کائنات کے نت نئے رنگ جو خالق کائنات نے بنی نوع انسان کے لیے عطاء کیے ہیں، ان میں سب سے اہم ذریعہ بارش، گلیشیئرز اور میٹھے پانی کے چشموں پر محیط ہے اور جب اللہ تعالی کی دی ہوئی عقل و دانش سے انسان ان نعمتوں کو محفوظ اور قابل رشک بناتا ہے تو ایک تخلیق نمودار ہوتی ہے جو بنی نوع انسان کی ذہنی اور جسمانی آسودگی و بہتر زندگی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اور کثیر تعداد میں عوام الناس اس تخلیق سے مستفید ہوتے ہیں ۔
بارش، دریائوں، چشموں اور گلیشیئرز سے زمین کو سیراب کرنے والے ان ذرائع کو مزید مؤثر اور کارگر بنانے کے لیے چھوٹے اور بڑے ڈیم تعمیر کیے جاتے ہیں تاکہ اس قیمتی اثاثے کو محفوظ بناکر زیادہ سے زیادہ عرصے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
کسی بھی ڈیم کے لیے قدرتی جغرافیائی محل وقوع کا انتخاب سب سے بنیادی عنصر تصور کیا جاتا ہے ۔مطلب عام لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ایسی جگہ کا انتخاب کیا جاتا ہے جہاں قدرتی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع میسر ہوں۔
ہمارے پیارے وطن پاکستان میں بھی کئی خوبصورت ڈیم موجود ہیں۔ انہی میں سے ایک حب ڈیم بھی ہے ۔ حب ڈیم پاکستان کا تیسرا بڑا ڈیم ہے جس کے چاروں طرف بلند و بالا پہاڑوں کا وسیع سلسلہ موجود ہے ۔ان پہاڑی سلسلوں میں بعض چوٹیوں کی بلندی سطح سمندر سے تقریباً 5سے 6 ہزار فٹ سے بھی زائد ہے جن پر بادلوں کا ڈیرہ رہتا ہے ۔
ڈیم کے بھرنے کا مکمل انحصار بارشوں کے پانی پر ہے ۔ حب ڈیم کراچی سے شمال میں تقریباً 56 کلومیٹر کے فاصلے پر سندھ بلوچستان کے بارڈر پر واقع ہے ۔ ڈیم کا رقبہ تقریباً 24,300ایکڑ تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں پانی جمع کرنے کی گنجائش تقریباً 857,000 ہیکٹر فٹ ہے۔
حب ڈیم کی تعمیر 1981ء میں دریائے حب پر کی گئی۔ ڈیم کے آس پاس کا زیادہ تر علاقہ خشک اور چٹیل چٹانوں پر مشتمل ہے لیکن کہیں کہیں پہاڑوں پر قدرتی طور پر ہریالی بھی موجود ہے۔
1974ء میں حکومت سندھ نے ڈیم کے آس پاس کے علاقے میں موجود جنگلی حیات کو محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے کے لیے اسے وائلڈ لائف سینچوری کا درجہ دے دیا جس کے بعد سے اس علاقے میں جنگلی حیات کو پھلنے پھولنے کے خاطر خواہ مواقع فراہم ہوئے۔حب ڈیم وائلڈ لائف سینچورین کا رقبہ تقریباً 27,219 ہیکٹر ہے ۔حب ڈیم پرندوں سے محبت کرنے والے لوگوں کے لیے ایک بہترین جگہ تصوّرکی جاتیہے ۔
حب ڈیم میں سیاحوں کے ٹھہرنے کے لیے ایک ریسٹ ہا ؤس بھی موجود ہے ۔ ڈیم کراچی شہر کو پینے کے لیے پانی فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ کھیتی باڑی کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جسکے ذریعے کئی باغات معرض وجود میں آئے۔ ان باغات سے کثیر تعداد میں پھل حاصل کیے جاتے ہیں جن میں چیکو اور امرود قابل ذکر ہیں ۔
حب ڈیم میں انواع و اقسام کی مچھلیاں بکثرت پائی جاتی ہیں جن میں 'مہا شیر ، تیلا پیا اور رہو' قابل ذکر ہیں۔ ڈیم کا تاحد نگاہ پھیلا صاف ستھرا پانی اور ان پر اڑتے پرندے ماحول میں دلکشی و دلفریبی کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں جو یہاں آنے والے سیاحوں کے دل موہ لیتے ہیں۔کراچی شہر سے آپ بآسانی یہاں پہنچ سکتے ہیں اور کراچی کے علاوہ بلوچستان سے بھی کثیر تعداد میں سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔سردیوں میں ہجرت کرکے سرد علاقوں سے آنے والے پرندوں کی کثیر تعداد یہاں اپنا پڑاؤ ڈالتی ہے اور ہجرت کر کے آنے والے پرندے اپنی خوبصورتی سے اس جگہ کو مزید دلکش و دل نشین بنادیتے ہیں ۔
ڈیم کے آس پاس کھیتوں کی ہریالی آنکھوں کو کیا ہی بھلی لگتی ہے اور کیا کمال منظر ہوتا ہے جسکا احساس یہاں آکر ہی کیا جاسکتا ہے۔ان کھیتوں میں مختلف اقسام کی سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں جن میں پالک ، توری ، بھنڈی ،بینگن ، کھیرا ، مرچ اور ٹماٹر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہاں کے لوگ بڑے ملنسار ہیں اور جب آپ پکنک کی غرض سے اپنے چولہے جلاتے ہیں تو وہ اپنے کھیتوں سے تازہ تازہ سبزیاں لاکر دیتے ہیں ۔
بارش کے موسم میں جب ڈیم مکمل طور پر بھر جاتا ہے تو ڈیم میں نصب' سپل وے 'کے ذریعے زائد پانی کا اخراج کیا جاتا ہے۔
صبح کا منظر یہاں قابل دید ہوتا ہے۔ رنگ برنگے پرندوں کا غول ڈیم کے پانی پر اٹکھیلیاںکرتا نظر آتا ہے اور مرغابیوں کی اڑان ان سب میں مختلف نظر آتی ہے جسکی تمام تر توجہ پانی میں موجود چھوٹی مچھلیوں کے شکار کی جانب مرکوز ہوتی ہے ۔
سندھ کے بلند ترین سیاحتی مقام' سندھ کا مری گورکھ ہل اسٹیشن' سے بھی اسکو براستہ سڑک ملایا جاسکتا ہے اور اگر ایسا کردیا گیا تو یہ سیاحت کے حوالے سے انمول اضافہ ثابت ہو گا جو نہ صرف سندھ، پاکستان بلکہ بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کو بھی اپنی جانب کھینچ لائے گا ۔
حب ڈیم کا کچھ حصہ کیرتھر نیشنل پارک میں بھی شامل ہے جو مزید آگے رنی کوٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ اگر ان تمام پکنک پوائنٹس کو باہم ملادیا جائے تو یہ سندھ ٹورازم کے لیے ایک خوشگوار اضافہ ہوسکتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے علاقوں کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے خاطر خواہ تشہیر کی جائے تاکہ یہ علاقے مزید ترقی کی منازل طے کرسکیں۔
مضمون نگار سماجی، معاشرتی اور سیاحتی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے