سرسبز فصل کے پاس فضل دین اور اُس کا ملاز م عبدل افسردہ بیٹھے تھے کیونکہ مسلسل تیسرے سال بھی اس کی کپاس کی ہری بھری فصل پر سنڈیوں نے حملہ کردیا تھا۔ کپاس کے پودوں کے کٹے پھٹے پتے اس بات کا ثبوت تھے کہ سنڈی کا حملہ شدید تھا۔حالانکہ اس بار بھی فضل دین نے مہنگی زرعی ادویات کا سپرے کیا تھامگر اس کا کچھ فائدہ نہ ہوا۔اپنی فصل کا یہ حشر دیکھ کراس کا دل بجھ گیا۔ابھی وہ بیٹھا اپنے نقصان کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ اتنے میںاس کا ایک دوست تیمور اُدھر آن پہنچا۔
تیمور نے فضل دین کو یوں افسردہ دیکھا تو وجہ دریافت کی۔جواب میں اس نے تفصیل بتا دی اورساتھ ہی اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ آئندہ وہ کبھی کپاس کاشت نہیں کرے گا۔ اس پر تیمور مسکرایا اور کہنے لگا، ”بھئی یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔پچھلے سال تم نے کیڑے مکوڑوں کے ڈر سے مکئی کی کاشت سے توبہ کی تھی اور اس بار سنڈی کی وجہ سے کپاس کی فصل سے دل اُچاٹ کیے بیٹھے ہو۔ تمہیںکیا ہوگیا ہے... ؟ “
”تیمور !مجھ جیسابے چاراکسان اور کرے بھی تو کیا؟ ابھی تو کماد کاصحیح ریٹ نہ لگنے پر میں سوچ رہا ہوں کہ اس کی کاشت سے بھی ہاتھ کھینچ لیا جائے۔“ فضل دین نے کہا تو تیمور نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگا،” پھر تو چڑیوں اور کوئوـں کے ڈر سےتم گندم بھی کاشت نہیں کروگے؟ ایسا ہی چلتا رہا تو گزارا کیسے ہوگا ؟“
فضل دین نے دوبارہ لب کھولے ، ” پھر تم ہی بتائو ! اس مسئلے کاکیا حل ہے ؟“ اس پرتیمور نے آگے بڑھ کر فضل دین کا کندھا تھپتھپایا اور بولا،” دیکھو دوست!تم سمجھ دار انسان ہو۔جیسے ہر کوئی اپنے اپنے شعبے میں پیش آنے والی مشکلات کے آگے ہتھیار ڈالنے کی بجائے ان سے نمٹنے کی کوشش کرتا اور مسائل کا حل نکالتا ہے، تم اپنے کام میں پیش آنے والی مشکلات پر ہمت سے کام کیوں نہیں لیتے ؟اگر وہ لوگ بھی یوں ہمت ہار جائیں تو پھر معاشرے کا نظام کیسے چلے گا؟“
تیمور کی بات پر فضل دین اس کا منہ تکتا رہ گیا۔اسے متوجہ پاکر تیمور دوبارہ گویا ہوا، فضل دین !تم تواپنی تھوڑی سی زمین کی دیکھ بھال کرتے ہو، اسے سیراب کرتے ہواور پھر فصل کاٹتے ہو جبکہ دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیںجو کسی غرض کے بغیراس سرزمین کی حفاظت اور دیکھ بھال کرتے ہیں۔وہ اکثر اوقات اسے اپنے لہوسے سیراب کرتے ہیں۔ بڑے بڑے طوفانوں کے سامنےسینہ سپر ہو کر بہادری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ دشمن کا خوب مقابلہ کرتے ہیں ،موسم چاہے جیسا بھی شدیدترہو، عید، شبِ برات ہو یا کوئی اور موقع، وہ بہادر لوگ ہر وقت ڈٹے رہتے ہیں۔یہاں تک کہ ان کا مخالف بھی ان کودادِ شجاعت دیے بغیر نہیں رہتا۔مجھے حیرت ہے کہ تم اس چھوٹے سے مسئلے سے ہی ڈر گئے۔“
تیمور نے تفصیل بیان کی تو فضل دین قدرے شرمندہ اور حیران ہوا۔پھر کچھ دیر رک کر بولا، ” تیمور ! میں سمجھا نہیں ، تم کن لوگوں کی بات کررہے ہو ؟“
تیمورکہنے لگا، ”دیکھو فضل دین!میں جن کی بات کررہا ہوں، وہ ایک دو نہیںبلکہ ان کی تعدادہزاروں،لاکھوں میں ہے۔ان کی قربانیوں کی داستان بھی طویل ہے اور اپنے شعبے اور اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ ان کی محبت بھی لازوال ہے۔ یقین نہ آئے توتم میجرعزیز بھٹی شہید کی بہادری کی داستان ہی پڑھ لو۔ “
” اوہ!میں اب سمجھاکہ تم کن کی بات کررہے ہو۔واقعی یہ بات تو ہے کہ ہمارے دیس کے بہادر غازی اور عظیم شہداء اپنے وطن کی حفاظت کو ہی اپنا سرمایہ حیات سمجھتے ہیں اور اس کو شاداب رکھنے کے لیے اپنے لہوسے سیراب کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔“فضل دین نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”ہاں!یہی تو....ایک طرف یہ لوگ ،جو میجر عزیز بھٹی کی صورت میں دشمن کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑے ہوجائیں ،پھر چاہے جتنی بھی گولہ باری ہو، جتنی بھی نیند اور آرام کی طلب ہو ، ایسے لوگ اپنے وطن کی حفاظت اور قوم کے سکون وراحت کے لیے اپنی جان تک قربان کر ڈالتے ہیں ۔دوسری طرف ہم ہیں کہ معمولی مسائل کے آگے ہمت ہار جاتے ہیں ۔اب بتائو کہ ایسے لوگ ہمارے لیے عظمت کا مینارہ ہیں یا نہیں ؟“تیمورنے کہا توفضل دین نے اثبات میں سر ہلادیا۔
” ویسے تیمور! جیسے میجر راجہ عزیز بھٹی شہید، چھ دن اور چھ راتیں بغیر آرام کیے دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے اور آخر میں شہادت کا رتبہ پاکر نشانِ حیدر جیسا اعزاز اپنے نام کرگئے ،ویسے ہی ہمارے ملک میں کئی اور بہادری کی داستانیں بھی بکھری پڑی ہیں ۔“
فضل دین نے کہا تو تیمور ہاں میں سر ہلاتے ہوئے بولا، ”بالکل!تم کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی داستان ہی پڑھ لو۔کیسے اس جری مجاہد نے پہاڑوںپربرفانی طوفان کے دوران دشمن کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ کیپٹن کرنل شیرخان اس قدر بہادری سے لڑے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد ہمارا دشمن بھی ایک خط کے ذریعے ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکاتھا۔ یہ داستان تاریخ کی کتابوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوکر رہ گئی۔ایسے بہادر سپوت اللہ نے ہماری سرزمین کوعطا کر رکھے ہیں۔ “ تیمور نے تفصیل بیان کی توبہادری کی یہ عظیم داستان سننے کےبعد فضل دین کا جذبہ جوان ہوگیا۔وہ شدت جذبات سے کہنے لگا، ”دیکھو تیمور!ایسے ہی جری جوانوں کی قربانیوں کی بدولت یہ ملک قائم دائم ہے۔ ہم اس بات کو فراموش نہیں کرسکتے۔“
”بالکل !مگر بہادری کی باتیں کرنا تو بہت آسان ہے البتہ گولیوں کی بوچھاڑ میں دشمن کے سامنے میجر عزیز بھٹی شہید اور کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی طرح سینہ تان کر کھڑا ہونا عظیم لوگوں کا کام ہے۔ ابھی تم نے جن عظیم شہداء کا نام سنا، ان دونوں میں بہادری اور شجاعت تو مشترک تھی ہی، دونوں نے جام ِ شہادت نوش کرکے اس وطن کی زمین کو اپنے خون سے سیراب کیا اور دونوں نے نشانِ حیدر جیسا سرکاری اعزاز پایا۔ ان شہیدوں میںایک اور مشترک چیز یہ بھی تھی کہ یہ دو نوں جنوری کے مہینے میں پیدا ہوئے تھے۔تیمورنے بتایا تو فضل دین آگ تاپتے ہوئے کہنے لگا، ” ارے واہ ! خوب اتفاق ہے، ان بہادر شہیدوں کو میرا سلام ہے۔ “
تیمور کہنے لگا، ”کیوں فضل دین!ایسی بہادری کی داستانیں سننے کے بعد کیا ارادہ ہے ؟ اپنے حوصلوں کو بلند رکھنا ہے یا ہمت ہارنی ہے ؟“
”نابھئی ناں....ہمت تو اب کسی صورت نہیں ہاریں گےبلکہ اپنی قوت ِ ارادی سے ہر مشکل کو شکست دیں گے اور ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردارادا کریں گے۔اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے۔یہ نغمہ گنگناتے ہوئے فضل دین نے اپنا بیلچہ تھاما اور اللہ کا نام لے کر اٹھ کھڑاہوا۔ سمجھ دار لوگ واقعی اپنے شہدا کی بہادری کی داستانوں سے جذبہ حاصل کرتے ہیں یہی جذبہ آج فضل دین کے د ل میں بھی پیدا ہوچکا تھا۔
تبصرے