٭مقبوضہ کشمیر میں بی جے پی کی ہندوتوا پالیسی کی مکمل ناکامی۔
٭بی جے پی اوراس کے اتحادیوں کاہندووزیراعلیٰ لانے کاخواب پورا نہ ہوسکا۔
٭کشمیری عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں،انہوں نے مودی کابیانیہ مسترد کردیا۔
٭کشمیری عوام کامطالبہ ہے کہ انکی اندرونی خود مختاری کے خلاف فیصلہ واپس لیاجائے اورآرٹیکل 370 کوبحال کیاجائے۔
٭مودی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب بگاڑنے اور مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے صیہونی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔
٭معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزارکوگرانے کے لیے ہندوشدت پسندتنظیم ہندوسینا نے مقامی عدالت میں مقدمہ دائر کردیاہے کہ یہاں پہلے شیوکامندرتھا اس لیے درگاہ کوگراکریہاں مندربنایاجائے،مسلمانوں میں اس پرشدیدغم وغصہ پایاجاتاہے ۔ہندوتنظیموں نے مساجد اوردرگاہوں کوشہید کرنے کا کام مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھی شروع کردیاہے۔
مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالے انتخابات سے قبل اوربعد میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اوربہت سی انسانی حقوق کی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر کی خراب صورتحال اورخلاف ورزیوں پرتشویش کااظہارکرچکی ہیں۔ گھروں میں چھاپے،تلاشیاں،مارپیٹ اورشک کی بنیاد پربے گناہ کشمیری نوجوانوں کااغوا معمول کی بات ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریت کواقلیت میں تبدیل کرنے کاطریقہ بھارت نے اسرائیل سے سیکھاہے،جس طرح اسرائیل غزہ میں ظلم ڈھا رہاہے بالکل اسی طرح بھارت مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پرظلم کے پہاڑ توڑرہاہے۔کشمیریوں پرجوظلم ہورہاہے یہ آتش فشاں کسی وقت بھی پھٹ سکتاہے۔
مقبوضہ کشمیرمیں جب بھی انتخابات کاڈھونگ رچایاگیا ،کشمیری عوام نے بھارتی اقدامات کے خلاف فیصلہ سنایا ۔ان کابنیادی مطالبہ ایک ہی ہے کہ انہیں حق دیاجائے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کافیصلہ کرسکیں۔کشمیریوں کی اکثریت آج بھی پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی ہے۔ کشمیری عوام نے بھارتی وزیراعظم مودی اور بھارتیہ جنتاپارٹی کی ہندوتواپالیسی کو مکمل طورپرمسترد کردیاہے۔ایک طرف توکشمیریوں کی ایک بڑی تعداد ان انتخابات سے لاتعلق رہی اوردوسری طرف جن لوگوں نے مجبوراً یادباؤ کے تحت ووٹ کااستعمال کیا،انہوں نے بھی بی جے پی کی ہندو توا پالیسی کے خلاف ووٹ دیا۔ کشمیریوں نے ان انتخابات میں پانچ اگست 2019 کی اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے فیصلے کومکمل طورپرمسترد کردیا۔ انہوں نے دنیا کوبتادیاکہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی وزیراعظم مودی کی پالیسیاں قبول نہیں اوروہ کشمیر کی آزادی چاہتے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے والی مودی مخالف جماعتوں کاوعدہ تھا کہ وہ آرٹیکل 370 بحال کرائیں گی۔مقبوضہ کشمیر کی نئی قانون ساز اسمبلی نے 6 نومبر2024کوکثرت رائے سے منظورکردہ ایک قرارداد کے ذریعے وزیراعظم نریندرمودی سے مطالبہ کیاکہ 2019 میں یکطرفہ طورپرمنسوخ کی گئی مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت کوبحال کیاجائے۔نئی دلی سرکارنے کشمیریوں کامطالبہ ماننے سے انکارکردیاہے۔جس پرمقبوضہ کشمیر میں احتجاج بھی کیاگیا۔مقبوضہ کشمیر کی نئی حکومت بھی کشمیریوں کودرپیش مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہورہی ہے۔کشمیریوں کو سرکاری نوکریوں سے نکالاجارہاہے،کاروباربند ہورہے ہیں،کشمیری اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ آجابھی نہیں سکتے۔بھارتی فوج اورسکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں نے انکی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔نئی حکومت آنے کے باوجود مسائل جوں کے توں ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام کاکہناہے کہ وہ ایک لاکھ سے زیادہ اپنے کشمیری شہدا کے خون سے غداری نہیں کرسکتے۔بھارتی فوج کے ظلم وتشدد کانشانہ بننے والے نوجوانوں اوربزرگوں نے ان کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ کشمیریوں نے ان لوگوں کوبھی مسترد کردیا جنہوں نے کشمیر کے شہدا کے خون سے غداری کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لیا۔ کشمیری عوام کی رائے بہت واضح ہے۔وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط کسی صورت قبول کرنے کے لیے تیارنہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماء اورا ن کے اتحادی دعویٰ کررہے تھے کہ اس بار ہندووزیراعلیٰ آئے گا۔ لیکن ان کایہ خواب پورا نہ ہوسکا۔ دلی سرکارنے مقبوضہ کشمیر میں اہم پوسٹوں پربڑی تعداد میں غیرکشمیریوں کوتعینات کیاہواہے جومقامی مسائل سے آگاہ ہی نہیں۔اس سے کشمیریوں میں جذبہ آزادی مزید پروان چڑھا ہے۔ بھارتی حکومت ان سے وہی سلوک کررہی ہے جوانگریزہندوستان سے روا رکھتے تھے۔ نئی دلّی میں بیٹھے ہوئے افسر انہیں اپناغلام سمجھتے ہیں۔مقبوضہ کشمیرکی حکومت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کراناچاہتی ہے لیکن بے بس نظر آرہی ہے۔یہ ان کے لیے بڑاامتحان ہے،مودی سرکار ان کی کوئی بات سننے کوتیارہی نہیں۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ نام نہاد انتخابات دس سالہ گورنرراج کے بعد منعقد کیے گئے تھے۔مقبوضہ کشمیر میں 18ستمبرسے یکم اکتوبر2024تک تین مراحل میں ووٹنگ ہوئی تھی۔جس میں عوام نے تمام ترحربوں کے باوجود مودی کاایجنڈا مسترد کردیا۔اسے بی جے پی کی شرمناک شکست قراردیاجاسکتاہے۔کشمیری عوام نے مودی کاایجنڈا اپنے جوتے کی نوک پررکھا۔الیکشن میں کامیابی کے لیے مودی حکومت نے اپنی مرضی کی انتخابی حلقہ بندیاں بھی کیں تاکہ مسلمانوں کی نمائندگی کو کم کیا جاسکے اور خطے کا سیاسی توازن ہندوؤں کے حق میں کیا جاسکے،لیکن پھربھی کامیابی نہ ملی۔
اقوام متحدہ اور دنیا کی بڑی طاقتوں کوچاہیے کہ وہ بھارت کو خطے میں عدم استحکام کو مزید بڑھانے سے روکیں۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں غیرقانونی اقدامات کررہاہے جواقوام متحدہ کی قراردادوں کے بھی خلاف ہیں۔ نئی دہلی کے زیر کنٹرول قابض انتظامیہ کی طرف سے لاکھوں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل جاری کیے جاچکے ہیں اورغیرمسلموں کو کشمیر کی شہریت دینے کاسلسلہ جاری ہے۔ مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر کو آباد کاروں کی کالونی میں تبدیل کرنا ہے۔
مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیرکے گورنر کے اختیارات میں مزید توسیع کردی ہے، امن و قانون، مالیات، اور دوسرے اہم معاملات میں تمام اختیارات گورنرکے سپرد کردیے گئے ہیں ۔گورنرکے ان اختیارات نے مقبوضہ جموں وکشمیر کی نئی حکومت کو ایک ٹائون کمیٹی جیسا بنا دیاہے،جس کے پاس کوئی اختیارنہیں۔وزیراعلیٰ صرف اُسی فائل پر دستخط کرسکے گا جسے گورنر ہاؤس سے گرین سگنل ملے گا۔ حد تو یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی حکومت اپنے اجلاس کاایجنڈا بھی خود نہیں بناسکے گی۔اسے اجلاس سے دو دن پہلے ایجنڈا منظوری کے لیے گورنر ہائوس بھیجنا ہوگا۔ اسی طرح پولیس محکمے کی کمان براہ راست نئی دِلّی کے پاس رہے گی۔اس سے صاف ظاہرہے کہ بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کے کسی بھی شخص پراعتماد کرنے کوتیارنہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں ہونیوالے انتخابات سے قبل اوربعد میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اوربہت سی انسانی حقوق کی تنظیمیں مقبوضہ کشمیر کی خراب صورتحال اورخلاف ورزیوں پرتشویش کااظہارکرچکی ہیں۔ گھروں میں چھاپے،تلاشیاں،مارپیٹ اورشک کی بنیاد پربے گناہ کشمیری نوجوانوں کااغوا معمول کی بات ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریت کواقلیت میں تبدیل کرنے کاطریقہ بھارت نے اسرائیل سے سیکھاہے،جس طرح اسرائیل غزہ میں ظلم ڈھا رہاہے بالکل اسی طرح بھارت مقبوضہ کشمیر کے لوگوں پرظلم کے پہاڑ توڑرہاہے۔کشمیریوں پرجوظلم ہورہاہے یہ آتش فشاں کسی وقت بھی پھٹ سکتاہے۔
دوسری طرف بھارتی حکومت مسلسل کشمیری ثقافت اور شناخت پر حملے کررہی ہے۔ ہندوتوا نظریات کوسرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے فروغ دیاجارہاہے۔صورتحال یہ ہے کہ کلگام سمیت بہت سے علاقوں میں طلبہ وطالبات کو قرآن پاک کی تلاوت کی بجائے بھجن گانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک مسلمان طالب علم کی بھجن گانے کی ویڈیو وائرل ہوئی جس پر مسلم تنظیموں نے سخت احتجاج کیا۔یہ دراصل خطے کی مسلم شناخت کومٹانے کی کوشش ہے۔جن علماء نے احتجاج کیا ان کے گھروں پرحملے کیے گئے، پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت مقدمات بنائے گئے اورکئی علماء کوگرفتارکرلیاگیا۔ مقبوضہ کشمیرمیں مسلم شناخت کے جوعلاقے ہیں جیسے سری نگرکی تاریخی عیدگاہ، اب یہ بی جے پی اورانتہاپسند ہندوتنظیموں کے کنٹرول میں ہے۔ کئی درگاہوں اورمزارات کوبند کردیاگیاہے،تاکہ کشمیری مسلمان ایک دوسرے سے کم سے کم رابطہ رکھ سکیں،مساجد کوتالے لگائے جارہے ہیں۔کہیں بجلی چوری کاجھوٹاالزام لگادیاجاتاہے اورکہیں یہ کہاجاتاہے کہ مسجد بغیراجازت بنائی گئی ہے۔دوسری طرف جہاں چند ہندو بھی آباد ہیں وہاں تیزی سے مندر بنائے جارہے ہیں۔مقصد ایک ہی ہے کہ کشمیر کی مسلم شناخت ختم کرنا۔مودی سرکار نے ایک ضرب زبان پربھی لگائی ہے۔اُردو تقسیم ہند سے قبل جموں وکشمیر کی سرکاری زبان تھی،انگریزوں نے بھی اسے تسلیم کیاتھا اورکوئی رکاوٹ نہیں ڈالی لیکن مودی نے اردو زبان کی یہ سرکاری حیثیت بھی ختم کردی۔ اردو اورانگلش کے علاوہ ہندی اوربعض دوسری زبانوں کوجموں وکشمیر کی سرکای زبان قراردے دیاگیاہے۔ان حرکتوں نے کشمیریوں کااحساس محرومی مزید بڑھادیاہے۔ پورا مقبوضہ کشمیر اس وقت ایک جیل کامنظرپیش کررہاہے،جگہ جگہ بھارتی فوج اورفورسز کے لوگ کھڑے ہیں۔بھارت کے دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے فورسز کے لوگ مقامی لوگوں کی تلاشیاں لیتے ہیں اوران سے ہتک آمیز سلوک کیاجاتاہے۔مقصد ہے انھیں دبانا اورانھیں اتنا کمزور کرنا کہ وہ اپنی آواز ہی بلند نہ کرسکیں۔
انتہا پسند ہندوؤں نے اب ایک نیاکام شروع کردیاہے تاریخی مساجد کوشہید کرکے ان کی جگہ مندروں کوتعمیر کیاجارہاہے۔ انتہاپسند ہندو جماعتیں کسی بھی تاریخی مسجد کو لے کرپروپیگنڈا شروع کردیتی ہیں کہ یہاں پہلے مندرتھا جسے کسی مسلم حکمران نے گرا کراس کی جگہ مسجد بنادی۔ہندوتنظیمیں ایک نہیں درجنوں مساجدکے بارے میں کہہ رہی ہیں کہ یہ تاریخی مساجد مندرکوگرا کرتعمیر کی گئی ہیں،جبکہ اس کاکوئی ثبوت یاتاریخی حوالہ بھی دستیاب نہیں ہوتا۔
بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کشمیریوں کی آواز کچلنے کے لیے اپنی عدلیہ کوبھی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔عدلیہ سے کشمیریوں کے خلاف فیصلے کرائے جارہے ہیں۔کٹھ پتلی عدلیہ بھی مودی کے اقدامات کی توثیق کرتی جارہی ہے۔سیاسی قیدیوں کوجعلی اوردہشت گردی کے مقدمات میں پھنسایاجارہاہے۔اس عدالتی دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے بین الاقوامی مداخلت کی اشد ضرورت ہے۔ عالمی برادری کو آگے بڑھنا چاہیے اور بھارت پر مقبوضہ کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ بھارتی حکومت نے اختلاف رائے کو محدود کرنے کے لیے جماعت اسلامی، مسلم لیگ، تحریک حریت، جے کے لبریشن فرنٹ، دختران ملت اور مسلم کانفرنس سمیت متعدد سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ بھارت سیاسی نظریات اور آزادی کے عزم کی بنا پر کشمیریوں کی غیر قانونی قید کو جان بوجھ کر طول دے رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق کشمیری قیدیوں کو بھارت کے دور دراز علاقوں کی جیلوں میں منتقل کردیاگیاہے اوریہ سلسلہ جاری ہے، جس سے ان کے خاندانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی رہنمائوں کو جھوٹے مقدمے میں بھارتی حکومت کی ایماء پر عمر قید کی سزا دی گئی، یہ کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کھلی کوشش ہے۔ ہزاروں قیدی، بشمول آزادی پسند رہنما، انسانی حقوق کے کارکن، صحافی، وکلا اور تاجر بھارتی جیلوں میں قید ہیں۔
اقوام متحدہ اور دنیا کی بڑی طاقتوں کوچاہیے کہ وہ بھارت کو خطے میں عدم استحکام کو مزید بڑھانے سے روکیں۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں غیرقانونی اقدامات کررہاہے جواقوام متحدہ کی قراردادوں کے بھی خلاف ہیں۔ نئی دہلی کے زیر کنٹرول قابض انتظامیہ کی طرف سے لاکھوں غیر کشمیریوں کو ڈومیسائل جاری کیے جاچکے ہیں اورغیرمسلموں کو کشمیر کی شہریت دینے کاسلسلہ جاری ہے۔ مقصد مقبوضہ جموں و کشمیر کو آباد کاروں کی کالونی میں تبدیل کرنا ہے۔ بھار ت مقبوضہ جموں و کشمیر کے مقامی لوگوں کو مزید کمزورکرنااورانہیں پسماندگی کی طرف دھکیلناچاہتاہے۔ بھارتی ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیریوں کے حوصلے بلند ہیں ، نوجوانوں کی مسلسل غیر قانونی نظربندی ان کو اپنے مقصد سے دستبردارہونے پر مجبورنہیں کرسکتی۔
مودی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب بگاڑنے اور مقبوضہ علاقے کی مسلم اکثریتی شناخت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے صیہونی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری شہید کیے جاچکے ہیں جبکہ ہزاروں سیاسی رہنما، کارکن اور انسانی حقوق کے علمبردار دہائیوں سے جیلوں میں قید ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ حکومت کے پاس ریاستی امور کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ انتظامی اختیارات مکمل طور پر گورنر اور بھارت کے پاس ہیں۔ آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کیلئے دھڑادھڑپورے بھارت سے ہندوئوں کولاکر مقبوضہ کشمیر میں آباد کیاجارہاہے۔
اقوام متحدہ کافرض ہے کہ اس صورتحال پرآنکھیں بند کرنے کی بجائے اپنی قراردادوں پرعمل درآمد کرنے کے لیے اقدامات کرے۔مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال اقوام متحدہ کے فوری اقدام کی متقاضی ہے تاکہ جموں وکشمیر میں بھارت کی غیرقانونی آبادکاری کی پالیسیوں کاخاتمہ ہو سکے۔
انتہا پسند ہندوؤں نے اب ایک نیاکام شروع کردیاہے تاریخی مساجد کوشہید کرکے ان کی جگہ مندروں کوتعمیر کیاجارہاہے۔ انتہاپسند ہندو جماعتیں کسی بھی تاریخی مسجد کو لے کرپروپیگنڈا شروع کردیتی ہیں کہ یہاں پہلے مندرتھا جسے کسی مسلم حکمران نے گرا کراس کی جگہ مسجد بنادی۔ہندوتنظیمیں ایک نہیں درجنوں مساجدکے بارے میں کہہ رہی ہیں کہ یہ تاریخی مساجد مندرکوگرا کرتعمیر کی گئی ہیں،جبکہ اس کاکوئی ثبوت یاتاریخی حوالہ بھی دستیاب نہیں ہوتا۔معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزارکوگرانے کے لیے ہندوشدت پسندتنظیم ہندوسینا نے مقامی عدالت میں مقدمہ دائر کردیاہے کہ یہاں پہلے شیوکامندرتھا اس لیے درگاہ کوگراکریہاں مندربنایاجائے،مسلمانوں میں اس پرشدیدغم وغصہ پایاجاتاہے ۔ہندوتنظیموں نے اب یہ کام مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھی شروع کردیاہے۔بھارتی ہندو سرکاری اہلکار مختلف علاقوں کاسروے کررہے ہیں اورمساجدکوشہید کرنے کی نشاندہی کرارہے ہیں۔جب کوئی کشمیر ی اس پراحتجاج کرتاہے تواسے دہشت گردی کے مقدمے میں پھنسادیاجاتاہے۔
بھارت محض پروپیگنڈے کے ذریعے مقبوضہ کشمیرمیں اپنے مظالم چھپانے کی کوشش کررہاہے۔عالمی برداری کویہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کشمیروں کواقوام متحدہ نے یہ حق دیاہے کہ وہ اپنی قسمت کافیصلہ خود کریں۔ اصل کشمیری وہی ہے جوکشمیر کامستقل باشندہ ہے۔پورے بھارت سے غیرمسلم اورہندوتوا کے حامیوں کولالچ اورمراعات دے کرمقبوضہ کشمیر میں آباد کرناکسی طورپردرست نہیں ہے۔
پاکستان آج بھی ثابت قدمی کے ساتھ اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اورہرفورم پرانکی آزادی اورحق استصواب رائے کی حمایت کررہاہے۔ دوسری طرف بھارت کشمیریوں پرظلم وستم اورنسل کشی میں ملوث ہے۔ اب یہ ہم سب کافرض ہے کہ سوشل میڈیا سمیت تمام فورمز پرمسئلہ کشمیر اورکشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم پرآوازاٹھائیں تاکہ کشمیری بھارتی غلامی سے آزادی حاصل کرسکیں۔
تعارف:مضمون نگاراخبارات اورٹی وی چینلزکے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔آج کل ایک قومی اخبارمیں کالم لکھ رہے ہیں۔قومی اورعالمی سیاست پر اُن کی متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔
[email protected]
تبصرے