقت مختلف صوبوں میں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں، لیکن اردو کو قومی زبان کا درجہ دیے جانے کے پیچھے اس بات کی سوچ کارفرما تھی کہ اردو ایک ایسی زبان ہے جو پاکستان کے مختلف خطوں میں بولی جاتی ہے اور اس میں مختلف ثقافتوں کی جھلکیاں شامل ہیں۔ یقینا یہ ایک لسانی ، ثقافتی اور ادبی مرکز ثابت ہونے کی اہلیت رکھتی ہے اور پھر ہم نے دیکھا کہ اردو نے مختلف قومیتوں اور ثقافتوں کو ایک زبان کے ذریعے جوڑنے کا کام کیا۔ اس زبان نے پاکستانی معاشرت میں ہم آہنگی پیدا کی اور مختلف قوموں کی شناخت کو ایک مرکز فراہم کیا۔ بطور ایک ادیب میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ جہاں اردو نے ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں کو اعتماد بخشا وہاں سرزمین پر پہلے سے موجود لوگوں کی طرف سے اردو زبان سے وابستگی نے آپس کے سماجی اور ادبی رشتوں کو مضبوط کیا ۔ زبان و ادب کی ترویج کے لیے ،ادبی تحریکوں جن میں حلقۂ ارباب ذوق ، انجمن ترقی پسند تحریک ،نئی شاعری کی تحریک اور تخلیقیت پسند تحریک شامل ہیں،نے اردو میں سیاسی ،سماجی اور فلسفیانہ نظریات کے ساتھ ساتھ نئے رجحانات اور اصناف کو متعارف کروا کے اردو کے تخلیقی میدان کو کشادگی بخشی ۔
شعرأ اور ادیبوں کا کردار
اردو زبان کی ترقی میں شعرا اور ادیبوں کا کردار نہایت اہم ہے۔ ان تخلیقی دماغوں نے اپنی شاعری اور نثر کے ذریعے اردو زبان کو نہ صرف معاشرتی لحاظ سے اہم بنایا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی پذیرائی حاصل کی۔ کلاسیکی شعرا و ادبا کے بعد مقبول شعرا و مصنفین کا کردار اس ضمن میں بہت نمایاں ہے ۔
لاہور ہی میں الحمرا آرٹس کونسل کی طرف سے ادبی پروگراموں کے لیے مختص کی جانے والی ادبی بیٹھک بھی گزشتہ ایک دہائی سے ادبی مرکز کی شکل اختیار کر گئی ہے۔اسی طرح بزم چغتائی اور حلقہ ارباب خیال کے ساتھ ساتھ حلقہ ارباب فنون لطیفہ ایسی نمایاں ادبی تنظیمیں ہیں جن کے اجلاس باقاعدگی سے جاری و ساری ہیں جن میں مختلف شعرا، ادبا اور دانشور اکٹھا ہو کر ادب اور ثقافت کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کرتے ہیں ۔ یہاں پر ہونے والی بحثوں اور تخلیقی کاموں نے اردو زبان کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔
اردو زبان کے فروغ میں اخبارات ،مجلوں، رسالوں ،میگزینوں اور ڈائجسٹوں کا کردار بھی ناقابل فراموش ہے۔اردو کی ترویج و ترقی کے لیے حکومت پاکستان نے متعدد ادارے قائم کیے جنہوں نے اردو کے ادب کو فروغ دینے، اسے معیار کے مطابق مرتب کرنے اور اسے تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے لیے اقدامات کیے۔ ان اداروں میں اردو اکادمی، قومی زبان کا کمیشن اور دیگر ادارے شامل ہیں جنہوں نے اردو کے ادب کو مستحکم کیا اور اسے عالمی سطح پر متعارف کرایا۔ ان اداروں نے اردو ادب کے مختلف حصوں جیسے شاعری، نثراور تحقیق کے شعبے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔
اردو ڈویلپمنٹ بورڈ، جو 1954 میں قائم ہوا، اردو کی ترقی اور ترویج کے لیے کام کرنے والے اولین اداروں میں سے ایک تھا۔ بورڈ نے اردو ادب اور زبان کے فروغ کے لیے بے شمار کتابیں، جرائد اور رسائل شائع کیے ہیں۔
1976 میں قائم ہونے والا ''پاکستان اکادمی ادبیات '' ایک اور ممتاز ادارہ ہے جس نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے انتھک محنت کی ہے۔ اکادمی نے بے شمار کتابیں، جرائد اور رسائل شائع کیے ہیں اور اردو ادب کے فروغ کے لیے کتاب میلے اور کانفرنسیں بھی منعقد کی ہیں۔
جامعہ کراچی , پشاور یونیورسٹی اور جامعہ پنجاب کے شعبہ ہائے اردو زبان و ادب نے بھی اردو کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان شعبوں نے کئی نامور اسکالرز، ادیب اور محققین پیدا کیے جنہوں نے اردو ادب میں نمایاں خدمات انجام دیں۔
پاک ٹی ہائوس میں بیٹھ کر کئی اہم شاعروں اور ادیبوں نے اپنے خیالات کا پرچار کیا اور ایسے ادبی رجحانات کو پروان چڑھایا جنہوں نے اردو ادب کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ 2024میں اردو کی پہلی تنقیدی تھیوری ,"ادارکی تنقیدی دبستان"کے اجرا کا سہرا حلقہ ارباب ذوق پاک ٹی ہائوس اور پاکستان رائیٹرز یونین کے سر ہے ۔پاکستان رائیٹرز یونین گزشتہ چند سالوں سے اپنے تشکیلی مرحلے میں ہونے کے باوجود مشاعرے کے متوازی نثائرے کی رسم ڈال چکی ہے جس میں مشاعروں کی طرح نثرنگار آ کر اپنے اپنے مختصر نثر پارے پڑھتے ہیں اور داد و تحسین پاتے ہیں ۔
پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (PBC) اور پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن (PTV) نے بھی اپنے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پروگراموں کے ذریعے اردو زبان و ادب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ پی بی سی اور پی ٹی وی نے اردو زبان کے بے شمار پروگرام نشر کیے ہیں جن میں خبریں، حالات حاضرہ، ڈرامے اور ادب پر مبنی پروگرام شامل ہیں۔
مجموعی طور پر پاکستان میں اردو زبان کا ارتقا بے شمار اداروں، تنظیموں اور افراد کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے انتھک محنت کی ہے۔ آج اردو ایک بھرپور ادبی اور ثقافتی ورثے کے ساتھ فروغ پذیر زبان ہے اور یہ پاکستانی معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے جن اداروں نے بھرپور کردار ادا کیا ان میں ادارہ فروغ قومی زبان، ادارہ یادگار غالب،اردو سائنس بورڈ،اردو لغت بورڈ، انجمن ترقی اردو، انجمن ترقی اردو پاکستان، انجمن ترقی کھوار چترال، اکادمی ادبیات پاکستان، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، مجلس ترقی ادب اور اقبالیات کے تمام ادارے و ماہرین اقبالیات شامل ہیں ۔
ان اداروں کے ساتھ ساتھ کچھ جگہوں اور بیٹھکوں نے غیر رسمی کردار ادا کیا جہاں شاعر ادیب ،محققین ،نقاد اور مفکرین کبھی ادبی اجلاس منعقد کرکے اورکبھی محفلیں سجا کر مباحث اور مذاکرے جاری رکھے ہوئے ہیں جن میں سب سے نمایاں ترین نام لاہور کے پاک ٹی ہائوس کا ہے جہاں گزشتہ اسی(80) سالوں سے یہ سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا۔
یہاں آج بھی ہفتے میں چار تنظیمیں باقاعدہ ہفتہ وار ادبی اجلاس منعقد کراتی ہیں۔ لاہور ہی میں الحمرا آرٹس کونسل کی طرف سے ادبی پروگراموں کے لیے مختص کی جانے والی ادبی بیٹھک بھی گزشتہ ایک دہائی سے ادبی مرکز کی شکل اختیار کر گئی ہے۔اسی طرح بزم چغتائی اور حلقہ ارباب خیال کے ساتھ ساتھ حلقہ ارباب فنون لطیفہ ایسی نمایاں ادبی تنظیمیں ہیں جن کے اجلاس باقاعدگی سے جاری و ساری ہیں جن میں مختلف شعرا، ادبا اور دانشور اکٹھے ہو کر ادب اور ثقافت کے مختلف پہلوئوں پر گفتگو کرتے ہیں ۔ یہاں پر ہونے والی بحثوں اور تخلیقی کاموں نے اردو زبان کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ پاک ٹی ہائوس میں بیٹھ کر کئی اہم شاعروں اور ادیبوں نے اپنے خیالات کا پرچار کیا اور ایسے ادبی رجحانات کو پروان چڑھایا جنہوں نے اردو ادب کو عالمی سطح پر تسلیم کروانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ 2024میں اردو کی پہلی تنقیدی تھیوری "ادارکی تنقیدی دبستان"کے اجرا کا سہرا حلقہ ارباب ذوق پاک ٹی ہائوس اور پاکستان رائیٹرز یونین کے سر ہے ۔پاکستان رائیٹرز یونین گزشتہ چند سالوں سے اپنے تشکیلی مرحلے میں ہونے کے باوجود مشاعرے کے متوازی نثائرے کی رسم ڈال چکی ہے جس میں مشاعروں کی طرح نثرنگار آ کر اپنے اپنے مختصر نثر پارے پڑھتے ہیں اور داد و تحسین پاتے ہیں ۔
اسی طرح اسلام آباد میں بھی حلقہ ارباب ذوق ،انجمن ترقی پسند مصنفین اور انحراف جیسی ادبی تنظیمیں راولپنڈی آرٹس کونسل اور رائیٹرز ہاوس میں تسلسل سے اجلاس جاری رکھے ہوئے ہیں۔اسی طرح کراچی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کراچی شاخ، حلقہ ارباب ذوق، دانش گاہ اقبال کراچی، ادارہ فکرنو کورنگی کراچی، نظم فائونڈیشن کراچی، رائٹرز اینڈ ریڈرز کیفے، ڈاکٹر معین الدین عقیل لائبریری"برمکان"، غالب لائبریری، بیدل لائبریری، مشفق خواجہ لائبریری، ایوان جوش، جاپان کلچرل سینٹر اور اکادمی ادبیات ریزیڈنٹ آفس کراچی جیسی تنظیمیں اور مراکز اردو زبان و ادب کے چراغ روشن رکھے ہوئے ہیں ۔
پشاور میں آج بھی شاہ ولی قتال،قصہ خوانی اور ہشت نگری کے علاقوں کے قہوہ خانے تازہ دم شعرا و ادبا سے آباد ہیں۔
پشاور میں" دوستی تنظیم " کی طرف سے زبان و ادب کے فروغ کے لیے کی جانے والی سرگرمیاں بھی قابل ذکر ہیں ۔
کوئٹہ، ملتان، بہاولپور ، سرگودھا، جھنگ ،ساہیوال ،حیدرآباد ،گلگت بلتستان، چترال اور کشمیر کے علاوہ پاکستان کے طول و عرض میں ہر چھوٹے بڑے شہر میں اردو زبان و ادب کی رونقیں برپا ہیں ۔
اس ضمن میں ریاست پاکستان کی طرف سے ادبی کارکردگی پر دئیے جانے والے اعزازات بھی حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کا شاندار تسلسل ہیں ۔یوں پاکستان میں اردو زبان کی ترویج اور ترقی کا عمل جاری و ساری ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ جدید دور میں اردو کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور اس زبان کو ڈیجیٹل دنیا میں بھی اہمیت دی جا رہی ہے۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور ای کتابوں کے ذریعے اردو ادب کو عالمی سطح پر مزید فروغ مل رہا ہے۔
مگر پھربھی زبان ادب اور ثقافت معاشروں کے مزاج کی تشکیل کا بنیادی ذریعہ ہونے کے باعث روزانہ کی بنیاد پر توجہ اور کوشش کے متقاضی ہوا کرتے ہیں۔زبان تجارت لے لیے بھی حد درجہ اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہے ۔اردو زبان کی ترقی کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ یہ اپنے تمام شعبوں میں مزید فروغ پا سکے۔
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف اور تجزیہ کار ہیں
[email protected]
تبصرے