نوجوان ملت و قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں روشن اور تابندہ وطن کی نوید انہی سے جڑی ہوئی ہے، نسل نوا گر درست سمت میں چلتی ہے تو کسی بھی قوم کے لیے مشکل نہیں کہ وہ دنیا میں ممتاز اور اعلیٰ حیثیت حاصل کر پائے یعنی ترقی کے خواب کی حسین تعبیر انہی کی فکر میں پنپتی ہے۔تبھی تو مفکر پاکستان کے امیدوں بھرے تخیلات ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے نوجوان کے واسطے ہی تھے۔
لیکن اگر یہی ستر فی صد آبادی کسی ایسے میٹھے زہر کی عادی ہو جائے جو انہیں دھیرے دھیرے دنیا و مافیہا سے میلوں دور لے جائے تو پھر آنے والے دنوں میں جگمگاتے تاروں کے بجائے مسمار چراغ ہی ٹھوکروں میں ہیں۔جی ہاں!منشیات کا حصار کئی نوجوانوں کو آہستہ آہستہ گھیر رہا ہے۔ ہمارے جوانوں کی اکثریت سگریٹ، چرس، شراب، کوکین، بھنگ،بوٹی،سکون آور انجکشن,لائسرجک ایسڈ ڈائیایتھامائڈ ، پارٹی ڈرگز،افیون،شیشہ اور آئس جیسے نشوں کی عادی ہوچکی ہے منشیات پہلے تفریح اور بعد میں ضرورت بن جاتی ہے۔ نشہ کرنے والے کے لیے زندہ رہنے کی آرزو سے زیادہ نشہ ملنے کی جستجو اہم ہوتی ہے منشیات کا استعمال دماغ کو ناکارہ اور جسم کو بے سدھ کر دیتا ہے پھر ایسا وجود بھلا کسے کیا نفع دے گا؟
نشے میں مبتلا افراد کی بڑی تعداد پچیس سے اکتیس سال تک کی ہے جبکہ آج کل پندرہ سے چوبیس سال کے نوجوانوں کا ایک بڑا حلقہ بھی نشے کی طرف راغب ہے۔ منشیات کا 80 فیصد استعمال مرد کرتے ہیں جبکہ بیس فیصد خواتین بھی منشیات کی عادی ہیں۔
نشے کا آغاز سگریٹ نوشی سے ہوتا ہے۔ تمباکو کئی بیماریوں کی جڑ ہے۔ تمباکو کا استعمال کبھی پان گٹکا، چھالیا اور کبھی ای سگریٹ کی صورت نوجوانوں میں وبا کی مانند پھیلتا چلا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں تقریباً ایک ارب آبادی تمباکو نوشی کرتی ہے۔ ان میں سے اسی فیصد لوگوں کا تعلق کم آمدنی والے ممالک سے ہے۔یعنی کم ترقی یافتہ یا پھر صف میں ان سے بھی پیچھے کھڑے ممالک تمباکو پھونکنے میں پیش پیش ہیں۔ کینسر پر کام کرنے والی عالمی تنظیم انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر کے مطابق سگریٹ کے دھوئیں میں تقریباً 55 ایسے کیمیکلز ہیں جو کینسر کی وجہ بنتے ہیں۔ نکوٹین،تارکول کی موجودگی اور کاربن مونو آکسائیڈ کا اخراج دل کی بیماریوں،دمے،السر،بانجھ پن، ہائی بلڈ پریشر پھیپھڑے، غذائی نالی،منہ، مثانہ، گردہ، معدہ، لبلبہ، حلق، گال، ہونٹ اور بچہ دانی کے کینسر کی بڑی وجہ ہے۔ تمباکو نوشی کے منفی اثرات اسے استعمال کرنے والے کو تو تکلیف میں مبتلا کرتے ہیںہی ساتھ ساتھ ان سے جڑے لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ یہ سیکنڈ ہینڈ اسموک کہلاتا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہر سال تقریباً سات لاکھ افراد سیکنڈ ہینڈ سموکنگ کی وجہ سے قبل از وقت موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور بد قسمتی سے ان میں بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔
نشے کے عادی افراد کے لیے اب منشیات کا حصول بھی مشکل نہیں رہا۔ ہر گلی،کوچے میں منشیات بیچنے والے لوگ مافیا کے طور پر کام کرتے ہیں۔ نشہ پیدا کرنے والی ٹیبلیٹ، کیپسول، سفوف، سیرپ، پڑیااور انجکشن کم قیمت میں دستیاب ہیں تاکہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد جو اصل ٹارگٹ ہیں، بآسانی منشیات حاصل کر سکیں۔ انہی کم قیمت منشیات کے عوض تمام عمر کی جمع پونجی ہتھیا لی جاتی ہے۔ ایسے گروہوں کو کچلنے کے لیے اینٹی نارکوٹکس فورس میدان عمل میں مصروف ہے اور آئے روز ہم انہیں منشیات کے اڈوں پر چھاپے مارتے بھی دیکھتے ہیں مگر یہ دھندہ ایک شہر سے نکل کر دوسرے شہر میں جڑیں پکڑنے لگتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت تقریباً ایک کروڑ سے زائد لوگ منشیات کی لت میں پڑ چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی قوم کی تباہی مقصود ہو تو ان کے نوجوانوں کو نشے کی لت لگا دو پھر کسی مہلک جوہری ہتھیار یا عالمگیر جنگ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ نشہ کرنے والے نوجوانوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ پہلے ہم سنتے تھے کہ یونیورسٹی میں چوری چھپے کوئی نوجوان سگریٹ پیتے پکڑا گیا تو ایک وبال کھڑا ہو جاتا تھا مگر اب سگریٹ نوشی سے لے کر آئس کے نشے تک ہر طرح کی منشیات تعلیمی اداروں میں میسر ہیں اور بدقسمتی سے انتظامیہ کی ناک کے نیچے یہ مکروہ کاروبار مافیا چلا رہا ہوتا ہے۔ نوجوان نسل تباہی کی طرف دوڑی چلی جارہی ہے اور انہیں روکنے کے بجائے کبھی لاپرواہی سے تو کبھی طاقت کے باعث سب چپ سادھے بیٹھے ہیں۔۔ سگریٹ کی ڈبیہ پر صرف انتباہ کرنے کے لیے چند لفظ لکھ دینے سے ہی ذمہ داری پوری نہیں ہوتی بلکہ منشیات سے نوجوان نسل کو کیسے محفوظ رکھا جائے اور اس لت کو معاشرے سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کیا اقدامات لینے ہونگے؟ یہ فکر اہم ہے۔ گھر والے ہوں یا ریاست ،سب کو نشے سے انکار کو واقعی انکار میں بدلنے کی خاطر اپنا اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ وہ لوگ جو ریاست خداداد کو کمزور کرنا چاہتے ہیں جن کے مذموم مقاصد میں اس قوم کی نوجوان نسل کی تباہی شامل ہے، ان دشمن عناصر نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ملک کے طول و عرض میں نشے کا جال بچھا دیا ہے سب سے پہلے توان کی نشان دہی کرنا ضروری ہے۔وافر مقدار میں افغان منشیات پاکستان میں استعمال ہوتی رہی حکومت پاکستان کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ چھیاسٹھ فیصد نشے کے عادی افراد کی عمر بیس سے انتیس سال تھی جو کئی جرائم میں ملوث پائے گئے۔اسی طرح انیس فیصد نشے کے عادی افراد کی عمر پندرہ سے انیس سال تھی۔منشیات بیچنے کی یہ انسانیت دشمن سوچ کہاں پنپتی ہے؟ اُن کے پاس منوں کے حساب سے منشیات کہاں سے آتی ہے؟ شہر شہر ان کا ڈیلر کون ہے؟ یہ پتہ لگانا سب سے پہلا قدم ہے تاکہ جڑ پکڑ کر کانٹ چھانٹ کرنے میں آسانی ہو۔ اس معاملے پر ایک ہوکر چلنا ہوگا "منشیات سے پاک پاکستان" کا نعرہ لگا کر جو بھی ادارہ اس لعنت کے خلاف برسر پیکار ہے، اس کا مددگار بننا ہوگا، ہر ایک کو دوسرے کا ہاتھ تھامنا ہوگا، اس سے پہلے کہ نوجوان نسل کے روشن مستقبل کو سگریٹ کا دھواں مکمل طور پر سیاہ کر دے ہر ایک کو منشیات کے خلاف کردار نبھانا ہوگا۔
وزارت تعلیم کو وفاقی اور صوبائی سطح پر بچوں کی نصابی کتب میں نشے جیسی لعنت کے حوالے سے خصوصی مضامین شامل کرنے چاہئیں۔ اس ضمن میں تقریری اور تحقیقی مقابلے بھی آگاہی کا اہم ذریعہ ہیں تاکہ زمانہ طالب علمی سے ہی ان کے پاس اس لعنت سے بچنے کا شعور موجود ہو۔
اہم ترین اقدام یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا استعمال کرتے ہوئے آگاہی مہم شروع کرنا ہوگی، گھر گھر یہ پیغام پہنچانا ہوگا کہ نشہ کس حد تک فرد و قوم کے لیے نقصان کا باعث ہے، اس سے کیسے بچا جائے، تعلیمی اداروں خصوصا یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس حوالے سے کھل کر بات ہونی چائیے تاکہ طلبا آگاہ ہوں کہ وہ جسے سکون سمجھ کر اپنی رگ وجان میں اتارنا چاہ رہے ہیں وہ سکون انہیں بس پل دو پل کے لیے ہی میسر ہے۔ اس وقتی چین کے بعد بے چینی ہی بے چینی ہے۔ نشے کے عادی افراد کے لیے سپورٹ گروپس اور کونسلنگ سیشنز کا انتظام کرنا ہوگا۔ ایسے افراد کے لیے معاشرتی تعاون انتہائی اہم ہے۔
حکومت کے ساتھ مل کر سخت قوانین بنانے ہوں گے اور ان قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے سوال و جواب کے سیشن رکھ کر یقینی بنانا ہوگا کہ قوانین کا نفاذ ہو اور سو فیصد ہو۔ سب سے اہم نقطہ ہر طرح کے نشے پر مکمل پابندی ہو۔ منشیات بیچنے والوں پر شکنجہ کسا جائے اور سخت سزا سنائی جائے اور ایسا جرمانہ لگایا جائے کہ دوبارہ وہ اس ناسور کو نوجوان نسل میں انڈیل کر روپے کمانے کی سعی نہ کر پائے۔نگرانی کا نظام چوکس رکھنا ہوگا جس کالج، یونیورسٹی، بازار یا گلی محلے میں منشیات کی خرید وفروخت جاری ہو فوری طور پر اداروں کو اطلاع دینا ہوگی۔بڑھتے بچوں کے لیے اسکول کالج اور یونیورسٹی میں کھیلوں کے میدان بھی آباد کرنا ہوںگے۔ ایسی مصروفیات کا اہتمام کرنے کے بعد نوجوانوں کی مصروفیت کا محور نشہ نہیں رہے گا۔
گھر کے ماحول میں منشیات کے خلاف مضبوط اخلاقی اقدار کی تشکیل اور بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ بچوں کے دوست احباب پر نگاہ رکھنا،بری صحبت کی نگرانی کرنا اور خاص طور پر ان کے بیگز سے نکلنے والی اشیا دیکھ کر اندازہ لگانا کہ بچے کی توجہ کس طرف ہے۔خوش قسمتی سے ہمارا تعلق ایک ایسے مذہب سے ہے جہاں نشے کو اُم الخبائث یعنی تمام برائیوں کی ماں کہا گیا ہے۔ رسول اللہۖنے ارشاد فرمایا: ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے اگر زیادہ استعمال سے نشہ ہوتا ہے تو اس کا قلیل استعمال بھی حرام ہے۔" بھلا اس سے بڑا ذریعہ کیا ہوسکتا ہے کہ ہم تربیت ایسی بنیاد پر کریں جہاں کسی قسم کے نشے کی گنجائش ہی نہ ہو۔ نشے کی ممانعت کو پہلے پہل صرف اسلامی رنگ دے کر مسلمانوں سے جوڑا گیا کہ شراب مسلمان پر حرام ہے لیکن اب اس کے طبعی نقصانات دیکھتے ہوئے ساری دنیا منشیات کی روک تھام کے لیے سیمینارز منعقد کرا رہی ہے اور اس بات پر متفق ہے کہ نشے کا عادی انسان اپنی ذات کے ساتھ ساتھ پورے معاشرے کے لیے تباہی کی وجہ ہے۔منشیات چاہے کسی بھی قسم کی ہوں وہ آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کو لاغر کرتی ہیں۔جب کہ دین اسلام میں پانچ وقت باوضو ہوکر سجدے میں جانے والے کے پاس کسی اور سکون کی گنجائش نکل ہی نہیں سکتی۔ اس لیے اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرنے کا مقصد محض آخرت ہی نہیں بلکہ دنیاوی سکون بھی ہونا چائیے۔
نشے میں مبتلا شخص کے علاج معالجے کے لیے جدید سہولیات کی فراہمی نہایت اہم امر ہے سرکاری سہولیات موجود تو ہیں مگر وہ کافی نہیں یا پھر جو ہیں وہ بھی جدید طریقہ علاج کے زمرے میں کم ہی آتی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاست کی نگرانی میں ری ہیب سینٹرز قائم کیے جائیں جہاں ہر ماہ کے اعدادوشمار پر رائے قائم ہو کہ یہ سینٹرز مفید بھی ہیں یا نہیں۔
نشے کی لت میں اکثر وہ نوجوان پڑتے ہیں جنہیں زبردستی اس طرف مائل کیا جاتا ہے بد قسمتی سے اگر وہ عادی ہو جائیں تو چاہتے ہوئے بھی اس سے نکلنا آسان نہیں۔ ایک بہت بڑی رکاوٹ معاشرے کا رویہ اور بحالی مراکز میں کیا جانے والا سلوک ہے۔ رویہ بدلنے کی ضرورت ہے ایسے لوگوں کو زندگی کی طرف دوبارہ لایا جاسکتا ہے مگر محبت اورمثبت سوچ کا ہونا شرط ہے۔پاکستان میں نشہ کرنے والے کو ہر شخص چرسی، نشئی، کوکینی یا جہاز وغیرہ کہہ کر چل نکلتا ہے۔ بظاہر تو یہ لوگ قابل نفرت دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ قابل رحم اور قابل توجہ ہیں۔ ہمدردی کے مستحق افراد جنہیں نشے کی دلدل سے نکالتے وقت اپنے رویے سے طنز و طعنہ نکال پھینکنا ہوگا۔
منشیات کے خلاف جنگ میں ہم سب کا کردار بہت اہم ہے۔ ہماری چھوٹی سی کوشش کئی لوگوں کے لیے نئی زندگی کی امید بن سکتی ہے۔ ہماری خاموشی منشیات فروشوں کی جیت ہے اور ہمارا بولنا ان کے مکروہ کاروبار کی موت۔
علاقے کے معززین،علما،اساتذہ کو بھی اپنے تئیں نوجوان نسل کو منشیات سے بچانا ہوگا۔تاریخ بتاتی ہے کہ منشیات کے سدباب کے لیے معاشرے کا فرد ہو یا پھر حکومت، کوئی بھی جان توڑ محنت نہیں کرتا۔ اسی کوتاہی نے نہ جانے کتنے چراغ گل کر دئیے جن کے پیچھے ہزاروں خاندانوں کی خواہشات بھی گل ہوچکیں لیکن امید کی لو ضرور روشن کی جاسکتی ہے کہ ہمارا معاشرہ اگر منشیات کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ چلنا شروع کر دے تو منشیات کا عادی نشے سے انکار اور زندگی سے پیار کرنا ضرور شروع کردے گا۔
مضمون نگار صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ایک بین الاقوامی نیوز ایجنسی اور بعض اخبارات کے لیے بھی لکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے