(30نومبر کو ان کی سالگرہ منائی جاتی ہے اس مناسبت سے ان کے بھانجے میاں محمدفراز اکرم کی ماہنامہ ہلال کے لیے ایک تحریر)
پاکستان ٹیلی ویژن کے ہر دل عزیز میزبان ، نامور کالم نگار، ممتاز مصنف اور استاد دلدار پرویز بھٹی 30 نومبر 1948ء کو گوجرانوالہ میں چوھدری نثار علی بھٹی ایڈووکیٹ کے ہاں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اسی شہر سے حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان عطا محمد سکول گوجرانوالہ سے امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور بی اے کی ڈگری گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ سے ہی حاصل کی، پھر ایم اے انگلش کے لیے لاہور آ گئے۔ دوران تعلیم ریڈیو پاکستان کے پروگرام " سوہنی دھرتی" سے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز کیا ۔ دلدار پرویز بھٹی نے اپنے تدریسی کیرئیر کا آغاز انگریزی کے لیکچرار کے طور پر گورنمنٹ کالج ساہیوال سے کیا۔ بعدازاں وہ گورنمنٹ کالج باغبانپورہ،شالیمار، اسلامیہ کالج سول لائنز، ایف سی کالج لاہور اور دیگر کالجوں میں بھی درس و تدریس کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیتے رہے۔ کمپیئرنگ کے ساتھ ساتھ پی ٹی وی کے ڈرامے لازوال اور اندھیرا اجالا میں اپنے فن کے جوہر بھی دکھائے ۔ اس کے علاوہ چند فیچر فلموں میں بھی بطور اداکار کام کیا جن میں یہ' آدم اور بلونت کور' شامل ہیں۔ دلدار پرویز بھٹی کے بڑے بھائی افتخار شاہد بھی فلمی شاعر تھے ۔ویسے وہ محکمہ ایکسائز سے وابستہ تھے۔ انہوں نے مولا جٹ، چن وریام اور بازار حسن کے گیت لکھے ۔ دلدار پرویز بھٹی کی شہرت کا سبب پی ٹی وی کے پروگرام (کوئز شو) ہی بنے۔ پاکستان ٹیلی ویژن کا پہلا پنجابی کوئز پروگرام 'ٹاکرا شو 'کرنے کا اعزاز بھی دلدار پرویز بھٹی کو ہی ملا، جس کا آئیڈیا بھی بھٹی صاحب کا ہی تھا ۔پھر یہ پروگرام مختلف ناموں سے چلتا رہا۔ میلہ اور پنجند دلدار پرویز بھٹی کے مقبول ترین پروگراموں میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اردو پروگرام یادش بخیر اور جواں فکر کی میزبانی بھی ان کے حصے میں آئی۔ ان کی میزبانی میں چلنے والے شوز ان کے برجستہ اور فی البدیہہ جملوں، حاضر دماغی اور بذلہ سنجی سے اس قدر مقبول ہوتے تھے کہ ہر خاص و عام ان کے پروگراموں کو شوق سے دیکھتا تھا ۔ شگفتگی اور شائستگی سے گفتگو میں مزاح کا رنگ بھرنا ان کا خاصہ تھا۔
پی ٹی وی کے علاوہ بھی وہ نجی پروگرامز کی میزبانی کیا کرتے تھے۔دلدار بھٹی بے شمار پروگرامز کرتے رہے اور عید ملن پارٹی پر بھی کئی بارکمپیئرنگ کرتے ہوئے دیکھا اور سنا گیا ۔ دلدار پرویز بھٹی نے پی ٹی وی کے ایوارڈ سمیت بہت سے ایوارڈز حاصل کیے۔ دلدار صاحب صبح کے وقت پروگرام کرکے لوٹتے اور آٹھ بجے دوبارہ کالج میں تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے ۔شام کو مقامی روزنامہ میں کالم لکھتے یا پروگرام کی ریکارڈنگ کرنے چلے جاتے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار ناروے سے لاہور آئے، پرل کانٹی نینٹل میں شو کیا اور اسی دن واپس ناروے دوبارہ چلے گئے۔
دلدار ماموں قول کے پکے تھے۔ بے شمار گھروں کا چولہا ان کی کی وجہ سے جلتا رہا۔ ایک بار بہالپور شو کے بعد پروموٹر کو بولے کہ میری پیمنٹ میں سے پیسے کاٹ کر پانچ ہزار طبلہ والے کوبھیج دینا ۔وہ بولا کہ بھٹی صاحب آپ خود دے دیں۔ تو بولے نہیں میری اس سے ناراضگی ہے ۔وہ نشہ کرتا ہے اسکی بہن کی شادی ہے ۔میں اس سے اسی وجہ سے خفا ہوں۔ بے شمار خوبیوں کے مالک دلدار بھٹی ایک الگ دنیا کے انسان تھے ۔لوگوں کی مدد کرتے لیکن دوسرے ہاتھ کو خبر نہہوتی۔ پی ٹی وی کے سامنے سعید بٹ کی ورکشاپ پر اُٹھنا بیٹھنا ہوتا تھا۔ سعید بٹ صاحب سے ان کی بڑی رفاقت تھیں۔ انکی ورکشاپ پر گلوکار مہدی حسن اکثر آتے تھے بلکہ وہ اوپر والے پورشن میں رہتے رہے۔ دلدار بھٹی کی زندگی بڑی سادہ اور باکمال تھی ۔ایسا کمپیئراور ایسا پروفیسر میں نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ وحدت کالونی کے چھوٹے سے کوارٹر میں رہتے تھے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی سے بڑی محبت، یوسف عالمگیرین ،توفیق بٹ صاحب سے گہری رفاقت تھی۔ صبح کی سیر اکثر کرتے تھے۔ غوری صاحب، حسین شاد کیساتھ چلتے چلتے ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم کی طرف چلے جانا اور ادرک والی چائے کی فرمائش کرنا ۔خوبصورت لوگ خوبصورت وقت کیساتھ چلے گئے۔ ایک دفعہ مسز اجمل نیازی نے کہا کہ بھائی جان ادرک ختم ہو گیا ہے تو جھٹ دلدار صاحب نے جیب سے نکال کر دے دیا ۔انکی زندگی کے بے شمار یادگار لمحات واقعات ہیں۔ سٹیج کی زینت ہوتے تھے دلدار صاحب۔بے شمار اداکاروں اورگلو کاروں کو متعارف کروایا۔ ثریا خانم، شاہدہ عزیز، سعید سہکی وغیرہ۔ گلوکار اے نیر، آصف جاوید ،شوکت علی اورمنیر حسین کیساتھ بے شمار اندرون و بیرون ملک پروگرام کیے ۔آرٹسٹوں میں خاص کر سہیل احمد المعروف عزیزی کو بھی وہی لائے ۔ سائیں ظہور کو قصور سے میلہ پروگرام میں پرفارم کروایاجو آج تک کہتا ہے کہ مجھے پروفیسر دلدار بھٹی لائے ۔
جب میری والدہ کا انتقال ہوا تو دلدار پرویز بھٹی مرحوم نے مجھے اور میری بہن کو آسرا دیا۔ ایک بار کسی نے سوال کیا کہ آپ کو تو پنجابی زبان پر بہت عبور حاصل ہے، پھر انگریزی پڑھانا چہ معنی دارد ۔ بولے کہ میں انگریزی اس لیے پڑھاتا ہوں کہ میں جو مرضی پڑھا دوں کسی کو سمجھ ہی نہیں آتی۔ یہ تو انہوں نے از راہِ مذاق بات کی تھی وہ انگریزی کے بھی بہترین استاد تھے۔ وہ کمپیئرنگ کے دوران موقع محل کے مطابق اکثر لطیفے اور واقعات سنایا کرتے تھے۔ ان کا مطالعہ اور مشاہدہ اس قدر زیادہ تھا کہ روزمرہ کی زندگی میں رونما ہونے والے چھوٹے چھوٹے واقعات، جو ایک عام آدمی نظر انداز کر دیتا ہے، وہ اپنی یاداشت کے کینوس پر محفوظ کر دیتے تھے ۔ اور پھر جب جہاں ضرورت پڑتی مزاج کے رنگ میں رنگ کر ایسے سناتے کہ ہر چہرہ کھل اٹھتا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی نعمتوں سے نواز رکھا تھا۔ بس ایک اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے اپنی ہمشیرہ کے بیٹے (راقم )اور بیٹی کی پرورش اپنی اولاد کی طرح کی ۔ وفات سے آٹھ ماہ قبل ہی ہمشیرہ کی بیٹی کی انہوں نے شادی کی تھی ۔ راقم گزشتہ دس سال سے دلدار پرویز بھٹی کی یادمیں ایک فورم کے تحت مختلف تقریبات کا انعقاد عمل میں لارہا ہے اس کے علاوہ 2019ء سے دلدار ایوارڈز بھی دیئے جارہے ہیںجس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو دلدار پرویز بھٹی کے نام سے منسوب دلدار ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے۔ اب تک ایوارڈز کی چار تقریبات ہو چکی ہیں۔ پانچویں دلدار ایوارڈز کی تقریب ان شا اللہ جنوری 2025ء میں ہو گی ۔
دلدار پرویز بھٹی کالم نگار اور مصنف بھی تھے۔ ان کی ایک کتاب " آمنا سامنا" ہے، جو ان کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب ان کی زندگی میں گورا پبلشرز نے شائع کی۔ ان کی وفات کے بعد ان کی دوسری کتاب"دلداریاں"توفیق بٹ نے شائع کروائی۔ دلدار پرویز بھٹی کی وفات پر اہل قلم اور دوست احباب کے تعزیتی پیغامات اور تاثرات پر مبنی ایک کتاب" دلبر دلدار"حسین شاد نے شا ئع کروائی ۔
دلدار پرویز بھٹی درد دل رکھنے والے انسان تھے، دکھی انسانیت کی خدمت اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔دلدار بھٹی 1991ء سے ایک معروف کینسر ہسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ کر رہے تھے۔1994ء میں کینسرہسپتال کے لیے عطیات جمع کرنے کے لیے امریکہ گئے ہوئے تھے کہ نیو یارک میں دماغ کی شریان پھٹ جانے کی وجہ سے 30 اکتوبر 1994ء کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لییاس کینسرہسپتال میں ان کے نام پر ایک وارڈ کا نام بھی رکھا گیا ہے۔ دلدار پرویز بھٹی وحدت کالونی لاہور کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔
تبصرے