آپ کی ایک ’’ناں‘‘ آپ کو خوفناک تاریکیوں سے بچاسکتی ہے!
علی اور اصغر گہرے دوست تھے، ساتھ کھانا پینا اور گھومنا پھرنا جیسے لازم و ملزوم تھا۔ صبح کالج جانے سے پہلے وہ قریبی پارک میں جاگنگ کیا کرتے تھے۔ اگر صبح دیر ہوجاتی تو شام میں پارک کا چکر لگانا عام بات تھی۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ ان کے معمولات میں تبدیلی آنے لگی۔
اب ناصر صبح سیدھا کالج ہی آتا تھا اور شام میں بھی پارک جانے سے کترانے لگا تھا۔ اصغر نے کئی بار اس سے پوچھا لیکن وہ ہربار اپنی مصروفیت کا بہانہ بناتا، یہاں تک کہ اب وہ کالج کے بعد اصغر سے ملتا بھی نہ تھا۔
وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب اصغر نے کالج کے بعد ناصر سے کہا، “میری امی نے تمہاری پسند کے پراٹھے بنائے ہیں،آج دوپہر کا کھانا میرے گھر ہی کھانا ہے۔‘‘
ناصر نے بیزاری سے اصغر کی جانب دیکھتے ہوئے جواب دیا،’’ بھئی مجھے تو بھوک نہیں ہے ورنہ میں ضرور آتا۔‘‘
اصغر نے بےیقینی سے اس کی جانب دیکھا لیکن کچھ ایسا تھا جس نے اصغر کوپریشان ہونے پر مجبور کردیاتھا۔ ناصر کی آنکھوں کےنیچے پڑے حلقے، سیاہی مائل ہونٹ اور گرتی صحت اسے پریشان کرگئی۔
’’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘ اصغر نے فکرمندی سے پوچھا۔
’’ٹھیک ہے بھئی، اچھا اب میں چلتا ہوں، ایک ضروری کام ہے۔‘‘ ناصر نے نظریں چراتے ہوئے جواب دیا اور تیز تیز قدموں سے دور ہونےلگا۔ اصغر کی پرسوچ نگاہوں نے ناصر کا پیچھا کیا اور پھر اصغر سے رہا نہیں گیا، وہ ناصر کا تعاقب کرنے لگا۔ اس نے پوری کوشش کی کہ ناصر کو پتہ نہ چلے اور ناصر کو پتہ چلتا بھی کیسے، وہ تو خود میں مگن، بےچینی سے بس قدم بڑھاتا جارہا تھا۔
کچھ گلیوں سے گزرنے کے بعد ناصر ایک پان کے کھوکھے پر رک گیا۔ اصغر وہیں فاصلے پر پارک ہوئی گاڑی کے عقب سے چھپ کردیکھنے لگا۔
ناصر نےکن انکھیوں سے دائیں بائیں دیکھتے ہوئے پان والے کی جانب پیسے بڑھائے تو اصغر کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا،’’ کیا ناصر پان کھانے لگ گیا ہے!‘‘
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ناصر کے ہاتھ میں سگریٹ اور پھر اسے گہرے کش لینے کے بعد دھویں کے مرغولے چھوڑتا دیکھ کراصغر کے پیروں تلے زمین ہی کھسک گئی۔ وہ سراسیمگی سے ناصر کو دیکھتا رہا جو بےفکری سے سگریٹ پی رہا تھا۔
’’ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ اصغر کو خود پر افسوس کے ساتھ ساتھ غصہ بھی آنے لگا۔ وہ کیسے ناصر سے اتنا غافل ہوگیا ! اصغر نے خود پر قابو پایا اور جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا۔
سارا دن اصغر گم صم ہی رہا۔ اسے ناصر کی بہت فکر ہورہی تھی لیکن وہ جانتا تھا کہ اگر ناصر سے بات کی تو وہ اکھڑجائے گا۔ کوئی اور طریقہ اپنانا پڑے گا۔ اور پھر اس کے ذہن میں ایک خیال بجلی کی طرح کوندا۔ اب اصغر کے چہرے پر طمانیت بھری مسکان تھی۔ اسے پتا چل گیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔
اگلے دن کالج میں اصغر نے کہا، ’’ناصر! تمہیں یاد ہے ہماری کلاس میں ایک لڑکا پڑھتا تھا، جاوید؟ یاد ہے اس نے اچانک اسکول چھوڑ دیا تھا؟‘‘
ناصر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا،’’ہاں یاد ہے، اک دم ہی غائب ہی ہوگیا وہ تو...اچھی دوستی تھی اس کے ساتھ...‘‘
اصغر نے بات بڑھاتے ہوئے کہا،’’مجھے پتہ چل گیا ہے کہ وہ کہاں ہے۔چلو! آج اسے سرپرائز دیتے ہیں۔ یہیں کالج کے قریب ہی رہتا ہے۔‘‘
ناصر نے پرانے دوست سے ملنے کے لیے رضامندی ظاہر کردی۔
کالج کے بعد اصغر ناصر کو لے کر قریبیRehabilitation Centerپہنچا۔
’’یہاں کیوں لائے ہو؟‘‘ ناصر نے حیرت سے پوچھا ۔
’’مجھے پتا چلا تھا کہ وہ یہیں ہوتا ہے۔ رکو میں پوچھتا ہوں۔‘‘ اصغر جواب دینے کے ساتھ ساتھ وہیں استقبالیہ پر موجود شخص سےپوچھنے لگا،’’کیا یہاں جاوید اقبال صاحب ہوتے ہیں؟ ہم ان کے دوست ہیں۔‘‘
استقبالیہ پر موجود شخص نے جواب دیا،’’ یہاں ایک نہیں، کئی آپ جتنے بچے داخل ہیں۔ میں فائل سے نام دیکھ کر ہی بتاسکتاہوں۔‘‘
ناصر نے چونکتے ہوئے کہا، ’’ہمارے جتنے بچے؟ وہ کیسے ؟‘‘
’’آپ جیسے ہی بچے ناسمجھی میں منشیات اور ڈرگز کے عادی ہوجاتے ہیں، سگریٹ نوشی، نشہ، آئس وغیرہ لینا اب جیسے فیشن بنتا جارہا ہے۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ اسکولوں کالجوں میں پڑھنے والے بچے، کیسے خود اپنے آپ کو زہر دے سکتے ہیں؟ وہ سامنے دیکھیں، کتنے والدین پریشان حال یہاں آتے ہیں اور اپنے لاڈلوں کو نشہ کے لیے تڑپتا دیکھتے ہیں۔ ‘‘ اُس نے پریشان حال انورالدین کی طرف اشارہ کیا جنہوں نے اپنے بیٹے کے سہانے مستقبل کے لیے بہت سے خواب دیکھے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ ناسمجھی میں سگریٹ کے دوکش لگا کر نشے کی قید میں چلا گیا تھا۔
’’کیا سگریٹ پینا ہی cool ہونے کی نشانی ہے؟ اچھے گریڈز حاصل کرنا، اچھی کتابیں پڑھنا uncool بناتا ہے کیا؟ اگر کوئی آپ کوسگریٹ یا نشہ کرنے کی دعوت دے تو اسے سختی سے’ناں‘ کہنا سیکھیے۔ایک ’ناں‘ آپ کو بہت سے مسائل سے بچا سکتی ہے۔ نشہ کے ایک کش آپ کو زندگی سے نکال کر موت کی اندھیروں کی طرف لے جاتا ہے۔ بیٹا! اپنا خیال رکھیں، اور کبھی بھی نشہ جیسے عفریت کے جال میںنہ پھنسیں۔
استقبالیہ پر موجود شخص بلاتکان بولتے ہوئے مریضوں کی فائلیں الٹ پلٹ کر رہا تھا ۔ ناصر سُن تو رہا تھا لیکن اس کی نظریں انورالدین پر تھیں جن کی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر شکستگی کے سوا کچھ نہ تھا۔
’’چلو اصغر یہاں سے چلتے ہیں، میرا دل گھبرا رہا ہے۔‘‘ ناصر نے اصغر کا جواب سنے بغیر ہی باہر کی جانب قدم بڑھا دیے۔ راستےمیں آئے کوڑے دان میں اس نے بند مٹھی سے کچھ پھینکا تھالیکن اصغر کی تیز نگاہوں سے مڑی تڑی سگریٹ پوشیدہ نہیں رہ سکی۔اس نے سکون کا سانس لیتے ہوئے استقبالیہ پر موجود شخص کو خدا حافظ کہا اور اپنے دوست کے ساتھ باہر کی جانب قدم بڑھا دیے۔ اصغر کا دوست نشے کے کسی بھی جال میں نہ پھنسنے کا عزم کرچکا تھا۔یاد رکھیے! نشہ ایک لعنت ہے۔ اس سے ہر صورت دور رہیں!آپ کی ایک ’’ناں‘‘ آپ کو تاریکیوں اور اندھیروں سے بچاسکتی ہے۔
تبصرے