سعد جب سے اسکول سے آیا تھا، خاموش تھا۔
’’کیا بات ہے سعد!کیا اسکول میں کوئی بات ہوئی ہے ، پریشان لگ رہے ہو؟‘‘ امی جان کی آواز اسے سوچوں سے باہر لے آئی۔ ا س نےہڑبڑا کر نفی میں سر ہلایا۔
’’نہیں نہیں، امی جان کوئی بات نہیں ہے‘‘، سعد نے ان سے نظریں چرائیں۔
’’ سچ بتائیے کیا معاملہ ہے ؟‘‘ امی نے پیا ر سے پوچھا۔
’’اگلے ہفتے اسکول میں ٹیلنٹ شو شروع ہورہا ہے جوسات دنوں تک چلے گا‘‘، اس کے کہنے پر امی کو اس کی اداسی کی وجہ سمجھ آگئی۔
سعد ساتویں جماعت کا طالب علم اور والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ نہایت قابل، فرمانبردار، ذہین اور ہوشیار تھا لیکن ان سب خوبیوں کے باوجود اس میں خود اعتمادی کی کمی تھی۔وہ بچپن سے ہی بولتے ہوئے ہڑبڑاجاتا تھاجس کے سبب اس کے دوست اور ہم جماعت ہمیشہ اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ اسکول میں جب بھی اسٹوڈنٹ ویک یا ٹیلنٹ شو کا انعقاد ہوتا ،وہ یونہی اداس ہوجایا کرتا۔
’’تو پھر آپ نے کیا سوچا.... اس بار کس چیز میں حصہ لے رہے ہیں؟‘‘ امی کے سوال پر اس کا جھکا ہوا سر مزید جھک گیا۔
’’سعد بیٹا !کوشش کرنے والے کبھی نہیں ہارتے لیکن جو میدان میں ہی نہ اترے،وہ جیت کی توقع کیسےکرسکتا ہے؟آپ کوشش تو کریں....۔‘‘ یہ بات سن کر اس نے امی کی جانب یوں دیکھا جیسے وہ کوشش کرنے سے پہلے ہی ہار مان چکا ہو۔
’’امی! آپ کو تو پتا ہے کہ شاہ زین کتنا اچھا بولتا ہے۔ اسکول میں بہترین تقریر اسی کی ہوتی ہے، علی کی ڈرائنگ، حمزہ کا ریاضی اور حنظلہ تو آل راؤنڈر ہے۔ امی آپ اس کے پراجیکٹ اور پریزنٹیشن دیکھیں ،تو آپ اس کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکیں گی۔ جو کام کرتا ہے وہی خوب ہوتاہے۔ جیت ہمیشہ اس کا مقدر بنتی ہے ۔ اورایک میں....؟ مجھ سے تو کسی کے سامنے دو لفظ تک نہیں بولے جاتےمیں کیسے کوشش کروں ...میں جانتا ہوں کہ یہ مجھ سے نہیں ہوگا!‘‘
امی جان نے ہاتھ بڑھا کر اس کے آنسو صاف کیے۔ ’’آپ نے علامہ اقبالؒ کی وہ نظم پڑھی ہے جس میں وہ کہتے ہیں:
نہیںہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
’’بیٹا !اللہ تعالی نے کسی بھی چیز کو بے مقصد اور بے کار پیدا نہیں کیا ۔کیا ٹیلنٹ سے مراد بس یہی ہے کہ کسی کے سامنے اچھا بولا جائے یا اچھی ڈرائنگ بنا لی جائے؟‘‘امی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’ بیٹا! ٹیلنٹ ہر وہ چیز ہے جو آپ کو دوسروں سے منفرد بناتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کو خاص خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا ہے۔بس آپ کا کام ان کو تلاش کرنا ہے۔ پھر دیکھیے آپ کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوجائے گی۔‘‘ امی کی بات کو غور سے سنتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔اس کے دل میں امید کی ننھی سی کرن جاگی تھی۔
’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں پوری کوشش کروں گا۔‘‘ اس کی بات پر امی جان نے خوش ہوکر اسے کامیابی کی دعا دی۔
اگلے روز جب وہ اسکول گیا تو دیکھا کہ حنظلہ کلاس میں پریشان بیٹھاہے۔ وہ اپنا بیگ اپنی جگہ پر رکھ کر اس کے پاس گیا اور اس سے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس نے کل رات تقریر لکھ کر اپنے بیگ میں رکھی تھی لیکن اب اس کا ایک صفحہ کہیں گم ہوگیا ہے۔ حنظلہ کی پریشانی دیکھ کر وہ صفحہ ڈھونڈنے میں اس کی مدد کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اسے اس کی کاپی کے اندرونی صفحات میں رکھا ہوا مل گیا۔
’’یہ دیکھو! یہ رہا تمہارا کاغذ، تم یونہی پریشان ہورہے تھے۔‘‘ حنظلہ اس کے ہاتھ میں تقریر کا صفحہ دیکھ کر خوش ہوگیا۔
سعد نے مسکراتے ہوئے اسے وہ کاغذ تھمایا اور اس کی فوٹو کاپی کروانے کی ہدایت بھی کی ۔ حنظلہ کی مدد کرکے اسےاچھا محسوس ہورہا تھا۔
چند روز بعد اسکول میں ٹیلنٹ شو کا آغاز ہوا ۔ اسکول کے تمام بچے کسی نہ کسی مقابلے میں حصہ لے رہے تھے۔وہ سب اسکول کےمرکزی ہال میں جمع تھے۔ سعد ایک کونے میںبیٹھا سب کومقابلے کے لیے تیار دیکھ رہا تھا۔اسی وقت حارث اپنی ٹیم کے ساتھ اپنا سائنس پراجیکٹ لیے وہاں آیا۔ اس کی ٹیم نے فوٹو سینتھیسز کا ماڈل بنایا تھا۔اندر آتے ہی وہ ماڈل ایک لڑکے سے ٹکرایا اور حارث اور فہد کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔ یہ دیکھ کر ہال میں سناٹا چھا گیا۔ ہرکوئی محنت سے بنائے گئے اس ماڈل کو دیکھ رہا تھا۔ حارث کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر سعد بے چین ہوگیا اور خاموشی سے اٹھ کر اس کے پاس پہنچ گیا۔اس نے حارث اور فہد کی مدد سےماڈل کا ٹوٹا ہوا سامان اٹھایا اور وہاں رکھی میز پررکھ دیا۔
’’تم پریشان مت ہو! ہم اسے مل کر ٹھیک کرلیں گے اوراسی حالت میں واپس لے آئیں گے جیسے یہ پہلے تھا۔ دیکھو! اس ٹکڑے کو وہاں لگاؤ اوراسے یہاں رکھو۔‘‘ وہ حارث کو ہدایات دیتا ہوا خود بھی ان کا ہاتھ بٹانے لگا ۔ کچھ ہی دیر بعد وہ ماڈل اپنی اصلی حالت میں واپس آچکا تھا۔
اس کے بعد سعد جا کر پھر اسی کونے میں بیٹھ گیا۔اچانک ٹیچر نے اسے آواز دی اور ہدایت کی کہ وہ بچوں کی ایک قطار بنوائے اور انہیں باری باری اسٹیج پر بھیجے۔ سعد نے ٹیچر کی تمام ہدایات غور سے سنیں اور سب بچوںکو ان کی باری آنے پر اسٹیج پر بھیجنے لگا۔ٹیچر نے دیکھا کہ وہ اپنا کام بڑی دلچسپی سے کر رہاتھا۔
14 نومبر بچوں کا عالمی دن ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیلنٹ شو کا آخری روز تھا ۔ تمام بچے اپنے اپنے والدین کے ساتھ ہال میں بیٹھے نتائج کے منتظر تھے۔تب ہی اسکول کی پرنسپل صاحبہ ا سٹیج پر آئیں اور سب سے مخاطب ہوئیں۔
’’اس ایک ہفتے میں ہم نے کئی بچوں کو ٹیلنٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا۔ ایک خاص بات جو میں آپ سب کو بتانا چاہتی ہوں ،وہ یہ ہے کہ ہر بچے میں کوئی نہ کوئی صلاحیت ضرور ہوتی ہے۔ اس ٹیلنٹ شو کا مقصدیہ تھا کہ ان صلاحیتوں کو سامنے لایا اور انہیں مزید نکھارا جائے۔ میں خوش ہوں کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب رہے ۔ مستقبل کے یہ معمار ذہین اور قابل ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے خصوصی طور پر سعد کا نام لیا اور اسے اسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔ سعدحیران ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کر اسٹیج پر آ گیا۔
پرنسپل صاحبہ نے سعد کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولیں،’’سعد نے ہمیں سکھایا کہ ہر کامیابی کا انحصار کسی خاص پرفارمنس یا ٹیلنٹ پر نہیں ہوتا، بلکہ اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ دوسروں کی مدد کرنے اور خود پر اعتماد کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا،’’سعد کی طرح سب بچوں کو نہ صرف ان کی صلاحیتیں پہچاننے کی ضرورت ہے بلکہ ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم ان کی رہنمائی کریں اور انہیں مواقع دیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو جانچ سکیں اور اپنے اعتماد کو بڑھاکر ملک و قوم کا نام روشن کرسکیں۔
پرنسپل صاحبہ نے ہاتھ میں پکڑا سرٹیفکیٹ سعد کی طرف بڑھایا جس پر خوب صورت لکھائی میں ـ’’ بیسٹ مینجمنٹ اسکل ایوارڈ‘‘ لکھا تھا۔ اس دن سعد بھی جان گیا تھا کہ اللہ تعالی نے اسے بھی ایک خوب صورت صلاحیت سے نوازا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے اُس نے خوشی سے گہرا سانس لیا اور اپنا اعزاز وصول کرنے کے لیے آگے بڑھ گیا ۔آج وہ کامیابی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ چکا تھا۔
تبصرے