بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ایک سیکولر ریاست کے طور پر جانا جاتا ہے، گزشتہ چند برسوں میں داخلی بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ ملک اپنے مذہبی، ثقافتی، اور نسلی تنوع کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے، لیکن آج اس کے اندر اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جبر، تشدد اور امتیازی سلوک نے اس کے سیکولر اور جمہوری تشخص کو سوالات کے دائرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ مسلمانوں، دلتوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتی گروپوں پر بڑھتے ہوئے مظالم نے بھارت کے جمہوری ڈھانچے کو ایک سنگین بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
2014 ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی )بی جے پی(کے اقتدار میں آنے کے بعد، انڈین حکومت نے ایک انتہا پسندانہ ایجنڈے کے تحت اقلیتی گروپوں کو مسلسل نشانہ بنایا ہے۔ حکومت کے بعض اقدامات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ تشدد صرف اتفاق ہی نہیں، بلکہ ایک منظم مہم کا حصہ ہے جس کا مقصد اقلیتوں کو دبانا اور انہیں دوسرے درجے کے شہریوں کے طور پر پیش کرنا ہے۔بھارتی حکومت نے2019ء میں انڈیا کی شہریت سے متعلق ترمیمی قانون منظورکیا،جس کے تحت پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیر مسلم پناہ گزینوں کو بھارتی شہریت دینے کی پیش کش کی گئی تاہم، اس قانون میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا، جس سے بھارت میں مسلمانوں کے درمیان شدید خوف کی لہر دوڑ گئی۔ اس قانون کی منظوری نے نہ صرف بھارتی مسلمانوں کو بلواسطہ طور پر نشانہ بنایا بلکہ ان کے لیے شہریت حاصل کرنے کے امکانات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں بھارت میں لاکھوں مسلمان شہریوں کی شہریت کو خطرہ لاحق ہو گیا، وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگے۔
اس قانون کے خلاف بھارت کے مختلف حصوں میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے، جنہیں حکومتی فورسز، سی آر پی ایف اور بی ایس ایف نے طاقت کے ذریعے کچل دیا۔ اس احتجاجی تحریک کو طاقت کے ذریعے دبانے کے دوران درجنوں مسلمان مارے گئے اور کئی علاقے شدید فسادات کا شکار ہوئے۔ حکومت کی خاموشی اور مظلوموں کو انصاف فراہم نہ کرنا بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ریاستی تشدد کے ایک واضح مظہر کے طور پر سامنے آیا۔ پھر دنیا بھر سے اس قانون کے خلاف ردعمل آیا،امریکا، برطانیہ کینیڈا اوریورپی یونین نے این آر سی اور سی اے اے شہریت کے متنازعہ قوانین کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ تشدد قرار دیا۔ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کے مطابق تنظیموں نے اپنی رپورٹوں میں کہا کہ یہ قانون بھارت کے سیکولر آئین کی خلاف ورزی ہے اور مسلمانوں کو دانستہ طور پر شہریت کے حق سے محروم کرتا ہے۔
دہلی میں 2020ء میں ہونے والے فسادات بھارت کی تاریخ کے سب سے خونریز اور بدترین مذہبی تشدد کے واقعات میں سے ایک ہیں۔ ان فسادات میں مسلمان نشانہ بنے، ان کے کاروبار، مکانات اور عبادت گاہوں کو تباہ کردیا گیا۔ کئی مقامات پر مسلمانوں کے ساتھ بدترین جسمانی تشدد بھی کیا گیا اور حکومتی افسران کی خاموش حمایت اور فعال مداخلت نے ان مظالم کو مزید بڑھاوا دیا۔ دہلی پولیس نے نہ صرف تشدد کی روک تھام میں ناکامی کا مظاہرہ کیا بلکہ فسادات کے دوران مسلمانوں کے خلاف ہونے والے حملوں میں حکومتی حمایت بھی فراہم کی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ فسادات کے باوجود نہ تو متاثرین کو فوری انصاف ملا اور نہ ہی فسادیوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی کی گئی۔ بھارت میں گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر وہ مسلمان جو گائے ذبح کرنے یا گائے کے گوشت کے کاروبار میں ملوث پائے گئے ، انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ یہ واقعات بھارت کے اندر نہ صرف مذہبی شدت پسندی کی علامت بنے ہیں بلکہ حکومتی سطح پر انہیں بڑھاوا دینے کے لیے آنکھیں موند لی گئی ہیں۔
بھارت میں مسلم خواتین کے حجاب پہننے پر مختلف ریاستوں میں پابندیاں عائد کی گئیں۔ یہ اقدام مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزی ہے، کیونکہ بھارت کا آئین ہر شہری کو مذہبی آزادی کا حق دیتا ہے۔ خاص طور پر کرناٹک میں حجاب تنازعہ نے بھارت میں مذہبی آزادی کے بحران کو مزید اجاگر کیا۔ تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی نے نہ صرف تعلیمی نظام کو متاثر کیا بلکہ بھارت کی جمہوریت اور سیکولر اقدار کو بھی مجروح کیا۔ بھارت میں ذات پات کا نظام اب بھی گہرائی تک راسخ ہے اور دلتوں کو سماجی سطح پر مسلسل امتیاز کا سامنا ہے۔ دلتوں کو بھارتی معاشرت میں پسماندہ اور کمتر سمجھا جاتا ہے اور انہیں اپنے حقوق کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ خصوصاً دیہاتوں میں دلتوں کو مختلف طبقات کے افراد کے ہاتھوں تشدد اور امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے، جس میں انہیں حقیر سمجھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ سماجی لحاظ سے منفی سلوک کیا جاتا ہے۔ دلت خواتین کو جنسی تشدد اور جسمانی استحصال کا سامنا کیا کرنا پڑتا ہے، لیکن ان کے خلاف ہونے والے جرائم کی تحقیقات اکثر سست روی کا شکار ہوتی ہیں۔ ایک نمایاں مثال 2020 میں پیش آنے والے ہاتھرس کے واقعے کی ہے، جہاں ایک دلت لڑکی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ پولیس اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے اس کیس کو دبانے کی کوششیں کی گئیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دلتوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں انصاف کا عمل اکثر متعصب اور غیر مئوثر رہتا ہے۔ بھارت میں عیسائیوں کے خلاف "گھر واپسی"مہم کے تحت زبردستی انہیں ہندو مذہب میں واپس لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ مہم بھارت میں مذہبی آزادی کے حق پرایک سنگین حملہ ہے، کیونکہ اس کے ذریعے کسی فرد کو اپنے مذہب یا عقیدے کو اختیار کرنے کا بنیادی حق چھیننا جاتا ہے۔
بھارت کے مختلف حصوں میں عیسائی عبادت گاہوں پر 2014ء سے حملے جاری ہیں۔ حالیہ برسوں میں گرجا گھروں پر حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ سال میں 687 حملے رپورٹ کیے گئے جس سے بھارت میں مذہبی ہم آہنگی کا تصور متنازعہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ حملے نہ صرف عیسائی برادری کے لیے ایک سنگین دھچکا ہیں، بلکہ بھارت کی عالمی ساکھ پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق جی 20 کے پلیٹ فارم سے مودی حکومت عالمی سطح پر دبائو کا شکار رہی۔
بھارت کا مین اسٹریم میڈیا، بدقسمتی سے، حکومت کے ایجنڈے کو تقویت دینے میں پیش پیش ہے۔ جہاں میڈیا کو اقلیتوں کے حقوق کی آواز بلند کرنی چاہیے، وہاں وہ اکثر حکومتی بیانیے کو فروغ دینے اور مظلوموں کی آواز دبانے کا کام کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدلیہ کی جانب سے بھی اقلیتی حقوق کے حوالے سے کئی اہم فیصلے حکومتی مفادات کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ بھارت کی عدلیہ میں یہ عدم استحکام ملک کے جمہوری اصولوں کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ جیسے 2019 ء بابری مسجد کیس میں حکومت کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے مسجد کو رام مندر بنایا گیا۔
بھارت میں اقلیتوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے باوجود عالمی برادری کی خاموشی افسوسناک ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک، بشمول امریکہ اور یورپی یونین، بھارت کی معیشت اور جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے انسانی حقوق کے مسائل کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیمیں بھی بھارت میں اقلیتی حقوق کی پامالی کے خلاف صرف زبانی بیانات تک محدود ہیں، جس کی وجہ سے بھارت کے مظالم پر کوئی ٹھوس بین الاقوامی دبائو نہیں ڈالا جا رہا۔ بھارت میں اقلیتی گروپوں پر ہونے والے مظالم اس کی جمہوریت اور سیکولر اقدار کے خلاف ایک سنگین چیلنج ہے۔ اگر بھارت نے اپنے اقلیتی شہریوں کے حقوق کی حفاظت اور مذہبی آزادی کے اصولوں کا احترام نہیں کیا، تو اس کے جمہوری دعوے محض لفظوں تک محدود رہ جائیں گے اور بھارت اس بار چار حصوں میں تقسیم ہوگا۔
بھارت، جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر پیش کرتا ہے، میں عدلیہ کا غیر متوازن اور امتیازی رویہ جمہوریت کی روح کے خلاف ہے۔ جب اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے حقوق کے حوالے سے عدلیہ کی جانب سے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آتا، تو یہ نہ صرف ان کمیونٹیز کی زندگیوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ پورے ملک کی جمہوری اقدار کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں انصاف کا نظام مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے اور عدلیہ کی جانب سے فیصلے سیاسی اثرات سے مغلوب ہو جاتے ہیں، جو کہ جمہوری نظام کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ یہ عدم استحکام بھارت کی داخلی سا لمیت اور ہم آہنگی کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور عدلیہ کے متنازعہ فیصلے بھارت کو ایک ایسی راہ پر لے گئے ہیں جہاں جمہوری آزادیوں کا توازن بگڑ چکا ہے۔ جب تک اس عدم توازن کو دور نہیں کیا جاتا، تب تک بھارت کی جمہوریت کو سنگین خطرات لاحق رہیں گے اور عالمی سطح پر اس کی ساکھ متاثر ہوتی رہے گی۔
عالمی برادری کو بھارت میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر خاموش نہیں رہنا چاہیے، بلکہ انہیں اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تاکہ بھارت کے اندر اقلیتوں کو جینے کا حق مل سکے اور عبادت کرنے پر کوئی پابندی عائد نہ ہو۔
تعارف:مضمون نگار علاقائی و بین الاقوامی امور سے متعلق موضوعات پر لکھتے ہیں۔
تبصرے