اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 01:01
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد
Advertisements

ہلال اردو

بلوچستان کا حیرت کدہ

دسمبر 2024

 بھائی! سمجھا کرو لاہوت بند ہوگیا ہے۔
ٹھیک ہے! ٹھیک ہے! ہم آجائیں گے۔
یہ مختصر مکالمہ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے ایک لاہوتی سے ہوا، جو ہمیں لاہوت کے غار کی طرف جانے سے منع کر رہا تھا۔ دراصل اس کا اشارہ غروب آفتاب کی طرف تھا کہ سورج ڈھل رہا ہے۔ پارکنگ ایریا کے پاس بورڈ پر بھی لاہوت جانے کا وقت صبح پانچ بجے سے شام پانچ بجے تحریر تھا۔ ہم شام ساڑھے پانچ بجے پارکنگ ایریا سے لاہوت کے پہاڑ پر چڑھ رہے تھے اور دوسری جانب سے زائرین اتر رہے تھے۔
ٹھیک ڈھائی ماہ قبل وادی کمراٹ سے متصل سیاحتی مقام جاز بانڈا کی چڑھائی چڑھتے ہوئے ایک سیاح نے اسی طرح کا مکالمہ مجھ سے کیا تھا کہ شام کے وقت جنگل میں ہائیکنگ نہ کریں۔ اس مقام پر بھی محکمہ جنگلات نے بورڈ پر تحریر کیا تھا کہ ہائیکنگ کا وقت شام چار بجے تک ہے۔ جاز بانڈا میں ہائیکنگ سے منع کرنے کی وجہ جنگل میں جانوروں کا خوف تھا، لیکن لاہوت کے مقام پر منع کرنے کی وجہ جنات کا خوف تھا۔ 
مقامی طور پر یہ روایت مشہور ہے کہ شام کے بعد لاہوت کے غار میں جنات جاتے ہیں۔ اگرچہ ہم نے غار تک سفر روشنی میں کیا اور اس مقام پر چند لوگ موجود تھے، لیکن واپسی کا سفر غروب آفتاب کے بعد کیا اور آخر میں ہم دو دوست ہی اترے تھے۔ اس مقام پر از راہ تفنن دوست سے کہا کہ جنات تو نظر نہیں آئے ممکن ہے وہ جن ہم ہی ہوں۔



لاہوت لامکان کے نام سے معروف یہ غار اور اطراف میں موجود بلند و بالا خوب صورت پہاڑ کراچی سے 120 کلو میٹر دور ہے۔ برسات کے بعد غار کی بلندی سے گرتی آبشار یہاں کے قدرتی حسن میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ غار کے قریب چٹانیں اس طرح خوب صورتی کے ساتھ اوپر سے لٹک رہی ہیں جیسے کسی نے مصنوعی طور پر ڈیزائن کیا ہو۔ ان چٹانوں سے پانی کی بوندیں بھی ٹپکتی ہیں۔اس مقام کو سیاحت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ ہائیکنگ کے لیے ایک بہترین ٹریک ہے۔


لاہوت لامکان کے نام سے مشہور غار سارونہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے، جو بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ کا ایک دور دراز مقام ہے۔ یہاں سیاحت کے لیے کراچی سے دوست عارف بروہی کے ہمراہ صبح سویرے روانہ ہوگیا تھا۔ ارادہ یہ تھا کہ دریجی روڈ پر واقع تمام معروف مقامات کی سیر کریں گے۔ ہمارے دن کے آغاز کا بڑا حصہ حب ڈیم پر گزرا۔ چوں کہ حب ڈیم سائٹ سیاحت کے لیے بند ہے۔ کراچی سے جو شہری حب ڈیم جاتے ہیں وہ زیادہ تر اس بند تک پہنچتے ہیں جس سے نہر نکالی گئی ہے۔ بند سے آگے واپڈا کے سکیورٹی اہل کار شہریوں کو مزید سفر کی اجازت نہیں دیتے۔ 
حب ڈیم 2024ء کے مون سون میں اوور فلو ہوا ہے۔ یہ لگاتار تیسرا سال ہے کہ حب ڈیم اپنی گنجائش کی حد کراس کر رہا ہے۔ اس سے قبل حب ڈیم دو مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ جب ویڈیو یا تصاویر میں حب ڈیم کے سپل وے سے پانی کے اخراج کا منظر دیکھا کرتا تھا تو ذہن میں یہ سوال آتا تھا کہ حب ڈیم کا سپل وے کہاں واقع ہے؟ جس بند سے نہر نکالی گئی ہے وہاں سپل وے نہیں ہے اور گزشتہ چند برسوں سے واپڈا کے ملازمین اس بند سے آگے جانے نہیں دیتے۔ اس مرتبہ ارادہ کیا کہ حب ڈیم سائٹ پر بلوچستان کی طرف سے داخل ہوتا ہوں، تاکہ دوسرے کنارے پر سپل وے دیکھ سکوں۔
ہم نے کراچی سے ناردرن بائی پاس پر سفر کا آغاز کیا اورہمدرد یونیورسٹی کے قریب حب ڈیم کی طرف مڑگئے۔ لیکن اس سڑک پر زیادہ سفر نہیں کیا۔ یونیورسٹی کی چار دیواری ختم ہوتے ہی بائیں جانب سڑک نکلتی ہے۔ اس سڑک کے ذریعے ہم بند مرادکا پل پار کر کے بلوچستان کی حدود میں داخل ہوئے۔ یہاں کچھ ہی فاصلے پر ایک سڑک بائیں جانب مڑتی ہے جو ساکران سے ہوتے ہوئے حب چوکی جاتی ہے۔ دوسری سڑک دریجی کی طرف سیدھ میں جاتی ہے۔
دریجی روڈ پر سفر کرتے ہوئے حسن پیر کی مختصر آبادی کراس کی تو وہ سڑک آگئی جو حب ڈیم کی طرف دائیں جانب مڑتی ہے۔ یہ مختصر سڑک حب ندی کے مقام پر ختم ہوجاتی ہے اور آگے بڑھنے کے لیے ندی میں اترنا پڑتا ہے۔ مون سون میں یہاں پانی زیادہ ہوتا ہے۔ اس موقع پر بھی ندی میں بہتا پانی موجود تھا لیکن ایک فٹ سے زیادہ نہیں تھا۔
پہلے ہم ندی میں بیٹھ گئے جہاں صاف و شفاف پانی نشیب کی طرف بڑھتے ہوئے مسحور کن منظر پیش کر رہا تھا۔ بعدازاں ندی کا جائزہ لیا، جہاں پانی کم تھا اور راستہ قدرے ہموار تھا وہاں سے موٹرسائیکل کے ذریعے دوسری طرف پار ہوگئے۔ اس مقام پر ایک گوٹھ ہے اور مختصر سڑک بھی ہے، جس پر سفر کرتے ہوئے ہم حب ڈیم کے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں ڈیم کے کنارے واپڈا کا ریسٹ ہائوس واقع ہے۔
ریسٹ ہائوس کے پاس واپڈا کے ملازم نے ہاتھ کے اشارے سے راستہ سمجھایا کہ شمال کی طرف کچی سڑک پر سفر جاری رکھیں چند کلومیٹر کے بعد ڈیم کے دوسرے بند پر پہنچ جائیں گے، جہاں سپل وے واقع ہے۔ اس راستے میں وہ دروازہ بھی دیکھا جو ایمرجنسی کی صورت میں ڈیم سے پانی کے اخراج کے لیے تعمیر کیا گیا ہے، تاکہ ہنگامی صورت حال میں ڈیم کے بند کو نقصان نہ پہنچے۔ وہاں نصب بورڈ پر اس دروازے کا نام RLC Gate تحریر تھا۔ اس دروازے سے مزید چند کلو میٹر کے سفر پر بالآخر ہم حب ڈیم کے اس بند پر پہنچ گئے جس کے اختتام پر سپل وے واقع ہے۔
حب ڈیم مکمل بھرا ہوا تھا۔ پانی سپل وے کے آخری کنارے سے ٹکرا رہا تھا۔ وہاں موجود واپڈا ملازم نے بتایا کہ چند ہفتے قبل جب ڈیم بھرگیا تھا، پندرہ دن تک پانی کا اخراج جاری رہا۔ ڈیم سائٹ پر محسوس کیا کہ حب ڈیم ایک بہترین سیاحتی مقام بن سکتا ہے۔ اگر یہاں کشتی رانی کی سروس متعارف کروائی جائے اور ڈیم میں موجود چھوٹے جزیروں پر پکنک سپاٹ اور کنارے پرتفریح گاہیں تعمیر کی جائیں تو شہری کینجھر جھیل کی طرح حب ڈیم بھی سیاحت کی غرض سے جاسکیں گے۔ حب ڈیم پر سیاحت کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اس بڑے آبی ذخیرے سے پن بجلی کی سہولت بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
بہرحال حب ڈیم سے واپسی کی راہ لی اور ایک مرتبہ پھر دریجی روڈ پر سفر شروع کیا تو گیارہ بج رہے تھے۔ ایک گھنٹے بعد ہم اس مقام پر پہنچ گئے جہاں سے دریجی اور نورانی کے لیے سڑکیں جدا ہوتی ہیں۔ ہم وہاں ہوٹل میں سستانے کے لیے بیٹھ گئے اور کھانے کے بعد ایک مقامی شہری سے بات چیت شروع کی تو جان پہچان نکل آئی۔ اس دوران ایک گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا اور معلوم ہی نہ ہوسکا۔
باہر سخت دھوپ تھی۔ سورج کی تپش زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن وہاں بیٹھے رہنے کا فائدہ نہیں تھا۔ ہم نے منزل پر پہنچنا تھا۔ اس مقام سے نوارنی 55 کلو میٹر اور دریجی 120 کلو میٹر  دور ہے۔ کراچی اور نورانی کے درمیان سفر کا یہ مڈ پوائنٹ بنتا ہے۔ اسی نسبت سے وہاں مڈ وے نامی ریسٹورنٹ بھی واقع ہے۔ دوپہر  ڈیڑھ بجے ہم ایک مرتبہ پھر سڑک پر موٹر سائیکل دوڑانے لگے۔ ہم جوں جوں آگے بڑھتے رہے اطراف میں پہاڑوں کی بلندی بھی بڑھنے لگی۔ راستے میں درجن بھر برساتی ندیوں سے واسطہ پڑا۔ بعض ندیوں میں  پانی کم اور کچھ میں زیادہ تھا۔ لیکن خوش گوار بات یہ تھی کہ سڑک مکمل پختہ ہے، جس کی وجہ سے پریشانی نہیں ہوئی۔
 ایک گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم لاہوت پہنچ گئے، جہاں لیویز چیک پوسٹ واقع ہے۔ وہاں موجود لیویز اہل کار نے مشورہ دیا کہ گرمی بہت ہے، آپ پہلے نورانی چلے جائیں،  واپسی پر لاہوت کا سفر کرلیں۔ مذکورہ چیک پوسٹ سے تقریباً دو کلو میٹر کی دوری پر بازار واقع ہے، جہاں محبت فقیر کا مقبرہ ہے۔اس بازار میں ایک مسجد بھی ہے۔ نماز کے لیے وضو کرنے کی غرض سے نچلی جانب ایک وضو خانے میں نلکا کھولا تو معلوم ہوا کہ پانی حد سے زیادہ کھارا ہے۔ حیرت ہوئی کہ پہاڑوں اور ندی نالوں کے درمیان واقع اس مقام پر زیر زمین پانی کھارا ہے۔ واضح رہے کہ ضلع خضدار کی مختلف تحصیلوں میں بروہی زبان بولنے والے زیادہ بستے ہیں۔ نورانی کے اطراف میں مقامی بولی بروہی ہے۔ یہاں بلوچوں میں مینگل برادری کے افراد زیادہ آباد ہیں۔
نماز کے بعد محبت فقیر کا مقبرہ دیکھا۔ کہا جاتا ہے کہ محبت فقیر بلاول شاہ نورانی کے مرید تھے۔ نورانی کا مقبرہ اس مقام سے مغرب کی طرف تنگ پہاڑی گھاٹی میں واقع ہے۔ ساڑھے تین بجے ہم اسی پہاڑی گھاٹی کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں بل کھاتی سڑک اور اطراف میں بلند و بالا پہاڑ دلکش منظر پیش کر رہے تھے۔ اس مقام پر نچلی جانب صاف پانی بھی بہہ رہا تھا۔ برسات کے دنوں میں بہتے پانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس گھاٹی نما مقام پر کھجوروں کے درخت بھی تھے اور کیکر کے درخت بے تحاشا تھے۔
چند کلو میٹر کے بعد ہم نورانی کے مزار سے متصل پارکنگ ایریا پہنچ گئے۔ اس موقع پروہاں زائرین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ اطراف میں ایک بڑا بازار بھی ہے۔ دکانوں میں کھانے پینے کی چیزیں، میوہ جات اور مختلف اشیا دستیاب تھیں۔ بلاول شاہ نورانی المعروف نورانی کون تھے اور یہاں کب آئے؟  اس کے متعلق حتمی بات نہیں کہی جاسکتی۔ ایک مقامی روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس مقام پر آئے تھے۔ مزار کے راستے میں قدم مبارک کے نام سے ایک مزار نما جگہ بنائی گئی ہے، جہاں ایسے پتھر رکھے ہوئے ہیں جن میں پائوں کے نشانات موجود ہیں۔ وہ پتھر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ اسی مقام سے ایک راستہ مشرق میں پہاڑ کی طرف نکلتا ہے، جہاں سے زائرین لاہوت لامکان کی طرف پیدل جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس مقام سے لاہوت تک ہائیکنگ کا دورانیہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے ہے۔
ہم مزار کی گھاٹی سے واپس نیچے اتر گئے اور نورانی روڈ پر کراچی کی جانب سفر کرتے ہوئے لاہوت چیک پوسٹ پہنچ گئے۔ وہاں قریب ہی پارکنگ ایریا ہے۔ اس مقام سے لاہوت کے غار تک ہائیکنگ کا دورانیہ نصف گھنٹہ ہے۔ موٹرسائیکل پارک کرنے کے بعد ہم نے غار کی طرف ہائیکنگ شروع کی۔ اگرچہ ہمیں تاخیر کی وجہ سے منع کیا گیا لیکن ہم نے طے کرلیا تھا کہ غار تک ہر صورت پہنچیں گے۔
مجھے مختلف وادیوں اور پہاڑوں میں ہائیکنگ کا موقع ملا ہے، لیکن لاہوت لامکان کے نام سے معروف اس غار تک ہائیکنگ ایک منفرد تجربہ ثابت ہوا۔ غار تک پہنچنے کا راستہ دشوار گزار ہے۔ بارشوں کے بعد یہاں پانی بھی بڑھ جاتا ہے۔ تنگ گھاٹی کے درمیان جگہ جگہ بہتے پانی میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ بعض جگہ عمودی چٹانیں ہیں، جن پر چڑھنا یا اترنا مشکل ہے۔ وہاں زائرین کے لیے مختلف مقامات پر لوہے کی سیڑھیاں بنائی گئی ہیں، جن  کی مدد سے لوگ با آسانی گزر جاتے ہیں۔
لاہوت کی اس تنگ گھاٹی میں دو موڑ آتے ہیں۔ دوسرے موڑ کے بعد وہ پہاڑ نظر آتا ہے جس میں غار واقع ہے۔ برسات کے بعد غار کی بلندی سے آبشار بھی گرتا ہے، جس کا نظارہ دور سے کیا جاسکتا ہے۔ راستے میں بعض چٹانیں ایسی ہیں جن کے نیچے سے گزرنا پڑتا ہے۔ بالآخر آدھے گھنٹے بعد ہم غار کے قریب پہنچ گئے۔ بیشتر زائرین جاچکے تھے۔ وہاں ایک لاہوتی موجود تھا جو جوتوں کی نگرانی کر رہا تھا۔ انہوں نے ہمیں بھی جوتے اتارنے کا کہا۔
پانی گرنے کی وجہ سے اور زائرین کی آمدورفت کے باعث غار کے قریب کیچڑ تھا۔ وہاں ایک چھوٹی سی مسجد اور خانقاہ بھی ہے۔ مسجد سے چند قدم آگے لوہے کی وہ آخری سیڑھیاں ہیں جن پر چڑھ کر غار کے دہانے تک پہنچ سکتے ہیں۔ شام کے چھ بج رہے تھے۔ چند زائرین موجود تھے جو اس غار سے باہر آ رہے تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ غار میں داخل ہوتے ہیں تاکہ اندر کا نظارہ کیا جاسکے۔بغیر جوتوں کے لوہے کی سیڑھیوں پر چڑھنا اگرچہ دشوار تھا لیکن اس کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں تھا۔
سیڑھیاں چڑھ کر ہم غار کے دہانے تک پہنچ گئے۔ وہاں چند مضبوط رسیاں لٹک رہی تھیں، ان کی مدد سے غار میں داخل ہوگئے۔ اندر مکمل اندھیرا تھا۔ نچلی جانب ایک سے  ڈیڑھ فٹ تک پانی تھا۔ غار کی اندرونی چٹانوں پر آمدورفت کی وجہ سے کیچڑ بھی تھا۔ پائوں مسلسل پھسل رہے تھے۔ غار اندر سے کافی کشادہ ہے لیکن بند ہونے کی وجہ سے دم گھٹ رہا تھا۔ زائرین اس غار کے اندر مزید آگے بڑھتے ہیں اور چکر کاٹ کر واپس آتے ہیں۔ غار کے اندر ایک چٹان ہے جس کے نیچے تنگ راستہ ہے۔ زائرین اس چٹان کے نیچے سے بھی گزرتے ہیں اور اس فعل کو عقیدت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ مقامی طور پر بیان کردہ روایتوں کے مطابق لاہوت ایک چلہ گاہ ہے اور یہاں بہت سے بزرگوں نے چلہ کشی کی ہے۔ اس غار کے متعلق زیادہ تر دعوے مبالغہ آرائی معلوم ہوتے ہیں، تاریخ کی کتابوں میں اس کے آثار نہیں ملتے۔
لاہوت لامکان کے نام سے معروف یہ غار اور اطراف میں موجود بلند و بالا خوب صورت پہاڑ کراچی سے 120 کلو میٹر دور ہے۔ برسات کے بعد غار کی بلندی سے گرتی آبشار یہاں کے قدرتی حسن میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ غار کے قریب چٹانیں اس طرح خوب صورتی کے ساتھ اوپر سے لٹک رہی ہیں جیسے کسی نے مصنوعی طور پر ڈیزائن کیا ہو۔ ان چٹانوں سے پانی کی بوندیں بھی ٹپکتی ہیں۔اس مقام کو سیاحت کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ ہائیکنگ کے لیے ایک بہترین ٹریک ہے۔ البتہ اس مقام پر منشیات کے عادی افراد بھی نظر آتے ہیں، جو یہاں کے ماحول کو  متاثر کرتے ہیں۔
مجموعی طور پر سارونہ کا پہاڑی سلسلہ پرامن اور خوب صورتی سے مالا مال ہے، بلکہ مکمل بلوچستان ایک حیرت کدہ ہے۔ یہاں کے پہاڑوں میں مختلف رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لاہوت سے مشابہ مقام ویندر کے دور دراز پہاڑوں میں بھی واقع ہے۔ یوٹیوب پر ایک ویڈیو میں اس کا نظارہ کیا تھا۔ وہاں بھی آبشار اور غار موجود ہے۔ ویندر کے مذکورہ مقام پر آمدورفت نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کا قدرتی حسن اپنی جگہ برقرار ہے۔ سیاحت کے شوقین افراد برسات کے بعد بلوچستان کے ان پہاڑوں میں جھرنوں اور آبشاروں سے محظوظ ہوسکتے ہیں۔


مضمون نگار مصنف، محقق اور صحافی ہیں، جامعہ کراچی سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
[email protected]