مسئلہ کشمیر اس خطے کا ایک دیرینہ تنازعہ ہے جو 1948سے اقوام متحدہ میں ہونے کے باوجود تاحال حل نہیں ہوپایا۔ اس میں جہاں ایک فریق بھارت کی سرد مہری اور سازشوں کا عمل دخل ہے وہاں بین الاقوامی برادری اور خود اقوام متحدہ کی سست روی اور عدم دلچسپی بھی شامل ہے۔ 1947ء میں پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو تقسیم کا جو فارمولا سامنے آیا اُس میں ضلع گرداسپور بھی پاکستان کا حصہ تھا۔ لیکن بعد ازاں انگریزاور کانگریس کی ملی بھگت سے گرداسپور کو بھارت کے ساتھ ملادیا گیا اور اس کی ایک تحصیل شکر گڑھ کو ضلع سیالکوٹ کی تحصیل بنا دیا گیا۔ ضلع گرداسپور کے بھارت کے ساتھ شامل کیے جانے سے بھارت کو جموں تک زمینی راستہ مل گیا۔ جہاں اس نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اکتوبر1947ء میں اپنی فوجیں داخل کر کے کشمیر پر قبضہ کرلیا۔ جواباً کشمیر کے عوام اور پاک فوج کے دستوں نے مزاحمت کا راستہ اپنایا تو بھارت کے اُ س وقت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو اس تنازعے کو جنوری1948ء میں اقوام متحدہ لے گئے جہاں یہ فیصلہ کیا گیاکہ دونوں ممالک جنگ بندی کردیں تاکہ کشمیری عوام حق خودارادیت استعمال کرتے ہوئے یہ فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان یا بھارت دونوں میں سے کس ملک کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ بھارت نے بطور فریق اقوام متحدہ میں اس فیصلے کو تسلیم کرلیا لیکن بعدازاں لیت ولعل سے کام لیتے ہوئے اس کی نوبت نہ آنے دی۔
یہ مسئلہ کشمیر ہی ہے جس پر پاکستان اور بھارت کے مابین کم و بیش چار جنگیں ہوچکی ہیں۔ کشمیری عوام بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے مزاحمت کی راہ اختیا رکیے ہوئے ہیں لیکن بھارت ٹس سے مس نہیں ہورہا۔ اقوام متحدہ بھی زبانی جمع خرچ کے سوا آج تک کوئی عملی کردار ادا نہیں کرسکا۔ کشمیری عوام سال بھر کے مختلف اوقات میں مختلف دن مناتے ہیں اور بھارت کے کشمیر پر قبضے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں۔ اس میں ریاست پاکستان بھی اخلاقی اور سفارتی سطح پر کشمیری عوام کے ساتھ ہے۔5فروری کو بھی حکومت پاکستان نے 1990کی دہائی سے ''یوم یکجہتی کشمیر'' کے طور پر منانا شروع کیا۔ اس دن دنیا بھر میں موجود کشمیری اور پاکستان کے عوام احتجاج کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت مختلف بین الاقوامی اداروں کے سامنے احتجاج ہوتا ہے ۔آزاد کشمیر اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھی اس روز بھرپور احتجاجی مظاہرے ہوتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں موجود بھارتی افواج بزور طاقت اور تشدد ان ریلیوں کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن وہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے حوصلے پست نہیں کرپائے او رنہ ہی کبھی کر پائیں گے۔
بھارت نے اگست2019ء میں آرٹیکل370اور 35-Aکا خاتمہ کر کے کشمیریوں کو حاصل خصوصی حقوق بھی غصب کردیئے لیکن یہ اقدام بھی کشمیریوں کے حوصلے پست نہیں کر پایا بلکہ روز بہ روز مزاحمت میں شدت اور بھارت سے نفرت بڑھ رہی ہے۔بھارت کو کشمیریوں کے عزائم بھانپتے ہوئے یہ سمجھنا ہی ہوگا کہ جلد یابدیر اس کا حل استصوابِ رائے ہی سے ہونا ہے اور یہی اس کا واحد حل ہے۔ اس کے علاوہ کشمیری کبھی خاموشی سے نہیں بیٹھیں گے اور خطے میں فساد اور انتشار کی فضا قائم رہے گی۔ ریاستِ پاکستان ہمیشہ کی طرح آج بھی ہر طرح سے کشمیریوں کے مؤقف اور اقوام متحدہ کے اس فیصلے کی توثیق کرتی ہے کہ کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دیا جائے اور استصوابِ رائے سے اس مسئلے کو حل کیاجائے۔
تبصرے