اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لو کہ کہیں کسی قوم کو انجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو، پھر پانے کیے پر شرمندہ ہونا پڑے۔
(سورة الحجرات آیت نمبر :6)
جس قوم کو اللہ تعالیٰ بار بار ہر خبر کی تصدیق کے لیے حکم دیتا ہے،جہاں سچ کو ہمیشہ فوقیت دی جاتی ہے ، جہاں جھوٹ بولنے والوں پر لعنت بھیجی جاتی ہے ، جہاں پر تصور ہی نہیں کیا جاتا کہ مسلمان آپس میں جھوٹ بولیں گے، ایک دوسرے کو دھوکہ دیں گے ۔ وہاں غلط اطلاعات فون کے ذریعے ، واٹس ایپ ،ٹویٹر اورویڈیو کے ذریعے پھیلا ئی جارہی ہیں۔ یہ غیر ذمہ دارانہ حرکتیں ہر طبقۂ فکر کے لوگ کررہے ہیں۔ جو لمحۂ فکریہ ہے۔
اکیسویں صدی اطلاع کی صدی کہلاتی ہے ۔ہر روز نئے نئے مواصلاتی آلات ایجاد ہو رہے ہیں ۔ دنیا سیکنڈ میں کہیں بھی رونما ہونے والے واقعات سے آگاہ ہوجاتی ہے ۔ تصویر یں ، وڈیوز اور آڈیو زاگلے ہی لمحے پوری دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔ اربوں ڈالر کی مالیت سے بڑے بڑے میڈیا ہائوس کھل رہے ہیں۔ جن کے نمائندے اور شاخیں کئی کئی شہروں میں قائم کی جارہی ہیں ۔ کچھ تو باقاعدہ میڈیا ہائوس ہیں جو متعلقہ ملکوں کے قوانین کے مطابق وجود میں لائے گئے ہیں۔ ان کے اغراض و مقاصد بھی سب کے سامنے عیاں ہوئے ہیں اور ویب سائٹ پر واضح کیے جارہے ہیں ۔لیکن بہت سے ایسے ادارے بھی ہیں جو قوانین کے مطابق نہیں ہیں اورنہ ہی ان کے مقاصد کی تشہیر کی جاتی ہے ۔ وہ بغیر نام کے ہی خبریں نشر کر رہے ہیں ۔ ایک نئی فصل اور نئی نسل یوٹیوبر کی جن کی شہ سرخیاں ، عنوانات ایسے چونکا دینے والے ہوتے ہیں کہ دیکھنے والا بٹن دبانے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ مگر کئی کئی منٹ آدھے گھنٹے بعد بھی وہ سرخی کہیں نظر نہیں آتی ۔ سرخی کے سامنے ہلکا سا سوالیہ نشان لگا کر وہ یوٹیوبر شخص یا کمپنی بری الذمہ ہو جاتی ہے ۔
اسے فیک نیوز کہیں، ڈس انفارمیشن کہا جائے یا اشتعال انگیزی، مگر یہ دنیا بھر میں ہو رہا ہے ۔ معاشرے تنگ آرہے ہیں۔ حکومتیں بے بس ہو رہی ہیں،میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ ہمارے بہت سے یوٹیوبر کچھ ہی دنوں میں بہت خوشحال اورمتمول ہو گئے ہیں ۔ اب ہر سو جھوٹ بکنے لگا ہے۔اب ایک نئی اصطلاح سوشل میڈیا میں جیسے ہم Monitization آگئی ہے ۔ فیس بک ، یوٹیوب ، اور کئی ادارے زیادہ Views، زیادہ Plays ، زیادہSubscriptionوالوں کو منٹوں اور وڈیوز کے حساب سے ڈالر عطا کر رہے ہیں۔ ان کو اس سے غرض نہیں کہ Content کیا ہے ۔ اطلاع کیا دی جارہی ہیں۔ اطلاع سچی ہے حقیقی ہے یا من گھڑت ہے ۔ ویڈیو پرانی ہے یا موقع کی، وہ اپنے مقام اپنی فریکوئنسی پر زیادہ وقت گزارنے والے کو ڈالر دے رہے ہیں۔
دنیا میں ایک بار پھر سرد جنگ گرم ہو رہی ہیں ۔ کمیونسٹ بلاک اگر چہ منہدم ہو چکا ہے اب صرف آزاد دنیا باقی رہ گئی ہے ۔ لیکن روس اور چین اب بھی ایک الگ گروپ ہیں ۔ بہت سے ممالک ان کے ساتھ ہیں ۔ دوسری طرف امریکہ یورپ ہیں ان کی عسکر ی قوت نیٹو ہے ۔ سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل دنیا جس کی بنیادی طاقت انٹرنیٹ ہے، اس سے یہ ددنوں بلاک پریشان ہیں۔ دونوں خوف زدہ ہیں۔ پہلے تو یہ کوشش کی جاتی ہیکہ انٹر نیٹ بند کر دیا جائے ۔سکرین سیاہ کر دی جائے۔ پہلے تار کاٹ دئیے جاتے تھے ۔ اب یہ وائی فائی انٹرنیٹ ہے ۔ تارضروری نہیں ہے ۔ اب ساری ریاستوں اور حکومتوں نے اپنے میڈیا ہائوس بھی برقی کر لیے ہیں۔ بہت سرمایہ لگایا جا رہا ہے ۔
با اثر لوگ سچ سننا نہیں چاہتے ۔ سچ کو برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے ۔ جھوٹ سننا چاہتے ہیں۔ پہلے شام کے اخبارات صبح کی خبروں کو توڑ مروڑ کر اپنی اشاعت بڑھاتے تھے ۔ کئی مرتبہ بعض اداروں کے شام کے اخبارات ان جھوٹی خبروں ، غلط خبروں اور جعلی اطلاعات کے باعث بہت مقبول ہوجاتے تھے ۔ آج کی اصطلاح میں وائرل ہوجاتے تھے ۔ ٹیکسی ڈرائیور ، رکشے والے ، چاٹ مصالحے والے ، شام کے اخبارات مزے لے لے کر پڑھتے تھے ۔ امریکہ ،برطانیہ ،ڈنمارک ،ناروے ،فرانس ،اٹلی وغیرہ میں تو ایوننگر کے ساتھ ایک اور اصطلاح تھی Tabloid ۔ وہ سنجیدہ اخبارات سے کہیں زیادہ تعداد میں فروخت ہوتے تھے ۔ ان اخبارات میں عریاں تصاویر بھی شائع کی جاتی تھیں ۔
جنس ، جھوٹ اور جوش و جذبات انسان کی کمزوری ہیں ۔ فیک نیوز والے ان انسانی کمزوریوں سے اپنا کاروبار چمکاتے ہیں۔
اکبر آلہ آبادی نے کہا تھا :۔
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضموں لکھا
ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا
اب ہر روز ہم یہ صورتِ حال دیکھتے ہیں۔ تحقیق پر مبنی مضامین بہت کم پڑھے جاتے ہیں۔ سنجیدگی تدبر کی پذیرائی بہت محدود ہوتی ہے ۔ پہلے ہم سیاسی جلسوں میں دیکھتے تھے کہ زیادہ مبالغہ آرا ئی اور انتہا پسندی سے آراستہ تقاریر پر بہت تالیاں بجتی تھیں ۔ معروضی بات کرنے والے کو بہت کم سنا جاتا تھا ۔
امریکہ اور یورپ میں یا ادھر مشرق بعید میں جہاں زندگی کی آسانیاں فراہم کر دی گئی ہیں، ملک ایک سسٹم کے تحت چلتے ہیں۔ حکمران بھی سسٹم کے پابند ہیں اور شہری بھی ۔ وہاں فیک نیوز قبولیت نہیں پاتی ہیں ۔ یورپ جہاں جنگیں کئی کئی سال چلیں لاکھوں گھر اجڑ گئے ۔ دیکھتے دیکھتے لاکھوں لوگ مارے گئے ۔ اب وہ جنگ سے ڈرتے ہیں۔ جنگی پروپیگنڈے سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ انہوںنے امن بہت مشکل اور طویل جدوجہد سے حاصل کیا ہے ۔ اس لیے وہ اسے گنوانا نہیں چاہتے ۔ وہاںفیک نیوز جلد ہی دم توڑ دیتی ہے ۔ کم تعلیم یافتہ معاشروں میں یا جہاں اب تک قانون کی حکمرانی نہیں ہے، ملک چلانے کا کوئی سسٹم نہیں ہے ، ایسے بااثر طبقے موجود ہیں جو قانون سے ماوریٰ ہیں۔ وہاں فیک نیوز باقاعدہ منصوبہ بندی سے پھیلائی جاتی ہے ۔ اس کے پسِ منظر میں کاروباری مسابقت بھی ہوتی ہے ۔ مالی منفعت، بھی قبائلی دشمنی بھی ،فرقہ ورانہ تعصبات بھی، بعض درسگاہیں دوسری درسگاہوں کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتی ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ فیک نیوز سے کیسے بچا جائے ۔
پرنٹ میڈیا تو اب ویسے ہی اپنی ساکھ کھو رہا ہے ۔ اس کے صارفین کم ہوتے جارہے ہیں ۔ بڑے بڑے اخبارات اشاعت خود محدود کر رہے ہیں، اپنی ملحقہ مطبوعات کی اشاعت بند کر رہے ہیں ۔ اگر چہ دنیا بھر میں اخباری مالکان کی ایسو سی ایشن اجتماعی طور پر فیک نیوز کے خلاف مہم چلا رہی ہے ۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کی اپنی سرکولیشن کم ہو رہی ہے ۔ اسی لیے ان کی اس مہم کا اثر ویسے ہی محدود ہو رہا ہے ۔ پھر اخبارات کے رپورٹنگ اور ایڈیٹنگ کے شعبے تربیت یافتہ ذمہ دار عملے سے محروم ہو رہے ہیں۔ اس لیے محدود قارئین بھی جیسا معیاری اخبار چاہتے ہیں، جس طرح کی تازہ ترین خبریں اپنی مطلوبہ تفصیل کے ساتھ ہوں۔ وہ نہیں ہیں پھر اخبار کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کے تعاون کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس لیے انہیں اس سیاسی پارٹی کی حمایت میں اور مخالف پارٹیوں کے خلاف جھوٹی خبریں گھڑنی پڑتی ہیں۔
آج کے دور میں یہ حقیقت ہے کہ عام لوگ بہت با شعور ہوگئے ہیں، سو شل میڈیا نے انہیں سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا سکھا دیا ہے، ذرائع مواصلات اور رابطہ ماحول اتنا تیز ہو گیاہے کہ چند لمحوں میں ہی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا ہے ۔ ویڈیو کتنی پرانی ہے، کتنی حقیقی اور اس میں کتنی ملاوٹ کی گئی ہے ۔ اس کے لیے بھی مستند ناقابل اعتبار آلات ایجاد ہو چکے ہیں۔
مغربی ممالک میں تو یہ مشورہ بھی دیا جارہا ہے کہ فیک نیوز کے بجائے فیک انفارمیشن کی اصطلاح استعمال کی جائے کہ فیک نیوز سے عام طور پر سیاسی اطلاعات کا تصور اور تا ثر ہوتا ہے اور یہ متنازع ہوجاتی ہے ۔ اس لیے فیک انفارمیشن (جعلی اطلاع )زیادہ موزوں ہے۔ کیونکہ فیک اطلاعات پھیلائی جارہی ہیں۔علاوہ ازیں ماحولیات میں، معیشت میںاور صحت کے شعبے میں بھی فیک اطلاعات کا مقصد کسی شخص، کمپنی یا ادارے کے بارے میں لوگوں کو گمراہ کرنا ہوتا ہے ۔ عام لوگوں کے ذہن متاثر کیے جارہے ہیں۔ عام قارئین اور ناظرین میں تذبذب اور ذہنی انتشار پھیلانا مقصد ہوتا ہے۔ آن لائن بزنس میں تو اس سے فائدہ بہت جلد اور بڑے پیمانے پر ہوتا ہے ۔ بعض ماہرین کے مطابق اس سے متعلقہ نظریے، ادارے یا شخصیت کے بارے میں
اعتبار کا خاتمہ Mistrust
گمراہ کن اطلاع MisInformation
جوڑ توڑ Manipulation
قدیم زبانوں میں جعلی اطلاع (فیک انفارمیشن )بادشاہتیں بھی پھیلاتی تھیں ۔ ہٹلر کے وزیر گوئیلز کا فلسفہ بتایا جاتاہے کہ" جھوٹ اتنا بولو کہ لوگ سچ سمجھنے لگیں" لیکن اب فیک نیوز کی اصطلاح اور کثرت استعمال 2017 سے کیا جارہا ہے۔ عام میڈیا میں تو بہت احتیاط کی جاتی تھی ۔ اخبارات میں ایڈیٹر کا شعبہ موجود تھا ۔ ٹی وی چینل میں بھی ڈائریکٹر نیوز وغیرہ کی ذمہ داری تھی ۔ ہر میڈیا ہائوس میں اطلاع کی تصدیق کا ایک نظام موجود ہوتا تھا ۔ سوشل میڈیا میں ایسا کوئی سسٹم موجود نہیں ہے۔ وہاں جانتے بوجھتے ہوئے کہ یہ درستخبر نہیں ہے، اسکی تصدیق کی کوشش نہیں کی جاتی کہ ان کی ساری مہم بے نتیجہ ہوجائے گی ۔
فیگ نیوز دو دھاری تلوار بن گئی ہے ، کہ یہ اپنا پہلا تاثر تو قائم کردیتی ہے ۔ پھر جب یہ غلط ثابت ہوتی ہے تو آئندہ کے لیے وہ اطلاع کنندہ اپنا اعتبار ہی کھو دیتا ہے ۔ بعض اوقات وہ صحیح اطلاع بھی دے رہا ہوتا ہے لیکن سننے پڑھنے اور دیکھنے والا اس پر اعتبار نہیں کرتا۔ جیسے ان گائوں والوں کے ساتھ ہوا تھا جہاں روز کہہ دیا جاتا تھا "بھیڑیا آیا "پھر چند روز بعد بھیڑیا واقعی آگیا تو لوگوں نے یقین نہیں کیا ۔
آپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بڑی لچھے دار زبان استعمال کی جاتی ہے ۔ا ج فلاں ادارہ اڑ گیا، کہانی ختم ۔ سنجیدہ اطلاع دینے والوں سے بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ مسالہ لگائیں ۔ نمک مرچ، ورنہ کوئی آپ کی بات نہیں سنے گا ایسے ایسے طنز یہ جملے استعمال کیے جاتے ہیں۔ بنیادی کو شش یہی ہوتی ہے کہ معاشرے میں سسٹم کو للکارا جائے ۔ بڑے عہدوں کا دبدبہ ختم کیا جائے ۔
بعض افراد اور اداروں کے بارے میں غلط فہمیاں پیداکردی جائیں۔ انسانی نفسیات یہ ہے کہ وہ اپنی مرضی کی خبریں سننا چاہتا ہے ۔خواہشوں اور خوابوں کو خبر بنا دیا جاتا ہے ۔ انتخابات کے دنوں میں خاص طور پر ایسی کوششیں کی جاتی ہیں۔
یہ فیک اطلاع ایسے معاشروں میں بہت زیادہ ہلاکت خیز ہوجاتی ہے جہاں لسانی اورنسلی فرقہ ورانہ تعصبات زیادہ ہوتے ہیں ۔ وہاں کسی کے مسلک ایمان کے بارے میں غلط اطلاعات جان بوجھ کر پھیلائی جاتی ہیں ۔ اب سمعی بصری آلات میں الفاظ کے ساتھ آڈیوز اور وڈیوز بھی منسلک ہوگئے ہیں۔فیک اطلاع کاروبار بن چکی ہے۔ لاکھوں ڈالر کی آمدنی کی توقع ہوتی ہے ۔
فیک اطلاع کا تدارک کیسے ہوسکتا ہے ۔ یہ ایک باقاعدہ سائنس بن چکی ہے ۔ چند نکات قابل ذکر ہیں۔
١۔ سب سے پہلے تو خبر کے ذریعے کی تصدیق کریں ۔
٢۔ دیکھیں کون سے اور افراد اور حلقے اس خبر کو آگے پھیلا رہے ہیں۔
٣۔ کس ویب سائیٹ یا چینل نے سب سے پہلے یہ خبر دی ۔
٤۔ صرف سرخی نہ دیکھیں اس سے آگے کا متن ضرور دیکھیں ۔
٥۔ اپنا احتساب بھی کریں کہ آپ اپنے مسلک ونظریے سے وابستگی کی بنیاد پر تو اسے جعلی نہیں کہہ رہے ہیں۔
متعلقہ حکومتوں اور متعلقہ اداروں کو فیک نیوزاور فیک انفارمیشن پھیلانے والے افراد اورکمپنیوں کے بارے میں جامع حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے ۔ سب سے اہم اقدام تو یہ ہے کہ ان ممالک میں اطلاع رسانی کا ایک مستند اور مؤثر نظام قائم کیا جائے ۔ عوام کو حقیقی خبروں اور اطلاعات سے با ضابطہ طور پر آگاہ کیا جائے۔ روزانہ کی بنیاد پر اگر ایسا اہتمام ہو جائے تو فیک نیوز یا یا فیک اطلاع اپنا اثر کھو دیں گی کیونکہ قیمتی اطلاعات کو چھپانے سے ہی فیک نیوز کے لیے گنجائش پیدا ہوتی ہے ۔
مضمون نگارنامورصحافی' تجزیہ نگار' شاعر' ادیب اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے