بانگِ درا علامہ اقبال کا اولین اُردو مجموعہ کلام ہے۔یہی وہ شاہکار مجموعہ ہے جو علامہ کی ہمہ گیر شہرت کا سنگ بنیاد بنا۔ بقول پروفیسر یوسف سلیم چشتی عوام میں اسی کی بدولت انہیں لازوال شہرت حاصل ہوئی۔
شرح بانگ درا،یوسف سلیم چشتی، صفحہ(3)
اردو کے معروف ادیب دانشور اور نقاد شیخ عبدالقادر بانگ درا کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ''یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ ُاردو میں آج تک کوئی ایسی کتاب اشعار کی موجود نہیں جس میں خیالات کی یہ فراوانی ہو اور اس قدر مطالب و معانی یکجا ہوں اور کیوں نہ ہو ایک صدی کے چہارم حصے کے مطالعے اور تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ اور سیر و سیاحت کا نتیجہ ہے۔بعض نظموں میں ایک ایک شعر اور ایک ایک مصرع ایسا ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون لکھا جا سکتا ہے۔''
(دیباچہ بانگ درا )
بانگ درا میں اگر ایک طرف مطالعہ فطرت اور مشاہدہ قدرت پر مبنی کیفیات و تاثرات ملتے ہیں تو دوسری طرف حسن و عشق تصوف، تعلیم اخلاق، مقاصد زندگی اور طنزومزاح کی رنگا رنگی بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس میں ہم اقبال کو ایک وطن پرست شاعر کے روپ میں بھی دیکھ سکتے ہیں اور اسلامی شاعر کے روپ میں بھی۔اس میں خوبصورت قدرتی مناظر بھی ہیں تو گہرے فلسفیانہ خیالات بھی، بچوں اور نوجوانوں کے لیے رہنمائی بھی ہے اور معاصر سیاسی پر بے لاگ تبصرہ بھی۔ اس میں امت مسلمہ کی حالت زار کا نوحہ بھی ہے اور اس کے لیے حرکت و عمل کا پیغام اور امید کا سامان بھی ۔اس میں قومی و ملی نظمیں بھی ہیں تو رومان بھی، خیالات بھی۔اس میں طنز و مزاح بھی ہے، غزلیں بھی ہیں، مرثیے بھی ہیں اور رحمت اللعالمین حضورۖ کی بارگاہ میں عقیدت و محبت کے مہکتے ہوئے مقدس نذرانے بھی۔ بقول مولانا غلام رسول مہراس میں ان کے کمال فکر کی گومگوں گلکاریاں دیکھی جا سکتی ہیں اور حسن خیال اور دل آویزی بیان کے ایسے رنگا رنگ مرقعے کسی دوسری کتاب میں نہیں مل سکتے(مطالب بانگ درا، غلام رسول مہر، صفحہ 3)
بانگ درا اپنے اسی تنوع،رنگا رنگی اور علامہ کی فکر اور شاعری کی ابتدا سے لے کر 1924 ء تک کے طویل عرصے کے کلام پر محیط ہونے کے باعث، اقبالیاتی تحقیق اور فکر و فنِ اقبال کی تفہیم کا اہم ترین ذریعہ قرار پاتی ہے۔فکر و فنِ اقبال کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے اقبال کے فکری و فنی ارتقا کو سمجھنا از حد ضروری ہے اور بانگ درا اس مقصد کے حصول کا ایک اہم ترین ماخذ ہے۔ اس ضمن میں عبدالمجید سالک لکھتے ہیں کہ اس کتاب سے علامہ اقبال کی رفتار فکر اور ان کی شاعری کے ارتقا کا اندازہ بوجہ احسن کیا جا سکتا ہے۔
(ذکر اقبال، عبدالمجید سالک، صفحہ 293 )اور بقول مولانا غلام رسول مہرفکر اقبال کے ارتقائی مدارج کا مکمل اور جامع اندازہ بانگِ درا ہی سے ہو سکتا ہے۔
(مطالب بانگ درا غلام رسول مہر صفحہ 3) لہٰذا علامہ اقبال کی شخصیت کو سمجھنے اور مطالعہ فکر اقبال میں بانگِ درا کی اہمیت مسلم ہے اور اسے علامہ اقبال کے فکری و فنی ارتقا کے سمجھنے میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
علامہ اقبال نے بانگِ درا کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے
حصہ اول : ابتدا ء تا 1905 ئ
حصہ دوم : 1905 ء تا 1908ئ
حصہ سوم : 1908 ء تا 1924 ئ
بانگ درا کا بالاستیعاب مطالعہ بتاتا ہے کہ علامہ اقبال نے یہ تقسیم انتہائی سوچ سمجھ کر کی ہے۔ان تینوں حصوں کو واضح طور پر علامہ اقبال کی فکر کے تین ادوار قرار دیا جا سکتا ہے اور ان تینوں ادوار میں ان کی فکر اور شاعری کی خصوصیات کو بآسانی الگ الگ شناخت کیا جا سکتا ہے۔ان تینوں ادوار میں علامہ اقبال کی فکر اور شاعری مسلسل ارتقا پذیر رہی ہے۔ ہندی قومیت سے مسلم قومیت تک اور جغرافیائی وطن پرستی سے امت مسلمہ کے آفاق گیر تصور تک کا یہ سفر دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔
حصہ اول : ابتدا ء سے 1905 ء تک
بانگ درا کے پہلے حصے میں ابتدا سے لے کر 1905 ء یعنی یورپ جانے سے پہلے تک کا کلام شامل ہے۔اس دور میں علامہ اقبال پر حبِ وطن اور اتحاد وطن کا جذبہ غالب تھا۔ اس دور کی نظمیں ہمالہ، صدائے درد، تصویر درد، آفتاب، ترانہ ہندی،ہندوستانی بچوں کا گیت اور نیا شوالہ ان کے ایسے ہی جذبات کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔
اس طر ح نظم ہندوستانی بچوں کا قومی گیت دیکھیے کہ اس دور میں علامہ اقبال ہندی
قومیت،ہندوستانی وطنیت اور اتحاد وطن کی بات کس قدر جوش و خروش سے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
چشتی نے جس زمیں میں پیغامِ حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
علامہ اقبال کے اس دور کی غزلوں پر داغ اور امیر کا رنگ خاصا نمایاں ہے اور کئی نظموں میں وہ مشہور مغربی شعرا مثلا ایمرسن لانگ فیلو کوپر اور ٹینی سن وغیرہ کے خیالات کو اردو کا جامہ پہناتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس دور میں علامہ اقبال مطالعہ مناظر فطرت اور کائناتی حسن کی جانب بہت متوجہ ہیں اور اس حوالے سے ان کا اضطراب، جستجو اور تذبذب بہت نمایاں ہے،جو خوبصورت منظر نگاری کا روپ دھار لیتا ہے۔ہمالہ، گل رنگین، آفتاب صبح، چاند، اختر صبح، گلِ رنگین، ابر کوہسار، ماہ نو اور پیام صبح میں ان کی فطرت پسندی ،دلکش منظر نگاری کی صورت میں اپنے جلوے دکھا رہی ہے۔
اس دور میں علامہ نے بچوں کے لیے بھی خوبصورت نظمیں لکھیں جن میں ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری، بچے کی دعا ماں کا خواب پرندے کی فریاد اور ہمدردی نمایاں ہیں۔
نوجوان شاعر کے اس ابتدائی دور کی نظموں میں گہرے فلسفیانہ خیالات بھی ملتے ہیں۔ اس ضمن میں نظموں؛ گل رنگین، خفتگان خاک سے استفسار، شمع، ماہ نو، انسانِ بزم قدرت، بچہ اور شمع، جگنو اور دل جیسی نظمیں انتہائی اہم ہیں جو گہرے فلسفیانہ خیالات سے معمور ہیں۔نوجوان شاعر خدا، انسان اور کائنات کے اہم مسائل اور موضوعات مثلاً حیات،ماخذِحیات،مقاصدِحیات،انجامِ حیات، موت،حیات بعد الموت، چاند، آفتاب، پھول، ابر، خودی، عشق اور حسن پر بحث کرتا اور سوالات اٹھاتا ہے،یہاں تک کہ وہ خفتگانِ خاک سے بھی استفسارات کرتا دکھائی دیتا ہے۔وہ انسانی زندگی اور کائنات کے رازوں کو جاننا چاہتا ہے۔
حصہ دوم :1905ء تا 1908 ئ
بانگ درا کا دوسرا حصہ 1905 ء سے 1908 ء تک کے عرصے کی شاعری پر مشتمل ہے۔ یہ علامہ کے قیام یورپ کا دور ہے۔علامہ اقبال کا قیام یورپ ان کے ذہن و فکر کی تبدیلی اور پختگی کے لحاظ سے انتہائی اہم ہے۔وہاں انہوں نے مغربی تہذیب و سیاست کو قریب سے دیکھا اور مغربی نظریہ قومیت و وطنیت کے مفاسد کھل کر ان کے سامنے آ گئے جس نے ان کے قلب و نظر میں عظیم انقلاب پیدا کر دیا۔اس بڑی ذہنی و فکری تبدیلی کی جانب، سات ستمبر 1921ء کے ایک خط بنام وحید احمد مدیر نقیب کے نام میں،علامہ اقبال نے خود واضح اشارہ کیا ہے۔
اس زمانے میں سب سے زیادہ بڑا دشمن اسلام اور اسلامیوں کا نسلی امتیاز و غیر ملکی قومیت کا خیال ہے۔ 15 برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احساس کیا اس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا۔
اب وہ علاقائیت سے بین العلاقائی اور رنگ و نسل کے جغرافیائی امتیازات سے انسانی مساوات کے آفاقی تصور کی جانب بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔لہٰذا اس دور کی نظموں میں کہیں وطن پرستی نظر نہیں آتی بلکہ وہ وطنیت کے تصور کو خیر باد کہہ کر اسلامی ملت کے آفاق گیر تصور کی جانب بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمارۖ نے بنایا
بنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے
اور اس حصے کی نظم "پیامِ عشق" کے ذرا یہ اشعار بھی دیکھیے
وجود افراد کا مجازی ہے، ہستیِ قوم ہے حقیقی
فِدا ہو مِلت پہ یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبارِ راہِ حجاز ہو جا
اس حصے کی نظم میں "طلبہ علی گڑھ کے نام" کے مطالعے سے بھی اس ذہنی تبدیلی کا اندازہ ہوتا ہے کہ اب علامہ علی گڑھ کالج کے مسلم نوجوانوں کو "جذب حرم" اور "فروغ انجمن حجاز" کا پیغام دیتے ہیں۔
صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اب علامہ اقبال نے ہندی قومیت اور علاقائی وطنیت کے تصور کو خیرباد کہہ کر اس کے بجائے اسلامی تعلیمات اور ملت اسلامیہ کی بات شروع کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یورپ میں اسلامی اصولوں، اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کے خلاف اہل مغرب کی چیرہ دستیوں کا قریب سے مطالعہ کیا اور اپنی ملت سے ان کا تعلق اور بھی استوار اور مضبوط تر ہو گیا۔لہٰذا انہوں نے اپنی شاعری کو اسلام کی اشاعت اور ملت اسلامیہ کے لیے وقف کرنے کا واضح اعلان کر دیا۔
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہو گا
اُمت مسلمہ کا یہ نوجوان شاعر اب یورپ ہی میں بیٹھ کر بڑے وثوق سے یورپی تہذیب کی تباہی و بربادی کا اعلان کر رہا ہے
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان ہی ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
ساتھ ہی وہ مسلمانوں کی غلامی کے خاتمے اور اُمت مسلمہ کی آزادی،بیداری اور سربلندی کی نوید بھی سناتا دکھائی دیتا ہے
سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
اس دور میں ان کے ہاں اضطراب اور تذبذب ختم ہو چکا ہے اور یقین،اعتماد،پختگی اور ملت کے لیے پیغام کا رنگ واضح ہو گیا ہے۔اب اس نوجوان نے اپنی قوم کی رہنمائی،خدمت اسلام اور ملت کی سربلندی کا مصمّم ارادہ کرتے ہوئے اسے اپنا نصب العین بنا لیا ہے۔اس حصے کی نظم "عبدالقادر کے نام" نہ صرف ان کے ان ارادوں اور نصب العین پر مکمل روشنی ڈالتی ہے بلکہ ان کی ذہنی تبدیلی اور فکری ارتقا کا ایک اہم موڑ بھی قرار پاتی ہے:
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا اُفق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
اس چمن کو سبق آئینِ نو کا دے کر
قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں
دیکھ یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بیکار
قیس کو آرزئوے نَو سے شناسا کر دیں
شمع کی طرح جییں بزم گہ عالم میں
خود جلیں، دیدہ اغیار کو بینا کر دیں
حصہ سوم: 1908 ء تا 1924 ئ
بانگ درا کا تیسرا حصہ علامہ اقبال کی یورپ سے واپسی یعنی 1908 ء سے لے کر 1924 ء تک کے کلام پر مشتمل ہے۔ اب علامہ کے خیالات میں یکسر تبدیلی آ چکی ہے اور "ترانہ ہندی" لکھنے والا شاعر اب "ترانہ ملی" لکھنے لگا ہے اور یورپ جانے سے پہلے:
' ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا' کے گیت گانے والا شاعر اب 'مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا' کے راگ الاپنے لگا ہے۔
علامہ اقبال نے بانگ درا کے دوسرے حصے میں اپنے جس منشور کا اعلان کیا تھا کہ
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درمانہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی اہ میری میری شرر مرا شعلہ بار ہو گا
اب وہ پوری طرح اپنے اس منشور پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں۔ان کے موضوعات میں اب انتہائی وسعت آ چکی ہے اور اب اس کے موضوعات بادل،چاند، دریا،ستارہ اور ابر وغیرہ نہیں بلکہ ذاتِ باری تعالیٰ، حیات، کائنات،خودی،بے خودی،یقین، عقل،عمل، جہد ِمسلسل اور عشق قرار پاتے ہیں۔ اب وہ پوری قوت کے ساتھ افراد قوم کو یہ پیغام سناتے دکھائی دیتے ہیں کہ
تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا
حضورۖ سے ان کی عقیدت و محبت بہت بڑھ گئی ہے اور اس حصے کی نظموں اور غزلوں میں یہ پاکیزہ محبت جگہ جگہ اپنے جلوے دکھا رہی ہے۔
کرم اے شاہ عرب و عجم کے کھڑے ہیں منتظر کرم
وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنہیں دماغِ سکندری
اسی طرح نظم "صدیق"، "بلال" اور "جنگ یرموک کا ایک واقعہ" میں بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بے مثال جھلکیاں نور بکھیرتی دکھائی دیتی ہیں۔
اس حصے کی نظموں میں علامہ اقبال انگریز سامراج کی مسلم دشمنی کی جانب بھی اشارے کرتے،اس کے خلاف آواز اٹھاتے اور مسلمانوں کو اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑا ہونے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔
اس دور کی معرکة ا لآراء نظمیں خضرِراہ،خطاب باجوانانِ اسلام، مسلم، شعاعِ آفتاب، نوید ِ صبح، تعلییمِ جدید، مذہب،شمع اور شاعر،شکوہ،جوابِ شکوہ اور طلوعِ اسلام، شاعر کے ایسے ہی ولولہ انگیز جذبات سے مملو ہیں۔ ان تخلیقات پر اسلامیت کا رنگ بہت نمایاں ہے اور اس دور کو بجا طور پر اقبال کی شاعری کا "اسلامی دور" قرار دیا جا سکتا ہے۔ صرف نظموں کے عنوانات مثلا "صدیق"، "کفر و اسلام"، "بلال مسلمان اور تعلیم جدید"، "مذہب"، "جنگ یرموک کا ایک واقعہ"، "شب ِ معراج"، "طلوعِ اسلام"، "فاطمہ بنتِ عبداللہ"، اور "خضرِ راہ" ہی سے اقبال کے اسلامی جذبات و احساسات کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس دور کے کلام میں استعمال ہونے والی زیادہ تر تلمیحات و اشارات کا تعلق بھی اسلام اور تاریخ اسلام سے ہے مثلا رسول پاکۖ،صدیق، عمر، بلال، بوعبیدہ، علی رضی اﷲتعالیٰ عنہم اجمعین شاخِ ہاشمی، شاخِ خلیل، روح الامیں، وادیِ فاراں، وادیِٔ ایمن، شبِ معراج، جنگ ِیرموک سینا اور فارابی وغیرہ۔ اس دور کی غزلوں کے مضامین بھی روایتی نہیں بلکہ یہ غزلیں شاعر ِاسلام کے پیغام اور فکر کی ترویج کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ان میں، اس دور کی نظموں کی طرح، اسلامی رنگ اور فکرِ ملت کے جذبات و احساسات کا اثر نمایاں ہے۔ بانگ درا کے آخر میں "ظریفانہ" کے عنوان کے تحت درج قطعات بھی اقبال کی قومی و ملی سوچ کے آئینہ دار ہیں۔ یہاں وہ ہلکے پھلکے انداز میں افراد ملت کی کوتاہیوں پر طنز کرتے اور انہیں اصلاح احوال کی جانب راغب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں مغربی تہذیب سے دامن بچانے اور اپنی تہذیب و تمدن پر کاربند رہنے کا درس دیتے ہیں۔
بانگ درا کے تیسرے حصے کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پہلے اور دوسرے حصے کے مقابلے میں اب زبان کے ساتھ ساتھ شاعر کے افکار و خیالات میں بھی انقلاب پیدا ہو چکا ہے۔ شاعر ہندی قومیت سے مسلم قومیت تک کا سفر طے کر چکا ہے اور وطنیت کے محدود دائرے سے نکل کر آفاقیت کا پیامبر بن گیا ہے۔ اسے مسلمان بیدار ہوتے اور غلامی کی زنجیریں پاش پاش ہوتی نظر آ رہی ہیں۔وہ پورے جوش و جذبے سے اپنی قوم کے افراد کو تعمیرِ خودی، یقین محکم، عمل پیہم، جہد مسلسل، صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق دے رہا ہے اور قوم کو پورے اعتماد سے طلوع اسلام اور دنیا کی امامت کی نوید سنا رہا ہے۔
اب ہمارا شاعر ملت اسلامیہ کے مسائل حل کرنے کے لیے حضرت خضر سے سوال و جواب میں مصروف ہے اور صحرا نوردی، زندگی، سلطنت اور سرمایہ و محنت کے اسرار جان کر انہیں دنیائے اسلام پر آشکار کرنا چاہتا ہے تاکہ ملت اسلامیہ کا در ماندہ کارواں ایک بار پھر منزل کی جانب جادہ پیما ہو جائے۔اس دور کی یہی خصوصیات علامہ اقبال کو دیدہ بینائے قوم کا عظیم منصب عطا کرتی ہیں اور ان کے ترانے کی آواز قوم کے درماندہ کارواں کے لیے بانگ درا کا روپ دھار لیتی ہیں۔
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جہاں پیما پھر کارواں ہمارا
تبصرے