اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 00:23
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے السلام علیکم نیا سال، نیا عزم نیا سال مبارک اُمیدِ بہار اے جذبہء دل معراج النبیﷺ   علم کی شمع روشنی قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری نئی زندگی سالِ نو،نئی اُمید ، نئے خواب ! کیا تمہیں یقین ہے صاف توانائی ، صاف ماحول پانی زندگی ہے! تندرستی ہزار نعمت ہے! قہقہے اداریہ  ہم ایک ہیں  میرے وطن داستان ِجرأت پائلٹ آفیسرراشد منہاس شہید کامیابی کی کہانی  امتحانات کی تیاری ہم ہیں بھائی بھائی ! حکایتِ رومی : جاہل کی صحبت  حسین وادی کے غیر ذمہ دار سیاح مثبت تبدیلی  چچا جان کا ریڈیو خبرداررہیے! ستارے پانی بچائیں زندگی بچائیں! قہقہے
Advertisements

ہلال کڈز اردو

قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری

جنوری 2025

جمال لائبریری میں بیٹھا کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ اس کے سامنے میز پر دو کتابیں رکھی تھیں۔ وہ کبھی ایک کو دیکھتا اور کبھی دوسری کو۔دونوں کتابوں کے سرورق بہت عمدہ تھے۔ایک پر لکھا تھا شاہنامہ فردوسی اور دوسرے پر لکھا تھا شاہنامہ اسلام۔ شاہنامہ کا لفظ دیکھ کر جمال ان کتابوں کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ دونوں کتابیں پڑھے لیکن شاہنامہ فردوسی، فارسی میں ہونے کی وجہ سے اسے کچھ مشکل پیش آ رہی تھی جبکہ شاہنامہ اسلام اردو میں لکھی گئی تھی لہٰذا وہ اس کی توجہ کا مرکز تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے پڑھنا شروع کر تا، اس کے کانوں میں پڑنے والی ایک آواز نے اسے چونکا دیا۔ 
’’بھئی!آپ کی چوائس تو بہت اچھی ہے۔‘‘سر حامد جو اس کے قریب سے گزر رہے تھے ، میز پر رکھی یہ کتابیں دیکھ کر رُک گئے اور جمال کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولے،’’آپ کو جب بھی وقت اور موقع ملے،انہیں ضرور پڑھنا،آپ کی معلومات میں بہت اضافہ ہو گا۔ ‘‘



اس سے پہلے کہ جمال ان سے اپنی مشکل کا ذکر کرتا ، انہوں نے ایک کرسی اپنی جانب کھینچی اور اس کے قریب بیٹھتے ہوئے بولے،’’فردوسی نےشاہنامہ کو تیس سال تک محنت کے بعد مکمل کیا تھا۔ ان کا پورا نام حکیم ابوالقاسم حسن علی طوسی عرف فردوسی تھا۔یہ مجموعہ تقریباً60 ہزار سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔ اس ادبی شاہکار کا نام دو الفاظ سے مل کر بنا ہے۔ شاہ یعنی بادشاہ اور نامہ سے مراد کارنامہ۔یعنی بادشاہوں کے کارنامے۔ اس کتاب میں ایران کی قدیم تاریخ اور شہنشاہوں اور سلاطین کے سنہری ادوار کے کارناموں، قصوں اور تاریخی واقعات کو شاعرانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب و تمدن اور ثقافت کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔‘‘
جمال نے یہ باتیں سنیں تو اس کے شوق میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ اس نے        سر حامد سےشاہنامہ اسلام کےبارے میں دریافت کیا تو وہ کہنے لگے،’’شاہنامہ اسلام اردو کے ممتاز شاعر ابو الاثر حفیظ جالندھری نے 1937ء میں تحریر کی۔یہ کتاب مثنوی کی صنف میں لکھی گئی جو کہ اردو ادب کی ایک شاہکار کتاب ہے۔  حفیظ جالندھری نے فردوسی کی طرز پر اسے تحریر کیا جس میں انہوں نے اسلامی حکومت کی فتوحات سے لےکر اس کے ہر ہر پہلو کو نظم کا جامہ پہنایا۔یہ کتاب چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ابھی آپ کے سامنے اس کی پہلی جلد پڑی ہے ، اگر موقع ملے تو اس کی باقی جلدیں بھی پڑھنا‘‘، سر حامد نے اس کی حوصلہ افزائی کی تو جمال نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ 
جمال کی نظر ان کتابوں پر تھی کہ سر حامد اسے مزیدبتانے لگے، ’’شاہنامہ اسلام کو توآپ خود بھی پڑھ سکتے ہیں، آج میں آپ کو حفیظ جالندھری کے مختصر حالات زندگی اور ان کے ایک عظیم کارنامے کے بارے میں بتاتا ہوں۔ ‘‘
’’عظیم کارنامہ؟‘‘ جمال کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ اس نے اپنی کرسی گھمائی اور سر حامد کی جانب متوجہ ہو کر بیٹھ گیا۔ 
’’آپ ہر روز صبح اسمبلی میں قومی ترانہ پڑھتے اور سنتے ہیں۔ پوری دنیا میں یہ ہماری پہچان ہے۔ قومی تقریبات میں اسے قومی جذبے سے پڑھا جاتا ہے۔ جب پاکستانی ٹیمیں کھیل کے میدانوں میں اترتی ہیں تو وہاںیہی قومی ترانہ پڑھا جاتاہے۔ہم جب بھی یہ ولولہ انگیز ترانہ سنتے ہیں تو یہ ہمارے دلوں کو حب الوطنی کے جذبات سے لبریز کر دیتا ہے۔ حفیظ جالندھری کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے  قومی ترانے کو تخلیق کیا۔
حفیظ جالندھری14 جنوری 1900ء کوجالندھر میں پیدا ہوئے۔انہیں بچپن ہی سے شعر و شاعری سے دلچسپی تھی۔ انہوں نے اردو میں ایک ماہانہ رسالہ ’’اعجاز‘‘ جاری کیا جو پانچ ماہ بعد بند ہو گیا۔ 1922ء میں لاہور چلے آئےاور رسالہ ’’شباب‘‘ میں ملازمت اختیار کی۔اس کے بعد’’نونہال‘‘ اور’’ ہزار داستان‘‘کی ادارت کی۔’’پھول‘‘ اور’’ تہذیب نسواں‘‘ سے بھی منسلک رہے۔
حفیظ جالندھری کو پاکستان اور نظریہ پاکستان سے والہانہ محبت تھی جس کی جھلک ہمیں قومی ترانے میںنظر آتی ہے۔ حکومت پاکستان نے23 فروری 1949ء کو’’قومی ترانہ کمیٹی‘‘ تشکیل دی جسے نامور شعرا ء کے لکھے 723 ترانے موصول ہوئے۔ان میں سے حفیظ جالندھری کے ترانے کو پاکستان کے قومی ترانے کے طورپر منظور کر لیا گیا۔یہ ترانہ 21 اگست 1949ءکو احمد جی چھاگلہ کی بنائی ہوئی دھن پر پڑھا گیااور 14 اگست 1954ءکو ریڈیو پاکستان سے نشر کیا گیا۔ ‘‘
جمال اپنے شفیق استاد کی ہربات غور سے سن رہا تھا کہ انہوں نے اپنی گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا،’’یہ ان عظیم لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی خدمات کے ذریعے پاکستان کو ایک نئی پہچان دی۔شاہنامہ اسلام کے علاوہ ان کی اوربھی تصانیف ہیںجن میں نغمہ زار، سوز و ساز، تلخابہ شیریںاور چراغ سحر قابل ذکر ہیں۔انہوں نے بچوں کے لیے بے شمار نظمیں اور گیت لکھے۔ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز کے اعزازات سے نوازا۔وہ 21 دسمبر 1982 ء کو لاہور میں وفات پا گئے اور مینار پاکستان کے سائے تلے آسودہ خاک ہوئے۔‘‘
جمال نے اپنے شفیق استاد کا شکریہ ادا کیا اور دونوں کتابیں لے کر لائبریرین کے پاس پہنچا تاکہ انہیںاپنے نام جاری کرواکر ان کا تفصیل سے مطالعہ کر سکے۔