مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے حالیہ ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو عبرتناک شکست
مقبوضہ جموں و کشمیر میں 2014 ء کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت کی جانب سے ریاستی انتخابات کا انعقاد کیا گیاہے جس میں اتحادی جماعتوں کے مقابلے میں بی جے پی کو عبرتناک شکست کا سامنا کرناپڑا۔اگلی پانچ سالہ مدت کے لیے کروائے جانے والے یہ انتخابات 18 ستمبر سے یکم اکتوبر کے دوران 3 مراحل میں مکمل کیے گئے۔
مقبوضہ جموں و کشمیرمیں ہونے والے یہ انتخابات کئی حوالوں سے اہم ہیں۔اگر حتمی نتائج پر نظر ڈالی جائے تو کئی حیرت انگیز حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں ۔مجموعی طور پر جموں کی 43 اور کشمیر کی 47 اسمبلی سیٹوں پر انتخابات کروائے گئے۔ اس طرح ان نشتوں کی کل تعداد 90 بنتی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپوزیشن جماعتوںکانگریس اور نیشنل کانفرنس کے اتحاد کو اسمبلی کی 90 میں سے 47 نشستیں ملیں۔اس انتخابی اتحاد میں 43 نشستیں فاروق عبداللہ کی جماعت نیشنل کانفرنس نے حاصل کیں۔سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی3 نشستیں حاصل کرپائی جبکہ دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی نے صرف 27 نشستیں اپنے نام کیں۔ اس کی اتحادی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی)کو صرف3 سیٹوں پر کامیابی ملی جبکہ جموں کے ضلع ڈوڈہ میں ایک نشست عام آدمی پارٹی کے حصے میں بھی آئی ۔
ان انتخابات کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ عین انتخابی مہم کے دوران دہشت گردی کی فنڈنگ کے الزام میں پانچ سال سے تہاڑ جیل میں قید سابق رکن اسمبلی عبدالرشید شیخ عرف انجینئر رشید کو جیل سے ہی الیکشن لڑنے کی اچانک اجازت مل گئی۔ان کے نوعمر بیٹے ابرار رشید نے بھرپورمہم چلائی تو ہزاروں لوگوں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ انجینئر رشید نے جیل میں بیٹھے بیٹھے سابق وزیراعلی عمر عبد اللہ کو دو لاکھ ووٹوں کے بھاری فرق سے ہرا دیا اور اپنے روایتی حریف سجاد غنی لون کو تیسری پوزیشن پر دھکیل دیا۔ان کی جیت میں ان کے مینڈیٹ اور کچھ نعروں نے اہم کردار ادا کیا۔ان کی جماعت عوامی اتحاد پارٹی نے اپنے ووٹروں سے قیدیوں کی رہائی، مسئلہ کشمیر کا حل اور آرٹیکل 370 کی بحالی کا وعدہ کیا۔ ان کے نعروں میں' ظلم کا بدلہ ووٹ سے' اور 'یہ ملک ہمارا ہے ،اس کا فیصلہ ہم کریں گے' وغیرہ شامل تھے۔
یہیں ایک اور دلچسپ واقعہ یہ پیش آیا کہ ابھی مہم جاری تھی کہ انجینئر رشید کو عدالت نے تین ہفتوں کے لیے عبوری ضمانت پر رہا کر دیا جس کے بعد وہ زور و شور کے ساتھ انتخابی مہم میں جڑ گئے اور وادی کشمیر کی تیس سے زیادہ سیٹوں پر امیدوار کھڑے کر دئیے۔انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی نے الیکشن سے تین روز قبل حیران کن طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیا ۔جماعت اسلامی نے آخری بار 1987 ء میں الیکشن لڑا تھا اور مسلح شورش شروع ہوتے ہی انتخابات کو انڈیا کا سفارتی پروپیگنڈا اور شہیدوں کے ساتھ غداری قرار دے کر بائیکاٹ کی پالیسی اختیار کر لی تھی۔لیکن اس بار جماعت اسلامی نے وادی میں 9 امیدوار کھڑے کیے اور اس طرح انجینئر رشید اور جماعت اسلامی نے وہاں کی روایتی سیاسی جماعتوں کو47 میں سے40 سیٹوں پر مشکل سے دوچار کیا۔ انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی اور جماعت اسلامی الیکشن کمیشن میں رجسٹر نہیں ہیں۔ لہٰذا انہوں نے آزاد امیدواروں کے طور پر الیکشن لڑا ۔ ان انتخابات میں آزاد امیدواروں کی شرح کل امیدواروں کا چوالیس فیصد رہی۔
بی جے پی نے اس بار اسمبلی کے لیے کشمیر سے19 امیدوار نامزد کیے جبکہ جموں کی سبھی43 سیٹوں پر بی جے پی کے امیدوار وں نے بھی الیکشن لڑا۔نیشنل کانفرنس نے پورے جموں کشمیر میں 90 میں سے 51 سیٹوں پر انتخابات میں حصہ لیا جبکہ کانگریس نے32 نشستوں پراپنے امیدوار کھڑے کیے۔
یاد رہے کہ 18 ستمبر کو پہلے مرحلے میں 24 نشستوں پر انتخابات ہوئے تھے جس کے بعد دوسرے مرحلے میں 26 سیٹوں پر انتخابات مکمل ہوئے ۔ بقیہ 40 سیٹوں پر ووٹنگ کا آخری مرحلہ یکم اکتوبر کو ہوا۔ 90ارکان اسمبلی میں سبھی سیٹوں پر میدان میں اترنے والے کل امیدواروں کی تعداد 873 تھی۔
انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا توٹرن آئوٹ دیکھ کر بھارت کی جانب سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مقبوضہ کشمیر میں اب حالات بہتر ہو گئے ہیں اور کشمیری عوام نے نئی ترامیم کو تسلیم کر لیا ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ انتخابات کے مکمل ہونے کے بعد سب کچھ کھل کر سامنے آ گیا ۔دوسرے مرحلے میں ریاستی مشینری اور طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا مگر پھر بھی مقبوضہ وادی کے باشعور اور غیور عوام بھارت کی چالوں میں نہ آئے۔دوسرے مرحلے میں سری نگر کے علاقے کے 70فیصد ووٹرز ووٹنگ کے عمل سے دور رہے جس کی وجہ سے ٹرن آوٹ صرف 29.27 فیصد رہا۔ یہاں قابل توجہ امر یہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں ہندو اکثریتی علاقے جموں کے ہندو عوام نے بھی بی جے پی کی انتہاپسندی پر مبنی سیاست کو مسترد کر دیا۔ان تمام حقیقی شواہد کے باوجود بی جے پی سوشل میڈیا اور دیگر میڈیا پلیٹ فارمز پر پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ ٹرن آوٹ شاندار رہا اور ووٹرز نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا۔
حالیہ انتخابات میں جعلی ووٹ، دھاندلی اور انتخابات پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت کی جانب سے کئی مذموم ہتھکنڈے بھی اپنائے گئے تاکہ انتخابات کے نتائج کو بدل کر اپنی جیت یقینی بنائی جاسکے ۔ حالیہ انتخابات کا مکمل انعقاد بھارتی فوج کی نگرانی میں کیا گیا۔ یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ یہ دنیا کے کون سے الیکشن ہیں جہاں کشمیریوں کے بجائے ووٹروں کی بھاری تعداد کا تعلق بھارت سے ہے کیونکہ ان انتخابات سے قبل بے شمار بھارتی شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں مساوی حقوق دلوائے گئے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد لاکھوں بھارتی شہریوں کے ڈومیسائل بنا کر انہیں یہاں کی شہریت دی گئی تاکہ انہیں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جاسکے ۔ خدشہ ہے کہ اگر اب کبھی ریفرنڈم کروایا گیا تو اس میں حق رائے دہی استعمال کرنے والے ہندوئوں کی تعداد ، کشمیری مسلمانوں سے زیادہ ہو گی۔ ایک اندازے کے مطابق حالیہ انتخابات میں 50 لاکھ بھارتی گھوسٹ ووٹرز نے ووٹ ڈالا لیکن نتائج پھر بھی برعکس نکلے۔
ان انتخابات میں بھارت کی جانب سے اسمبلی پر اثر انداز ہونے کا ایک اور حربہ آزمایا گیا۔ انتخابات سے قبل لیفٹیننٹ گورنر کی تعیناتی عمل میں لا کر اسے اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے پانچ لوگوں کو ارکان اسمبلی نامزد کر سکتا ہے۔قانونی ماہرین اس اختیار کی آئینی حیثیت پر سوال اٹھا رہے ہیں کیونکہ اگر یہ پانچ ارکان نامزد ہو جاتے ہیں تو اسمبلی کی مجموعی تعداد 95 ہو جائے گی۔یہ اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بی جے پی نے، پہلے تو نام نہاد انتخابا ت کروائے اور پھر اپنے نامزد لوگوں کے ذریعے سیاسی منظر نامے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ۔
ان ریاستی انتخابات سے جڑا ایک اور پہلو بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت دنیا کو شاید یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ان کی پالیسیوں کو تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اگر یہ انتخابات کامیاب ہو جاتے تو شاید ان کا بیانیہ درست مان لیا جاتا مگر حالیہ صورت حال اس کے برعکس ہے۔ اب تو یہ صرف عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے جیسا ہے۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو بھارت نے کشمیری عوام کے حقیقی نمائندوں کو جیلوں میں بند کر رکھا ہے اور دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے انتخابات کا ڈرامہ رچایاجا رہا ہے۔ وہاں سیاسی شخصیات پر سنگین پابندیاں عائد ہیں اور انہیں قید و بند کی صعوبتوں کا سامنا ہے ۔ ان پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے اور انہیں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی سے دور رکھا جاتا ہے۔ اس طرح سیاسی عمل کی شفافیت پر کئی سوال اٹھتے ہیں جن کا جواب دینا بھارت کے بس کی بات نہیں ہے۔
حالیہ انتخابات میں کشمیر کے غیور عوام نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کر کے بھارت کو اس کا اصل چہرہ دکھا دیا ہے۔ اگست 2019ء میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی گئی تھی جس کے بعد وہاں کے عوام نے بھارتی پالیسیوں کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔اب جبکہ بی جے پی نے سیاسی میدان میں اپنی طاقت کا لوہا منوانا چاہا تو ایک بار پھر کشمیری عوام مذموم بھارتی ایجنڈوں کے آڑے آگئے۔کشمیری ووٹرزنے کئی علاقوں میں ان انتخابات کا مکمل بائیکاٹ بھی کیا۔ انہوں نے ان انتخابات کو' بیلٹ احتجاج' کا نام دیا کیونکہ اس بار بھارتی حکمران جماعت کو بیلٹ کے ذریعے شکست دے کر یہ پیغام دیا گیا کہ کشمیری عوام انہیں مسترد کرتی ہے۔
2014ء کے پارلیمانی انتخابات میں جیت اور نریندر مودی کے اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد سے ہی بی جے پی اس آرزو کو دہراتی رہی ہے کہ جموں و کشمیر میں ان کی حکومت بنے گی اور وزیراعلی ہندو ہوگا تاکہ جموں کشمیر کے اقتدار پر کشمیری مسلمانوں کی بالادستی کو ختم کیا جائے۔لیکن اس بار ایسا نہ ہوا۔ بی جے پی کو ووٹ نہ دے کر کشمیری عوام نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی مرضی و منشا کے خلاف ان کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اب یہ حقیقت دنیا پر بھی واضح ہو چکی ہے کہ کشمیر کے مظلوم عوام بھارتی تسلط سے ہر صورت نجات چاہتے ہیں۔ یہ گزشتہ سات دہائیوں سے ان پر روا رکھے گئے مظالم کا ہی نتیجہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر سمیت ہرجانب ناکامی سے دوچار ہے۔
مضمون نگار شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں۔
[email protected]
تبصرے