رضوان صاحب تالیوں کی گونج میں اسٹیج تک پہنچے۔ اس دن یعنی 24 جنوری کو وہ شہر کے ایک بڑے سکول میں تعلیم کے عالمی دن کی تقریب کے مہمانِ خصوصی تھے۔ ہال میں موجود طلبہ بے حد خوش اور ان کی باتیں سننے کے لیے بے چین تھے کیونکہ وہ ایک اونچے عہدےپرمامور ہونےکے علاوہ مقبول سوشل ورکر بھی تھے۔ ان کی علم سے محبت ان کی مقبولیت میں اضافہ کرتی تھی کیونکہ وہ فروغِ علم کے لیے ہر وقت مستعد رہتے تھے۔ مائیک کے سامنے پہنچ کر انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’آج میں آپ سب کو اپنی کہانی سنانا چاہتا ہوں، ایک ایسے بچے کی کہانی جو کبھی تعلیم سے دور بھاگتا تھا لیکن ایک واقعے نے اس کی زندگی بدل دی۔ شاید میری کہانی آپ کو یہ سمجھنے میں مدد دے کہ علم سے محبت کس قدر مفید ہے ؟‘‘
طلبہ ہمہ تن گوش تھے۔ ہال میں مکمل خاموشی چھا گئی۔ رضوان صاحب نے اپنی بات شروع کی:’’جب میں آپ کی عمر کا تھا تو میں ایک عام سا لڑکا تھا، بلکہ شاید کچھ زیادہ ہی شرارتی۔ میرے والدین میری وجہ سے بہت پریشان رہتے تھے کیونکہ میرا دل سکول میں لگتا تھا نہ کتابوں میں۔ہر وقت کھیل کود اور بے مقصد گلیوں میں گھومنا میری زندگی کا معمول تھا۔ میرے استاد بھی میری شکایت کرتے رہتے لیکن میں ان باتوں کی پروا نہیں کرتا تھا۔‘‘
وہ ایک لمحے کے لیے رکے اور گہری سانس لے کر بولے، ’’لیکن پھر ایک دن ایسا واقعہ پیش آیا جس نے میری زندگی بدل دی ۔‘‘
انہوں نے کہنا شروع کیا،’’میرے والد ایک مزدور تھے۔ وہ دن رات محنت کرتے تاکہ ہمارا گھر چل سکے۔ایک دن میں ان کے پسینے میں شرابور چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا تو انہوں نے مجھے کہا،’’بیٹا، میرے پاس تمھیں دینے کے لیے دولت نہیں، لیکن ایک نصیحت ضرور ہے... شوق سے علم حاصل کرو۔یہ ایسی روشنی ہے جو ہمیشہ تمھاری رہنمائی کرے گی۔ یہی وہ سیڑھی ہے جس کے ذریعے تم عزت ، دولت ، شہرت ، نیک نامی سبھی کما سکتے ہو۔میں چاہتے ہوئے بھی علم حاصل نہ کر سکا۔ آج جو میرا اور گھر کا حال ہےوہ تمھارے سامنے ہے۔جس طرح بھی ممکن ہو میں تمھیں علم حاصل کرنے کا موقع دے رہا ہوں اس سے فائدہ اٹھاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ.... اس کے بعد والد صاحب رونے لگے اور کچھ نہ کہہ سکے۔‘‘
اس نصیحت نے میرے دل میں ہلچل مچا دی۔ اگلے دن صبح کی اسمبلی میں اقبال کی نظم بچے کی دعا پڑھی گئی۔ میں نے یوں تو پوری نظم سنی لیکن ایک مصرع دماغ میں اٹک سا گیا :
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب
اسی دن نماز کے بعد سچے دل سے دعا کی کہ اگر علم اتنا ہی ضروری ہے تو اے اللہ! مجھے بھی علم کی شمع سے محبت کرنا سکھا دے۔ میری بے قراری ختم نہیں ہوئی۔میں پڑھائی پردھیان دینے لگا۔ ایک دن سکول کی ایک تقریب میں علاقے کے کامیاب شخص کو بلا یا گیا۔ ان کی باتیں میرے دل میں گھر کر گئیں۔
انہوں نے اپنی کامیابی کی کہانی سنائی اور کہا کہ یہ سب کچھ علم اور تعلیم کی بدولت ممکن ہوا۔انہوں نے بتایا، ’’تعلیم وہ بنیاد ہے جو آپ کے خوابوں کو حقیقت میں بدلتی ہے لیکن اگر آپ تعلیم کو اپنی زندگی کا حصہ نہ بنائیں، تو یہ بے فائدہ رہتی ہے ان کے الفاظ میرے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑ گئے۔
رضوان صاحب نے کہا،’’یہی وہ لمحہ تھا جب میں نے فیصلہ کیا کہ اب مزید وقت ضائع نہیں کروں گا۔ میں نے دن رات محنت کی۔ صبح سکول جاتا، شام کو لائبریری ، رات بھی دیر تک پڑھتا۔ شروع میں تو مجھے بالکل کچھ سمجھ نہیں آتا تھالیکن میں نے ہمت نہ ہاری۔ کبھی کلاس کے کسی بچے سے ،کبھی اساتذہ سے، کبھی بڑی کلاس کے بچوں سے پوچھتا اور سیکھتا رہتا تاکہ تعلیمی میدان میں اپنی کمزوریاں دور کر سکوں۔ میرے والدین میرے بدلے ہو ئے رویے سے بہت خوش تھے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا،’’میری محنت رنگ لائی۔ میں نے پورے اسکول میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ میرے اساتذہ نے میری محنت کو سراہا اور میرے باپ کا سینہ خوشی اور فخر سے پھولاہوا تھا اور میری ماں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ اس کامیابی نے مجھے اعتماد دیا۔ ‘‘
رضوان صاحب نے ایک اہم بات کی وضاحت کی۔انہوں نے کہا،’’تعلیم اور علم میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ تعلیم صرف کتابیں پڑھنے یا ڈگری حاصل کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ علم تب بنتا ہے جب آپ اپنی تعلیم کو عملی شکل دیتے ہیں اور اسے زندگی میں اپناتے ہیں۔میں نے تعلیم کو صرف ڈگری تک محدود نہیں رکھا بلکہ میں نے اسے اپنے اردگرد کے مسائل کو حل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اپنے والدین کی مدد کرنا تو فرض ہے ہی لیکن معاشرے کے لوگوں کے لیے کام کرنا اور دوسروں کے لیے مثال بننا، یہی میرا اصل علم تھاجس کی بدولت میں آج یہاں ہوں۔‘‘
رضوان صاحب نے اپنی معاشرتی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا،’’جب میں نے اچھی ملازمت حاصل کر لی تو میرا خواب تھا کہ جو بچے غربت کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں، ان کے لیے کچھ کیا جائے۔ اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے میں نے ایک ادارہ قائم کیا جو نادار بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرتا ہے۔ میں ہر ہفتے اپنے گاؤں جاتا اور وہاں بچوں کو خود بھی پڑھاتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ایک آن لائن پلیٹ فارم بنایا جہاں دنیا بھر کے طلبہ کو مفت کورسز فراہم کیے جاتےہیں۔‘‘
انہوں نے کہا،’’پیارے بچو، اگر آپ زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں، تو علم کو اپنا ہتھیار بنائیں۔ یہ ایسی طاقت ہے جو آپ کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جاتی ہے۔ یاد رکھیں! تعلیم تبھی کارآمد ہے جب وہ آپ کو خود بھی فائدہ دے اور دوسروں کے لیے بھی روشنی کا ذریعہ بنے۔‘‘
تقریب کے اختتام پر رضوان صاحب نے طلبہ سے عہد لیتے ہوئے کہا،’’میں چاہتا ہوں کہ آپ سب یہ عہد کریں کہ جب آپ اپنی تعلیم مکمل کرلیں گے تو آپ اپنی زندگی میں کم از کم ایک ایسے بچے کو ضرور پڑھائیں گے جو غربت کے باعث تعلیم حاصل نہیں کرسکا۔یاد رکھیں،یہ ایک چھوٹا سا عمل نہیں ہے بلکہ علم کی روشنی پھیلانے کا ایک عظیم قدم ہے۔‘‘
طلبہ نے بلند آواز میں پرُ جوش ہو کرعہد کیا۔ رضوان صاحب کی باتوں نے نہ صرف ان کے دلوں میں علم کی شمع اور محبت جگا دی بلکہ انہیں یہ سبق بھی دیا کہ وہ اپنے معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔
یہ تقریب بچوں کے لیے ایک یادگار سبق چھوڑ گئی۔ علم وہ شمع ہے جو نہ صرف ایک فرد بلکہ پوری قوم کی ترقی ، خوشحالی اور استحکام کی ضمانت بنتی ہے۔
تبصرے