سفیرِ تحریکِ آزادی ، پیکرِ حرکت و عمل ، خوشبوئے کردار ،مردِ استقلال ، ارادے کے کوہ ِ گراں، نابغۂ روز گار ، دانش ِہفت رنگ ، شوکتِ تحریک آزادی ، دُرِّ نایاب، گوہر شہوار، بصیرت افروز اور وقارِ پاکستان، حضرت قائد اعظم محمد علی جناح 1876-1948ء برِّصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے نجات دہندہ تھے ۔ وہ ہمیشہ حسنِ نظر اور حسنِ عمل سے آگے بڑھتے رہے ۔ ایک دانش ور کی طرح سوچتے اور ایک مجاہد کی طرح اس پر عمل کرتے تھے ۔ انھوں نے انگریزوں ، ہندوؤں اور سکھوں کی چال بازیاں بھانپ کر مسلمانوں کو حصول آزادی کی راہ پر گامزن کیا ۔ حکیم الامت ، اقلیم سخن ، ترجمانِ حقیقت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے خواب کو حقیقت کا رنگ عطا کرنے کے لیے انھوں نے ان تھک محنت کی ۔ خرابی صحت کے باوجود وہ آگے بڑھتے رہے ۔ انھوں نے حصولِ آزادی کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیا ۔ ایک اچھا لیڈر ہمیشہ اچھے خواب دیکھتا ہے ۔ اس کے سپنوں میں قوم کا دکھ درد سمایا ہوتا ہے ۔ اس کا سونا ، اس کا جاگنا ، اس کا اٹھنا قوم کے لیے وقف رہتا ہے ۔ دنیا میں وہی لیڈر کامیاب ہوئے جن کے من میں قومی درد دل کی دھڑکن کی طرح محسوس ہوتا رہا ۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ان کی زندگی قوم کے لیے اور ان کا مرنا بھی قوم کے لیے ہو ۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے جو نظریہ پیش کیا لوگوں نے اسے دیوانے کا خواب تصور کیا لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے اقبال کے تصور کو حقیقت میں ڈھالنے کے لیے سر پر کفن باندھ کر اپنی منزل کا تعین کیا ۔
قائد اعظم محمد علی جناح ایسی مملکت چاہتے تھے جس میں مسلمان اپنی مذہبی آزادی برقرار رکھ سکیں ۔ ایسی ریاست بنے جس میں اقلیتیں بھی آزاد ہوں اور ان کے حقوق کا خیال رکھا جائے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایسا خواب دیکھ رہے تھے کہ ایسی مملکت معرض وجود میں آئے کہ جہاں مسلمانوں کا نظریہ ٔحیات اُبھر کر سامنے آئے ۔ایسے خواب کی تعبیر کے لیے انھوں نے اپنی صحت کا خیال کیے بغیر بھرپور کام کیا ۔وہ ایسا آئین چاہتے تھے جس کے مطابق شہریوں کو بلا امتیاز مساوی مذہبی آزادی حاصل ہو ۔ پاکستان کے آئین کے لیے ان کا زاویۂ نظر یہ تھا کہ قرآن و حدیث کی رہنمائی میں اس کی تیاری مکمل کی جائے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کا آئین تو چودہ سو سال پہلے ہماری رہنمائی کر چکا ہے ۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا :
'' میںکون ہوتاہوں آپ کو آئین دینے والا ، ہمارا آئین ہمیں آج سے تیرہ سو سال پہلے ہی ہمارے عظیم پیغمبر ۖ نے ددے دیا تھا ہمیں تو صرف اس آئین کی پیروی کرتے ہوئے اسے نافذ کرنا ہے او ر اس کی بنیاد پر اپنی مملکت میں اسلام کا عظیم نظام حکومت قائم کرنا ہے او ریہی پاکستان ہے۔''
آئین کے بارے میں بات کرتے ہوئے ایک اور جگہ پرمزید فرمایا :
''مجلس دستور ساز کو ابھی پاکستان کا دستور مرتب کرنا ہے ۔ مجھے اس بات کا تو علم نہیں کہ دستور کی حتمی شکل کیا ہوگی لیکن مجھے اس امر کا یقین ہے کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا جس میں اسلام کے لازمی اصول شامل ہوں گے ۔ آج بھی ان کا اطلاق عملی زندگی میں ویسے ہی ہوسکتا ہے جس طرح 1300 سال پہلے ہو سکتا تھا ۔ اسلام نے ہر شخص کے ساتھ عدل وانصاف کی تعلیم دی ہے ۔ ہم ان شاندار روایات کے وارث ہیں اور اس حوالے سے دستور ساز اسمبلی کے ارکان اپنی ذمہ داریوں سے باخبر ہیں ۔''
(امریکہ کے عوام سے نشری خطاب 7 فروری1948ء)
تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کا مؤقف بڑا واضح او رروز روشن کی طرح عیاں تھا۔ وہ اس ضمن میں مصممّ ارادہ رکھتے تھے ۔ ان کا زاویہ نظر یہی تھا کہ قوم اپنے عمل اور طرز زندگی سے پہچانی جاتی ہے ۔ معاشرے کا استحکام اسی جذبے سے ابھرتا ہے ۔ہماری ریاست کی جڑیں اسلامی طرز فکر سے جڑی ہوئی ہیں ۔ اگر ہم اس پر فخر کریں اور عمل کا مظاہرہ کریں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی ۔سیالکوٹ میں اپنے قیام کے دوران انھوں نے فرمایا :
''تم تنہا یا دونوں متحد ہو کر بھی ہماری روح کو فنا کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ تم اس تہذیب کو کبھی مٹا نہیں سکو گے وہ اسلامی تہذیب جو ہمیں ورثے میں ملی ہے۔ ہمارا ایمان زندہ ہے ، زندہ رہا ہے او رزندہ رہے گا ۔ تم ہمیں مغلوب کرنے کی کوشش کرو ، ہم پر ظلم و تعدی کرو ، ہمارے ساتھ بدترین سلوک کرو لیکن ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمیں مرنا ہے تو لڑتے لڑتے مرجائیںگے لیکن اپنی روح ، اپنی اسلامی تہذیب اور اپنے ایمان کو ہم فنا نہیں ہونے دیں گے ''
(22 مارچ1939 ء ) حصولِ آزادی کا مقصد یہی تھا کہ ہم ایک ایسی ریاست تشکیل دیں جو اسلام کی تجربہ گاہ ہو ۔ اسلامی طرز حیات اس کی پہچان ہو ۔ ہمیں قرآن پاک کے ہوتے ہوئے کسی اور ازم کی ضرورت نہیں ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح جس قسم کا پاکستان چاہتے تھے وہ ان کی تقاریر سے صاف دکھائی دیتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا :
''پاکستان کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم صرف غیر ملکی حکومت سے آزادی چاہتے ہیں۔ اس سے حقیقی مراد مسلم آئیڈ یالوجی ہے جس کا تحفظ نہایت ضروری ہے ۔ ہمیں صرف اپنی آزادی حاصل نہیں کرنی ۔ ہمیں اس قابل بھی بننا ہے کہ اس کی حفاظت کر سکیں او راسلامی تصورات او راصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں ۔''
مآخذ : محمدآصف بھلی، '' سیالکوٹ: دی گریٹ لیڈر پبلشرز2012 '' ،ص9
قائد اعظم محمد علی جناح بیسویں صدی کے ایسے لیڈر تھے جنھوں نے اپنے مشن کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کیا اور کسی کے خوف اور ڈر میں نہ آئے بلکہ وہ جانتے تھے کہ جب انسان کے ارادے پختہ ہوں اور نظر خدا پر ہو تو وہ کسی بھی طوفان کا مقابلہ کر سکتا ہے ۔ دلوں میں قرآن پاک کا اجالا ہونا از بس ضروری ہے جو دلوں کے زنگ کو اتار دیتا ہے ۔ انھوں نے مسلمانوں کو پھر سے بھولے ہوئے راستے پر گامزن ہونے کا مشورہ دیا۔قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا :
''آئیے ہم واپس چلیں او راپنی کتاب مقد س قرآن کریم ، حدیث او راسلام کی عظیم روایات سے رجوع کریں جن میں ہماری رہنمائی کے لیے ہر چیز موجود ہے ۔ ہم ان کی درست طور پر تاویل و تعبیر کریں او راپنی عظیم کتاب مقدس کا اتباع کریں ۔''
(دی ڈان ،6 مارچ1946ء)
قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح طور پر انگریزوں اور ہندوؤں کو یہ پیغام دیا کہ برصغیر پاک و ہند میں ایک قوم نہیں بلکہ دو الگ الگ قومیں مسلمان اور ہندو آباد ہیں جو کسی طرح بھی اکٹھے نہیں رہ سکتے ۔ یہ آگ اور پانی کو ملانے والی بات ہے ۔
'' اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مسلمان ایک قوم ہیں ۔ قومی گروہ کی حیثیت سے وہ اپنے شمالی، مغربی او رمشرقی علاقوں میں تعداد کے لحاظ سے سات کروڑ سے کم نہیں ۔ ہم اپنی تجویز کی رو سے ان علاقوں میں اپنی آزاد ریاستوں کے خواہاں ہیں اور ہم انڈیا کی جمہوری مرکزی حکومت پر مبنی کسی بھی آئین کو قبول نہیں کر سکتے۔''
(محمد علی جناح14نومبر 1942 ء )
پاکستان سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم پاکستان کے لیے اپنی خواہشات ، اپنا من اس کی سرحدوں اور اس کے دامن میں چن دیں ۔ ہر پاکستانی کی یہ خواہش ہونی چاہیے کہ وہ چشم وطن میں سمایا ہو ۔ بے درو دیوار ہی سہی لیکن یہ اپنا گھر ہے ۔ آئیے ! اس کی ابتداء اپنی ذات سے کریں کہ اگر میں ٹھیک ہوگیا تو معاشرے سے کم از کم ایک اور برائی تو کم ہوگی ۔ پاکستان ایک معدنیات سے بھرپور خطہ ارضی ہے جس میں ہر طرح کے خزانے موجود ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان خزانوں کو نکالا جائے اور وطن عزیز کے لیے کام میں لایا جائے ۔ پاکستان کو دنیا بھر میں ایک مضبوط عزت و وقار دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے محنت شاقہ اور عرق ریزی سے کام لینا چاہیے ۔ اس کی تعمیر و ترقی میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھنی چاہیے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا :
''پاکستان کی سرزمین میں زبردست خزانے چھپے ہوئے ہیں مگر اس کو ایک ایسا ملک بنانے کے لیے جو ایک مسلمان قوم کے رہنے سہنے کے قابل ہو ، ہمیں اپنی قوت اور محنت کے زبردست ذخیرے کا ایک ایک ذرّہ صرف کرنا پڑے گا او رمجھے امید ہے کہ تمام لوگ اس کی تعمیر میں دل کھول کر حصہ لیں گے ۔ '' (جمعة الوداع ،17 اگست1947)
(مآخذ : آغا اشرف ، ہمارے قائد اعظم ، لاہور : مقبول اکیڈمی ، سن ندارد' ،ص45)
آزادی حاصل کرنے کے بعد اس کی حفاظت کا ذمہ بھی کڑا امتحان ہے ۔ اس کی سرحدوں کی حفاظت بھی ضروری ہے اور اس کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ بھی از بس ضروری ہے ۔ایک ایسا خطۂ ارض جہاں تمام مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق اپنی آزادانہ انداز میں عبادات کرسکیں ۔ پاکستان کلمہ توحید کے نام پر حاصل کیا گیا ہے ۔ یہ ایک ایسی اسلامی مملکت ہے جس میں مسلمان مکمل آزادی کے ساتھ سکھ کا سانس لے سکتے ہیں ۔ اس کی حفاظت بھی ہمارے ذمے ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:
''پاکستان کا مطلب صرف آزادی و حریت کا حصول نہیں ہے بلکہ اسلامی نظریے کا تحفظ بھی ہے جس کو محفوظ رکھنا ضروری ہے ۔ یہ قیمتی تحفے او ربیش بہا خزانے ہمیں ورثے میں ملے ہیں '' (سرحد مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن 1945ء )
مآخذ :محمود اختر خان ، ہم اور قائد اعظم ، کراچی : رنگ ادب پبلی کیشنز ،2018ء' ،ص81
پاکستان کے وسائل کم او رمسائل بہت زیادہ ہیں۔ اس کے استحکام کے لیے دفاع کو اولین حیثیت حاصل ہے ۔ سرحدی دفاع ، مسلح افواج کے سپرد ہے ۔ دوران جنگ سرحدی دفاع کے ساتھ ساتھ ملک کے داخلی دفاع کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح دوران امن سرحدی اور داخلی دفاع لازم و ملزوم ہوتے ہیں ارضی و سماوی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی فوج کی گراں قدر خدمات قوم کے لیے باعث فخر رہی ہیں ۔
'' میرے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کو ایمانداری ، خلوص دل او ربے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔ ''(قائد اعظم محمد علی جناح )
(پیغام عید الفطر، 27 اگست1948)
مآخذ : آغا اشرف ، ہمارے قائد اعظم ، لاہور : مقبول اکیڈمی ، سن ندارد' ،ص44
بانیِ پاکستان محمد علی جناح چاہتے تھے کہ نئی ریاست خوشحال اور فعال ہو۔ اُن کے فرمودات میں ہمارا مستقبل پنہاں ہے۔ اُن کی بصیرت کے در کھولے جائیں تو ایک فلاحی، اصلاحی اور رفاہی مملکت کا خاکہ سامنے آتا ہے۔
'' تمھارے جذبات خواہ کتنے ہی متاثر ہوئے ہوں، تمھیں کوئی عمل ایسا نہیں کرنا چاہیے جس سے ہمارے قومی مقصد کو نقصان پہنچے۔ تم ہمارے رہنما الفاظ کے سامنے اپنے انفرادی فوائد قربان کر دو،وہ رہنما الفاظ ہیں ایمان، اتحاد اور تنظیم ۔ ''
(ڈھاکہ یونیورسٹی کے نام خط 20 جنوری1942ء)
'' میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ حصول پاکستان کی طویل جدوجہد میں مسلمان خواتین اپنے مردوں کے پیچھے مضبوطی سے ڈٹی رہی ہیں۔ تعمیر پاکستان کی اس سے بھی سخت اور بڑی جدوجہد کا ہمیں اب سامنا ہے۔ یہ نہ کہاجائے کہ پاکستان کی خواتین پیچھے رہ گئیں یا اپنا فرض ادا کرنے سے قاصر رہیں۔ ''
(24 مارچ 1948ئ، ڈھاکہ یونیورسٹی میں تقریر )
'' پاکستان کی دیگر ملازمتوں کے مقابلے میں دفاعی افواج کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اسی نسبت سے آپ کی ذمہ داریاں بھی زیادہ ہیں۔ میں نے جو کچھ دیکھا ہے اور معلوم کیا ہے اس کی بناء پر بلاشبہ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری افواج کے حوصلے قابل فخر ہیں۔ ''
(افواج پاکستان کو خراج تحسین کوئٹہ 16 جون1948ء )
''ہمارے کالجوں کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ زراعت، علم حیوانات، انجینئرنگ ، طب اور دوسرے فنی و خصوصی میدانوں میں صفِ اوّل کے ماہرین پیدا کریں۔ صرف اسی طریقے سے ہم ان مسائل کا کوئی ٹھوس حل نکال سکیں گے ۔ جو عام آدمی کا معیار زندگی بلند کرنے کے لیے ہمیں پیش آرہے ہیں۔ ''
(ایڈورڈ کالج پشاور18اپریل 1948ء )
'' میں حکومت پاکستان کی جانب سے یقین دلانا چاہتا ہوں کہ حکومت کی پالیسی اور نیت یہ ہے کہ آزاد تجارت کے تمام وسائل اور راہوں کو زیادہ سے زیادہ حد تک آزاد چھوڑ دیا جائے۔ (27/ اپریل 1948ء کراچی چیمبرز آف کامرس )
جس طرح قائداعظم محمد علی جناح نے مصورِ پاکستان کے خاکے میں اپنی محنتِ شاقہ سے حقیقت کا رنگ بھرا ۔ اِسی طرح آج تعمیر و ترقی کے لیے ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان زندہ باد !
مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لیے لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے