دنیا میں کچھ انسان دوسرے لاکھوں ، کروڑوں انسانوں سے مختلف شخصیت ، کردار اور راہ حیات لے کر پیدا ہوتے ہیں ۔ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ انہیں قدرت کی طرف سے ان کی منزل بھی بتا دی جاتی ہے اور منزل تک پہنچنے کی کٹھنائیاں بھی ۔ ان میں سے کچھ چنیدہ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں اپنے لیے نہیں بلکہ دوسرے انسانوں کے لیے نہ صرف منزل کا تعین کرنا ہوتا ہے بلکہ راستے کی نشاندہی کرکے قافلوں کی رہنمائی کرتے ہوئے ایک عظیم منزل کے حصول کے لیے گامزن بھی ہونا ہوتا ہے ۔
بانی ِ پاکستان قائدِاعظم محمدعلی جناح کا شمار دنیا کی ایسی ہی منتخب ہستیوں میں ہوتا ہے۔ وہ25 دسمبر 1876 ء کو کراچی کے ا یک مشہور تجارتی خاندان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سندھ مدرسة الاسلام اور کرسچن مشن سکول میں حاصل کی۔ جناح نے 1893 ء میں لنکن ان میں شمولیت اختیار کی اور تین سال بعد پیشہ وکالت اختیار کیا۔ وہ یہ کام کرنے والے سب سے کم عمر ہندوستانی تھے ۔ محمد علی جناح نے بطورِ وکیل اپنے کیریئر کے آغاز سے ہی اپنی سنجیدگی ، متانت ، مستقل مزاجی ، قانون پر مہارت اور استدلال کی بے مثال قابلیت کی وجہ سے مقبولیت حاصل کی اور کچھ ہی سالوں میں بمبئی کے سب سے کامیاب وکیل بن گئے ۔ ایک بار جب انہوں نے وکالت کے پیشے میں مضبوطی سے قدم جما لیے تو وہ 1905 ء میں انڈ ین نیشنل کانگریس کے پلیٹ فارم سے باضابطہ طور پر سیاست میں داخل ہوئے۔ اس سال وہ گوپال کرشنا گوکھلے 1866-1915)ئ) کے ساتھ برطانوی انتخابات کے دوران ہندوستانیوں کی آزاد حکومت کی استدعا کے لیے کانگریس کے ایک وفد کے ممبر کی حیثیت سے انگلینڈ گئے تھے۔ جناح نے ایک سال ہندوستانی نیشنل کانگریس کے صدر ، دادا بھائی نوروجی (1825-1917)کے سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات بھی سر انجام دیں ، جوکہ ایک اُبھرتے ہوئے سیاستدان کے لیے بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔ یہاں کلکتہ کانگریس اجلاس(دسمبر) 1906 ء میں انہوں نے ہندوستان پر ہندوستانیوں کی اپنی حکومت سے متعلق قرارداد کی حمایت میں اپنی پہلی سیاسی تقریر بھی کی ۔
انھوں نے اپنی زندگی کے 42 سال اس کے لیے جدوجہد کی۔ ایک ہمہ جہت شخصیت جو زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب تھی۔ قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کے داعی ، آئین پسند، ممتاز پارلیمنٹیرین ، ا یک اعلیٰ درجے کے سیاستدان ، متحرک مسلمان رہنما اور جدید زمانے کے سب سے بڑے قوم ساز سیاسی لیڈر تھے ۔ ایک اور بات جو انہیں جدید دنیا کے باقی سیاسی رہنمائوں سے ممتاز بناتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے قائد ین نے پہلے سے روایتی طور پر موجود اقوام کی قیادت سنبھالی، ان کے مقاصد کو آگے بڑھایا اور انہیں آزادی کی طرف لے کر گئے ۔ جب کہ قائداعظم نے ایک پِسی ہوئی اور متفرق اقلیت کو اکھٹا کر کے بیدار کیا ، اسے قوم بنایا اور نہایت قلیل مدت کے اندر ان کی تہذیب وثقافت کے مطابق وطن فراہم کیا ۔ برصغیر پاک و ہند کی آزادی سے قبل انہوں نے تین دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ تک ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کی۔ قائد اعظم نے ہندوستان کے مسلمانوں کے خوابوں کو زبان دی، ان کو ہم آہنگ کیا، واضح سمت عطا کی اور ٹھوس مطالبات کی شکل میں پیش کیا ۔ تیس سال سے زیادہ عرصے تک انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے بنیادی حقوق اور ایک معزز طرز زندگی کے لیے بھرپور کوشش کی ۔ درحقیقت ان کی سوانح حیات برصغیر کے مسلمانوں کی نشا ةِثانیہ کی کہانی ہے۔
قائدِاعظم محمد علی جناح جنوری 1910ء کو نو تشکیل شدہ امپیریل قانون ساز کونسل کے لیے منتخب ہوئے۔ انہوں نے اپنے پارلیمانی کیریئر میں اپنی زندگی کی چار دہائیاں وقف کیں۔ وہ ہندوستان کی آزاد ی اور ہندوستانیوں کے حقوق کے لیے سب سے طاقتور آواز تھے ۔ جناح کونسل کے توسط سے پرائیویٹ ممبر کے بل کو چلانے والے پہلے ہندوستانی بھی تھے ۔وہ جلد ہی مقننہ کے اندر ایک گروپ کے قائد بن گئے ۔ مسٹر مونٹیگو (1879-1924)نے ہندوستان کے سیکرٹری برائے ریاست کی حیثیت سے پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر جناح کے بارے میں کہا 'وہ ایک خوش اخلاق ، جاذب نظر اور تمام حربوں سے لیس ہیں اور ان کے لیے یہ بات نامناسب ہے کہ ان جیسے ہوشیار آدمی کو اپنے ہی ملک کے معاملات چلانے کا کوئی موقع نہ دیا جائے ۔'
1906 ء میں سیاست میں آنے کے بعد تقریباً تین دہائیوں تک جناح نے جوش و جذبے اور یقین کے ساتھ ہندو مسلم اتحاد کے لیے کام کیا ۔ گاندھی سے پہلے ہندوؤں کے سب سے بڑے رہنما گوکھلے نے ایک بار ان کے بارے میں کہا تھا ان کے پاس اصل چیزیہ ہے کہ وہ تمام فرقہ وارانہ تعصب سے آزاد ہیں اور یہ ہی بات انہیں ہندو مسلم اتحاد کا بہترین سفیر بناتی ہے ۔ اور حقیقت یہ کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے معمار بن گئے اور 1916ئ میں کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان جو معاہدہ ہوا جسے عرف عام میں میثاقِ لکھنؤ کہتے ہیں کا سہرہ جناح کے سر جاتا ہے۔ یہ معاہدہ کانگریس اور مسلم لیگ جو کہ ہندوستان کی دو بڑی قومیتوں کی نمائندگی کرنے والی جماعتیں تھیں کے درمیان واحد معاہدہ تھا۔
1917 ء تک جناح ہندوستان کے نمایاں سیاسی راہ نما بن چکے تھے اور ہندو اور مسلمانوں دونوں میں مشہور ہو چکے تھے ۔ وہ نہ صرف کانگریس اور امپیریل قانون ساز کونسل میں نما یاں تھے بلکہ آل انڈیا مسلم لیگ اور ہوم رول لیگ کی بمبئی برانچ کے صدر بھی تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ہندوستان کی سیاست میں آنے والے یا موجود تعصبات سے شدید تشویش لاحق ہوئی اور وہ سیاست میں تشدد کے امتزاج سے بہت مایوس ہوئے۔ کیونکہ جناح منظم پیشرفت، اعتدال پسندی ،تدریجیت اور آئین پرستی کے حامی تھے ، اس لیے انھوں نے محسوس کیا کہ سیاسی تشدد قومی آزادی کی راہ نہیں بلکہ تباہی اور برباد ی کی تاریک گلی ہے۔
نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے عوام میں بڑھتی ہوئی مایوسی، سیاسی انتہا پسند ی کی وجہ تھی۔
جناح نے یہ بات شدت سے محسوس کی۔یہاں تک کہ رابندر ناتھ ٹیگور (1861-1941 )نے بھی محسوس کیا کہ گاندھی کا عدمِ تعاون کا نظریہ منفی ہے اور مایوسی کا سب سے بڑا سبب ہے ۔ اس سے ناراضی پیدا ہوسکتی تھی ، لیکن کچھ بھی تعمیری نہیں ہو گا لہٰذا انہوں نے گاندھی کی طرف سے بیسویں دہائی کے اوائل میں تحریک خلافت کے استحصال اور پنجاب میں ناجائز ہتھکنڈوں کے استعمال کی مخالفت کی ۔ گاندھی کے پروگرام کو اپنائے جانے کے موقع پر جناح نے ناگپور کانگریس اجلاس 1920)ء میں متنبہ کیا کہ آپ ہندوستانی نیشنل کانگریس کو ایک سال میں ہندوستانیوں کی اپنی حکومت کے حصول کا نا ممکن ہدف دے رہے ہیں جو آپ حاصل نہیں کر سکیں گے ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ آزادی کے لیے کوئی سہل راستہ نہیں ہے اور کوئی ماورائے آئین طریقہ ہندوستان کو آزادی کی دہلیز کے قریب لا نے کے بجائے سیاسی تشدد ، لاقانونیت اور انتشار کا باعث بنے گا۔
آئندہ کے واقعات نہ صرف جناح کے اندیشوں کی تصدیق کرتے ہیں بلکہ ا نھیں درست ثابت کرتے ہیں۔ اگرچہ جناح نے اس کے بعد کانگریس کو خیرباد کہہ دیا ، لیکن انہوں نے ہندومسلم مفاہمت کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں جسے وہ بجا طور پر آزادی کے لیے اہم ترین شرط سمجھتے تھے ۔ تاہم دونوں قومیتوں کے مابین شدید عدمِ اعتماد جو کہ ملک گیر فرقہ ورانہ فسادات سے ثابت تھا کی اصل وجہ ہندوؤں کی مسلمانوں کے جائز مطالبات کو پورا کرنے میں ناکامی تھی۔ جس نے قائد کی ساری کوششوں کو ناکام بنا د یا ۔ ایسی ہی ایک کوشش جناح نے مارچ ، 1927ء میں دہلی مسلم تجاویز کی صورت میں کی تھی۔ آئینی منصوبے پر ہندو مسلم اختلافات کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے دہلی تجاویز میں مسلمانوں کے علیحدہ حق رائے دہی کو بھی چھوڑ دیا ، جو 1906 ء کے بعد سے مسلمانوں کا سب سے بنیاد ی مطالبہ تھا اور جسے میثاق لکھنو میں کانگریس نے تسلیم کیا تھا ، لیکن وہ پھردونوں جماعتوں کے مابین تنازعے کا سبب بن گیا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے آئین کے لیے کانگریس کے زیر اہتمام تجاویز کی نمائندگی کرنے والی نہرو رپورٹ 1928 ) )نے دہلی مسلم تجاویز میں شامل بنیادی مسلم مطالبات کی بھی نفی کر دی۔ جس پر جناح نے 1928 میں کانگریس کے قومی کنونشن میں استدلال کیا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہندو اور مسلم ایک ساتھ چلیں جب تک کہ ہمارا مقصد حاصل نہ ہوجائے، ان دونوں برادریوں کو اپنے اختلافات بھلانا ہوںگے اور یہ محسوس کرنا ہو گا کہ ان کے مفادات مشترک ہیں۔ کنونشن کی طرف سے مسلم مطالبات کو قبول کرنے سے انکار نے ہندو مسلم اتحاد کو تباہ کن دھچکا پہنچایا اور جناح کی محنت کو ضائع کر دیا یہ موقع مسلمانوں کے لیے فیصلہ کن ثابت ہوا اور جناح کے لیے راستے جدا کرنے کا باعث بنا۔
اس بات کا اعتراف انہوں نے اس وقت اپنے ایک پارسی دوست سے کیا تھا۔ وہ برصغیر کی سیاست سے مایوس ہونے کے بعد تیس کی دہائی کے اوائل میں ہجرت کرکے لندن چلے گئے تاہم ، وہ اپنے ہم مذہب ساتھیوں کی التجا پر1934 ء میں ہندوستان واپس آئے اور ان کی قیادت سنبھالی ۔ لیکن اس وقت کے مسلمان مرد و خواتین سیاسی طور پر غیر منظم ہونے کی وجہ سے مایوسی اور بے بسی کا شکار تھے ۔
جناح کے سامنے جو ہدف تھا وہ اتنا آسان نہ تھا۔ مسلم لیگ غیر فعال تھی اور اس کی صوبائی تنظیمیں بھی زیادہ تر غیر مؤثر اور صرف رسمی طور پر مرکزی تنظیم کے ماتحت تھیں۔ مرکزی ادارہ جو جناح نے منظم کیا تھا اس کی بمبئی کے اجلاس 1936 ء تک کوئی مربوط پالیسی نہیں تھی ۔ صوبائی سیاست نے بھی مایوس کن منظر نامہ پیش کیا ۔ پنجاب ، بنگال ، سندھ ، نارتھ ویسٹ فرنٹیئر ، آسام ، بہار اور متحدہ صوبوں میں ، مختلف مسلم رہنمائوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی اپنی صوبائی جماعتیں تشکیل دی تھیں ۔ جناح کے لیے اس وقت ڈھارس کا باعث شاعر و مفکر علامہ اقبال (1877-1938 ) کی شخصیت تھی جنہوں نے پس منظر میں رہ کر ہندوستانی سیاست میں اپنا راستہ بنانے میں ان کو مدد فراہم کی ،اس مایوس کن صورتحال کے باوجود جناح نے ایک پلیٹ فارم پر مسلمانوں کو منظم کرنے کے لیے خود کو وقف کردیا۔ انہوں نے ملک گیر دوروں کا آغاز کیا اور صوبائی مسلم رہنمائوں سے التجا کی کہ وہ اپنے اختلافات کو ختم کریں اور مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں ۔ انہوں نے مسلم عوام کو اپنے آپ کو منظم کرنے اورمسلم لیگ میں شامل ہونے کی تلقین کی۔ انہوں نے گورنمنٹ آف انڈیا ا یکٹ 1935 ء کے حوالے سے مسلمانوں کے سیاسی جذبات کو ہم آہنگ کیا اور واضح سمت فراہم کی ۔ انہوں نے اس بات کی حمایت کی کہ فیڈرل اسکیم کو ختم کرنا چاہیے کیونکہ یہ ہندوستان کی خود مختار حکومت کے مقصد کے منافی ہے جبکہ صوبائی اسکیم ، جس نے پہلی بار صوبائی خودمختاری کے حق کو قبول کیا تھا ، اس کے کچھ قابل اعتراض نکات کے باوجود اسکی حمایت کی۔ انہوں نے 1937 ء کے اوائل میں ہونے والے انتخابات کے لیے لیگ کا ایک قابل عمل منشور بھی مرتب کیا ۔ ا یسا لگتا تھا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک طاقت بنانے کے لیے ہوا کے مخالف جدوجہد کر رہے ہیں۔
تمام تر نامساعد حالات کے باوجود مسلم لیگ نے 1937 ء کے اتخابات میں کل 485 مسلم نشستوں میں سے 108(تقریباً 23 فیصد) نشستیں حاصل کیں۔ اگرچہ یہ بہت متاثر کن کارکردگی نہیں تھی ، لیکن لیگ کی اس جزوی کامیابی نے اس حقیقت کے پیش نظر مزید اہمیت اختیار کر لی کہ لیگ نے سب سے زیادہ مسلم نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور یہ کہ ملک میں مسلمانوں کی وہ واحد ملک گیر جماعت تھی ۔ چنانچہ انتخابات برصغیر کے نقشے پر مسلم ہندوستان کو بنانے کے لیے پہلے سنگ میل ثابت ہوئے ۔ 1937 ء میں اقتدار میں آنے والی کانگریس نے جدید ہندوستان کی تاریخ پر بہت گہرا اثر ڈالا ۔ اسی سال حکومت ہند ایکٹ 1935 کا صوبائی حصہ نافذ ہوا جس میں صوبوں میں پہلی بار ہندوستانیوں کو خود مختاری دی گئی۔
کانگریس ، ہندوستانی سیاست میں اکثریتی پارٹی بننے کے بعد سات صوبوں میں اقتدار میں آئی ، جس نے لیگ کے تعاون کی پیش کش کو مسترد کر دیا ، آخرکار اس اتحاد کی سوچ سے منہ پھیر لیا اور مسلمانوں کو ایک سیاسی اکائی کے طور پر اقتدار سے خارج کردیا ۔ جناح کی متحرک قیادت کے تحت مسلم لیگ کی تنظیم نو ہوئی ۔ لیگ کو ایک عوامی پارٹی بنایا گیا۔جو پہلی بار ہندوستانی مسلمانوں کی مؤثر ترجمان بن کر سامنے آئی۔ اس اہم سال میں ہندوستانی سیاست میں کچھ مخصوص رجحانات کا آغاز ہوا ، جس کے بعد آنے والے برسوں میں برصغیر کی تقسیم ناگزیر ہوگئی ۔ کانگریس نے جولائی 1937 ء میں گیارہ میں سے سات صوبوں میں اقتدار سنبھالا ۔ کانگریس کے اقتدار اور پالیسی نے مسلمانوں کو اس بات پر قائل کیا کہ کانگریس کی اسکیموں میں وہ صرف ہندوئوں کے رحم و کرم پر اور اقلیت کی حیثیت سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ کانگریس کی صوبائی حکومتوں نے ایک پالیسی بنائی تھی اور ایک ایسا پروگرام شروع کیا تھا جس سے مسلمانوں کو ان کا مذہب ، زبان اور ثقافت غیر محفوظ محسوس ہونے لگے ۔ جناح نے اس جارحانہ کانگریس پالیسی کے ردِعمل کے طور پر مسلمانوں کو ایک نئے شعور کے لیے بیدار کرنے، ان کو آل انڈیا پلیٹ فارم پر منظم کرنے اور ان کو محاسبہ کرنے کی طاقت بنانے کی کوشش کی۔ انہوں نے ان کی خواہشات اور آرزوؤں کو ہم آہنگی ، سمت اور لب و لہجہ دیا ۔ سب سے بڑھ کر انہوں نے لوگوں میں خود اعتمادی پیدا کی ۔
جناح کی بھرپور کوششوں سے مسلمان بیدار ہوئے ۔(پروفیسر بیکر )ان کو غیر متفکرانہ خاموشی کہتے ہیں حالانکہ ان میں صدیوں سے قومیت کا روحانی جوہر موجود تھا۔ کانگریس کی پے در پے ضربوں نے مسلمانوں کو امبی ڈکر (آزاد ہندوستان کے آئین کے اصل مصنف)کے بقول اپنی بقا کے لیے اپنے معاشرتی شعورکو اُجاگر کیا تاکہ ان کی خواہشات کی مربوط اور مؤثر ترجمانی ہو سکے۔ مسلمانوں کو اس بات پر بڑی ڈھارس ملی کہ ان کے قومیت کے جذبات قوم پرستی کی صورت میں بھڑک چکے ہیں۔ مزید یہ کہ نہ صرف ان میں بحیثیت قوم رہنے کی خواہش بیدار ہو چکی تھی بلکہ ان کے پاس سرزمین موجود تھی جس پر وہ اپنی نئی دریافت شدہ قوم کے لیے ریاست اور ثقافتی گھر قائم کر سکتے تھے۔ قومیت کی ان دو شرائط نے مسلمانوں کو اپنی مختلف قوم پرستی (جو کہ ہندوستان یا ہندو قوم پرستی سے الگ) کے لیے فکری جواز فراہم کیا۔ لہٰذا جب طویل عرصے کے بعد جب مسلمانوں نے اپنی خواہشات کو زبان دی تو یہ عوامل ایک علیحدہ مسلم قومیت اور الگ مسلم ریاست کے حق میں نکلے۔
قائداعظم نے ہمیشہ واضح الفاظ میں دعویٰ کیا کہ ہم ا یک قوم ہیں۔ ہم اپنی مخصوص ثقافت اور تہذیب ، زبان و ادب ، آرٹ اور فنِ تعمیر ، ناموراقدار کے احساس کی حامل ایک قوم ہیں۔ قوانین اور اخلاقی ضابطہ ، تاریخ اور کیلنڈر ، رسم و رواج اور روایت ، قابلیت اور عزائم؛ مختصر یہ کہ زندگی اور زندگی کے بارے میں ہمارا اپنا مخصوص نظریہ ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تمام اصولوں کے مطابق ، ہم ایک قوم ہیں۔ 1940 ء میں پاکستان کے لیے مسلم مطالبہ کی تشکیل نے ہندوستانی سیاست کی نوعیت اور اس کے طریق کار پر زبردست اثر ڈالا۔ ایک طرف اس نے ہندوستان سے برطانوی سامراج کے نکلنے کے بعد ہندو ریاست کے خواب کو ہمیشہ کے لیے بکھیردیا ۔ دوسری طرف اس نے اسلامی نشا ط ثانیہ اور تخلیقی صلاحیتوں کے دور کا آغاز کیا جس میں ہندوستانی مسلمان سر گرم شرکا ہونے تھے۔ اس حوالے سے ہندوئوں کا ردِ عمل تیز ، تلخ اور بدنیتی پر مبنی تھا۔
انگریزوں کے مسلمان مطالبے کے طور پر دشمنی اس یقین سے کھڑی ہوئی تھی کہ ہندوستان کا اتحاد ان کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ ہندو اور انگریز دونوں نے حیرت انگیز طور پر زبردست رد عمل کی توقع نہیں کی تھی جس کا مطالبہ مسلم عوام کی طرف سے کیا گیا تھا ۔ سب سے بڑھ کر ، وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ دس کروڑ لوگ اچانک اپنی الگ قومیت اور اپنی منزل کے بارے میں باشعور ہوگئے تھے ۔ مسلم سیاست کا رخ پاکستان کی طرف گامزن کرنے ، 1947 ء میں قیام پاکستان میں اس کی تکمیل کی طرف رہنمائی کرنے میں کسی نے بھی قائد اعظم محمد علی جناح سے زیادہ فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیا۔ یہ سب ان کی مؤثر وکالت کا نتیجہ ہے اور ا ن نازک مذاکرات میں ، خاص طور پر جنگ کے بعد کے دور میں ، ان کی زبردست حکمت عملی نے پاکستان کے مطالبے کی تکمیل کو ناگزیر بنا دیا تھا۔
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف اور تجزیہ کار ہیں
[email protected]
تبصرے