علامہ اقبال کے بیٹے جاوید اور بیٹی منیرہ کی پرورش پر مامور کیئر ٹیکر آنٹی ڈورس کے حوالے سے ڈاکٹر ہارون الرشید کا ایک منفرد مضمون
نغز گو شاعر ، اقلیم سخن، دانائے راز، ڈاکٹر علامہ محمدا قبال(9نومبر1877ء ۔ 21اپریل 1938ئ) کی شخصی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُن سے ملنے والا، اُن کی ذات سے ضرور متاثر ہوتا تھا۔ وہ جہاں بھی گئے وہاں اپنے قول و فعل سے لوگوں کے اذہان پر چھا گئے۔دنیا کے متعدد ممالک میں اُن کے چاہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ مردوں کے علاوہ خواتین بھی اُن سے متاثر رہیں۔ اُن کے اخلاقی سحر میں گرفتار رہنے والی خواتین کے تذکرے بھی مختلف کتابوں میں موجود ہیں۔ اُن کی اصول پسندی اور معمولاتِ زندگی کے بارے میں بھی بہت سے مضامین منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ عبادات ، سحر خیزی، مطالعہ اور کائنات کا جائزہ اُن کا مقصدِ حیات رہا۔ انگلستان میں درس و تدریس کی سرگرمیوں میں خواتین نے بھی اُن سے علمی فیض حاصل کیا۔
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی!
اقبال نے اپنے کردار و عمل اور افکار سے دنیا کے کئی احباب کو حیران کر دیا۔ جرمنی میں قیام کے دوران اُنھوں نے بہت سے اہلِ علم و دانش کے دل جیت لیے ۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے میونخ یونیورسٹی جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ انگریزی ، اُردو ، فارسی اور عربی پر دسترس رکھتے تھے۔ فرائولین ایماویگے فاسٹ سے جرمن زبان سیکھی۔ وہ اپنے شاگرد اقبال کی قابلیت اور حسنِ اخلاق پر فریفتہ ہوگئیں۔ اقبال نے 4نومبر 1907ء کو''ایران میں مابعد الطبیعیات کا ارتقاء '' پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی مکمل کی۔ آج بھی جرمنی کے مختلف شہروں میں اقبال کی یاد گار موجود ہے۔ہائیڈل برگ میں تو آج بھی اقبال کی کئی یادگاریں موجود ہیں۔ علامہ اقبال کی شریکِ سفر سردار بیگم (والدہ جاوید اقبال ۔ منیرہ بانو)کا انتقال 23مئی 1935ء کو ہوا۔ ڈاکٹر علامہ اقبال کے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔علامہ اقبال کے لیے جاوید اقبال اور منیرہ بیگم کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا بہت ضروری تھا۔ اقبال کے معمولاتِ روز و شب چلانے کے لیے اُن کے دیرینہ خادم علی بخش کے علاوہ ، رحماںاور دیوان علی بھی مختلف کام انجام دیتے تھے۔ عبدالمجید بطور خانساماں فرائض انجام دیتا تھا۔ رحمت بی نے منیرہ کی دیکھ بھال میں اپنا کردار ادا کیا۔ رحماں کے سپرد مالی کا کام بھی تھا۔ گھر سے باہر یہ سرگرمیاں علی بخش کے ذمہ تھیں جب کہ رحماں اس کی مدد کیا کرتا تھا۔ فارغ اوقات میں علی بخش ، رحماں اور دیوان علی، اقبال کے شانوں اور پائوں کے مساج کرتے رہتے تھے۔ منیرہ کو تانگے پر اسکول چھوڑنے یا لینے کی ذمہ داری علی بخش کی تھی۔ بچوں کی تعلیمی اور تدریسی خدمات کی ضرورت کے لیے جسٹس جاوید اقبال نے اپنی کتاب '' زندہ رود'' میں لکھا ہے :
'' گھر کے نظام کو صحیح طور پر چلانے او ربچوں کی اخلاقی او ردینی تربیت کے لیے انہیں کسی ایسی خاتون کی تلاش تھی جو بیوہ اور بے اولاد ہو ، ادھیڑ عمر کی ہو ، کسی شریف گھرانے کی ہو ، دینی اور اخلاقی تعلیم دے سکتی ہو یعنی قرآن مجید اور اردو پڑھا سکتی ہو اور اگر عربی، فارسی بھی جانے تو اور بھی بہتر تھا ، سینا پرونا وغیرہ جانتی ہو او رکھانا پکانا بھی سکھا سکتی ہو ۔ اس سلسلے میں انھوں نے پچھلے سال ''تہذیب نسواں '' میں اشتہار بھی دیا اور خواجہ غلام السیدین کو خط تحریر کیا کہ علی گڑھ میں کسی ایسی استانی کے متعلق دریافت کریں ، لیکن کوئی خاطر خواہ انتظام نہ ہو سکا ۔لاہور کی ایک خاتون کو چند ہفتوں کے لیے تجرباتی طور پر گھر کا چارج دیا گیا ، مگر منیرہ ان سے قطعی مانوس نہ ہوئی ۔ لہٰذا انہیں رخصت کر دیا گیا ۔ ایک نوجوان خاتون جو خاصی تعلیم یافتہ اور دینی تعلیم بھی رکھتی تھیں ، اس شرط پر اتالیقی قبول کرنے پر تیار ہوئیں کہ اقبال ان سے نکاح کر لیں ، لیکن چوںکہ اقبال کے لیے یہ ممکن نہ تھا ، اس لیے ان سے گفت وشنید بند کرنا پڑی ۔ دراصل اس قسم کی کسی مسلم خاتون کا ملنا محال تھا ، لہٰذا کسی یورپین خاتون کی خدمات حاصل کرنے کی کوششیں شروع کی گئیں ۔(ص:619)
علامہ اقبال کے دوست پروفیسر رشید احمد صدیقی اور چند احباب کے توسط سے علی گڑھ کی ایک جرمن خاتون سے رابطہ ہوا ۔ وہ نہ صرف اُردو بول سکتی تھیں بلکہ اسلامی طرزِزندگی کے بارے میں بہت کچھ جانتی تھیں۔ اُن کا نام گورنس فرائولین ڈورس لینڈویر تھا جن سے خدمت کا معاہدہ طے ہوا۔ وہ گھر میں آپا ڈورس ، آنٹی ڈورس اور ڈورس احمدکے ناموں سے مقبول تھیں۔ بنیادی طور پر محترمہ فرائولین ڈورس لینڈویر جرمنی کے معروف شہر برلن سے تعلق رکھتی تھیں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جولائی 1937ء کے آخری ہفتے میں محترمہ ڈورس لاہور تشریف لائیں۔ میاں محمد شفیع ، علی بخش اور منیرہ اُن کے استقبال کے لیے ریلوے اسٹیشن پر تشریف لے گئے ۔ چاروں تانگے پر سوار جاوید منزل پہنچے ۔ اقبال نے اُن کا پُر تپاک استقبال کیا۔ وہ1903ء کے لگ بھگ پیدا ہوئیں۔ اَدبی ذوق کے علاوہ اُنھیں امورِ خانہ داری پر بھی عبور حاصل تھا۔ اُن کی بہن نے علی گڑھ کالج کے ایک پروفیسر سے رشتۂ ازدواجیت قائم کر لیااس لیے محترمہ ڈورس کو اپنی بہن کے پاس ہندوستان آنا پڑا۔ شادی کے بعد وہ ہندوستان میں ہی قائم پذیر ہو گئیں۔ 50روپے ماہانہ وظیفہ کا تعین ہوااور محترمہ ڈورس لاہور تشریف لے آئیں۔ اُنھیں آنٹی ڈورس اور آپا جان کہا جانے لگا۔ وہ نہایت شفیق ، محنتی ، با اخلاق اورباکردار خاتون تھیں۔ اُنھوں نے علامہ اقبال کے گھر کا انتظام و انصرام سنبھال لیا۔ قلیل عرصے میں وہ اس گھر سے نہ صرف مانوس ہوئیں بلکہ اس خاندان کا جزو بن گئیں۔ آنٹی ڈورس تین زبانیں جرمن ، انگریزی اور اُردو جانتی تھیں۔ طعام کے اعتبار سے بھی تجربہ کار تھیں۔ اُن کے پاس کھانے پکانے کا ہنر بھی تھا۔اُنھوں نے اقبال کے خانساماں کو مختلف جرمن کھانے تیار کرنے ، سوپ اور کیک بنانے کے طریقے سکھا دئیے۔ علامہ اقبال اُن سے بہت متاثر ہوئے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے وہ مطمئن ہو گئے۔ جسٹس جاوید اقبال اپنی یادوں کے حوالے سے رقم طراز ہیں:
''مسز ڈورس احمد کے گھر میں آنے سے ''جاوید منزل'' کے سب مکینوں کی گھریلو زندگی میں ایک ترتیب سی آگئی۔ ان کے اصرار پر کچھ مدت کے لیے اقبال بھی بچوں کے ساتھ کم از کم دوپہر کا کھانا کھانے والے کمرے میں کھانے لگے ۔ راقم اور منیرہ کو احساس ہوا کہ سب ایک خاندان کے رکن ہیں۔ منیرہ چند ہی دنوں میں مسز ڈورس احمد سے مانوس ہوگئی۔ ان کی خواہش کے مطابق ہر کوئی انھیں ''آپاجان'' کہتا تھا۔ منیرہ اور آپا جان ہر شام اقبال کے پاس بیٹھا کر تیں۔ اقبال راقم اور منیرہ کو بچپن ہی سے ببّا اور ببّی کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ جرمن زبان سے بھی شناسا تھے۔ اس لیے کبھی کبھی آپا جان سے جرمن میں گفت گو کرتے اور منیرہ سے بھی کہتے کہ جرمن زبان سیکھو، جرمن عورتیں بڑی دلیر ہوتی ہیں۔ منیرہ اُن دنوں جرمنی زبان کے چند فقرے سیکھ گئی تھی۔ اس لیے وہ بھی ان سے جرمن میں بات چیت کرنے کی کوشش کرتی اور خوب ہنسی مذاق ہوتا۔ آپاجان ، راقم اور منیرہ کے ساتھ شام کو بعض اوقات گھر کے عقب میں ریلوے کالونی میں سیر کے لیے نکل جاتیں۔ انھوں نے لان میں بیڈ منٹن کورٹ بھی بنوا رکھا تھا اور راقم اور منیرہ کی شامیں آپا جان کے ساتھ بیڈمنٹن کھیلتے گزرتیں۔ ''(ص: 674)
اقبال نے اپنی بیٹی کوکینئر ڈ سکول میں داخل کروا دیا۔ یہ سکول ترقی کرتے ہوئے لڑکیوں کا کینئرڈ کالج بن گیا۔ آنٹی ڈورس منیرہ بانو کی تعلیم و تربیت اور پراگریس رپورٹ کے لیے اکثر اس کے تعلیمی ادارہ میں جایا کرتی تھیں۔ آنٹی ڈورس کو پتا چلا کہ سکول میں بچوں کو بائبل کا مطالعہ کرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے ۔ وہ احتجاج کرنے لگیں کہ مسلمان بچی کو زبردستی بائبل پڑھانا کسی طرح درست نہیں ہے ۔ اُنھوں نے یہ بات علامہ اقبال کو بتا دی کہ منیرہ کو سکول میں بائبل پڑھائی جا رہی ہے ۔ آپ منیرہ کا تعلیمی ادارہ کینئرڈ سکول تبدیل کروا دیں۔ آنٹی ڈورس کی خواہش پر منیرہ کو انجمن حمایت اسلام میں داخل کروا دیا گیا۔ علامہ اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطاء محمد مشرقی روایات کے دلدادہ تھے ۔ وہ غیر مسلم عورت کی نگرانی میں بچوں کی دیکھ بھال کے خلاف تھے۔ علامہ اقبال اپنے بھائی کے اختلاف کے باوجود آنٹی ڈورس کی خدمات کے معترف رہتے۔ منیرہ کے تایا جان عطاء محمد نے ایک دن منیرہ کے لیے سیالکوٹ سے ایک چھوٹا سا ریشمی برقعہ بجھوا دیا ۔ اُس وقت منیرہ کی عمر صرف سات برس تھی۔ آنٹی ڈورس برقع لے کر علامہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ '' کیا آپ اتنی چھوٹی بچی کو پردہ کروائیں گے؟ '' علامہ اقبال نے مسکرا کر فرمایا '' میرے بڑے بھائی نے اپنی بھتیجی منیرہ سے محبت کا اظہار کیا ہے ۔ آپ یہ تحفہ رکھ لیں ، منیرہ یہ برقعہ اوڑھے یہ تو ضروری نہیں ۔ '' علاوہ ازیں اقبال نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا '' میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا' منیرہ جب بڑی ہو گی تو خواتین میں پردہ رہے گا بھی یا نہیں''۔
ایک شام منیرہ او رمسز ڈورس احمد حسب معمول اقبال کے کمرے میں بیٹھی تھیں ۔ منیرہ نے ان سے کہا :آپا جان مہربانی کر کے کہیں '' لاالہ الہ اللہ '' مسز ڈورس احمد نے یہ الفاظ دہرائے ۔ اس پر منیرہ نے تالیاں بجاتے ہوئے شور مچادیا :'' آپ نے کلمہ پڑھ لیا ۔ آپ مسلمان ہوگئیں ۔ پھر تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بولی : میں نے آپ کا نام فاطمہ رکھ دیا ہے۔ منیرہ کی اس شرارت سے اقبال بے حد محظوظ ہوئے ۔ مسز ڈورس احمد نے اقبال سے متعلق ایک کتابچے میں اپنے ذاتی تاثرات قلم بند کیے ہیں جن میں سے بعض خاصے دلچسپ ہیں ۔ مثلاً وہ فرماتی ہیں کہ ان کے آنے پر منیرہ لڑکیوں کے اسلامیہ اسکول میں پڑھتی تھی۔ انجمن حمایت اسلام کی زیر نگرانی قائم شدہ اس اسکول میں شہر کے غریب مسلمانوں کی بیٹیاں اور یتیم بچیاں تعلیم حاصل کرتی تھیں ۔ یہ اسکول جاوید منزل سے خاصادور تھا ۔
اقبال کی زندگی کے آخری ایام بیماری میں گزرے۔ مسز ڈورس احمد نے اُن کی تیمار داری میں کوئی کمی آنے نہ دی۔ دوست احباب جمع رہتے۔ میاں محمد شفیع، سید نذیر نیازی ، چودھری محمد حسین ، حکیم حمد حسن قرشی، راجہ حسن اختر، ڈاکٹر عبدالحمید ، سجاد سرور نیازی، ڈاکٹر جمعیت سنگھ اور فقیر نجم الدین عمومی طور پر اُن کی خدمت میں حاضر رہتے۔قرآن پاک کی تلاوت ، خصوصی سورۂ مزمل پڑھی جاتی۔ غالب ، حالی، یا اقبال کا کلام سنانے کا اہتمام ہوتا۔ دیوان علی ، ہارمونیم پر خواجہ غلام فرید ، سلطان باہو، بھلے شاہ، اور کئی دوسرے شاعروں کا کلام سنایا جاتا۔ ڈورس احمد سے وابستہ یادوں کو جسٹس جاوید اقبال نے'' زندہ رود'' میں ایک واقعہ رقم کیا ہے :
''اقبال کی چھوٹی بہن زینب بی کی ضعیف الاعتقادی کے متعلق مسز ڈورس احمد بیان کرتی ہیں کہ اقبال کے انتقال سے چند ہفتے پیشتر وہ انہیں دیکھنے کے لیے جاوید منزل آئیں اور چند روز یہیں قیام کیا ۔ زینب بی نے اصرار کیا کہ ان کے جاننے والے ایک عامل کو بلوایا جائے ، کیوںکہ ا نھیں یقین تھا کہ اس کے عمل سے اقبال کی تکلیفیں دو رہو جائیں گی۔ مسز ڈورس احمد نے اجازت دے دی ، عامل آیا اور اس نے چند اشیاء طلب کیں۔ چناںچہ زینب بی نے علی بخش کو ہدایت کی کہ تین گز سیاہ رنگ کا کپڑا ، مختلف قسم کی دالیں، شکر ، سرسوں کا تیل ، آٹا اور ایک کالا مرغ خرید کر لائے ۔ علی بخش باقی اشیاء تو آسانی سے خرید لایا ۔ البتہ اسے کالا مرغ خریدتے وقت ذرا دقت پیش آئی ۔ بہر حال جب تمام اشیاء جمع ہوگئیں تو زینب بی نے مسز ڈورس احمد سے کہا کہ عامل کی خواہش کے مطابق اب کالے مرغ کو ساری رات اقبال کی خواب گاہ میں رکھنے کا بندوبست کیا جائے۔ اقبال کی حالت کے پیش نظر مسز ڈورس احمد نے ایسی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ آخر کار دونوں میں بے حد بحث کے بعد یہ طے پایا کہ علی بخش صبح چار بجے کالے مرغ کو ہاتھ میں اٹھائے اور اس کی چونچ کو انگلیوں میں دبائے اقبال کی خواب گاہ میں پھیر لائے ۔ علی بخش نے ایسا ہی کیا ۔ خوش قسمتی سے اقبال اس وقت گہری نیند سو رہے تھے اور انھیں پتا بھی نہ چلا ۔ اس کے بعد کالے مرغ سمیت تمام اشیاء عامل کو دے دی گئیں جو کچھ دیر اپنا عمل پڑھنے کے بعد انھیں لے کر رفو چکر ہوگیا ۔''
علامہ اقبال 21اپریل 1938ء کو ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ آنٹی ڈورس نے اقبال کی رحلت کے بعد اس گھر کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے خدمات انجام دیں۔ اُن کے بھائی شیخ عطاء محمد 2سال 8ماہ بعد 22دسمبر1940ء کو اللہ کو پیارے ہو گئے۔ آنٹی ڈورس نے اپنی خدمت میں کوئی کمی آنے نہ دی۔ منیرہ بانو کی شادی میاں صلاح الدین سے ہوئی۔ رخصتی کا فریضہ بھی آنٹی ڈورس نے انجام دیا۔ منیرہ کی شادی کے بعد وہ برلن چلی گئیں ۔ وہ ہر سال سردیوں میں پاکستان آجاتیں اور ایک ماں کی طرح بچوں کے ساتھ وقت گزارتیں۔آنٹی ڈورس نے 25سال (1937ء سے 1962ء تک جاوید منزل لاہور) علامہ اقبال کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیا۔ اُنھوںنے اس دور کی یادداشتوں کو''Iqbal as I knew him''کے نام سے قلم بند کیا۔ مسز ڈور س احمد تحریر کرتی ہیں کہ اقبال نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ ان کی وفات کے بعد اتنی مدت منیرہ اور راقم کے پاس ضرور رہیں جب تک کہ وہ بڑے نہیں ہو جاتے ، کیونکہ ان کے آنے سے بچوں کو ایک بار پھر صحیح معنوں میں گھر کا سکون نصیب ہوا تھا ۔ پس اقبال کے انتقال کے بعد مسز ڈورس احمد تقریباً پچیس برس تک جاوید منزل میںمقیم رہیں اور بعد ازاں واپس برلن ( جرمنی ) چلی گئیں ۔
آنٹی ڈورس آخری عمر میں بیمار رہنے لگیں۔ منیرہ نے بھی بیٹی ہونے کا حق ادا کیا۔ اپنے بیٹے اقبال صلاح الدین کو برلن بھیجا جو اُنھیں اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر لاہور لے آئے۔ منیرہ نے اُن کی خدمت میں کوئی کمی آنے نہ دی۔ طویل علالت کے بعد آنٹی ڈورس 25مارچ 1993ء کو لاہور میں انتقال کر گئیں۔ اُنھیں گورا قبرستان جیل روڈ لاہور میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔ چوںکہ وہ مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی تھیں اس لیے علامہ اقبال کے خاندان نے اُنھیں مسیحی طریقے سے دفن کیا۔ جنازے میں مسیحی احباب کے علاوہ مسلمان بھی شریک ہوئے۔ فرزندِ اقبال ، جسٹس جاوید اقبال (5 اکتوبر1924ئ۔3اکتوبر2015ئ) نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے آنٹی ڈورس کی خدمات کو ہدیۂ تحسین پیش کیا۔ کرسمس کے موقع پر جسٹس جاوید اقبال نے اُن کی تربت پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔
مضمون نگار ممتاز ماہرِ تعلیم ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے