ڈاکٹر جان میئرشائمر کا کہنا ہے کہ اس دنیا میں پولیٹکل ریئل ازم ایک واحد ذریعہ ہے جو ہمیں آج کی عالمی ہنگامی کیفیت کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے۔ ان کے مطابق اس غلط فہمی کہ دنیا کا سیاسی اور اقتصادی نظام کسی اصول کے تابع ہے، کو دور کرنا ہوگا۔ درحقیقت عالمی نظام صرف تسلط کے اصول پر قائم ہے اور اسی اصول کے تمام عالمی فیصلوں کی بنیاد ہونا ہی آج کی حقیقت ہے۔ اس تناظر میں کچھ اقوام اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد اس کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔اور باقی ماندہ اقوام اس خونی تسلط پسندی کا شکار ہیں۔ ان کے پاس متسلط اقوام کے تابع ہونے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچتا۔ گذشتہ چند دہائیوں سے اس تسلط سے نکلنے کی سعی نے عالمی حالات مزید دگرگوں کر دیئے ہیں۔ بلاکوں میں بٹی ہوئی عالمی سیاست نیو ورلڈ آرڈر کی تلاش میں ہے۔ انتونیو گرامشی نے بخوبی کہا تھا، "پرانی دنیا مر رہی ہے، اور نئی پیدا ہونے کی مشقت کر رہی ہے جو آج درندوں کے حوالے ہے''۔اگر دیکھا جائے تو ہم اسی زمانے سے دوبارہ گزر رہے ہیں، جس نے کہ عالمی اداروں کی بنیاد اس سوچ پر رکھی کہ دنیا اب پری بریٹن وڈ کا تجربہ دوبارہ نہ کرے(نیوہیمشائرا مریکا میں جولائی 1944ء میں 44ممالک کے نمائندوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت گولڈ سونے کو فکسڈ کرنسی ایکسچینج ریٹ کا معیار بنایا گیا۔اس معاہدے کے تحت عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا قیام عمل میں آیا۔ اس معاہدے کا مقصد دنیا کو ایک نیا مالیاتی نظام دینا اور جنگ زدہ ممالک کی تعمیروترقی تھا)۔ مگر کسے معلوم تھا ایک صدی سے بھی کم وقت میں پوسٹ بریٹن وڈ دنیا اسی دردناک دوراہے پر کھڑی ہوگی جہاں پرانا نظام عالمی امن کو پامال کرنے کی وجہ بنتے ہوئے غیر ضروری قرار دیا جا چکا ہوگا، نیا نظام افق پر نمودار ہونے کا متلاشی ہوگا اور ہمارا حال درندوں کے حوالے ہوجائے گا۔ ایسا ممکن ہو سکتا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریاں دیکھنے کے بعد بننے والے عالمی ادارے دنیا میں معاشی اور سماجی استحکام کا وسیلہ بنتے۔ بجائے اس کے مغربی دنیا نے ان اداروں کو ذاتی تسلط کا آلۂ کار بنا دیا۔ نتیجتاً نہ ختم ہونے والی جنگیں، غربت، دہشت گردی اور ماحولیاتی تباہ کاریاں اس دنیا کا مقدر بن گئیں۔ اب چونکہ یہ واضح ہے کہ ہمیں ایک نیو ورلڈ آرڈر چاہیے، پرانے نظام کے پیشرو اس کو اپنی سالمیت کا مسئلہ بنا چکے ہیں۔ اور تسلط قائم رکھنا یونی پولر ورلڈ آرڈر کا بنیادی آلۂ کار بن گیا ہے جسے قائم رکھنے کے لیے لاتعداد حکومتوں کا تختہ اُلٹنے کی سازشیں، لامتناہی ذہن سازی کے منصوبے اور اقتصادی رکاوٹیں پسندیدہ ہتھیار ہیں۔ نئے نظام کی متلاشی دنیا کو گلوبل سائوتھ کے نام سے بلایا جاتا ہے۔ جس کا بنیادی تقاضا برابری کی بنیاد پر عالمی تعلقات قائم کرنا ہے۔ یہ اقوام دنیا کی 70 فی صد آبادی پر مشتمل ہیں۔ باقی 30 فی صد گلوبل نارتھ ہے جسے براڈر ویسٹ بھی کہتے ہیں، جیسا کہ یورپ امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، نیو زی لینڈ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ چند ممالک پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہوئے اور اپنی اس پوزیشن سے پیچھے ہٹنے کو قطعی تیار نہیں۔ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہ پورا گلوبل سائوتھ تباہ و برباد کرنے پر آمادہ ہیں۔ ای یو فارن پالیسی چیف جوسپ بورل نے اس مغربی تسلط زدہ سوچ کی درست عکاسی کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ مغرب ایک باغ ہے اور باقی دنیا ایک جنگل، اور ہمیں اس باغ کو جنگل سے نہ صرف دور رکھنا ہے، بلکہ بچانا بھی ہے۔
کم از کم پچھلے دو سو سال پر محیط یہی سوچ اب جنگل کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ خود کو اس غیر فطری باغ سے کیسے بچائے۔ 30 فی صد خود پسند نمائشی باغیچے کے غیر اصولی، غیر منطقی تسلط سے بیزار ہو چکی دنیا اپنے راستے اپنے ہی اس بے ترتیب جنگل میں ڈھونڈنا چاہتی ہے۔ مگر یہ اتنا سادہ نہیں ہے کیونکہ باغ خود تو برابری کی بنیاد پر کسی جنگل سے باہمی میل ملاپ اور لین دین کا روادار نہیں مگر صرف برتری کی بنیاد پر جنگل کے بارے میں اصولی فیصلے لینے کا خواہاں ہے۔ ماضی قریب میں شام اور لیبیا سے شروع کرتے ہوئے حال میں یوکرین، لبنان، فلسطین، وینیزویلا، کیوبا، جارجیا اور ایک بار پھر شام ہمارے سامنے ہیں۔جنگ، حکومتوں کا تختہ اُلٹنا، اقتصادی پابندیاں اور ان سب کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ایکیڈیمیا، خفیہ ایجنسیاں، صحافت اور این جی اوز کی مدد سے کلر ریوولیوشن کا انعقاد۔
اس وقت بہت سے ممالک کلر ریوولیوشن کی لپیٹ میں ہیں اور خود مختار حکومتیں اس خونی کھیل سے نمٹنے کے لیے تیاری کر رہی ہیں۔ پاکستان کی حالیہ خود مختار پالیسی، چین سے دیرینہ دوستی اور روس کے ساتھ نئے اقتصادی اور دفاعی تعلقات گلوبل نارتھ کو خائف کرنے کے لیے کافی ہیں اور اس پر پاکستان کی جغرافیائی حقیقت، خطے میں اس کا کردار اس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس کے لیے مسائل کا باعث بھی بن رہا ہے۔ پاکستان کی سالمیت کو خوارجی دراندازی اور سماجی ذہن سازی دونوں سے خطرہ ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو خاص طور پر باضابطہ طریقے سے اپنی اصل سے متنفر کیا جا رہا ہے۔ وہ تمام مسائل جوکہ کسی بھی ترقی پذیر ملک میں پائے جاتے ہیں کو بنیاد بناکر ملک کی سالمیت کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔اس مقصد کے لیے کچھ عناصر ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جارہے ہیں۔ کلر ریوولیوشن کے بنیادی نکات میں لالچ، احتجاج اور بیانیہ شامل ہیں۔ یہ ایک بہت ہی منظم عمل ہے جس میں عوام کے سامنے ایک نجات دہندہ پیش کیا جاتا ہے اور ملکی سالمیت کی سب سے اہم اکائی کو تمام مسائل کا سبب قرار دیا جاتا ہے۔ مسائل کے شکار عوام کو اس اہم اکائی کی( اسکیپ گوٹنگ کی) قربانی کا بکرا بنانے کی ترغیب دی جاتی ہے اور''نجات دہندہ محسن'' جوکہ بیرونی آلہ کار ہوتا ہے، کو تمام مسائل کا حتمی حل بناکر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی یوکرین میں ہوا۔ یہی ہم نے وینیزویلا، مولدووا اورکرغیزستان میں دیکھا۔ یہی حالیہ دنوں میں جارجیا میںہے۔ اس کی وضاحت کے لیے مجھے ہمیشہ ایک فلم یاد آتی ہے۔ "دا ویو" ایک ایسی تجرباتی فلم ہے جس میں ایک یونیورسٹی کا پروفیسر طلبہ کو ایک نظریے اور ایک لیڈر کی پیروی پر قائل کرتا ہے۔ جب طلبہ اس نظریے اور اس لیڈر کے مکمل پیروکار ہو جاتے ہیں تو پروفیسر انھیں بتاتا ہے کہ یہ سب افسانوی تھا اور ایسے کسی لیڈر کا کوئی وجود نہیں۔ اس تجربہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ذہن سازی ایک بہت ہی خطرناک اور پیچیدہ عمل ہے اور یہ عام انسان کو بری طرح اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میںاس کا بغور مشاہدہ کرنے کی ضرورت ہے اور وہ تمام نکات جیسا کہ جھوٹے بیانیے کا پھیلائو، شخصی کردارکشی اور سماجی تنا ئو پر بھرپور سرمایہ کاری بھی مہیا کی جا رہی ہے۔ احتجاجی عمل اور اس کے بے ہنگم خونی انجام کا تجربہ بہت بار مختلف ریاستوں میں دہرایا جا چکا ہے، لہٰذا اب ایسی کسی بھی ممکنہ صورتِ حال میں حکومتیں ٹکرائو سے ہر حالت میں پرہیز کرتی ہیں۔ ذہن سازی کا شکار ہجوم اور اس میں موجود بیرونی آلۂ کار اور اندرونی رنگ لیڈر بہر صورت خون ریزی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ چونکہ ان کے منشور کا انحصار صرف ابتدائی ایک یا دو انسانی لاشوں پر ہوتا ہے، باقی کا کام مشتعل ہجوم خود بخود کر لیتا ہے۔
کلر ریوولیوشن کا شکار حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ضروری حکمت عملی ہنگامی بنیادوں پر ترتیب دیں اور جھوٹے بیانیے کا پھیلائو روکیں، بیرونی مالی مدد اور این جی اوز پر سخت قانون سازی کریں اور سب سے بڑھ کر ہجوم سازی کے رنگ لیڈرز کا آئین کے تحت گھیرا تنگ کریں۔ کیونکہ ہر دفعہ احتجاج کی صورت حال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مشتعل ہجوم کے ٹکرائو کے عوامل کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا آج کی ہونے والی غیرمرئی لاشوں پر واویلا خدانخواستہ کل کو حقیقی لاشوں کا روپ دھار لے۔
مضمون نگار ایک ریسرچر اور ماہر بین الاقوامی امور ہیں۔ ان کے مضامین ملکی اور غیرملکی جرائد میں باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے