اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 09:39
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد یَومِ یکجہتی ٔکشمیر بھارتی انتخابات اور مسلم ووٹر پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان سے غیرقانونی مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ اور اس کا پس منظر پاکستان کی ترقی کا سفر اور افواجِ پاکستان جدوجہدِآزادیٔ فلسطین گنگا چوٹی  شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے مواقع اور مقامات  عالمی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ پاکستانی شہریوں کے قتل میں براہ راست ملوث بھارتی نیٹ ورک بے نقاب عز م و ہمت کی لا زوال داستا ن قائد اعظم  اور کشمیر  کائنات ۔۔۔۔ کشمیری تہذیب کا قتل ماں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور بھارتی سپریم کورٹ کی توثیق  مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ۔۔ایک وحشیانہ اقدام ثقافت ہماری پہچان (لوک ورثہ) ہوئے جو وطن پہ قرباں وطن میرا پہلا اور آخری عشق ہے آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میں کانووکیشن کا انعقاد  اسسٹنٹ وزیر دفاع سعودی عرب کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  پُرعزم پاکستان سوشل میڈیا اور پرو پیگنڈا وار فئیر عسکری سفارت کاری کی اہمیت پاک صاف پاکستان ہمارا ماحول اور معیشت کی کنجی زراعت: فوری توجہ طلب شعبہ صاف پانی کا بحران،عوامی آگہی اور حکومتی اقدامات الیکٹرانک کچرا۔۔۔ ایک بڑھتا خطرہ  بڑھتی آبادی کے چیلنجز ریاست پاکستان کا تصور ، قائد اور اقبال کے افکار کی روشنی میں قیام پاکستان سے استحکام ِ پاکستان تک قومی یکجہتی ۔ مضبوط پاکستان کی ضمانت نوجوان پاکستان کامستقبل  تحریکِ پاکستان کے سرکردہ رہنما مولانا ظفر علی خان کی خدمات  شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن ہو بہتی جن کے لہو میں وفا عزم و ہمت کا استعارہ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار کرگئے جو نام روشن قوم کا رمضان کے شام و سحر کی نورانیت اللہ جلَّ جَلالَہُ والد کا مقام  امریکہ میں پاکستا نی کیڈٹس کی ستائش1949 نگران وزیراعظم پاکستان، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر اور  چیف آف آرمی سٹاف کا دورۂ مظفرآباد چین کے نائب وزیر خارجہ کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  ساتویں پاکستان آرمی ٹیم سپرٹ مشق 2024کی کھاریاں گیریژن میں شاندار اختتامی تقریب  پاک بحریہ کی میری ٹائم ایکسرسائز سی اسپارک 2024 ترک مسلح افواج کے جنرل سٹاف کے ڈپٹی چیف کا ایئر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں ''اقبالیات'' پر لیکچر کا انعقاد صوبہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں مقامی آبادی کے لئے فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد  بلوچستان کے ضلع خاران میں معذور اور خصوصی بچوں کے لیے سپیشل چلڈرن سکول کاقیام سی ایم ایچ پشاور میں ڈیجٹلائیز سمارٹ سسٹم کا آغاز شمالی وزیرستان ، میران شاہ میں یوتھ کنونشن 2024 کا انعقاد کما نڈر پشاور کورکا ضلع شمالی و زیر ستان کا دورہ دو روزہ ایلم ونٹر فیسٹول اختتام پذیر بارودی سرنگوں سے متاثرین کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کمانڈر کراچی کور کاپنوں عاقل ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کوٹری فیلڈ فائرنگ رینج میں پری انڈکشن فزیکل ٹریننگ مقابلوں اور مشقوں کا انعقاد  چھور چھائونی میں کراچی کور انٹرڈویژ نل ایتھلیٹک چیمپئن شپ 2024  قائد ریزیڈنسی زیارت میں پروقار تقریب کا انعقاد   روڈ سیفٹی آگہی ہفتہ اورروڈ سیفٹی ورکشاپ  پی این فری میڈیکل کیمپس پاک فوج اور رائل سعودی لینڈ فورسز کی مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینجز میں مشترکہ فوجی مشقیں طلباء و طالبات کا ایک دن فوج کے ساتھ پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد حق خودرادیت ۔۔۔کشمیریوں کا بنیادی حق استصوابِ رائے۔۔مسئلہ کشمیر کا حتمی حل انتخابات کے بعد کشمیرکی موجودہ صورتحال سالِ رفتہ، جموں وکشمیر میں کیا بدلا یکجاں ہیں کشمیر بنے گا پاکستان آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ ایک شاندار فضائی حربی معرکہ حسینہ واجد کی اقتدار سے رُخصتی کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوطرفہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز شائننگ انڈیا یا  ہندوتوا دہشت گرد خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل امیدوں، چیلنجز اور کامیابیوں کے نئے دور کا آغاز کلام اقبال مدارس رجسٹریشن۔۔۔حقائق کے تناظر میں اُڑان پاکستان پاکستان میں اردو زبان کی ترویج وترقی امن کی اہمیت مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے میری وفا کا تقاضا کہ جاں نثارکروں ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن بڑھتی ہوئی آبادی، درپیش مسائل اور ان کا حل تھیلیسیمیا سے بچا ئوکیسے ممکن ہے ماحولیاتی آلودگی ایک بڑا چیلنج سانحہ مشرقی پاکستان مفروضے اور حقائق - ہلال پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع کردہ ایک موثر سعی لا حاصل کا قانون یہ زمانہ کیا ہے ترے سمند کی گرد ہے مولانا رومی کے افکار و خیالات کشمیر جنت شہید کی آخری پاکستان کا مستقل آئین۔1973 بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا کویت کا سرکاری دورہ بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف سے بنگلہ دیش کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کی ملاقات بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ البرق ڈیژن اوکاڑہ کی طرف سے مسیحی برادری کے لیے فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد سیلرز پاسنگ آؤٹ پریڈ پاک بحریہ فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کمانڈر سدرن کمانڈ و ملتان کور کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ خصوصی نشست نمل یونیورسٹی ملتان کیمپس اور یونیورسٹی آف لیہّ کے طلبہ و طا لبات اوراساتذہ کا مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینج کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں تقریبِ بزمِ اقبال کاانعقاد ملٹری کالج سوئی میں سالانہ یوم ِوالدین کی تقریب آل پاکستان ایف جی ای آئی ایکسیلنس ایوارڈ کی تقریب 2024ء اوکاڑہ گیریثر ن، النور اسپیشل چلڈرن سکول کے بچوں کے لیے یومِ پاکستان، عزم ِنو کا پیغام 40 ء کا پیمان، 47ء کا جذبہ 2025 کا وَلوَلہ حال و مقام قراردادِ پاکستان سے قیام ِپاکستان تک مینارِ پاکستان: فنِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ قبائلی علاقوں کی تعمیر نو میں پاک فوج کا کردار ڈیجیٹل حدبندی: انفرادی ذمہ داری سے قومی سا لمیت تک امن کے لیے متحد پاکستان نیوی کی کثیر الملکی مشق اور امن ڈائیلاگ ماہ رمضان اور محافظین پاکستان  نعت شریف سرمایۂ وطن لیفٹیننٹ ارسلان عالم ستی شہید (ستارہ بسالت) شمالی وزیرستان ۔پاک دھرتی کے چنداور سپوت امر ہوئے اے شہیدو تم وفاکی کائنات ہو سرحد کے پاسبان زیرو ویسٹ مینجمنٹ، وقت کی ایک ضرورت پاکستان کے سر کا تاج گلگت  بلتستان ماضی و مستقبل حجاب است ۔ پریشان اور غمگین ہونا چھوڑیے بلوچستان کے ماتھے کا جھو مر زیارت  مایہ ناز انٹرنیشنل ایتھلیٹ نیوٹن اور سائنس رومی اور اقبال کی فلسفیانہ بحث رشتوں کی اہمیت یومِ یکجہتی کشمیر اہل پاکستان کا فقید المثال دن قرار دادِ پاکستان چیف آف نیول سٹاف بنگلہ دیش کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے ملاقات  ریاستی سیکرٹری اور نائب وزیر دفاع ہنگری، کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے ملاقات  چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورہ سعودی عرب   چیف آف آرمی سٹاف کا دورۂ مظفرآباد  بنگلہ دیش کے چیف آف دی نیول سٹاف کی آرمی چیف سے ملاقات  چیف آف آرمی اسٹاف کا نوجوان طلبا کے ایک اجتماع سے خطاب چیف آف آرمی سٹاف کادورۂ بلوچستان  نویں کثیر الملکی
Advertisements

ہلال اردو

فرائولین ڈورس لینڈویر (آنٹی ڈورس )

نومبر 2024

علامہ اقبال کے بیٹے جاوید اور بیٹی منیرہ کی پرورش پر مامور کیئر ٹیکر آنٹی ڈورس کے حوالے سے ڈاکٹر ہارون الرشید کا ایک منفرد مضمون

نغز گو شاعر ، اقلیم سخن، دانائے راز، ڈاکٹر علامہ محمدا قبال(9نومبر1877ء ۔ 21اپریل 1938ئ) کی شخصی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُن سے ملنے والا، اُن کی ذات سے ضرور متاثر ہوتا تھا۔ وہ جہاں بھی گئے وہاں اپنے قول و فعل سے لوگوں کے اذہان پر چھا گئے۔دنیا کے متعدد ممالک میں اُن کے چاہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ مردوں کے علاوہ خواتین بھی اُن سے متاثر رہیں۔ اُن کے اخلاقی سحر میں گرفتار رہنے والی خواتین کے تذکرے بھی مختلف کتابوں میں موجود ہیں۔ اُن کی اصول پسندی اور معمولاتِ زندگی کے بارے میں بھی بہت سے مضامین منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ عبادات ، سحر خیزی، مطالعہ اور کائنات کا جائزہ اُن کا مقصدِ حیات رہا۔ انگلستان میں درس و تدریس کی سرگرمیوں میں خواتین نے بھی اُن سے علمی فیض حاصل کیا۔ 
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی 
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی  آدابِ سحر خیزی!



اقبال نے اپنے کردار و عمل اور افکار سے دنیا کے کئی احباب کو حیران کر دیا۔ جرمنی میں قیام کے دوران اُنھوں نے بہت سے اہلِ علم و دانش کے دل جیت لیے ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے میونخ یونیورسٹی جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ انگریزی ، اُردو ، فارسی اور عربی پر دسترس رکھتے تھے۔ فرائولین ایماویگے فاسٹ سے جرمن زبان سیکھی۔ وہ اپنے شاگرد اقبال کی قابلیت اور حسنِ اخلاق پر فریفتہ ہوگئیں۔ اقبال نے 4نومبر 1907ء کو''ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقاء '' پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی مکمل کی۔ آج بھی جرمنی کے مختلف شہروں میں اقبال کی یاد گار موجود ہے۔ہائیڈل برگ میں تو آج بھی اقبال کی کئی یادگاریں موجود ہیں۔ علامہ اقبال کی شریکِ سفر سردار بیگم (والدہ جاوید اقبال ۔ منیرہ بانو)کا انتقال 23مئی 1935ء کو ہوا۔ ڈاکٹر علامہ اقبال کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔علامہ اقبال کے لیے جاوید اقبال اور منیرہ بیگم کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا بہت ضروری تھا۔ اقبال کے معمولاتِ روز و شب چلانے کے لیے اُن کے دیرینہ خادم علی بخش کے علاوہ ، رحماںاور دیوان علی بھی مختلف کام انجام دیتے تھے۔ عبدالمجید بطور خانساماں فرائض انجام دیتا تھا۔ رحمت بی نے منیرہ کی دیکھ بھال میں اپنا کردار ادا کیا۔ رحماں کے سپرد مالی کا کام بھی تھا۔ گھر سے باہر یہ سرگرمیاں علی بخش کے ذمہ تھیں جب کہ رحماں اس کی مدد کیا کرتا تھا۔ فارغ اوقات میں علی بخش ، رحماں اور دیوان علی، اقبال کے شانوں اور پائوں کے مساج کرتے رہتے تھے۔ منیرہ کو تانگے پر اسکول چھوڑنے یا لینے کی ذمہ داری علی بخش کی تھی۔ بچوں کی تعلیمی اور تدریسی خدمات کی ضرورت کے لیے جسٹس جاوید اقبال نے اپنی کتاب '' زندہ رود'' میں لکھا ہے : 
'' گھر کے نظام کو صحیح طور پر چلانے او ربچوں کی اخلاقی او ردینی تربیت کے لیے انہیں کسی ایسی خاتون کی تلاش تھی جو بیوہ اور بے اولاد ہو ، ادھیڑ عمر کی ہو ، کسی شریف گھرانے کی ہو ، دینی اور اخلاقی تعلیم دے سکتی ہو یعنی قرآن مجید اور اردو پڑھا سکتی ہو اور اگر عربی، فارسی بھی جانے تو اور بھی بہتر تھا ، سینا پرونا وغیرہ جانتی ہو او رکھانا پکانا بھی سکھا سکتی ہو ۔ اس سلسلے میں انھوں نے پچھلے سال ''تہذیب نسواں '' میں اشتہار بھی دیا اور خواجہ غلام السیدین کو خط تحریر کیا کہ علی گڑھ میں کسی ایسی استانی کے متعلق دریافت کریں ، لیکن کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہو سکا ۔لاہور کی ایک خاتون کو چند ہفتوں کے لیے تجرباتی طور پر گھر کا چارج دیا گیا ، مگر منیرہ ان سے قطعی مانوس نہ ہوئی ۔ لہٰذا انہیں رخصت کر دیا گیا ۔ ایک نوجوان خاتون جو خاصی تعلیم یافتہ اور دینی تعلیم بھی رکھتی تھیں ، اس شرط پر اتالیقی قبول کرنے پر تیار ہوئیں کہ اقبال ان سے نکاح کر لیں ، لیکن چوںکہ اقبال کے لیے یہ ممکن نہ تھا ، اس لیے ان سے گفت وشنید بند کرنا پڑی ۔ دراصل اس قسم کی کسی مسلم خاتون کا ملنا محال تھا ، لہٰذا کسی یورپین خاتون کی خدمات حاصل کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں ۔(ص:619)



علامہ اقبال کے دوست پروفیسر رشید احمد صدیقی اور چند احباب کے توسط سے علی گڑھ کی ایک جرمن خاتون سے رابطہ ہوا ۔ وہ نہ صرف اُردو بول سکتی تھیں بلکہ اسلامی طرزِزندگی کے بارے میں بہت کچھ جانتی تھیں۔ اُن کا نام گورنس فرائولین ڈورس لینڈویر تھا جن سے خدمت کا معاہدہ طے ہوا۔ وہ گھر میں آپا ڈورس ، آنٹی ڈورس اور ڈورس احمدکے ناموں سے مقبول تھیں۔ بنیادی طور پر محترمہ فرائولین ڈورس لینڈویر جرمنی کے معروف شہر برلن سے تعلق رکھتی تھیں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جولائی 1937ء کے آخری ہفتے میں محترمہ ڈورس لاہور تشریف لائیں۔ میاں محمد شفیع ، علی بخش اور منیرہ اُن کے استقبال کے لیے ریلوے اسٹیشن پر تشریف لے گئے ۔ چاروں تانگے پر سوار جاوید منزل پہنچے ۔ اقبال نے اُن کا پُر تپاک استقبال کیا۔ وہ1903ء کے لگ بھگ پیدا ہوئیں۔ اَدبی ذوق کے علاوہ اُنھیں امورِ خانہ داری پر بھی عبور حاصل تھا۔ اُن کی بہن نے علی گڑھ کالج کے ایک پروفیسر سے رشتۂ ازدواجیت قائم کر لیااس لیے محترمہ ڈورس کو اپنی بہن کے پاس ہندوستان آنا پڑا۔ شادی کے بعد وہ ہندوستان میں ہی قائم پذیر ہو گئیں۔ 50روپے ماہانہ وظیفہ کا تعین ہوااور محترمہ ڈورس لاہور تشریف لے آئیں۔ اُنھیں آنٹی ڈورس اور آپا جان کہا جانے لگا۔ وہ نہایت شفیق ، محنتی ، با اخلاق اورباکردار خاتون تھیں۔ اُنھوں نے علامہ اقبال کے گھر کا انتظام و انصرام سنبھال لیا۔ قلیل عرصے میں وہ اس گھر سے نہ صرف مانوس ہوئیں بلکہ اس خاندان کا جزو بن گئیں۔ آنٹی ڈورس تین زبانیں جرمن ، انگریزی اور اُردو جانتی تھیں۔ طعام کے اعتبار سے بھی تجربہ کار تھیں۔ اُن کے پاس کھانے پکانے کا ہنر بھی تھا۔اُنھوں نے اقبال کے خانساماں کو مختلف جرمن کھانے تیار کرنے ، سوپ اور کیک بنانے کے طریقے سکھا دئیے۔ علامہ اقبال اُن سے بہت متاثر ہوئے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے وہ مطمئن ہو گئے۔  جسٹس جاوید اقبال اپنی یادوں کے حوالے سے رقم طراز ہیں: 
''مسز ڈورس احمد کے گھر میں آنے سے ''جاوید منزل'' کے سب مکینوں کی گھریلو زندگی میں ایک ترتیب سی آگئی۔ ان کے اصرار پر کچھ مدت کے لیے اقبال بھی بچوں کے ساتھ کم از کم دوپہر کا کھانا کھانے والے کمرے میں کھانے لگے ۔ راقم اور منیرہ کو احساس ہوا کہ سب ایک خاندان کے رکن ہیں۔ منیرہ چند ہی دنوں میں مسز ڈورس احمد سے مانوس ہوگئی۔ ان کی خواہش کے مطابق ہر کوئی انھیں ''آپاجان'' کہتا تھا۔ منیرہ اور آپا جان ہر شام اقبال کے پاس بیٹھا کر تیں۔ اقبال راقم اور منیرہ کو بچپن ہی سے ببّا اور ببّی کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ جرمن زبان سے بھی شناسا تھے۔ اس لیے کبھی کبھی آپا جان سے جرمن میں گفت گو کرتے اور منیرہ سے بھی کہتے کہ جرمن زبان سیکھو، جرمن عورتیں بڑی دلیر ہوتی ہیں۔ منیرہ اُن دنوں جرمنی زبان کے چند فقرے سیکھ گئی تھی۔ اس لیے وہ بھی ان سے جرمن میں بات چیت کرنے کی کوشش کرتی اور خوب ہنسی مذاق ہوتا۔ آپاجان ، راقم اور منیرہ کے ساتھ شام کو بعض اوقات گھر کے عقب میں ریلوے کالونی میں سیر کے لیے نکل جاتیں۔ انھوں نے لان میں بیڈ منٹن کورٹ بھی بنوا رکھا تھا اور راقم اور منیرہ کی شامیں آپا جان کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلتے گزرتیں۔ ''(ص: 674)
اقبال نے اپنی بیٹی کوکینئر ڈ سکول میں داخل کروا دیا۔ یہ سکول ترقی کرتے ہوئے لڑکیوں کا کینئرڈ کالج بن گیا۔ آنٹی ڈورس منیرہ بانو کی تعلیم و تربیت اور پراگریس رپورٹ کے لیے اکثر اس کے تعلیمی ادارہ میں جایا کرتی تھیں۔ آنٹی ڈورس کو پتا چلا کہ سکول میں بچوں کو بائبل کا مطالعہ کرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے ۔ وہ  احتجاج کرنے لگیں کہ مسلمان بچی کو زبردستی بائبل پڑھانا کسی طرح درست نہیں ہے ۔ اُنھوں نے یہ بات علامہ اقبال کو بتا دی کہ منیرہ کو سکول میں بائبل پڑھائی جا رہی ہے ۔ آپ منیرہ کا تعلیمی ادارہ کینئرڈ سکول تبدیل کروا دیں۔ آنٹی ڈورس کی خواہش پر منیرہ کو انجمن حمایت اسلام میں داخل کروا دیا گیا۔ علامہ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطاء محمد مشرقی روایات کے دلدادہ تھے ۔ وہ غیر مسلم عورت کی نگرانی میں بچوں کی دیکھ بھال کے خلاف تھے۔ علامہ اقبال اپنے بھائی کے اختلاف کے باوجود آنٹی ڈورس کی خدمات کے معترف رہتے۔ منیرہ کے تایا جان عطاء محمد نے ایک دن منیرہ کے لیے سیالکوٹ سے ایک چھوٹا سا ریشمی برقعہ بجھوا دیا ۔ اُس وقت منیرہ کی عمر صرف سات برس تھی۔ آنٹی ڈورس برقع لے کر علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ '' کیا آپ اتنی چھوٹی بچی کو پردہ کروائیں گے؟ '' علامہ اقبال نے مسکرا کر فرمایا '' میرے بڑے بھائی نے اپنی بھتیجی منیرہ سے محبت کا اظہار کیا ہے ۔ آپ یہ تحفہ رکھ لیں ، منیرہ یہ برقعہ اوڑھے یہ تو ضروری نہیں ۔ '' علاوہ ازیں اقبال نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا '' میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا' منیرہ جب بڑی ہو گی تو خواتین میں پردہ رہے گا بھی یا نہیں''۔
ایک شام منیرہ او رمسز ڈورس احمد حسب معمول اقبال کے کمرے میں بیٹھی تھیں ۔ منیرہ نے ان سے کہا :آپا جان مہربانی کر کے کہیں '' لاالہ الہ اللہ '' مسز ڈورس احمد نے یہ الفاظ دہرائے ۔ اس پر منیرہ نے تالیاں بجاتے ہوئے شور مچادیا :'' آپ نے کلمہ پڑھ لیا ۔ آپ مسلمان ہوگئیں ۔ پھر تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولی : میں نے آپ کا نام فاطمہ رکھ دیا ہے۔ منیرہ کی اس شرارت سے اقبال بے حد محظوظ ہوئے ۔ مسز ڈورس احمد نے اقبال سے متعلق ایک کتابچے میں اپنے ذاتی تاثرات قلم بند کیے ہیں جن میں سے بعض خاصے دلچسپ ہیں ۔ مثلاً وہ فرماتی ہیں کہ ان کے آنے پر منیرہ لڑکیوں کے اسلامیہ اسکول میں پڑھتی تھی۔ انجمن حمایت اسلام کی زیر نگرانی قائم شدہ اس اسکول میں شہر کے غریب مسلمانوں کی بیٹیاں اور یتیم بچیاں تعلیم حاصل کرتی تھیں ۔ یہ اسکول جاوید منزل سے خاصادور تھا ۔
اقبال کی زندگی کے آخری ایام بیماری میں گزرے۔ مسز ڈورس احمد نے اُن کی تیمار داری میں کوئی کمی آنے نہ دی۔ دوست احباب جمع رہتے۔ میاں محمد شفیع، سید نذیر نیازی ، چودھری محمد حسین ، حکیم حمد حسن قرشی، راجہ حسن اختر، ڈاکٹر عبدالحمید ، سجاد سرور نیازی، ڈاکٹر جمعیت سنگھ اور فقیر نجم الدین عمومی طور پر اُن کی خدمت میں حاضر رہتے۔قرآن پاک کی تلاوت ، خصوصی سورۂ مزمل پڑھی جاتی۔ غالب ، حالی، یا اقبال کا کلام سنانے کا اہتمام ہوتا۔ دیوان علی ، ہارمونیم پر خواجہ غلام فرید ، سلطان باہو، بھلے شاہ، اور کئی دوسرے شاعروں کا کلام سنایا جاتا۔ ڈورس احمد سے وابستہ یادوں کو جسٹس جاوید اقبال نے'' زندہ رود'' میں ایک واقعہ رقم کیا ہے : 
''اقبال کی چھوٹی بہن زینب بی کی ضعیف الاعتقادی کے متعلق مسز ڈورس احمد بیان کرتی ہیں کہ اقبال کے انتقال سے چند ہفتے پیشتر وہ انہیں دیکھنے کے لیے جاوید منزل آئیں اور چند روز یہیں قیام کیا ۔ زینب بی نے اصرار کیا کہ ان کے جاننے والے ایک عامل کو بلوایا جائے ، کیوںکہ ا نھیں یقین تھا کہ اس کے عمل سے اقبال کی تکلیفیں دو رہو جائیں گی۔ مسز ڈورس احمد نے اجازت دے دی ، عامل آیا اور اس نے چند اشیاء طلب کیں۔ چناںچہ زینب بی نے علی بخش کو ہدایت کی کہ تین گز سیاہ رنگ کا کپڑا ، مختلف قسم کی دالیں، شکر ، سرسوں کا تیل ، آٹا اور ایک کالا مرغ خرید کر لائے ۔ علی بخش باقی اشیاء تو آسانی سے خرید لایا ۔ البتہ اسے کالا مرغ خریدتے وقت ذرا دقت پیش آئی ۔ بہر حال جب تمام اشیاء جمع ہوگئیں تو زینب بی نے مسز ڈورس احمد سے کہا کہ عامل کی خواہش کے مطابق اب کالے مرغ کو ساری رات اقبال کی خواب گاہ میں رکھنے کا بندوبست کیا جائے۔ اقبال کی حالت کے پیش نظر مسز ڈورس احمد نے ایسی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ آخر کار دونوں میں بے حد بحث کے بعد یہ طے پایا کہ علی بخش صبح چار بجے کالے مرغ کو ہاتھ میں اٹھائے اور اس کی چونچ کو انگلیوں میں دبائے اقبال کی خواب گاہ میں پھیر لائے ۔ علی بخش نے ایسا ہی کیا ۔ خوش قسمتی سے اقبال اس وقت گہری نیند سو رہے تھے اور انھیں پتا بھی نہ چلا ۔ اس کے بعد کالے مرغ سمیت تمام اشیاء عامل کو دے دی گئیں جو کچھ دیر اپنا عمل پڑھنے کے بعد انھیں لے کر رفو چکر ہوگیا ۔''
علامہ اقبال 21اپریل 1938ء کو ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ آنٹی ڈورس نے اقبال کی رحلت کے بعد اس گھر کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے خدمات انجام دیں۔ اُن کے بھائی شیخ عطاء محمد 2سال 8ماہ بعد 22دسمبر1940ء کو اللہ کو پیارے ہو گئے۔ آنٹی ڈورس نے اپنی خدمت میں کوئی کمی آنے نہ دی۔ منیرہ بانو کی شادی میاں صلاح الدین سے ہوئی۔ رخصتی کا فریضہ بھی آنٹی ڈورس نے انجام دیا۔ منیرہ کی شادی کے بعد وہ برلن چلی گئیں ۔ وہ ہر سال سردیوں میں پاکستان آجاتیں اور ایک ماں کی طرح بچوں کے ساتھ وقت گزارتیں۔آنٹی ڈورس نے 25سال (1937ء  سے 1962ء تک جاوید منزل لاہور) علامہ اقبال کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ اُنھوںنے اس دور کی یادداشتوں کو''Iqbal as I knew him''کے نام سے قلم بند کیا۔  مسز ڈور س احمد تحریر کرتی ہیں کہ اقبال نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ ان کی وفات کے بعد اتنی مدت منیرہ اور راقم کے پاس ضرور رہیں جب تک کہ وہ بڑے نہیں ہو جاتے ، کیونکہ ان کے آنے سے بچوں کو ایک بار پھر صحیح معنوں میں گھر کا سکون نصیب ہوا تھا ۔ پس اقبال کے انتقال کے بعد مسز ڈورس احمد تقریباً پچیس برس تک جاوید منزل میںمقیم رہیں اور بعد ازاں واپس برلن ( جرمنی ) چلی گئیں ۔ 
آنٹی ڈورس آخری عمر میں بیمار رہنے لگیں۔ منیرہ نے بھی بیٹی ہونے کا حق ادا کیا۔ اپنے بیٹے اقبال صلاح الدین کو برلن بھیجا جو اُنھیں اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر لاہور لے آئے۔ منیرہ نے اُن کی خدمت میں کوئی کمی آنے نہ دی۔ طویل علالت کے بعد آنٹی ڈورس 25مارچ 1993ء کو لاہور میں انتقال کر گئیں۔ اُنھیں گورا قبرستان جیل روڈ لاہور میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ چوںکہ وہ مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی تھیں اس لیے علامہ اقبال کے خاندان نے اُنھیں مسیحی طریقے سے دفن کیا۔ جنازے میں مسیحی احباب کے علاوہ مسلمان بھی شریک ہوئے۔ فرزندِ اقبال ، جسٹس جاوید اقبال (5 اکتوبر1924ئ۔3اکتوبر2015ئ) نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے آنٹی ڈورس کی خدمات کو ہدیۂ تحسین پیش کیا۔ کرسمس کے موقع پر جسٹس جاوید اقبال نے اُن کی تربت پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔ 


مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]