کاپل ٹیک محسن رشیدشہید کے بارے میں نسیم الحق زاہدی کی تحریر
بے شک ایک شہید کی موت پوری قوم کو حیات عطا کرتی ہے ۔ہماری ملکی تاریخ میں وطن کی مٹی کا قرض ادا کرنے والے شہدائے مسلح افواج کی قربانیاں کبھی فراموش نہیں کی جاسکتیں ۔روایتی جنگ ہو یادہشت گردی کا عفریت ،پاک فوج نے ہمیشہ وطن عزیز کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں ۔ پاک فضائیہ کا کاپل ٹیک محسن رشید بھی دھرتی کا وہ بیٹا ہے جو شہادت کاجام پی کر وطن عزیز سے اپنی وفا اور محبت کا حق ادا کرگیا۔ کاپل ٹیک محسن رشید22دسمبر 1993ء کو تحصیل عیسیٰ خیل ضلع میانوالی کے ایک گائوں جھلار کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے ۔شہید کاپل ٹیک محسن رشید نے پرائمری تک تعلیم سن شائن پبلک ماڈل ا سکول عیسیٰ خیل سے حاصل کی، جبکہ میٹرک منہاج القرآن ماڈل ہائی سکول ترگ شریف سے پاس کیا۔ ان کے والد عبدالرشید خان پاکستان آرمی سروس کور سے بطور حوالدار ریٹائرڈ ہیں۔ شہید محسن رشیدکے بھائی محمد مسعود خان جو خود پاک آرمی سے ریٹائرڈہیں، بتاتے ہیں کہ شہید سمیت ہم گیارہ بہن بھائی تھے،جن میں ہم چار بھائی پاکستان مسلح افواج کے ساتھ منسلک تھے جن میں،میں مسعود خان پاک فوج ،محمد منصور خان پاکستان پنجاب رینجرزسے جبکہ شہید محسن خان پاک فضائیہ سے اورشہید دلشاد حسین خان پاکستان نیوی سے تھے۔
شہید کے بھائی محمد مسعود خان بتاتے ہیں کہ محسن رشید کو بچپن ہی پاک فضائیہ میں جانے کا جنون کی حد تک شوق تھا جو انہیں میٹرک کے فوراً بعد پاک فضائیہ بھرتی سنٹر میانوالی لے گیا،جہاں وہ 5جولائی 2013ء میں بطور ایروٹیکنیشن سلیکٹ ہوئے اور ٹریننگ کے لیے پی ٹی ٹی ایس کوہاٹ بیس کے لیے روانہ ہوگئے ۔شہید کاپل ٹیک محسن رشید ٹریننگ کے بعد مختلف مقامات پر اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے رہے ۔محمد مسعود خان بتاتے ہیں کہ شہید محسن رشید ایک درد منددل رکھنے والے نہایت شفیق انسان تھے۔ شہیدانتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے ۔کھانے پینے کے حوالے سے جو بھی ملتاکھا لیتے، کسی قسم کی کوئی فرمائش یا نخرہ نہیں تھا۔ملنسار اتنے تھے کہ ایک لمحے میں لوگوں کو اپنا گروید بنا لیتے،چھٹی پر جب گھرآتے توسارا دن گائوں کے لوگوں کی خدمت میں لگے رہتے ،جس پر والدہ اکثر کہا کرتیں کہ محسن تم توصرف گائوں والوں سے ملنے آتے ہو،کبھی ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کروجس پر شہید مسکرا کر کہتے کہ امی جان زندگی کا اصل مزہ دوسروں کی مدد کرنے اور وطن کی حفاظت کرنے میں ہے۔ہمارا تعلق چونکہ فقہ جعفریہ سے ہے، اس لیے محرم الحرام میں چھٹی آنا اور پانی کی سبیل لگانا شہید کی زندگی کی پکی ڈیوٹی تھی، وہ بھاگ بھاگ کر لوگوں کو پانی پلاتے ۔شہید محسن پانچ وقت کے پکے نمازی تھے ۔محمد مسعود خان نے بتایا کہ شہید محسن ہم سب بھائیوں سے بہت مختلف تھے ،رشتوں کو جوڑ کر رکھنے والے انسان تھے، سخت بات پر مسکرادیتے تھے۔ شہیدمحسن رشید رفاہی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ انہوں نے دوستوں کا ایک گروپ بنایا ہوا تھا جوآپس میں غربیوں، یتیموں اور بیوائوںکے لیے چندہ جمع کرتے تھے ۔محسن کی شہادت کی بعد یہ بات معلوم ہوئی کہ ایسے کئی گھرانے ہیں کہ جن کو شہید نے فریج ،پنکھے ،واشنگ مشین لے کر دینے کے علاوہ نقدپیسوں کی صورت میں بھی تعاون کیا تھا۔والدین سمیت ہم سب بہن بھائیوں کی شدید خواہش تھی کہ شہید محسن رشید کی جلدازجلد شادی کردی جائے مگر گھریلو معاملات کی وجہ سے یہ آرزو پوری نہ ہوسکی ۔میرا چھوٹا بیٹا ضرار حید رخان اپنے چاچوکے ساتھ بہت مانوس تھا۔ شہیدجب بھی چھٹی پرگھر آتے تو سارا دن ضرار کو اٹھائے رکھتے ۔ضرار آج بھی شہید کی قبر پر جاکر قبر پر لگے پاکستانی پرچم کو چومتا ہے اور چاچو،چاچو کہہ کر پکارتا ہے ۔محمد مسعود خان بتاتے ہیں کہ شہید کاپل ٹیک محسن رشید کی آخری پوسٹنگ پی اے ایف بیس ایم ایم عالم میانوالی میں تھی،اس سے قبل وہ پی اے ایف بیس مسرور کراچی میں تعینات تھے۔جب ان کی میانوالی پوسٹنگ ہوئی تو ہم سب بہت خوش تھے کیونکہ وہ گھر کے قریب آچکے تھے مگر ہمیں کیا علم تھا کہ وہ ہم سے اتنا دور چلے جائیں گے کہ دوبارہ کبھی ملاقات نہ ہوپائے گی ۔شہید کے بھائی محمد مسعود خان بتاتے ہیں کہ شہادت سے ایک ہفتہ قبل شہید محسن ایک دن کی چھٹی پر گھر آیا توچھوٹی بہن نے مذاق میں کہا کہ خیر تو ہے بھائی ،ائیر فورس والوں نے صرف دروازے پر ہاتھ لگا کر واپس آنے کا کہاتھا؟اس پر شہید محسن کے منہ سے بے ساختہ طور پریہ الفاظ نکلے کہ ایک فوجی کی زندگی کا کیا بھروسہ ؟ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ آخری ملاقات کروانی ہو،اس کے بعد ہم پھر کبھی نہ مل سکیں ۔شہید محسن کے ان الفاظ نے سب گھر والوں کو دکھی کردیا،پھر ایسا ہی ہوا ۔محسن پھر نہ آسکے۔ 4نومبر2023ء کی رات تین بجے کا وقت تھا، جب شہید کاپل ٹیک محسن رشید دفتر میں اپنی نائٹ ڈیوٹی انجام دے رہے تھے کہ اچانک باہر سے دھماکوں کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں ،معلوم ہوا کہ دہشت گردوں نے تربیتی ائیر بیس پر حملہ کردیا ہے ۔شہید کے بھائی محمد مسعود خان بتاتے ہیں کہ محسن نے مجھے فون کرکے بتایا کہ اس طرح دہشت گردوں نے حملہ کردیا ہے اور ان شاء اللہ جلد ہی تمام دہشت گرد مارے جائیں گے۔شہید متاثرہ ایریا سے دور تھے ،ایرو ٹیکنیشن کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوتی ،شہید وضو کرنے کے لیے باہر نکلے اور جب وضو کرکے واپس آرہے تھے تو شہید کا دہشت گردوں سے سامنا ہوگیا ۔شہید محسن رشیدبے تیغ ہی دشمن سے لڑگیا ۔دہشت گردوں نے بھائی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کی وجہ سے وہ موقع پر ہی جام شہادت نوش فرماگئے ۔(اناللہ واناالیہ راجعون)پاک فوج کے مؤثر جواب نے دہشت گردوں کے اس حملے کو ناکام بنادیا اور اس حملے میں شامل تمام 9دہشت گرد مارے گئے۔اُن کے بھائی محمد مسعود خان بتاتے ہیں کہ 4نومبر صبح پانچ بجے بھائی محسن رشید شہید ہوئے اور مجھے تقریباً صبح سات بجے کال آئی کہ آپ کے بھائی محسن رشید شہید ہوگئے ہیں۔ میرے لیے یہ بات والدین اورباقی گھر والوںکو بتانا اس قدر مشکل تھی کہ میں اس کیفیت کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا کہ اچھا بھلا بھائی جو چند گھنٹے پہلے مجھ سے رابطے میں تھا اچانک ہمیں چھوڑ کر اتنی دور چلا گیا ہے۔یہ میرا پیغام ان افراد کے نام ہے جو پاک فوج کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ ان کو کیا علم کہ بوڑھے والدین کے لیے جوان بیٹے کی لاش اٹھانا کتنا مشکل ہوتی ہے ،بہنوں کو اپنا بھائی کھونے کا کتنا بڑا دکھ ہوتاہے ۔ دنیا کی ہر چیز مل جاتی ہے مگر بوڑھے والدین کو ان کا بیٹا ،بہنوں کو ان کا بھائی ،بیوی کو اس کاشوہر اور بچون کو ان کا باپ کبھی نہیں ملتا ۔ کبھی ایک دن گولیوں کے سائے میں سرحد پر پہرہ دے کر تو دکھائیں ؟پھر ان کو احساس ہوگا ۔شہید کے بھائی محمدمسعود خان بتاتے ہیں کہ میں نے ہمت اور حوصلہ کرکے یہ خبر والدین کو سنائی تو والد محترم اور والدہ محترمہ نے بڑی ہمت سے یہ خبر سنی اور بے ساختہ کہا کہ ''اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں شہید کے والدین ہونے کا اعزاز بخشا''رونا تو ایک فطری عمل ہے۔ شہید کاپل ٹیک محسن رشید کا جسد خاکی سبز ہلالی پرچم میں لپیٹا ہوا گھر لایا گیا ،پورے گائوں نے اشک بار آنکھوں سے اور منوں پھولوں کی پتیوں کے ساتھ شہید کاوالہانہ ا ستقبال کیا اور 5نومبر 2023ء کو اُن کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سیکڑوں سوگواران اور عسکری وسیاسی قیادت کی موجودگی میں ان کے آبائی قبرستان مہر شاہ والی میں سپرد خاک کردیا گیا۔
وطن کا بیٹا وطن پر قربان ہوگیا اور مہرشاہ والی گائوں کے قبرستان میں بھی ایک قبر پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے لگا ۔محمد مسعود خان بتاتے ہیں کہ محسن رشید کی شہادت کے چند ماہ بعد گزشتہ عید الاضحی کے تیسرے دن میرے بھائی دلشاد حسین خان جوکہ پاک بحریہ میں تھے بھی شہید ہوگئے ہیں۔اللہ تعالیٰ اُن کی شہادتوں کو قبول فرمائے۔آمین۔
مضمون نگارمختلف قومی اخبارات اور رسائل میں لکھتے ہیں اور کئی کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے