پاکستان کے لیے کشمیر کی سب سے بڑی اہمیت سیاسی اہمیت ہے۔ ریڈکلف ایوارڈ کی رو سے کشمیر کا پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کشمیری عوام کی آزادانہ رائے پر موقوف تھا اور چوں کہ کشمیر کی 95فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی اور وہ لوگ بھی یعنی کشمیری مسلمان بھی اسلامی نظام زندگی کے اتنے ہی دلدادہ اور آرزومند تھے جتنا کہ خود ہندوستانی مسلمان۔ اس لیے یہ امر یقینی تھا کہ کشمیر کا الحاق وقت آنے پر پاکستان کے ساتھ ہی ہو گا۔ مگر بھارتی حکومت نے اپنی مکارانہ حکمت عملی سے اہل کشمیرکو حق خود ارادیت سے زبردستی محروم کر کے فوجی طاقت کے بل بوتے پر لارڈ مائونٹ بیٹن کی سازش سے اور مہاراجہ کشمیر کو بزور شمشیر مجبو رکر کے 28اکتوبر1947ء کو ریاست پر قبضہ کر لیا اور اس کے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور کشمیری مسلمانوں پر ظلم و تشدد کے اس دور کا آغاز کیا جو آج تک ختم نہیں ہوا۔
یہ ظلم و تشدد' پاکستان کی ساکھ' پاکستان کے وقار' پاکستان کی عظمت اور پاکستان کے مستقبل کے لیے ایک کھلا چیلنج تھا۔ چنانچہ اس کا ردعمل قدرتی طور پر بہت شدید ہوا۔ سرحد کے غیور اور سرفروش مجاہدین اپنے کشمیری بھائیوں کی امداد اور ان کی بقاء کے تحفظ کے لیے پہنچ گئے اور قریب تھا کہ بھارتی گیدڑ اِن شیروں کی گرج سے ہمیشہ کے لیے اس سرزمین سے بھاگ جاتے کہ جنوری1948ء میں شکست کے خوف سے مجبور ہو کر بھارت نے یہ معاملہ مجلس اقوام متحدہ کے سامنے پیش کر دیا حتیٰ کہ کشمیر عارضی یو این او کے تجویز کردہ خط متارکہ جنگ سے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا اور اب تک یہ معاملہ جوں کا توں ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور ناعاقبت اندیشی اس اہم مسئلہ کے منصفانہ حل میں آج تک حائل رہی ہے اور یہ ایسی چنگاری ہے جو کسی وقت بھی شعلہ جوالہ بن کر نہ صرف بھارت اور پاکستان بلکہ دنیا کے خرمن امن کو خاکستر بنا سکتی ہے۔
بھارت کشمیر کے دونوں اطراف اپنے قدم جمانے کی کوشش میں ہے لیکن اُسے کسی طور بھی کامیابی کا چہرہ نظر نہیں آرہا۔ حالیہ (2025ئ)صورت حال میں' کشمیر بنے گا پاکستان 'کا نعرہ تقویت حاصل کر رہا ہے ۔ شہداء کشمیر کو پاکستانی پرچم میں سپردِ خاک کرنے کا مطلب کشمیریوں کی پاکستانیوں سے محبت کا اظہار ہے ۔ بھارت کی جعلسازیوں اور ظلم و تشدد کے باوجود اہلِ کشمیر '' پاکستان زندہ باد '' کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔
مجلس اقوام متحدہ نے اس سلسلہ میں کیا کیا اور کہاں تک وہ کامیاب ہوئی۔ مجلس مذکور کے تمام فیصلوں کو بھارت نے تسلیم کرنے اور بالخصوص استصواب رائے کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے سے بڑی ڈھٹائی سے انکار کر کے اپنی روایتی تنگ نظری اور تعصب کا ثبوت دیا ہے اور اس کے اس طرز عمل نے دنیا بھر کے انصاف پسند اور امن پسند ملکوں کو اس سے بدظن کر دیا۔بھارت نے پاکستان اور چین کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن اُسے کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔1964ء میں پاکستانی صدر محمد ایوب خان ،بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اورکشمیری رہنما شیخ عبداللہ مذاکرات کی ٹیبل پر آرہے تھے کہ جواہر لال نہرو کی اچانک موت سے یہ مذاکرات کامیاب نہ ہو سکے۔1965ئ، 1971ء اور کارگل معرکوں میں بھارت کا گھنائونا چہرہ دنیا کے سامنے ہے ۔ بھارت کشمیر کے دونوں اطراف سازشوں میں مصروف ہے ۔1999ء کے بعد لائن آف کنٹرول پر وقفے وقفے سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارتی سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں پاکستان صدائے احتجاج بلند کرتا رہا ہے ۔ 2001ء میں صدر جنرل پرویز مشرف نے آگرہ سربراہی اجلاس کے لیے بھارت کا دورہ کیا اور مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کے لیے چار نکاتی منصوبہ پیش کیالیکن بھارت نے اسے مسترد کر دیا۔ بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کشمیر بھی اُن سے نالاں ہے ۔5اگست 2019 ء میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان وزیر اعظم نریندرمودی کی پست ذہنیت کا ثبوت ہے ۔ اس آرٹیکل سے خطے کی آزادانہ حیثیت کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ دسمبر2023ء میں بھارتی سپریم کورٹ میں اس آرٹیکل کے خلاف کچھ نرم گوشے سامنے آرہے تھے۔ نریندرمودی نے صوبے میں 18 ستمبر 2024ء کو الیکشن کروانے کا اعلان بھی کیا تاکہ عوام الناس کی توجہ کشمیر سے ہٹ سکے۔ بھارت نے پاکستان کی لائن آف کنٹرول پر فوجیں جمع کرنے اور ہٹانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پوری دنیا نے بھارت کے اس قدم کو دفاعی اُصولوں کے خلاف قرار دیا۔ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کا طیارہ مار گرا کر پاکستانی ہوا بازوں نے اپنی مہارت کا ثبوت دیا۔ پاکستان نے انسانی ہمدردی کے تحت ابھی نندن کو بڑی حفاظت سے بھارت کے سپرد کر دیا۔ پاکستان کی اُصول پسندی کو دنیا بھر میں سراہا گیا۔ بھارت کشمیر کے دونوں اطراف اپنے قدم جمانے کی کوشش میں ہے لیکن اُسے کسی طور بھی کامیابی کا چہرہ نظر نہیں آرہا۔ حالیہ (2025ئ)صورت حال میں' کشمیر بنے گا پاکستان 'کا نعرہ تقویت حاصل کر رہا ہے ۔ شہداء کشمیر کو پاکستانی پرچم میں سپردِ خاک کرنے کا مطلب کشمیریوں کی پاکستانیوں سے محبت کا اظہار ہے ۔ بھارت کی جعلسازیوں اور ظلم و تشدد کے باوجود اہلِ کشمیر '' پاکستان زندہ باد '' کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔
اب صورت حال یہ ہے کہ جب تک ہم یعنی اہل پاکستان اپنے تقریباً پنتالیس لاکھ مظلوم کشمیری بھائیوں کے لیے حق خود ارادیت حاصل نہیں کر لیتے۔ اس وقت تک ہم سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ ہم اپنے بستروں پر چین کی نیند سوئیں۔ حصول پاکستان کی کوشش میں ہمارے کشمیری بھائیوں نے ہمارے دوش بدوش مساوی طور پر حصہ لیا تھا۔ اب ہم اس قدر بے وفا ثابت نہیں ہو سکتے کہ انہیں فراموش کر دیں اور ان کو بھارت کی لادینی حکومت کے حوالے کر دیں جب کہ ہم خود پاکستان میں اسلامی نظام حیات کی گوناگوں برکتوں سے مالا مال ہونے کی توقع کر رہے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ معاشی اعتبار سے یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہو گا کہ کشمیر پاکستان کا دل ہے بلکہ اس کی روح ہے۔ ان حالات میں پاکستان سے اس کا الحاق بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ دونوں اطراف کے کشمیری شہری دل سے پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں کہ جیسے تیسے بھی پاکستان نے جس قدر ممکن ہوا ہے کشمیریوں کے لیے آواز اُٹھائی ہے۔ 13جولائی 1931ء کے بعد 14 اگست 1947ء اور اب ہم2025ء میں داخل ہو چکے ہیں۔ بھارتی حکومت نے پاکستان کی آزادی کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ ہمیشہ دستِ تعاون دراز کیالیکن بھارت نے انسان دوستی کا کوئی مظاہرہ نہ کیا۔ تشدد کی عمر زیادہ نہیں ہوتی۔ بھارت کے اندرونی حالات نا گفتہ بہ ہوتے جارہے ہیں۔ جموںو کشمیر میں فوج کے اخراجات کی وجہ سے بھارت اپنے ہی چنگل میں پھنستا جا رہا ہے ۔ مختلف محاذوں پر جموں و کشمیر کے عوام بھارتی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کررہے ہیں۔ بھارت کے تعمیراتی منصوبہ جات اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ریت کی دیوار ثابت ہو رہے ہیں۔ پاکستانی عوام 31 جولائی ،27 اکتوبر ،5 اگست اور 5 فروری کو ہر سال اہلِ کشمیر سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ محبت رنگ لائے گی۔ بھارت کو ناکامی کا سامنا کرنا ہو گا اور کشمیر کاایک دن پاکستان کے ساتھ الحاق مکمل ہوگا اور کشمیر بنے گا پاکستان کا دیرینہ خواب بھی پورا ہوگا۔
تعارف: مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے