پاکستان کی معاشی ترقی کی ایک اور سڑک
پاکستان کی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC) ملک کے کان کنی اور معدنیات کے منصوبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی تلاش اور دعوت دینے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ حکومت کی طرف سے قائم کردہ، SIFC کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاری کو سہولت فراہم کرنا، تیز رفتار بنانا اور تحفظ فراہم کرنا ہے جس میں خاص طور پر منافع بخش شعبوں جیسے کان کنی، توانائی، زراعت، اور دفاعی پیداوار شامل ہیں۔ اس کونسل کی سربراہی وزیر اعظم پاکستان کرتے ہیں اور اس میں وفاقی اور صوبائی وزرا، سیکرٹریز اور مسلح افواج کے اعلی سطحی نمائندے بشمول چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر شامل ہیں ۔
سرمایہ کاری کونسل کی کوششیں ان شعبوں میں پاکستان کے منافع اور ترقی کے امکانات کو اجاگر کرنے پر مرکوز ہیں، جو سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش منافع کی صورت حال پیش کرتی ہیں۔ کونسل نے اس سلسلے میں اپنے تشکیل پانے کے فوری بعد ہی اہم پیش رفت کی ہے، جس میں ایپکس کمیٹی کا زرعی، لائیو سٹاک، معدنیات، کان کنی، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں دوست ممالک سے سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے منصوبوں کا جائزہ لینا اور منظوری دینا شامل ہے۔ اس کونسل میں جنرل عاصم منیر کی شمولیت غیر ملکی سرمایہ کاری کے ذریعے اقتصادی ترقی میں معاونت کے لیے نہ صرف پاک فوج کے عزم کو واضح کرتی ہے بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے طویل المدتی منصوبوں کے لیے بھروسے اور گارنٹی کا باعث بھی ہے۔
سرمایہ کاری سہولت کونسل کی توجہ کے کلیدی شعبوں میں پاکستان کے معدنی وسائل سے مالا مال مواقع کی تلاش ، قابل تجدید توانائی کے ذرائع اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں سرمایہ کاری ، زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبوں میں پیداواری صلاحیت اور برآمدات کو بڑھانا شامل ہے۔ آئی ٹی اور دفاعی پیداوار کو مستحکم کرتے ہوئے پاکستان کی ٹیکنالوجی اور دفاعی صنعتوں میں ترقی کو فروغ دینا بنیادی مقصد کی حیثیت رکھتا ہے۔ سپیشل سرمایہ کاری سہولت کونسل جنرل عاصم منیر کے ویژن کی روشنی میں پاکستان کی اقتصادی بحالی کو آگے بڑھانے کے لیے تیزی سے گامزن ہے ۔
قدرت نے پاکستان کو متنوع معدنی وسائل سے مالا مال کر رکھا ہے، جو ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ملک کی ارضیاتی ساخت، اس کے متنوع خطوں اور ارضیاتی تشکیلات نے معدنی ذخائر کی کثرت پیدا کی ہے۔
پاکستان میں چونے کے پتھر کے اہم ذخائر ہیں، جن کا تخمینہ 180 ملین ٹن ہے۔ یہ ذخائر بنیادی طور پر پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں واقع ہیں۔ ماربل کے ذخائر، جن کا تخمینہ 300 ملین ٹن ہے، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں پایا جاتا ہے، جو پاکستان کو عالمی ماربل مارکیٹ میں ایک بڑا حصے دار بناتا ہے۔
پنجاب میں کھیوڑہ سالٹ مائنز میں ایک اندازے کے مطابق 600 ملین ٹن نمک کے ذخائر ہیں، جب کہ جپسم کے ذخائر، جن کا تخمینہ 40 ملین ٹن ہے، یہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بکھرے ہوئے ہیں۔ مزید برآں، پاکستان کے پاس بلوچستان میں باکسائٹ کے قابل ذکر ذخائر ہیں، جن کا تخمینہ 20 ملین ٹن ہے۔
ملک ِ خداداد اپنے قیمتی پتھروں کے لیے بھی مشہور ہے، جن میں زمرد، یاقوت اور نیلم شامل ہیں جو گلگت بلتستان میں پائے جاتے ہیں۔ یہ معدنی وسائل اقتصادی و صنعتی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بے پناہ امکانات پیش کرتے ہیں۔
ان وسائل کی مؤثر تلاش اور انتظام پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے۔ تاہم، معدنیات کے شعبے کو اب بھی مزید چیلنجوں کا سامنا ہے، بشمول ناکافی انفراسٹرکچر، ناکافی تلاش اور نکالنے کے غیر مؤثر طریقے ، یہ تمام ایسے چیلنجز ہیں جن سے کامیابی کے ساتھ نبرد آزما ہونا ہی ترقی کے راستے پر گامزن ہونا ہے ۔
پاکستان کے ان تمام قدرتی وسائل سے مکمل فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام اور اس کی اب تک کی کوششیں خوشحال پاکستان اور اقتصادی ترقی کی نوید سناتی دکھائی دے رہی ہیں۔ نہایت ہی کم وقت میں اب یہ امید پیدا ہو چلی ہے کہ ملک اپنی معدنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتا ہے۔خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل نے خاص طور پر منتظمانہ رکاوٹوں کو ان کی جگہ پر ہی اور فوری طور پر حل کرنے کے کلچر کو فروغ دے کر پاکستان کے شہریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی طرف سفر کا آغاز کردیا ہے ، جس کی مثال سیندک منصوبے سے دی جاسکتی ہے ۔
سیندک بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہے۔ سیائن دک بلوچی زبان میں "سیاہ پہاڑی" کو کہا جاتا ہے۔
سیندک کے مقام پر تانبے کی دریافت 1901ء میں ہوئی لیکن یہاں کام کا آغاز 1964 ء میں کیا گیا۔ انیس سو اسی کی دہائی میں معدنیات کی باقاعدہ پیداوار کے لیے سیندک میٹل لمیٹڈ کی جانب سے منصوبے پر کام کا آغاز کیا گیا۔ لیکن عملدرآمد کی رفتار سست اور مسائل کا شکار رہی ۔ اس منصوبے پر ایک بار پھر نئے عزم کے ساتھ 1990 ء کی دہائی میں میٹرولوجیکل کارپوریشن آف چائنہ کے تعاون سے شروع کیا گیا۔ یہ پاکستان اور چین کا مشترکہ منصوبہ ہے جسے ریسورسز ڈویلپمنٹ کمپنی پرائیوٹ لمیٹڈ حکومت پاکستان کے تعاون سے چلا رہی ہے ۔سیندک کے علاقائی سطح پر کان کنی کے منصوبے کو شروع کرنے کے لیے جو سب سے بڑی دو رکاوٹیں تھیں جن کو حل کرنا سول حکومت کے بس سے باہر نظر آ رہا تھا ان میں سے ایک سکیورٹی اور دوسرا مقامی قبائل اور خاندانوں کے آپسی اختلافات اور لڑائی جھگڑے تھے ۔ پاکستان آرمی کی طرف سے کراچی سے لے کر سیندک اور چاغی کے تمام علاقے تک کو نہ صرف فول پروف سکیورٹی فراہم کی گئی بلکہ قبائل اور خاندانوں کے سربراہان کو بار بار مل بیٹھ کر مسائل کو حل کرنے اور سیندک سمیت پورے بلوچستان اور ریاست پاکستان کو حاصل ہونے والی معاشی ترقی کو راستے پر ڈالنے کے لیے قائل کیا گیا۔ اس سلسلے میں دوست ملک چائنا کا کردار بھی سراہا جانا اتنا ہی ضروری ہے ۔
میٹرولوجیکل کارپوریشن آف چائنہ، ریسورسز ڈویلپمنٹ کمپنی پرائیوٹ لمیٹڈ پراجیکٹ کی اوورآل دیکھ بھال، مقامی ذریعہ معاش کی سہولیات اور سماجی بود و باش کی سرگرمیوں میں بھی فعال طور پر حصہ لے رہی ہے۔ مقامی قبائل اور خاندانوں سے مقامی ترقی کے جو وعدے کیے گئے تھے ان کو نہ صرف پورا کیا گیا بلکہ سیندک کو ایک مثالی ترقی یافتہ علاقے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔
ریسورسز ڈیویلپمنٹ کمپنی پرائیوٹ لمیٹڈ سیندک اسکول کے تقریباً 600 طلبہ کو مفت تعلیم فراہم کرنے کے لیے فنڈز مہیا کیے جا رہے ہیں، یہ حکومت بلوچستان کی منظوری کے تحت مقامی کمیونٹی میں واحد ہائی اسکول ہے۔سیندک پروجیکٹ کے تحت جدید طبعی آلات کی تنصیب کے ساتھ ساتھ سیندک ہسپتال قائم کیا گیا ہے۔ جو مقامی لوگوں کو علاج کی مفت سہولیات مہیا کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ سیکڑوں میل دور سے بھی لوگ سیندک ہسپتال میں مفت معائنے اور مختلف بیماریوں کی تشخیص کے لیے آتے ہیں اور انتہائی کم قیمت پر مقامی لوگوں کو ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔
سیندک پروجیکٹ کے تحت کمپنی نے چھ قریبی گائوں کو مفت بجلی فرام کرنے کے لیے بجلی کی تاریں نصب کی ہیں اور قریبی آبادی میں آئل لیمپ کا استعمال ختم کرتے ہوئے مفت بجلی فرام کرنے کے لیے شمسی پینل بھی فراہم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ کمپنی نے پانی کی فراہمی کے کنویں بھی کھو دے ہیں اور مقامی آبادی کے لیے قریبی گائوں میں پینے کا صاف پانی پہنچانے کے لیے پانی کے ٹینکرکی خریداری بھی کی گئی ہے۔
اس وقت اس منصوبے میں1763پاکستانی کام کر رہے ہیں۔جن میں سے 1549 کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے جو کل ملازمین کا ستاسی فیصد بنتا ہے۔734 ملازمین یعنی بیالیس فیصد کا تعلق ضلع چاغی سے ہے جبکہ439 افرادیعنی پچیس فیصد نوشکی سے ہیں۔جو کمپنی کی بھرتی کی پالیسی کے مطابق مقامی لوگوں کو ترجیح دینے کا ایک بہترین مظاہرہ ہے۔
اسی طرح سیندک منصوبے نے علاقے میں نقل و حمل تجارت اورلاجسٹک کی سہولیات کو خوشحال بنایا ہے ، جس سے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوئے ہیں جسے حکومت، قبائل اور عوام کی جانب سے خوب پذیرائی ملی ہے اور مقامی علاقوں کو مستحکم کرنے میں مدد ملی ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا معاشی ویژن اپنے اہداف کی طرف تیزی سے گامزن ہے اور دنیا بھر کے ماہرین پاکستان کے مضبوط معاشی مستقبل کی پیش بینی کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف اور تجزیہ کار ہیں
[email protected]
تبصرے