اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 00:07
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے السلام علیکم نیا سال، نیا عزم نیا سال مبارک اُمیدِ بہار اے جذبہء دل معراج النبیﷺ   علم کی شمع روشنی قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری نئی زندگی سالِ نو،نئی اُمید ، نئے خواب ! کیا تمہیں یقین ہے صاف توانائی ، صاف ماحول پانی زندگی ہے! تندرستی ہزار نعمت ہے! قہقہے اداریہ  ہم ایک ہیں  میرے وطن داستان ِجرأت پائلٹ آفیسرراشد منہاس شہید کامیابی کی کہانی  امتحانات کی تیاری ہم ہیں بھائی بھائی ! حکایتِ رومی : جاہل کی صحبت  حسین وادی کے غیر ذمہ دار سیاح مثبت تبدیلی  چچا جان کا ریڈیو خبرداررہیے! ستارے پانی بچائیں زندگی بچائیں! قہقہے
Advertisements

ہلال کڈز اردو

اُمیدِ بہار

جنوری 2025

اس دن دھوپ اور بارش کے خوبصورت امتزاج کے ساتھ موسم بے حد حسین تھا ۔ خدا کی قدرت کے نظارے دیکھ لینے کے بعد بار بار سبحان اللہ کہنے کو دل چاہ رہا تھا اور صد شکر کہ زبان اس شکرانے کا ساتھ دے رہی تھی۔سال کے وہ آخری ایام اپنی خوبصورتی کی وجہ سے فطرت کے رنگوں میںاضافہ کر رہے تھے ۔ وقت کےخیرو عافیت سے گزرنےپر دل لبا لب دعائوں سے بھرنے لگا۔نئے سال کے موقع پر اسپین کے ارد گرد کا ماحول پرُ رونق تھا۔گویا اندر کا موسم باہر کے موسم کا ترجمان تھا۔ 
 فاطمہ کچن میں اپنی امی جان کی مدد کرنے کے بعد ابو کے پاس آبیٹھی تھی۔ وہ ان کی بے حد شکر گزار تھی کہ انہوں نے دو برس قبل اسے مسجد قرطبہ اور دریائے الکبیر دکھایا تھا۔ وہ خواہشمند تھی کہ اپنے اس سفر کے بارے میں اُردو میں ایک سفرنامہ تحریرکرے اور دنیا میں جہاں جہاں اُردو بولنے اور سمجھنے والے لوگ موجود ہیں ، وہ فاطمہ کی فراہم کردہ معلومات سے رہنمائی حاصل کریں۔فاطمہ کے خیالات ابا جان کے لیے بے حد حیران کُن اور خوشی کا باعث تھے۔ انہوں نے نم آنکھوںسے فاطمہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے یہ شعر کہنےلگے...
خورشیدِ جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں 
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہُنر میں 
ابا جان اس ارادے کی تکمیل کے لیے دعاگو تھے۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ اس سفر نامے کی ترتیب میں وہ فاطمہ کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ جبکہ مصطفیٰ ابھی تک وہ لمحہ یاد کر رہا تھا جب اس نے دو برس قبل فاطمہ کے سفارش نہ کرنے کی وجہ سے دوستوں کے ساتھ اسپین کے شہر پامیلونا جانے سے انکار کر دیا تھا جہاںآج بھی بیلوں کی دوڑ کا میلہ لگتا ہے۔اسے ڈر تھا کہ کہیں اس بار بھی ابا جان وہاں جانے سے انکار نہ کر دیں اسی لیے اس نے ساحل سمندر کی سیر کی خواہش ظاہر کی تھی۔
سمندری لہروں کے درمیان چند دن یا چند گھنٹے گزارنے کا تجربہ ضرور کرنا چاہیے۔اس نے آج سے پہلے سمندر کے کناروں پر صرف بحری جہازوں کو لنگر انداز ہوتے  ہی دیکھا تھا۔
’’ ہاں کیوں نہیں...  اگر موقع ملےتوبحرو بر میںپوشیدہ حکمتوں اور خوبصورتی کو ضرور تلاش کرنا چاہیے‘‘،ابا جان نے مصطفیٰ کے شوق کو سراہا تھا۔
 وہ راضی ہو گئے تھے کہ مصطفی کی درخواست رد نہیں کریںگے۔سب ہنس پڑےتھےکہ اس کی یہ درخواست پچھلی تمام درخواستوں سے قدرے معقول تھی۔
مصطفیٰ کی اس بات سے ابا جان کے دل میں ایک خوبصورت خیال ابھرا تھا اور اس بار نئے سال کے موقع پر جبل الطارق یعنی جبر الٹر جانے کے بارے میں انہوں نے فاطمہ سے مشورہ کیا۔ فاطمہ ایک بار پھر ابا جان کی شکر گزار تھی کہ ان کی وجہ سے اسے اس خطے کی تہذیب سے روشناس ہونے کا موقع مل رہاہے۔ فاطمہ نے مصطفیٰ کو بھی شاباش دی کہ اس کے سمندری سفر کے خیال نے ابا جان کو ان بحری جہازوں کی یاد دلائی جن پر سوار ہو کر طارق بن زیاد اور ان کی سپاہ نے اسپین ( ہسپانیہ ) کی سرزمین پر فتح کی غرض سے قدم رکھا اور یہیں سے سنہری اسلامی دور کا آغاز ہوا۔ فاطمہ نے طارق بن زیاد جیسے بہادر جرنیل کے بارے میں پڑھ رکھا تھا اور وہ دن بھی جلد آنے والا تھا جب وہ اس جگہ قدم رکھے گی جہاں طارق بن زیادنے اپنا پہلا قدم رکھا تھا ۔اسے معلوم تھا کہ ان کا نام رہتی دنیا تک جبل الطارق کی یاد گار کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور تاریخ کے ابواب میں لکھا اور پڑھا جاتا رہے گا۔
فاطمہ نے امی جان کو بھی یہ خوش خبری سنائی تھی۔ وہ اس بات پر خوش تھیں کہ ان کے بچوں کے پاس سیکھنے کے مواقع موجود ہیں۔ابا جان نے اس سال کے آخری ہفتے جبرالٹر جانے کا ا رادہ ظاہر کیا تھا۔ویسے بھی سال کے آخر میں نئے سال کی آمد کی خوشی میں چھٹیاں ہوتی ہیں ،گویا اسلامی تہذیب و تاریخ کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملے گا۔نئے سال کی چھٹیوں میں ابھی پندرہ دن باقی تھے۔ فاطمہ مسجد قرطبہ کے حوالے سے سفر نامے کی اشاعت سے منسلک کاموں میں مصروف ہو گئی اور ساتھ ساتھ سفر کی تیاریاں بھی کرنے لگی۔اس بار فاطمہ کی کچھ سہیلیاں ملک سے باہر جا رہی تھیں۔ کچھ کا ارادہ اسپین ہی میں رہنے کا تھا اور فاطمہ ان کو ہسپانوی زبان میں اپنے سفر کے بارے میں معلومات فراہم کر تے ہوئے پُرجوش دکھائی دے رہی تھی۔
 آخر وہ دن آگیا جس کا سب کو شدت سے انتظار تھا۔وہ ایک خوبصورت جزیرہ نما ساحلی علاقہ تھا۔ جبر الٹر کی پہاڑیوں کے درمیان واقع مسجد ان کے دلوں کو ایمان کی حرارت سے گرما رہی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مسجد طارق بن زیادنے تعمیر کروائی تھی۔فاطمہ اس مسجد میں سر بسجود ہونے کی خواہشمند تھی ۔ اس مقام پر طارق بن زیاد کے الفاظ اس کی سماعتوں میں گو نجنے لگے جو انہوں نے تمام بحری جہازوں کو جلانے کا حکم دیتے ہوئے اپنی سپاہ سے کہے تھے۔
’’ ہمارے پیچھے سمندر اور آگے دشمن ہے۔ خدا کی قسم! سوائے استقلال کے ہمارے لیے کوئی راستہ نہیں ہے‘‘ ... فاطمہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے 
جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی 
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا 
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی 
 اس مقام پر فاطمہ نے طارق بن زیاد کے قدموں کی آہٹ کو محسوس کیا تھا اور موسیٰ بن نصیر کی بصیرت کو بھی جنہوں نے طارق بن زیاد کو فن حرب سکھائے اور مسلم تہذیب کے قیام کی ذمہ داری ان کو سونپتے ہوئے انہیں روانہ کیا۔وہ تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتی تھی کہ اس مسجد میں طارق بن زیاد کی امامت میں نماز ادا کرتے ہوئے نمازی اور دعائیں مانگنے والے دعا گو تھےکہ جن کے خدا پر توکل نے ان کو فتح اور نصرت بخشی اور رہتی دنیا تک ان کے ناموں کو بلند اور روشن کردیا۔
دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو 
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی 
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن 
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی 
گزشتہ سال تمام سالوں کی طرح ایک بہترین سال تھا۔اس کے پاس کہنے اور بتانے کو بہت کچھ تھا۔اسےاسلامی تہذیب و ثقافت پر ناز تھا کہ جس کی بدولت وہ آج ایک حسین مقام پر موجود تھی۔ اسلامی تہذیب و تشخص اس کے لیے باعثِ فخر تھا۔ وہ ایک بار پھراللہ تعالیٰ کی شکر گزار تھی جو اسے بار بار اپنی ہستی اور عظمت سے شناسائی کے مواقع فراہم کر رہا تھا۔ اس نے چشم تصور میں سوچا کہ بلاشبہ آنے والے سال اس سے بھی خوبصورت ہوں گے، انشاءاللہ۔
مِلّت کے ساتھ رابطہ اُستوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے، اُمیدِ بہار رکھ!