اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 01:52
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد یَومِ یکجہتی ٔکشمیر بھارتی انتخابات اور مسلم ووٹر پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان سے غیرقانونی مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ اور اس کا پس منظر پاکستان کی ترقی کا سفر اور افواجِ پاکستان جدوجہدِآزادیٔ فلسطین گنگا چوٹی  شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے مواقع اور مقامات  عالمی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ پاکستانی شہریوں کے قتل میں براہ راست ملوث بھارتی نیٹ ورک بے نقاب عز م و ہمت کی لا زوال داستا ن قائد اعظم  اور کشمیر  کائنات ۔۔۔۔ کشمیری تہذیب کا قتل ماں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور بھارتی سپریم کورٹ کی توثیق  مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ۔۔ایک وحشیانہ اقدام ثقافت ہماری پہچان (لوک ورثہ) ہوئے جو وطن پہ قرباں وطن میرا پہلا اور آخری عشق ہے آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میں کانووکیشن کا انعقاد  اسسٹنٹ وزیر دفاع سعودی عرب کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد حق خودرادیت ۔۔۔کشمیریوں کا بنیادی حق استصوابِ رائے۔۔مسئلہ کشمیر کا حتمی حل انتخابات کے بعد کشمیرکی موجودہ صورتحال سالِ رفتہ، جموں وکشمیر میں کیا بدلا یکجاں ہیں کشمیر بنے گا پاکستان آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ ایک شاندار فضائی حربی معرکہ حسینہ واجد کی اقتدار سے رُخصتی کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوطرفہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز شائننگ انڈیا یا  ہندوتوا دہشت گرد خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل امیدوں، چیلنجز اور کامیابیوں کے نئے دور کا آغاز کلام اقبال مدارس رجسٹریشن۔۔۔حقائق کے تناظر میں اُڑان پاکستان پاکستان میں اردو زبان کی ترویج وترقی امن کی اہمیت مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے میری وفا کا تقاضا کہ جاں نثارکروں ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن بڑھتی ہوئی آبادی، درپیش مسائل اور ان کا حل تھیلیسیمیا سے بچا ئوکیسے ممکن ہے ماحولیاتی آلودگی ایک بڑا چیلنج سانحہ مشرقی پاکستان مفروضے اور حقائق - ہلال پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع کردہ ایک موثر سعی لا حاصل کا قانون یہ زمانہ کیا ہے ترے سمند کی گرد ہے مولانا رومی کے افکار و خیالات کشمیر جنت شہید کی آخری پاکستان کا مستقل آئین۔1973 بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا کویت کا سرکاری دورہ بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف سے بنگلہ دیش کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کی ملاقات بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ البرق ڈیژن اوکاڑہ کی طرف سے مسیحی برادری کے لیے فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد سیلرز پاسنگ آؤٹ پریڈ پاک بحریہ فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کمانڈر سدرن کمانڈ و ملتان کور کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ خصوصی نشست نمل یونیورسٹی ملتان کیمپس اور یونیورسٹی آف لیہّ کے طلبہ و طا لبات اوراساتذہ کا مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینج کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں تقریبِ بزمِ اقبال کاانعقاد ملٹری کالج سوئی میں سالانہ یوم ِوالدین کی تقریب آل پاکستان ایف جی ای آئی ایکسیلنس ایوارڈ کی تقریب 2024ء اوکاڑہ گیریثر ن، النور اسپیشل چلڈرن سکول کے بچوں کے لیے
Advertisements

عرفان فضل قدیر

Advertisements

ہلال اردو

نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا

جنوری 2025

یہ سال 2000 ء کی بات ہے ،آرمی کو ضلعی سطح پر مانیٹرنگ کا کام سونپا گیا ۔ مجھے ضلع رحیم یار خان میں ضلعی مانیٹرنگ سیل کا انچارج  بنایا گیا ۔ اس کا ایک حصہ شکایات سیل  بھی تھا۔ اس کے طریقے کے مطابق ہفتہ وارشکایات وصول کی جاتی تھیں اور متعلقہ محکمے سے اس کے بارے جواب مانگا جاتا جسے اگلے ہفتے شکایت کنندہ کے سامنے رکھ کر اس کا ازالہ کیا جاتا۔ ایسی ہی کسی شکایت کے سلسلے میں، پولیس  نے ایک شخص کو قصور وارٹھہرایا۔  شکایت کنندہ نے جواب میں کہا کہ اگر تفتیش میں ڈی ایس پی حافظ فضل  میرے خلاف رپورٹ دے دیں تو جو چور کی سزا وہ میری سزا۔ میں کافی حیران ہوا کیونکہ پولیس کے خلاف شکایت میں کسی  ایک پولیس افسر پر اتنا بھروسا کبھی نہ دیکھا تھا۔ موجود پولیس افسر سے معلوم کیا  تو پتا چلا کہ ڈی ایس پی، سی آئی اے ہیں اور بہت اچھی شہرت کے حامل ہیں۔ میں نے اسے پرکھنا ضروری سمجھا اور اپنے آپریٹر کو فضل الٰہی صاحب کو صبح دفتر میں بلانے کا کہا۔ اس نے تھوڑی دیر میں بتایا کہ ان کا جواب آیا ہے کہ کل صبح  میں مصروف ہوں  البتہ پرسوں صبح آسکتا ہوں۔ جواب سے تھوڑی حیرت ہوئی کہ مانیٹرنگ کے ماحول میں  ایسا جواب پولیس سے کم ہی آتا ہے ۔بہر حا ل  میں خاموش ہو گیا۔ دو روز بعد صبح سات بجے دفتر سے آپریٹر نے کال کی کہ ڈی ایس پی فضل آئے ہیں۔ دفتر کا وقت 9 بجے تھا  لیکن میں جلدی سے تیار ہو کر دفتر پہنچا۔ میرے سامنے پولیس کی وردی میں ایک لمبے تڑنگے،قدرے دبلے اور پُر نور سفید داڑھی میں حافظ فضل صاحب تشریف رکھتے تھے۔پہلی نظر میں ایک اچھا تاثر قائم ہوا کیونکہ اس حلیے کا پولیس آفیسرکم از کم میں نے نہیں دیکھا تھا  ۔سلام دُعا کے بعد انہوں نے پوچھا، سر میں نے کہیں تفتیش پر جانا ہے آپ نے کسی کام سے بلا یا ہے  تو فرمائیے ۔ میں نے کہا  آپکا نام سنا تھا ملاقات کرنا تھی۔ کہنے لگے میں ابھی کام سے جا رہا ہوں لیکن آپ سے تفصیلی ملاقات ہوگی۔اگلی ملاقات پر انہوں نے اپنی زندگی کے بارے میں بتایا۔
حافظ فضل منڈی بہائوالدین کے قصبے ڈنگا کے رہنے والے ہیں۔ 1970 ء میں گریجویشن کے بعد پنجاب پولیس میں اے ایس آئی بھرتی ہو ئے۔اگلے ہی برس پاک بھارت جنگ شروع ہوگئی۔ مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کی تحریک کو بے اثر کرنے کے لیے پاکستان سے سول اہلکا روں اور پولیس کا ایک گروپ مشرقی پاکستان بھیجا گیا۔ پولیس کی طرف سے اے ایس آئی فضل بھی اس گروپ کا حصہ بن گئے ۔چند ماہ کی پر آشوب خانہ جنگی  کے بعد 16  دسمبر 1971ء کو سقوط ِ ڈھاکہ ہوا اور پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ دیا گیا ۔ پاکستانی افواج کے ساتھ ساتھ پولیس کوبھی ہتھیار ڈالنا پڑے۔ فضل  صاحب  فوجیوں اور دیگر سول حکام کے ساتھ بھارت میں قید کر دیے گئے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں " بھارت کی قید میں ابتدائی دور بہت مایوسی کا گزرا۔سختیوں اور مایوسیوں  سے ذہنی اور جسمانی طور پر بہت کمزور ہوگیا۔ کچھ عرصے کے بعد جب کچھ قید کا عادی ہوا تو میں نے اللہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔جیل حکام سے قرآن پاک حاصل کرکے اسکا مطالعہ کیا  اورپھر ترجمے کے ساتھ بھی پڑھا ۔وقت بیشما ر تھا اس لیے حفظ کا فیصلہ کیا اور اللہ نے مدد فرمائی اور حفظ مکمل کرلیا ۔  یوں چار برس کی قید و بند کا عرصہ گزر گیا"۔1974 ء میں پاکستان اور بھارت  میں قیدیوں  کے تبادلے کے بعد فضل  صاحب بھی واپس پاکستان آگئے۔اب وہ ایک بدلے ہوئے انسان تھے ۔ان کی چار سال کی سروس کو شامل کیا گیا اورانہیں سب انسپکٹر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔ ترقی کے بعد رحیم یار خان کی بدنامِ زمانہ تحصیل صادق آباد میں ایس ایچ او تعینات کیا گیا۔ صادق آباد پنجاب کی آخری تحصیل ہے اور اس کے ملحقہ کچے کے علاقے  جرائم پیشہ افراد کا گڑھ ہیں ۔ اسی وجہ سے اس کے جرائم کا تناسب ضلع بلکہ صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ حافظ صاحب ایس پی رحیم یار خان کے سامنے پیش ہوئے  اور صادق آباد جانے سے معذوری ظاہر کی۔ وجہ یہ بتائی کہ اس  تھانے میں سیاسی اور پولیس کے اعلیٰ حکام کی طرف سے مداخلت بہت زیادہ ہے۔ ایس پی صاحب  نے یقین دلایا کہ کسی قسم کی مداخلت نہ ہوگی۔ حافظ صاحب نے کہا کہ سرکال آپ نے بھی نہیں کرنی …!!! ایس پی صاحب نے ہامی بھر لی ۔ اس  کے بعد حافظ صاحب نے تحصیل میں اگلے دو برس میں قانون کی ایسی رٹ قائم کی کہ تمام جرائم پیشہ افراد صادق آباد کی حدود سے باہر نکل گئے اور اس سب ڈویژن میں  جرائم کی شرح صفر ہو گئی۔اس کے علاوہ  ان کی پیشہ وارانہ زندگی بہت سی کامیابیوں اور اعلیٰ کارکردگی کے ریکارڈ سے مزیّن ہے۔ ڈی ایس پی کے طور پر ترقی کے بعد ان کو سی آئی اے میں تعینات کیا گیا جو سونے کی  چڑیا سمجھی جاتی تھی۔ اس میں تفتیش میں تبدیلی کرنے  پر بھی لاکھوں کمائے جاتے تھے ۔ لیکن حافظ صاحب کی موجودگی میں ایسی کسی بھی چیز کا شائبہ بھی ممکن نہیں تھا ۔ 
میں نے ان سے ایک چبھتا ہوا سوال کیا کہ پولیس کی محدود تنخواہ میں رشوت لیے بغیر کیسے گزارہ کرتے ہیں جبکہ ان کا معیار زندگی اس سے میل نہیں کھاتا۔ اس پر انہوں نے کسی ناگواری کا اظہار نہیں کیا۔انہوں نے بتایا کہ میری زوجہ اور تین بچے سب کے سب حافظ ہیں اور گھر  میں ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت ہوتی رہتی ہے جس کی برکت کا کوئی شمار نہیں۔ انہوں نے اپنی اضافی آمدنی کا ذریعہ کچھ یوں بتایا۔ اپنے آبائی شہر سے کچھ زمین بیچ کر رحیم یار خان شہر میں ایک مکان اور پلاٹ خریدا۔مکان میں رہائش اور پلاٹ میں گاڑیوں کا ایک سروس سٹیشن اور جانوروں کا ایک چھوٹا سا باڑا بنا یا جس میں دو بھینسیں رکھیں۔ ان دونوں سے خاصی معقول آمدنی ہونے لگی۔ اس  کی وجہ سے کسی رشوت کی ضرورت نہ پڑی اور ان کو اپنی تنخواہ میں گزر اوقات کرنے میں آسانی ہوئی۔ تفتیش پر اپنا پانی اور دن کا کھانا اور چائے گھر سے ساتھ لے کر جاتے۔ حق کے مطابق تفتیشی رپورٹ لکھتے اور سکھ کی نیند سوتے۔آج کے دور کی طرح اس دور میں بھی پولیس کا رشوت لینا معمول کی بات تھی اور رشوت نہ لینے والے کو الٹا برا سمجھا جاتا۔ میرے وہاں کے قیام کے دوران تمام پولیس افسر ان کے خلاف ہی رہے لیکن ان کے خلاف کوئی بھی شکایت لانے سے قاصر رہے۔ ان کی شخصیت پولیس کے محکمے میں ''کیچڑ میں کنول کے پھول''کی مانند اور عام لوگوں کے لیے باعث اطمینان تھی۔ حافظ صاحب نے ڈی ایس پی  کے عہدے پر ہی پولیس سروس سے ریٹائرمنٹ لے لی۔آج نوے برس کے حافظ صاحب رحیم یار خان میں اپنے گھر میں اسی سکون اور اطمینان کی زندگی گزار رہے ہیں جو انہوں نے اپنی سروس میں حلال روزی اور عوام کی خدمت سے کمایا۔ یہ سکون بہت سے اعلیٰ افسران کو بھی شاید نصیب نہ ہو۔ ان کے بچوں میں سے ایک ڈاکٹر ہے اور باقی سب اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں۔ ان کی ذات پولیس کے باقی افسروں اور تمام پاکستانیوں کے لیے مشعل راہ ہے کہ وہ بھی حلال روزی کما کر زندگی گزار سکتے ہیں۔ اللہ ان کو صحت مند لمبی زندگی دے آمین۔ 


[email protected]

عرفان فضل قدیر

Advertisements