صحت ، صفائی اورایمان سکون قلب کا ایک ذریعہ ہے۔اگر ان تینوںمیں سے ایک بھی خراب ہو جائے تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو جائیںگی۔ حدیث مبارکہ ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔صفائی آپ کی صحت سے جڑی ہے۔ صحت نہ ہو تو دنیا کی بڑی سے بڑی آسائش بیکار لگتی ہے۔اسے اس طرح سمجھیں کہ ایک دولت مند شخص بیمار ہے۔ایک دعوت میں انواع واقسام کے کھانے سجے ہیں۔ مختلف مشروبات اور پھل بھی موجود ہیں۔ دعوت میں مدعو لوگ ان تمام چیزوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں مگر وہ شخص صرف ایک سیب کھا رہا ہے۔سچ ہے کہ صحت کے بغیر سب چیزیں بے معنی لگتی ہیں ۔لہٰذا توجہ طلب بات یہ ہے کہ ہم صحت پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟
صحت کے لیے صفائی بہت اہمیت رکھتی ہے چاہے جسم کی ہو، گھر یا آفس کی۔ سکول ہو یا سڑکیں اور بازار، ان سب کو صاف ستھرا رکھنا ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ سڑکوں اور گلیوں میں آدھے سے زیادہ کوڑا ہم خود پھنک دیتے ہیں حالانکہ معمولی توجہ سے ہم اسے ٹھکانے لگا سکتے ہیں۔اگر یہی کچرا ایک شاپر میں ڈال کر کوڑ ےدان میں ڈال دیں تو بہت سی بیماریوں سے بچا جا سکتا ہے۔اس طرح باورچی خانے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اس میں استعمال شدہ برتن ، بچا ہوا سالن اور روٹی کے ٹکڑے کھلے نہ چھوڑے جائیں۔ ایسا کرنے سے بہت سے جراثیموںسے بچا جا سکتا ہے۔
جہاں تک اپنے جسم کی صفائی کا تعلق ہے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہماری رہنمائی کی ہے۔اس کے لیے غسل اور وضو کے طریقے بتائے ہیں ۔یہ تمام طریقے صحت کے اصولوں کے مطابق ہیں۔چودہ سو سال پہلے کے ان اسلامی طریقوں کو آج کی جدیددنیا بھی تسلیم کرتی ہے۔ صفائی کے بعد ورزش بھی لازمی ہے۔اللہ تعالیٰ نے نماز کی صورت میں عبادت کے ساتھ ساتھ ورزش کا عندیہ بھی دیا ہے۔دماغ کی شریانیں ہوں یا آنکھیں، سجدے کی حالت میں خون کا بہائود ماغ اور آنکھوں کی طرف ہوتا ہے جو صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔
انسانی جسم کا ہر عضو اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔آنکھیں ایسی نعمت ہیں کہ اگر یہ خراب ہو جائیں تو لاکھوں روپے خرچ کر کے بھی انہیں دوبارہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔آنکھوں کی روشنی کے بغیر ساری دنیا اندھیری ہو جاتی ہے اور ہم دوسروں کے محتاج ہو جاتے ہیں۔آنکھوں کے ذریعے ہم پڑھ سکتے ہیں اور دنیا دیکھ کر اللہ کی قدرت کا اعترف کر سکتے ہیں۔ رشتے داروں کو پہچان سکتے ہیں۔ اچھے برے کی تمیز کر سکتے ہیں ۔ اگر یہ کسی وجہ سے متاثر ہو جائیں تو ساری دنیا بے نور ہو جائے۔ صرف آنکھیں ہی نہیں بلکہ جسم کا ہر عضو اپنی خاص اہمیت رکھتا ہے، جس کی خرابی کی صورت میں دنیا کی بڑی سے بڑی دولت بھی اس کا متبادل پیش نہیں کرسکتی۔اس لیے کہتے ہیں کہ صحت اور صفائی لازم و ملزوم ہیں۔ہم تندرست رہ کر دوسرے افراد خاص طور پر والدین کی خدمت کر سکتے ہیں۔
تندرست و توانا رہنے کے لیے خوش رہنا اور اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کرنا بہت ضروری ہے۔ہمارا وجود اوراس کے اعضاء اگر بخیر و عافیت ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی مہربانی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے، ’’اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ۔‘‘
بے شک ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنی صحت اوران نعمتوں کی قدر اور حفاظت کرنی چاہیے۔اللہ نے صحت کی حفاظت کے لیے اسلامی اصول دیے ہیں جن پرعمل کرکے ہم نہ صرف دنیا کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ اپنی آخرت بھی سنوار سکتے ہیں۔ ہر سانس کے آنے جانے پر اللہ کی اس نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے۔بقول شاعر:
تنگدستی اگر چہ ہو غالب
تندرستی ہزار نعمت ہے
تبصرے