اکتوبر 2024 ء کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کا 23 واں اجلاس، پرامن اور مناسب انداز میں بلاشبہ پاکستان، اس کے سکیورٹی اداروں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کی بڑی کامیابی ہے۔ کامیابی وہ کہ دشمن بھی جس کی تعریف کرنے پر مجبور ہو جائے جیسا کہ بھارت کے وزیر خارجہ نے کیا۔سی ڈی اے، اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری ایڈمنسٹریشن نے سجاوٹ اور صفائی رکھی ، پولیس، رینجرز، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور پاک فوج نے غیر ملکی وفود کو فول پروف سکیورٹی فراہم کر نے کا چیلنج قبول کیا جس کے لیے وہ تعریف کے مستحق ہیں۔
ایس سی او 2024 ء میں پاکستان، چین، روس، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان، کرغیز جمہوریہ، بیلاروس کے وزرائے اعظم ، ایران کے وزیر صنعت و تجارت اور بھارت کے وزیر خارجہ نے شرکت کی۔ منگولیا کے وزیراعظم نے پہلی بار دورہ کیا، وزیر خارجہ ترکمانستان بھی موجود تھے۔ دونوں سربراہی اجلاس میں بطور مبصر شریک ہوئے۔ایس سی او یوریشین اکنامک یونین، ایسوسی ایشن آف جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ دیگر دلچسپی رکھنے والی ریاستوں اور کثیر جہتی تنظیموں کی شرکت کے ساتھ "گریٹر یوریشین پارٹنرشپ" کی طرف بڑھ رہا ہے۔
ایس سی او کیا ہے؟
یہ اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری بڑی تنظیم ہے جو 2 ویٹو پاورز، 4 نیوکلیئر پاورز، دنیا کی دو بڑی اقتصادی اور دفاعی طاقتوں اور کئی درمیانی طاقتوں پر مشتمل ہے جن میں قازقستان، ازبکستان اور پاکستان بھی شامل ہیں ۔ یہ مشرق میں چین سے لے کر مغرب میں بیلاروس تک ایشیا سے یورپ تک پھیلی ہوئی ہے، دنیا کے تقریباً 24% یوریشیاکے 65% رقبے اور دنیا کی 42% آبادی پر محیط ہے ۔2024 ء تک، اس کا مشترکہ جی ڈی پی دنیا کا تقریباً 23 فیصد بنتا ہے، جب کہ پی پی پی پر مبنی اس کا جی ڈی پی دنیا کے کل کا تقریباً 36 فیصد ہے۔
ایس سی اوکی پاکستان کے لیے اہمیت
شنگھائی فائیو گروپ 26 اپریل 1996 ء کو تشکیل دیا گیا جب چین، قازقستان، کرغزستان، روس اور تاجکستان کے سربراہان مملکت نے شنگھائی میں سرحدی علاقوں میں فوجی اعتماد کو گہرا کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔24 اپریل 1997 ء کوانہی ممالک نے ماسکو، روس میں ایک میٹنگ میں سرحدی علاقوں میں فوجی دستوں کی کمی کے معاہدے پر دستخط کیے۔ 20 مئی 1997 ء کو روسی صدر بورس یلسن اور چینی صدر جیانگ زیمن نے "کثیر قطبی دنیا" کے اعلان پر دستخط کیے۔
2000 ء میں دوشنبے سربراہی اجلاس میں بنیادی 5 ارکان چین، روس، تاجکستان، قازقستان اور کرغزستان نے "انسان دوستی" اور 'انسانی حقوق کے تحفظ' کے لیے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی مخالفت کرنے پر اتفاق کیا۔ پانچوں ممالک کی قومی آزادی، خودمختاری، علاقائی سالمیت اور سماجی استحکام کے تحفظ کے لیے ایک دوسرے کی کوششوں کی حمایت کی، اسی کو شنگھائی سپرٹ کہا جاتا ہے اور یہی ہر رکن کا مشترکہ مقصد ہے اور یہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بھی بنیادی ستون ہے۔
یہ تنظیم ممبران کے دوطرفہ تنازعات پر بحث نہیں کرتی بلکہ اس کی توجہ سرحدوں پر امن اور دوسرے ممبران کی علاقائی خودمختاری پر ہے جو کہ سب کے مفاد میں ہے ۔ پاکستان کو 1947 ء میں وجود میں آنے کے فوراً بعد بھارت کی طرف سے خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت نے کئی بار پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کی۔ بھارت نے پاکستان پر جنگیں مسلط کر دیں۔ اب پاکستان کو بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان کی طرف سے بھی کثیر جہتی مداخلت کا سامنا ہے۔ اس لیے ایس سی او جیسی تنظیم میں پاکستان کی رکنیت اور فعال کردار اس کی سلامتی اور ملک کے اندر استحکام کے لیے انتہائی اہم ہے۔
پاکستان کشمیر اور فلسطین پر ناجائز قبضوں کے خلاف ہے، پڑوسیوں کے خلاف پراکسیز، تخریبی سرگرمیوں کو ہوا دینے کے خلاف آواز اٹھاتا ہے ۔ یہ سچ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم دو طرفہ تنازعات کو ایجنڈے میں شامل نہیں کرتی لیکن پھر بھی جب ہمارے نمائندے اس فورم پر بات کرتے ہیں تو سب کو اس کا پس منظر پہلے سے معلوم ہوتا ہے اور انہیں اسی تناظر میں سنتے ہیں اس سے دوسرے رکن (بھارت )پر بہت زیادہ دبائو آتا ہے جو اس کا ذمہ دار ہے۔ جیسا کہ اسلام آباد سربراہی اجلاس میں بھی ہوا۔
علاقائی انسداد دہشت گردی کا ڈھانچہ بھی ایس سی او کا حصہ ہے اور پاکستان کو دہشت گردی سے پہنچنے والے نقصان کو کون نظر انداز کر سکتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار سے کون انکار کر سکتا ہے؟
2002 ء میں، سینٹ پیٹرزبرگ میں تنظیم کے چارٹر پر دستخط کیے گئے، جو 19 ستمبر 2003 ء کو نافذ ہوا۔ یہ ایک ایسا قانون ہے جو اہداف اوراصول واضح کرتا ہے۔ یعنی رکن ممالک کے درمیان باہمی اعتماد، دوستی اور اچھی ہمسائیگی کو مضبوط کرنا، سیاست، تجارت، معیشت، سائنس اور ٹیکنالوجی، ثقافت، تعلیم، توانائی، ٹرانسپورٹ، سیاحت، ماحولیاتی تحفظ وغیرہ جیسے شعبوں میں مؤثر تعاون کی حوصلہ افزائی کرنا، خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کو مشترکہ طور پر یقینی بنانا اور ایک نئے جمہوری، منصفانہ بین الاقوامی سیاسی اور اقتصادی نظام کو فروغ دینا۔
یہ تمام اصول اور اہداف پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مطابق اور تمام ممالک کے عوام کے وسیع مفاد میں ہیں۔اسلام آباد سربراہی اجلاس میں مذکورہ تمام امور کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور تازہ ترین فیصلے کیے گئے۔
پاکستان کی بھارت پر برتری
یہ پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کے کسی بھی فورم کا پہلا اجلاس تھا۔ پاکستان کو جون 2017 ء میں مکمل رکن کا درجہ ملنے کے بعد چند سال کی رکنیت کے ساتھ اپنے دارالحکومت میں وزرائے اعظم کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔12 ستمبر 2024 ء کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے تجارت اور اقتصادی امور کا اجلاس پاکستان کا ایک اور کریڈٹ ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت کو بھی پاکستان کے ساتھ ہی مکمل رکنیت ملی لیکن بھارت گزشتہ سال نئی دہلی میں ممبران کی میزبانی کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکا اور وزیراعظم مودی نے ریاستی سربراہان کونسل کے اعلیٰ ترین فورم کی آن لائن سمٹ فارمیٹ میں منعقد کر کے جان چھڑا لی۔
بھارت کے لیے اس سے فائدہ اٹھانے کا بہترین موقع تھا لیکن بھارتی حکومت بھاگ گئی اور اس بڑی ذمہ داری سے بچنے کا انتخاب کیا جو پاکستان نے اب پوری کر دی ہے اور اس طرح پاکستان کی ایس سی او میں بھارت سے بہتر پوزیشن ہے۔
بھارت صرف شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کی میزبانی کر سکا جو کہ تیسرا اہم فورم ہے اور وہاں بھی پاکستان کے خلاف اپنی غیر ضروری رنجش پر قابو نہیں رکھ سکا۔ یہ فورم مئی 2023 ء میں پورٹ ٹورسٹ سٹی گوا میں منعقد ہوا جہاں پاکستانی وفد کو پروٹوکول نہیں دیا گیا بلکہ سخت تبصرے کیے گئے اور ان کے ساتھ مہمان نوازی میں لاتعلقی اختیار کی گئی۔ مسٹر شنکر خود اس فورم کے میزبان تھے۔ اب جب وہ پاکستان کے دورے پر آئے تو وزارت خارجہ کے ایک ڈائریکٹر جنرل افسر نے ائیرپورٹ پراور سربراہ اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے ان کا استقبال کیا۔لیکن انڈیا کی پروپیگنڈا مشینری نے شور مچا دیا "دیکھو ہمارے وزیر خارجہ کا خیر مقدم نہیں کیا گیا" - "دیکھو پاکستان نے ہمارے وزیر کے دورے کو اہمیت نہیں دی" وغیرہ۔ دوسری طرف ان کے وزیر حکومت پاکستان کا شکریہ ادا کر رہے تھے کہ آپ نے میری اچھی میزبانی کی ہے۔بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا بھارت پر پاکستان کی اہم ترین برتری اجاگر کرنے میں ناکام رہا کہ پاکستان اب سربراہی اجلاس کی میزبانی کر کے بھارت سے آگے ہے جبکہ بھارت ابھی تک صرف وزرائے خارجہ اجلاس کے ساتھ پاکستان سے پیچھے ہے۔
مشترکہ اعلامیہ
حکومتوں کے سربراہان نے اپنے مشترکہ اعلامیے میں ممالک کے درمیان اختلافات اور تنازعات کو بات چیت اور مشاورت کے ذریعے پرامن حل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انہوں نے ریاستوں کی خودمختاری، آزادی، اور علاقائی سالمیت کے باہمی احترام، مساوات،اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، طاقت کا استعمال نہ کرنے یا طاقت کے استعمال کی دھمکی نہ د ینے پر زور دیا۔ یہاں امید ہے کہ مسٹر شنکر اپنے وزیر اعظم کو اس عزم کے بارے میں بتائیں گے۔
دوطرفہ تجارت میں مقامی کرنسیوں کا استعمال تاجر برادری کا بڑا مطالبہ رہا ہے، وزرائے اعظم نے اس معاملے پر تبادلۂ خیال کیا اور اس طریقہ کار پر آگے بڑھنے پر اتفاق کیا۔ تحفظ پسند رکاوٹی تجارتی اقدامات ڈبلیو ٹی او کے قواعد و ضوابط کے خلاف ہیں، انکے انسداد کے لیے مشترکہ کوششوں ، غیر امتیازی، کھلے، مساوی، جامع اور شفاف کثیر جہتی تجارتی نظام پر اتفاق کیاگیا ۔
بیلاروس، ایران، قازقستان، کرغیز جمہوریہ، پاکستان، روسی فیڈریشن، تاجکستان، ازبکستان نے چین کے ون بیلٹ، ون روڈاقدام کے لیے حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے مشترکہ نفاذ پر اتفاق کیا جس میں یوریشین اکنامک یونین کو ملنے کی کوششیں شامل ہیں۔ 2030 ء تک کی مدت کے لیے اقتصادی ترقی کی حکمت عملی اور کثیرالطرفہ تجارت اور اقتصادی تعاون کے پروگرام پر عمل درآمد کی اہمیت نوٹ کی۔انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان "نیا اقتصادی مکالمہ" شروع کرنے پر اتفاق کیا۔معاشی ترقی کو ایک نئی تحریک دینے کے لیے ڈیجیٹل معیشت اور سائنسی اور تکنیکی اختراعات کے استعمال اور کسٹم تعاون پر زور دیا، خاص طور پر ان منصوبوں پر جن کا مقصد لاجسٹکس چین کو آسان، محفوظ اور مضبوط بنانا ہے۔سرحد پار توانائی کا بنیادی ڈھانچہ زیر بحث آیا، 2030 ء تک کی مدت کے لیے ایس سی او کے رکن ممالک کے توانائی تعاون کی ترقی، توانائی کی حفاظت مضبوط بنانے پر بات ہوئی۔ قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور ٹیکنالوجیز کو راغب کرنے کی تجویز آئی۔ایس سی او ڈویلپمنٹ بینک، ایس سی او ڈویلپمنٹ فنڈ (خصوصی اکانٹ)اور ایس سی او انویسٹمنٹ فنڈ کے قیام پر مشاورت تیز کرنے پر زور دیاگیا۔موثر ٹرانسپورٹ کی تخلیق پر تعاون بڑھا یا جائے گا۔ 27-29 نومبر2024 ء کوماسکو میں رکن ممالک کے ریلوے سربراہان کی میٹنگ ہوگی۔سائنسی اور تکنیکی تعاون کے شعبے میں منصوبے بنانے ، قانونی فریم ورک کو بہتر بنانے اور ایس سی او کے رکن ممالک کے سائنسی اور تکنیکی تعاون کو تیز کرنے پر زور دیاگیا۔مصنوعی ذہانت کی ترقی کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے تعاون کے پروگرام کے نفاذ پر اتفاق کیاگیا ۔
روسی وزیراعظم کا دورہ
روسی وزیراعظم مسٹر میخائل مشسٹین کا دورہ اس لحاظ سے دوہری اہمیت کا حامل تھا کہ انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم میں شرکت کی اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ دو طرفہ سطح پر اہم ملاقاتیں کیں۔ میخائل مشسٹن دوطرفہ تعلقات کی تاریخ میں پاکستان کا دورہ کرنے والے پہلے اعلیٰ ترین عہدیدار تھے۔
پچھلے مہینے کے شروع میں ان کے نائب مسٹر الیکسی اوورچک نے پاکستان کا دورہ کیا جو اس بار بھی ان کے ساتھ تھے۔ روس پاکستان نے تجارت، سرمایہ کاری، توانائی، آئی ٹی، زراعت، سائنس ٹیک اور تعلیم میں فائدہ مند تعاون پر مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے۔ اسلام آباد نے بین الاقوامی ٹرانسپورٹ کوریڈور بیلاروس، روس،قازقستان، ازبکستان، افغانستان،پاکستان پر مفاہمت نامے میں شمولیت اختیار کی۔ اب وزیر اعظم روس کے ساتھ وفود کی سطح پر بات چیت میں مفاہمت پر مزید پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
روسی وزیراعظم نے ہیڈز آف گورنمنٹ اجلاس کے لیے پاکستان کی جانب سے کیے گئے شاندار انتظامات کو سراہا۔ مزید برآں، انہوں نے اپنے اور روسی وفد کے پرتپاک استقبال اور مثالی مہمان نوازی پر حکومت پاکستان اور عوام کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے روس اور پاکستان کے درمیان موجودہ تعاون کو مزید فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔
روس اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات اور تعاون پر بھارت ہمیشہ پریشان رہتا ہے کیونکہ ماضی میں روس بھارت کا قریبی اتحادی رہا ہے لیکن اب پاکستان نے بھارت کو سفارتی محاذ پر بھی شکست دے دی ہے۔
براہ راست پروازوں ، اقتصادی اور دفاعی شعبوں میں تعاون پربھی دونوں فریقوں نے بات چیت کی۔ روسی نائب وزیراعظم مسٹر الیکسی اوورچک کے دورے میں، روسی فریق نے پاکستان میں ایک نئی اسٹیل مل کے قیام میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ ماضی میں روس نے پاکستان کو جنوب سے شمال گیس پائپ لائن کے لیے ایک بلین ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ بھی کیا تھا لیکن حالیہ دونوں دوروں میں یہ بات سامنے نہیں آئی۔
پاکستان چین اسٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ لی کیانگ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد پہلے دورے پر تھے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ چینی وزیراعظم کا دورہ نہ صرف شنگھائی تعاون تنظیم بلکہ دو طرفہ سطح پر بھی تھا۔
وزیر اعظم لی کیانگ نے وزیر اعظم شہباز شریف ،صدر آصف علی زرداری، سینیٹ کے چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی، قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے ساتھ ساتھ آرمی، نیوی اور ایئر فورس کے چیفس آف سٹاف سے ملاقاتیں کیں۔ دونوں فریقین نے گہرائی سے تبادلہ خیال کیا اور پاک چین اسٹریٹجک کوآپریٹو پارٹنرشپ کو مزید مضبوط اور گہرا کرنے، مختلف شعبوں میں عملی تعاون کو فروغ دینے اور باہمی مفادات کے امور پر وسیع اتفاق رائے پایا۔دونوں فریقین نے چین پاکستان دوطرفہ کرنسی سویپ ارینجمنٹ میں توسیع کے حوالے سے بہت زیادہ بات کی اور مالیاتی اور بینکنگ کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔
وزیراعظم آفس اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں دونوں وزرائے اعظم نے گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا افتتاح کیا۔ گوادر کی بندرگاہ اورا ب ہوائی اڈہ کئی دہائیوں سے پسماندہ بلوچستان کے اس دور افتادہ علاقے میں ترقی کی نئی راہیں کھول رہا ہے۔ سی پیک کو ترقی کی راہداری،روزگار بڑھانے والی راہداری، اختراعی راہداری، گرین کوریڈور اور ایک کھلی راہداری کے اپ گریڈ ورژن کے لیے وابستگی کا اعادہ کیاگیا۔
چینی فریق نے ایم ایل1- کی اپ گریڈیشن، کراچی-حیدرآباد سیکشن کی تعمیر، قراقرم ہائی وے (تھاکوٹ ۔رائے کوٹ)کے لیے مالی تعاون، گوادر پورٹ کے معاون انفراسٹرکچر کی ترقی کو تیز کرنے کے لیے مالی تعاون،پاکستان کے خصوصی اقتصادی زونز میں چینی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔
چین پاکستان آزاد تجارتی معاہدے کے فیز IIکے فریم ورک کے تحت تجارتی لبرلائزیشن کو فروغ دینے پر مزید مشاورت کرنے پر اتفاق کیاگیا۔ سی پیک توانائی تعاون کو عملی، دانشمندانہ اور منظم انداز میں فروغ دینے پر اتفاق کیاگیا۔چینی کمپنیوں کی پاکستان کی کان کنی کی صنعت میں سرمایہ کاری اور تعاون کے لیے فعال طور پر حوصلہ افزائی کرنے اور کان کنی کے صنعتی پارکوں کی منصوبہ بندی پر رضامندی کا اعادہ کیا جس میں ڈان اسٹریم منرل پروسیسنگ بھی شامل ہے۔
سی پیک توانائی تعاون کو عملی، دانشمندانہ اور منظم انداز میں فروغ دینے، بنیادی ارضیاتی سروے، وسائل کی صلاحیت کی تشخیص، سمندر میں تیل اور گیس کے وسائل کی تلاش اور قدرتی گیس کے ہائیڈریٹس جیسے شعبوں میں عملی تعاون کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا گیا، جیولوجیکل ٹیکنالوجی پر تبادلے اور تربیت، سمندری ارضیات کے مشترکہ سروے پر اتفاق کیاگیا۔
پاک چین سکیورٹی تعاون اگلے درجے پردونوں فریقوں نے دہشت گردی کی تمام شکلوں اور مظاہر میں زیرو ٹالرنس رویہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا، اور انسداد دہشت گردی میں دوطرفہ اور کثیر جہتی تعاون کو مزید مضبوط بنانے اور انسداد دہشت گردی کو سیاسی اوریا کسی بھی قسم کی آلہ کار بنانے کی مشترکہ مخالفت کرنے پر اتفاق کیا۔
پاکستان نے سکیورٹی ان پٹ اور کوآرڈینیشن کو مزید بڑھانے، سکیورٹی اقدامات کو مزید مضبوط بنانے اور پاکستان میں چینی اہلکاروں، منصوبوں اور اداروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے جامع کوششیں کرنے کے لیے اپنے پختہ اور غیر متزلزل عزم پر زور دیا۔ پاکستان میں چینی اہلکاروں، منصوبوں اور اداروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے، چینی فریق نے پاکستان میں ٹارگٹ سکیورٹی اقدامات کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا، تاکہ تعاون کے لیے محفوظ ماحول پیدا کیا جا سکے۔
دونوں فریقوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور چین کے درمیان سٹریٹجک دفاعی اور سکیورٹی تعاون خطے میں امن، استحکام اور تزویراتی توازن کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اطمینان کا اظہار کیا کہ دونوں فوجیں طویل عرصے سے اعلیٰ سطح کے باہمی اعتماد، اعلیٰ سطحی تعاون اور اعلیٰ سطحی ہم آہنگی سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ دونوں فریقوں نے اعلیٰ سطح کے فوجی دوروں اور تبادلوں کی رفتار برقرار رکھنے اور مشترکہ تربیت، مشقوں اور فوجی ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کو مسلسل بڑھانے پر اتفاق کیا۔جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کو برقرار رکھنے کی اہمیت اور تمام تصفیہ طلب تنازعات کے حل کی ضرورت اور کسی بھی یکطرفہ کارروائی کی مخالفت کا اعادہ کیا۔ پاکستان نے جموں و کشمیر کی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کیا۔ چین نے اعادہ کیا کہ جموں و کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کے چارٹر، متعلقہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کے مطابق مناسب اور پرامن طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔
خلاصہ
سربراہی اجلاس اور دو طرفہ ملاقاتیں پاکستان اور ہمارے خطے اور پڑوسی خطوں کے اہم ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کی سرگرمیاں تھیں۔ ان کا خلاصہ ایک مختصر مضمون میں نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اپنی معیشت اور داخلی سلامتی میں بہتری کے ساتھ ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر ابھر رہا ہے۔ رکن ممالک کے سربراہان نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ پاکستان کی اگلی منزل "برکس" ہوگی جہاں ایک بار پھر بھارت کو بے چینی محسوس ہوگی کیونکہ چین اور روس وہاں کے اہم بڑے ممالک ہیں جن کے ساتھ پاکستان کے قریبی اور خوشگوار تعلقات اور ٹھوس تعاون موجود ہے۔
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر - چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں -
مصنف انگریزی میگزین اور اردو اخبار کے ایڈیٹر ہیں اور ٹی وی پروگراموں میں حالات حاضرہ کے تجزیہ کار کے طور پر نظر آتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے