٭فوج میں بطورسپاہی بھرتی ہونے کی کوشش کی مگر طبی بنیادوں پر منتخب نہ ہو سکے اب پاک فوج کے پروگراموں میں سبز ہلالی پرچم پر مشتمل لباس زیب تن کرتے اور قومی پرچم لہراتیہیں ۔
٭وطن عزیز کی خاطر اچھی بھلی نوکری چھوڑ کرواپس آئے ۔ مکان بیچ کر ، اپنے اور اپنے اہل خانہ کا پیٹ کاٹ کر پیرانہ سالی (بڑھاپے)کے باوجود اپنے عظیم ملک پاکستان کا دنیا بھر میں سافٹ امیج اجاگر کرنے کا مشن جاری رکھے ہو ئے ہیں ۔
صوفی عبدالجلیل چاچا کرکٹ جنہیں انکل کرکٹ ، چاچا پاکستانی یا چاچا سیالکوٹی بھی کہا جاتا ہے پاکستان کرکٹ کے سب سے زیادہ سرشار پرستار ہیں۔ وہ پہلی بار 1994 کے آسٹرل ایشیا کپ کے دوران اپنے منفرد لباس کی وجہ سے ہجوم میں نظر آئے تھے۔ چاچا کرکٹ وطن عزیز کے قومی پرچم پر مبنی لباس زیب تن کرنے کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔ چاچا کرکٹ کو اپنے وطن کے نامور کرکٹرز تو بہت اچھے طریقے سے جانتے ہیں اور ان کا دلی طور پر بڑا احترام کرتے ہیں لیکن دنیا بھر کے سپر سٹار کرکٹر ز بھی ان کی بڑی قدر کرتے ہیں اور ان سے مل کر بڑی خوشی محسوس کرتے ہیں۔ سر جیفری بائیکاٹ اور سنیل گواسکر تو ان کے بڑے فین ہیں کہ یہ اپنے ملک کی بہت اچھے انداز سے نمائندگی کرتے ہیں۔ہجوم کو مزاحیہ تبصروں اور نعروں سے محظوظ کرنا، شائقین کے ساتھ رقص کرنا، آٹوگراف بکس پر دستخط کرنا اور مخالف ٹیم کا بھی اچھے انداز سے استقبال کرنا ان کا منفرد اسٹائل ہے۔
شہر اقبال سیالکوٹ میں 8 اکتوبر 1949ء کو پیدا ہونے والے صوفی عبدالجلیل نے پانچویں جماعت ایم بی پرائمری سکول مرزا محمد الدین روڈ سیالکوٹ اور مڈل کا امتحان اسلامیہ ہائی سکول سے پاس کیا جبکہ میٹرک پرائیویٹ طور پر کیا۔ انہیں بچپن ہی سے کرکٹ کا شوق تھا ۔شہر کے اندر اپنے خاندان کی اراضی پر بنائی گئی پاکستان کی اولین سیمنٹ پچ پر کرکٹ کھیلا کرتے تھے اور بچپن میں بڑے شرارتی اور منچلے تھے۔ کرکٹر بننا چاہتے تھے وہ کوشش کے باوجود بطور کھلاڑی اپنا نام نہ بنا سکے لیکن کرکٹ دیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ 1969 میں 19 سال کی عمر میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان لاہور اسٹیڈیم میں اپنی زندگی کا پہلا انٹرنیشنل میچ دیکھنے پہنچ گئے۔ روزگار کے سلسلے میں متحدہ عرب امارات پہنچ گئے وہاں 25 برس تک ابوظہبی میونسپلٹی میں فورمین کے طور پر کام کیا ۔ متحدہ عرب امارات میں اپنے ابتدائی سالوں کے دوران بھی صوفی عبدالجلیل کرکٹ کے جنون میں مبتلا رہے۔ انہیں کرکٹ کا اتنا شوق تھا کہ دوران ملازمت سیالکوٹ کرکٹ کلب بنا کر کرکٹ کھیلتے اور ہر جمعہ کو باری باری دبئی اور ابوظہبی میں میچ کرواتے۔
1986 کا سال جہاں پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے انتہائی خوش قسمت ثابت ہوا وہاں صوفی عبدالجلیل کو چاچا کرکٹ کے طور متعارف ہونے کا سنہری موقع مل گیا ۔ شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں روایتی حریف پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے گئے میچ کے دوران چاچا کرکٹ نے جس منفرد انداز سے اپنی قومی ٹیم کی حوصلہ افزائی کی اور قومی پرچم پر مشتمل لباس اور ہاتھ میں قومی پرچم لے کراپنے نعروں کے ذریعے پاکستانی کھلاڑیوں کے مورال کو بلند کرنے میں اپنا کردار انتہائی احسن طریقے سے ادا کیا کہ سب حیران رہ گئے۔
چاچا کرکٹ جوانی میں پاک فوج میں بھرتی ہو کر پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرنا چاہتے تھے اور قومی پرچم کو سربلند رکھنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگانے کی شدید خواہش رکھتے تھے لیکن بطور سپاہی بھرتی ہونے کے لیے میڈیکل کے دوران جب مسائل درپیش آنے کی وجہ سے فوج میں ملازمت نہ مل سکی تو انہیں اس کا بڑا دکھ ہوا ۔لیکن انہیں اب اس بات کی خوشی ہے کہ قومی پرچم نے انہیں اتنی عزت دی ہے کہ انہیں مختلف پروگروموں میں جھوم جھوم کرپرچم لہرانے کے لیے بطور خاص بلایا جاتا ہے وہ اپنے آپ کو خوش قسمت ترین انسان سمجھتے ہیں کہ جس پاک فوج میں سپاہی کی حیثیت سے جانے کی شدید خواہش رکھتے تھے، سبز ہلالی پرچم اور گنبدِخضرا کے رنگ کی وجہ سے وطن عزیز کے ان اہم ترین اداروں میں بڑی عزت کے ساتھ بلایا جاتا ہے جس پر وہ اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔
چاچا کرکٹ زندگی کی 75 بہاریں دیکھ چکے ہیں اور 76 ویںسال میں داخل ہو چکے ہیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ وہ اب بھی اسی طرح اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں جس طرح جوانی میں جوش و جذبے سے اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کیاکرتے تھے۔ وہ صرف کھیل کے میدانوں ہی میں وطن عزیز سے محبت کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ملک کو ملنے والی ہر خوشی میں اپنا حصہ ضرور ڈالتے ہیں۔1976ء میں جب پاکستان سے تیل نکلنے کی خوشخبری سنائی گئی تو چاچا کرکٹ نے شارجہ ائر پورٹ پر 510 کلو مٹھائی اپنے ہم وطنوں میں تقسیم کرکے ایک نئی اور منفرد مثال قائم کی۔
1986 میں میاں داد نے چھکا مار کر اپنی ٹیم کو فتح دلائی تو چاچا کرکٹ نے اپنی پوری تنخواہ کی 220 کلومٹھائی تقسیم کرکے خوشی کا جشن منایا۔ 1992 میں آسٹریلیا میں پاکستان نے کرکٹ کا عالمی کپ جیتا تو چاچا کرکٹ نے ابوظہبی میں ہزاروں مسلمانوں کو ایک وقت میں روزہ افطار کروا کر ایک اور نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ ان میں قومی جذبہ جس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اس کا اظہار اس سے بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے متحدہ عرب امارت میں دوران ملازمت پاکستان آنے اور یہاں سے واپس جانے کے لیے صرف اور صرف قومی ائرلائن پی آئی اے کے ذریعے ہی سفر کیا اور صرف قانونی طریقے ہی سے رقوم وطن بھیجیں۔
1998میں بھارت کی طرف سے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے چھ دھماکے کیے تو اس کی خوشی میں لاہور ائر پورٹ سے لے کر مسجد شہدا مال روڈ تک نکالی گئی ریلی کو قومی پرچم کے ساتھ لیڈ کیا۔سیلاب کے دوارن چاچا کرکٹ نے نارووال میں تباہی پھیلانے والے نالہ ڈیک غیر سرکاری تنظیم مدینہ ٹرسٹ کے تعاون سے اپنی مدد آپ کے تحت حفاظتی پشتہ بنانے اور عوام کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ اب مدینہ ٹرسٹ کے ساتھ مل کرہیڈ مرالہ میں ایک جدید خیراتی ہسپتال بنانے کی مہم میں بطور رضاکارشامل ہیں۔ اپنے محلے میں مسجد بنانے میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جبکہ غریب اور مستحق افراد کی مدد کو بھی اپنا فرض خیال کرتے ہیں۔ بے پناہ خوبیوں کے مالک چاچا کرکٹ شاعری بھی کرتے ہیں اور نعت خوانی بھی ان کا شوق ہے۔ ایک وقت میں انگلینڈ میں کامیڈی بھی کرتے رہے ہیں اور تقریر کا فن بھی بخوبی جانتے ہیں اور اکثر تقریبات میں خطاب کرتے ہوئے حاضرین سے داد وصول کرتے ہیں۔ چاچا کرکٹ کا زندگی کا مشن دنیا میں پاکستان کا نام روشن کرنا اور اس کی مثبت تصویر پیش کرنا ، دنیا بھر کے لوگوں کو خوشیاں دینا جبکہ مجبور اور غریب افراد کی مددکرنا ہے۔
چاچا کرکٹ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تقریباً تمام سپورٹس چینلز نے ان کا انٹرویو نشر کیا ہے اور ان کے بارے میں کئی بار خصوصی رپورٹیں چلائی ہیں جبکہ دنیا بھر کے پرنٹ میڈیا نے بھی ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے جبکہ سوشل میڈیا بھی ان کی بڑھ چڑھ کر مدد کرتا ہے۔چاچا کرکٹ ہی وہ واحد پاکستانی چیئر لیڈر ہیں جن کا سی این این ، سکائی سپورٹس اور دینا بھر کے سپورٹس چینل درجنوں دفعہ انٹرویو کر چکے ہیں ۔
2005 میں پاکستانی ٹیم کی انڈیا میں شاندار فتح پر امیتابھ بچن نے اپنے پروگرام ''کون بنے گاکروڑ پتی'' میں چاچا کرکٹ کے بارے میں سوال پوچھ کر اور ان کی بہترین انداز میں تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ چاچا کرکٹ دنیا بھر میں جس منفرد انداز سے اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں وہ ایک بہت اچھی مثال ہے۔2005 میں ہی پڑوسی ملک کے ایک بڑے چینل این ڈی ٹی وی نے چاچا کرکٹ پر ایک گھنٹے کا خصوصی پروگرام کیاتو میزبان نوجوت سنگھ سدھو اور گنیش موننگیانے جس طرح تعریف کی تھی سب پاکستانیوں کے لیے یہ ایک حوصلہ افزا بات تھی۔ان کایہ کہنا کہ چاچا کرکٹ جیسا بندہ صرف پاکستان کے پاس ہی ہے انڈیا کے پاس کیوں نہیں؟ یہ تمام پاکستانیوں کے لیے بڑی حوصلہ افزاء بات تھی۔ وہ اب تک درجنوں ممالک میں جا کرپاکستانی پرچم کو سربلند کر چکے ہیں۔
سال 2024 کے دوران دو بار امریکہ ، انگلینڈ اور سری لنکا جا چکے ہیں اور کرکٹ کے مختلف مقابوں میں اپنے شیدائیوں کو محظوظ کر چکے ہیں۔
عالمی شہرت حاصل کرنے والے صوفی عبدالجلیل چاچا کرکٹ نے 75 سال کی عمر پار کر لی ہے لیکن انہیں سب سے خوشی اس بات کی ہے کہ انہیں گنبدِ خضرا کے سبز رنگ اور پاکستانی پرچم پر مبنی لباس پہنتے ہوئے 54 برس ہو چکے ہیں۔
تبصرے