سال 2024 ء جموں وکشمیر کی تاریخ میں سیاسی تبدیلیوں کا سال قرار دیا جا رہا ہے۔اگرچہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ برس بہت سی تبدیلیاں دیکھی گئیں۔ گورنر راج کا خاتمہ ہوا، ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہوئے، جموں وکشمیر کی نئی حکومت بنی، الیکشن میں بڑے اپ سیٹ بھی دیکھے گئے۔ تاہم کشمیری حریت پسندوں کے لیے یہ سال ماضی سے مختلف نہیں تھا۔ حریت قیادت تاحال جیلوں میں قید ہے۔ میڈیا بدترین سنسر شپ کی زد میں ہے۔ سرچ آپریشن کے نام پرکشمیریوں کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ نوجوانوں کی گرفتاریاں اور قتل کے واقعات کا تسلسل جاری ہے۔ گویا کہ سال کا بدلنا آزادی پسندوں کے لیے محض ہندسے کا بدلنا ہے۔ اس میں نیا کچھ نہیں ہے۔ذیل میں ایک نظر ان واقعات پر ڈالتے ہیں جو مقبوضہ جموں و کشمیر میں گزشتہ سال کے دوران رونما ہوئے۔
المیہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں، جن میں کشمیری عوام کو ان کے حقِ خودارادیت کی ضمانت دی گئی تھی، ابھی تک عمل درآمد سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹس میں کشمیر میں ہونے والی خلاف ورزیوں کو تسلیم کیا ہے، لیکن اس کے باوجود بھارت پر دبائو ڈالنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
سال 2024 کے آغاز میں ہی جموں و کشمیر کی پانچ لوک سبھا نشستوں کے لیے انتخابات کا اعلان ہوا، جس کے ساتھ ہی وادی کشمیر اور جموں کے مختلف علاقوں میں سیاسی سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں ۔19 اپریل سے 20 مئی تک پانچ مرحلوں پر محیط ان انتخابات میں بڑے اپ سیٹ دیکھے گئے۔ بارہ مولہ نشست پر انجینئر رشید نے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ اور پیپلز کانفرنس کے صدر سجاد لون کو بھاری مارجن سے شکست دی۔ ان انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور بی جے پی نے دو دو سیٹیں جبکہ عوامی اتحاد پارٹی نے ایک سیٹ حاصل کی۔ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی کو سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
لوک سبھا انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ایک دہائی کے بعد جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا اعلان کیا۔ 90 نشستوں پر مشتمل اسمبلی کے انتخابات تین مرحلوں میں 18 ستمبر، 25 ستمبر اور یکم اکتوبر کو منعقد ہوئے۔ ان انتخابات کے نتائج 8 اکتوبر کو جاری ہوئے، جن میں نیشنل کانفرنس نے 42 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی نے 29کانگریس نے 6 اور پی ڈی پی نے صرف 3 نشستیں حاصل کیں۔ دیگر جماعتوں اور آزاد امیدواروں نے مجموعی طور پر 10 نشستیں حاصل کیں۔
انتخابات کے نتیجے میں16اکتوبر کو نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ ان کی کابینہ نے ریاستی درجے کی بحالی کے لیے قرارداد پیش کی، جو 4 نومبر کو اسمبلی کے پہلے اجلاس میں منظور کی گئی۔تاہم، فی الحال ریاستی درجے کی بحالی کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں ان سیاسی تبدیلیوں کو انڈیا کشمیر کے بدلتے تناظر میں پیش کرتا ہے۔ لیکن سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ یونین ٹریٹری کی عوامی حکومت اختیارات کے لحاظ سے کمزورہے۔کشمیری تاحال پابندیوں کے زیر اثر زندگی گزار رہے ہیں۔ عوام محدود سیاسی آزادی رکھتے ہیں، باوجود اس بات کے کہ انڈیا دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انتخابی سیاست پر یقین رکھنے والی جماعتوں کا اعتماد تاحال بحال نہیں ہوا۔ ان کے نزدیک ریاستی درجے کی بحالی اور عوامی حکومت کے اختیارات میں اضافہ جیسے اہم مسائل ابھی باقی ہیں، جن کے لیے مزید سیاسی کوششوں کی ضرورت ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں ان سیاسی تبدیلیوں کو انڈیا کشمیر کے بدلتے تناظر میں پیش کرتا ہے۔ لیکن سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ یونین ٹریٹری کی عوامی حکومت اختیارات کے لحاظ سے کمزورہے۔کشمیری تاحال پابندیوں کے زیر اثر زندگی گزار رہے ہیں۔ عوام محدود سیاسی آزادی رکھتے ہیں، باوجود اس بات کے کہ انڈیا دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انتخابی سیاست پر یقین رکھنے والی جماعتوں کا اعتماد تاحال بحال نہیں ہوا۔ ان کے نزدیک ریاستی درجے کی بحالی اور عوامی حکومت کے اختیارات میں اضافہ جیسے اہم مسائل ابھی باقی ہیں، جن کے لیے مزید سیاسی کوششوں کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب حق خود ارادیت کے نظریے پر کاربند سیاسی جماعتیں یا تو پابندیوں کی زد میں ہیں یا پھر ان کی قیادت ریاست سے باہر انڈیا کی جیلوں میں قید ہے۔اس بنا پرسال 2024 حریت پسندوں کے لیے بہت سی رکاوٹوں کے ساتھ ایک مشکل سال ثابت ہوا۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سیاسی گرفتاریوں، شہری آزادیوں پر قدغن اور اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ سرچ آپریشن کے نام پر نہ صرف املاک کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ عام شہریوں کو ہراساں بھی کیا گیا۔ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق سکیورٹی فورسز کی جانب سے حراستی تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا، جس نے مقامی آبادی میں خوف و ہراس پیدا کیا ہے۔ان واقعات نے کشمیر کے سماجی ڈھانچے کو مزید کمزور کیا اور متاثرہ خاندانوں کو شدید نفسیاتی دبائو میں مبتلا کر دیا۔
اسی طرح میڈیا اور صحافیوں کے خلاف کریک ڈائون نے مقبوضہ وادی میں آزادی اظہار کے حق کو مزید محدود کر دیا۔ صحافیوں کو گرفتار کرنا، ان کی رپورٹوں پر پوچھ گچھ کرنا اور دھمکانا معمول بن چکا ہے۔ جب کہ انٹرنیٹ کی بار بار بندش اور مواصلاتی نظام میں رکاوٹوں نے سماجی، معاشی و تعلیمی طور پر بھی کشمیریوں کو متاثر کیا ہے۔
جموں وکشمیر کے وہ حریت پسند رہنما جو گزشتہ ایک عرصہ سے سیاسی بنیادوں پر قید ہیں، ان کی فہرست بھی طویل ہے۔کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، محمد یاسین ملک، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین، فہمیدہ صوفی، نعیم احمد خان، محمد ایاز اکبر، پیر سیف اللہ، معراج الدین کلوال، فاروق احمد ڈار ،شاہد الاسلام، ڈاکٹر حمید فیاض، ایڈووکیٹ زاہد علی، ایڈووکیٹ میاں عبدالقیوم، مشتاق الاسلام، محمد یوسف میر، محمد رفیق گنائی اور ڈاکٹر محمد قاسم فکتو سالِ رفتہ میں بھی گزشتہ برسوں کی طرح قید رہے۔ ان کی مشکلات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی حریت قیادت کی حالت زار، بھارتی حکومت کی سخت گیر پالیسیوں اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی عکاسی کرتی ہے۔ مسرت عالم بٹ، جنہیں کشمیری حریت پسند سید علی گیلانی کا جانشین اورتحریکِ آزادی کا استعارہ مانتے ہیں، کئی دہائیوں سے قید میں ہیں۔ ان پر متعدد مقدمات درج کیے گئے ہیں، جو زیادہ تر سیاسی انتقام کے زمرے میں آتے ہیں۔
دوسری جانب حق خود ارادیت کے نظریے پر کاربند سیاسی جماعتیں یا تو پابندیوں کی زد میں ہیں یا پھر ان کی قیادت ریاست سے باہر انڈیا کی جیلوں میں قید ہے۔اس بنا پرسال 2024 حریت پسندوں کے لیے بہت سی رکاوٹوں کے ساتھ ایک مشکل سال ثابت ہوا۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ سیاسی گرفتاریوں، شہری آزادیوں پر قدغن اور اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ سرچ آپریشن کے نام پر نہ صرف املاک کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ عام شہریوں کو ہراساں بھی کیا گیا۔
اسی طرح خواتین کی حریت قیادت میں آسیہ اندرابی ایک نمایاں نام ہیں، جودخترانِ ملت کی بانی ہیں۔ وہ ایک عرصے سے جیل میں ہیں اور ان پر دہشت گردی کی اعانت جیسے بے بنیادالزامات عائد کیے گئے ہیں۔ آسیہ اندرابی کی گرفتاری نہ صرف ایک عورت کے حقوق کی پامالی ہے بلکہ کشمیری خواتین کی مجموعی جدوجہد کو دبانے کی کوشش بھی ہے۔آسیہ اندرابی کی صحت مسلسل بگڑ رہی ہے، لیکن بھارتی حکومت ان کے علاج میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
کشمیری حریت پسندوں کی فہرست میں ایک اہم نام شبیر احمد شاہ کا بھی ہے، جنہیں کشمیر کے نیلسن منڈیلا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کا بڑا حصہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے ہوئے گزار چکے ہیں۔ ان کی قید کا مقصد ان کی سیاسی سرگرمیوں کو ختم کرنا ہے، لیکن ان کا عزم اور حوصلہ تاحال بلند ہے۔
کشمیری حریت پسند نوجوانوں میں یاسین ملک ایک اہم کردار کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف)کے سربراہ ہیں۔ امن کے داعی ہونے کے باوجود بھارتی حکومت کے نشانے پر ہیں۔انہوں نے 1990کی دہائی میں مسلح جدوجہد کا راستہ ترک کیا، لیکن حق خود ارادیت کے مطالبے سے پیچھے نہ ہٹنے پر بی جے پی کی حکومت نے ان پر تیس سال پرانے مقدمات دوبارہ بحال کیے اور انہیں دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں قید کیا گیا۔ یاسین ملک کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی وکالت کرتے ہیں۔یاسین ملک کو جیل میں طبی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہیں، جس کی وجہ سے ان کی صحت انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کر رہی ہیں، لیکن بھارتی حکومت ان کی آواز کو دبانے کے لیے ہر اقدام درست سمجھتی ہے۔
ان حالات کے باوجود عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی خاموشی اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیموں نے حقوقِ انسانی کی ان خلاف ورزیوں پر آواز اٹھائی ہے، لیکن عالمی برادری کی طرف سے مسلسل خاموشی نظر آتی ہے۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عالمی طاقتیں اس مسئلے کو محض بیانات اور رپورٹس تک محدود رکھتی ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں، جن میں کشمیری عوام کو ان کے حقِ خودارادیت کی ضمانت دی گئی تھی، ابھی تک عمل درآمد سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹس میں کشمیر میں ہونے والی خلاف ورزیوں کو تسلیم کیا ہے، لیکن اس کے باوجود بھارت پر دبا ڈالنے کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
اسی طرح امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی طاقتیں انسانی حقوق کے تحفظ کی دعویدار ہونے کے باوجود مسئلہ کشمیر پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اس خاموشی کی بڑی وجہ ان ممالک کے بھارت کے ساتھ معاشی اور اسٹریٹیجک مفادات ہیں۔ بھارت ایک بڑی منڈی اور خطے میں اہم اسٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس کی وجہ سے کشمیری عوام کی مشکلات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب بدقسمتی سے مسلم دنیا بھی مسئلہ کشمیر پر مغربی طاقتوں کی پیروی کر رہی ہے۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم (OIC) جیسے پلیٹ فارم پر بیانات تو دیے جاتے ہیں، لیکن عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ کچھ مسلم ممالک نے بھارت کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو ترجیح دی ہے جس کی وجہ سے کشمیری عوام کے حق خود ارادیت پر ان کی جانب سے خاموشی نظر آتی ہے۔
موجودہ حالات میں عالمی میڈیا نے بھی مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کیا ہے۔ اگرچہ کچھ بین الاقوامی نیوز ایجنسیوں نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں کو رپورٹ کیا ہے، لیکن ان کی کوریج اکثر محدود رہی ہے۔مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے عالمی برادری کو اپنی خاموشی توڑنا ہوگی اور بھارت پر دبائو ڈالنا ہوگا تاکہ وہ انسانی حقوق کی پامالیوں کو بند کرے۔ اقوام متحدہ کو اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ پاکستان کو بھی بین الاقوامی سطح پر اپنی لابنگ کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ عالمی رائے عامہ کو کشمیری عوام کے حق میں ہموار کیا جا سکے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور عالمی برادری کی خاموشی ایک المیہ ہے جو فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ کشمیری عوام دہائیوں سے اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی آوازیں عالمی سطح پر دب گئی ہیں۔ اگر عالمی برادری نے اس خاموشی کو جاری رکھا تو یہ نہ صرف کشمیری عوام کے لیے بلکہ عالمی انسانی حقوق کے نظام کے لیے بھی ایک بڑی ناکامی ثابت ہوگی۔
مضمون نگار محقق، مصنف اور صحافی ہیں، جامعہ کراچی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
[email protected]
تبصرے