جنگ آزادی 1857ء کی ناکامی کے بعد سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کے کھاتے میں لکھا گیا تھا۔ اپنے ناعاقبت اندیش حکمرانوں کے انگریزوں سے کیے گئے معاہدوں کی بدولت معاشی طور پر مسلمان پہلے ہی بے دست و پا ہوچکے تھے۔ صدیوں سے قائم حکومت اب دہلی کے گردونواح میں سکڑی سمٹی اپنا نوحہ سناتی تھی۔ گورا صاحب نے چابکدستی سے اس کا بندوبست بھی کردیا۔ انہوں نے مسلمانوں سے حکومت چھین کر انہیں زبردست سیاسی زک پہنچائی۔ اب برصغیرپاک و ہند پر انگریزوں کی گرفت بہت مضبوط ہوگئی تھی۔ وہ یہاں کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ انہوں نے مغل سلطنت کی باقیات تک کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا تھا۔اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کا آغاز ہوگیا۔ انگریزوں نے مسلمانوں کو معتوب ٹھہراتے ہوئے ان کے معاشرتی محرکات کو نشانے پر رکھ لیا ۔ مسلمانوں پر ہر شعبہ ہائے زندگی میں پابندی لگی اور قحط الرجال کے اس دور میں کوئی انگریز کے فیصلوں کے آگے بند نہ باندھ سکا۔ مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان باہمی عدم اعتماد کا فائدہ ہندو نے اٹھایا۔ ہندوؤں نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو 1857ء کے آسیب سے آزاد کروا کر خود کو معاشی اور سیاسی خطوط پر مضبوط کرنا شروع کردیا۔ جب کہ اس جنگ یا غدر یا بغاوت آپ اسے جو بھی نام دے دیں، اس کا بوجھ ڈھوتے ڈھوتے مسلمانوں کے کندھے اتنے جھک گئے تھے کہ انہوں نے خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔ اگرچہ سرسید احمد خان نے قوم کے مردار جسم میں تعلیم کی روح پھونکنے کی پوری کوشش کی لیکن مسلمانوں کو انگریز کے سامنے کھڑا ہونے میں دشواری ہی دشواری تھی۔ انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام کے بعد بھی مسلمانوں کی حالت جوں کی توں تھی۔ کانگریس نے اپنے قیام کے ساتھ ہی ہندو مفاد کے لیے کام شروع کردیا تھا۔ وہ سرکاری راہداریوں میں اچھے خاصے راستے تلاش کرچکی تھی اور اب وہ ہندوؤں کے لیے نمائندگی سے لے کر انگریزوں سے ہندو مفادات کے لیے بارگین تک ہر کام کررہی تھی جبکہ مسلم لیگ ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرپائی تھی۔ وہ انگریز تسلط کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی راہ تک رہی تھی ۔ اس راہ پر چلتے ہوئے مسلم مفاد کا کاسہ مکمل خالی رہ گیا تھا۔ ایسے میں بر صغیر کے افق پر دو ستارے نمودار ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں کی ڈولتی جھولتی کشتی کو پار لگادیا۔
مسلمانوں کے لیے1910 ء تک کے سیاسی حالات میں آزادی تو دور، اپنی نمائندگی تک کی بات کرنا ناممکنات میں شامل تھا۔ اول تو آزادی کا کوئی تصور سرے سے ہی موجود نہیں تھا۔ نہ ہی کوئی مربوط لائحہ عمل بحیثیت قوم مسلمانوں کے پاس تھا۔ اس وقت ساری توجہ آئینی حدود میں مسلمانوں کے لیے گنجائش نکالنے تک مرکوز تھی۔ لیکن مسلم لیگی قیادت سرتوڑ کوششوں کے باوجود یہاں بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پا رہی تھی۔ دوسری طرف کانگریس ہندوستان پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے در پہ تھی۔ مسلمانوں کے لیے عرصہ ٔحیات تنگ ہوتا جارہا تھا۔ ان کا تشخص ،ثقافتی ورثہ ،زبان مذہبی آزادی ہر چیز داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ قومی اتحاد تو کجا وہ تو گویا قوم کی تعریف سے بھی ناواقف نہ تھے۔
مسلمان عملی سیاسی میدان سے بہت دور کھڑے محض زبانی جمع خرچ میں مصروف تھے۔ کبھی وہ ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر پڑوسی ریاستوں کے دروازے کھٹکھٹاتے کھٹکھٹاتے اپنی جان دیتے دکھائی دیتے تھے، کبھی ہندو کی شاطرانہ چالوں میں آ کر نام نہاد جداگانہ حیثیت منوانے کا جشن مناتے دکھتے تھے۔ درحقیقت مسلمانوں کے دونوں ہاتھ خالی تھے اور پاؤں کے نیچے کی زمین سرکتی جا رہی تھی۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میں علامہ اقبال کی آواز گویا وارننگ بن جاتی ہے کہ تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ اقبال نے صور اسرافیل یوں پھونکا۔
اب کوئی آواز سوتوں کو جگا سکتی نہیں
سینہ ویراں میں جان رفتہ آ سکتی نہیں
شاعر مشرق علامہ اقبال کی دور اندیش سوچ اور نظر نے مسلمانان ہند کے تاریک مستقبل کا اندازہ بہت پہلے لگا لیا تھا۔ علامہ اقبال 1926 میں پنجاب قانون ساز اسمبلی کے انتخاب کے لیے اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ اگر آپ اپنی بقا چاہتے ہیں تو آپ کو متحد ہونا ہوگا۔ وہ متحدہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقوں میں ایک ایسی مسلم ریاست کے خواہاں تھے جو مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہو۔ اس لیے وہ مسلمانوں کو باہمی اتحاد کی ترغیب دیتے دکھائی دیتے ہیں تاکہ انہیں پارہ پارہ ہوکر تحلیل ہونے سے بچایا جاسکے۔ علامہ اقبال مستقبل کو دیکھنے کی اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنا پر معاشرتی اور فکری پہلو کا احاطہ کرتی ہوئی ایک مسلم ریاست کو ابھرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ ایک ایسی ریاست جو مسلم عددی بنیادوں پر قائم ہوتی۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ان علاقوں کی مسلم اکثریت آبادی نہ انگریزوں کے آئینی اصلاحات کے ڈھونگ میں آنے کو تیار ہے، نہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندوؤں کی حکومت کو تسلیم کرے گی۔ اس اکثریت کو اوران کے مسائل کو آواز بنانے کے لیے ایک سیاسی راہ نما کی ضرورت تھی جو انہیں اس منزل تک لے جائے جس کے آگے تنی دھند اقبال ہٹا رہے تھے۔
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہو گا
اس درماندہ کارواں کے سالار کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے علامہ اقبال کی نظریں ہر لمحہ محمد علی جناح پر آ رکتی تھیں۔ وہ محمد علی جناح میں قائداعظم دیکھ چکے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ہندوستان کی سیاسی تنگ نظری نے جناح کو بددل کردیا تھا - وہ خود کو اس ڈھونگی سیاست سے دور کر رہے ہیں اور برطانیہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ لیکن اقبال کو ادراک تھا کہ اگر جناح نے مسلمانوں کی قیادت نہ سنبھالی تو شاید نہیں یقینا مسلمان بدترین استحصال کا سامنا کرتے رہیں گے کوئی اور لیڈر نہ انہیں متحد کرسکتا ہے نہ ان کے مسائل کا حقیقی حل نکال سکتا ہے۔ انہوں نے جناح سے رابطہ اس طرح استوارر کھا کہ گویا جناح چھٹیوں پر ہوں اور واپس آکر پھر سے اپنی سیاسی ذمہ داریاں اور مسلم قیادت سنبھالیں گے۔ دوسری طرف انہوں نے قوم کو جناح کا سپاہی بنانے کی تیاری کی۔
پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو
جو مشکل ہے تو اس مشکل کو آساں کرکے چھوڑوں گا
یہ اقبال کی سیاسی بصیرت تھی جس نے محمد علی جناح کو ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاسی بیداری کی نوید سناتے ہوئے ان کی حتمی منزل کی نشاندہی کی۔ انہوں نے جناح کو لکھے گئے اپنے 19خطوط میں بار بار احساس دلایا کہ وہ ہی ہیں جو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف بڑھتے ہوئے طوفان کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ وہ جناح کو لکھتے ہیں کہ شمال مغربی ہندوستان اور بنگال کے مسلمانوں کو خودارادیت کا حق ہے بالکل اسی طرح جیسے انڈیا میں بسنے والی دوسری اقوام یا انڈیا سے باہر دوسری اقوام کو۔
اس حق خودارادیت کو اقبال ایک ایسے الگ وطن سے تعبیر کرتے تھے جہاں مسلمانوں کے سیاسی، اخلاقی، معاشی، ثقافتی اور مذہبی اقدار کی پاسداری ہوسکے۔ ان کے یہ خیالات ایک دن میں نہیں بن گئے تھے بلکہ ہندوؤں کے متواتر جابرانہ رویے اور سوچ نے اقبال کو سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا سے آگے نکل کر 1930 ء میں یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ میں شمال مغربی ہندوستان میں ایک مسلم ریاست کو ابھرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔
اس خطاب کے سترہ سال بعد پاکستان عین اسی جگہ نمودار ہوا۔ یوں پاکستان کی فکری اساس بلاشبہ اقبال کے ذہن کی ہی کی پیداوار ہے۔ وہ یقین رکھتے تھے کہ اسلام کی مذہبی اقدار کو مسلمانوں کی معاشرت سے الگ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اگر مسلمانوں سے ان کا جداگانہ طرز معاشرت چھین لیا جائے تو وہ خود بخود اسلام سے بے گانہ ہوجائیں گے۔
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے
اسی لیے اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے قوم کو بیدار کیا۔ ان کی مرحلہ وار تربیت کی۔ انہیں احساس دلایا کہ وہ ایک عظیم مذہب کے پیروکار ہیں۔ پھر انہیں یہ احساس دلایا کہ ان پر مسلط انگریز ایسی خدائی طاقت نہیں کہ انہیں شکست نہ دی جاسکے۔ یوں لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایک طویل اعصابی جنگ کے لیے تیار کررہے تھے۔ وہ انہیں مغرب کے مقابلے کے لیے تیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نوجوانوں کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ وہ سمجھ چکے تھے کہ یورپی نوآبادیاتی نظام محکوم اقوام کے معاشرتی ملبے پر کھڑا ہے۔ وہ یکے بعد دیگرے مسلم ریاستوں کو اس طوفان کی زد میں آتا دیکھ رہے تھے۔ ان حالات میں بھی وہ برصغیر میں ایک الگ وطن کا خواب مسلمانوں کی آنکھوں میں سجا رہے تھے۔ حالانکہ حالات کا رخ مسلم مخالف تھا۔ آپس میں نہ اتحاد تھا نہ کوئی مشترکہ نظریہ۔ انہیں اپنے مسائل کا تو احساس تھا لیکن جدوجہد کا جذبہمفقود تھا۔ مسلمانوں کو ایک سیاسی سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت تھی۔ اقبال کے پاس وہ کرشماتی شعلہ بیانی نہیں تھی جو مجمعے میں کھڑے عام آدمی کو لڑنے مرنے پر تیار کردے اور جب ایوانوں میں گونجے تو مخالفین کے الفاظ ان کا ساتھ چھوڑ جائیں۔ مسلمانوں کی خوش قسمتی تھی کہ قدرت نے محمد علی جناح میں یہ دونوں اوصاف یکجا کردیئے تھے۔
نگہ بلند سخن دل نواز جاں پرسوز
یہ ہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
اقبال جناح کی اصول پسندی اور کھرے پن کو دیکھ کر بھانپ گئے تھے کہ چمن میں دیدہ ور پیدا ہو چکا ہے۔ وہ جناح کو نہ بکنے والا دیانت دار انسان کہتے تھے۔ جناح اپنے ابتدائی سیاسی کریئر میں ہندو مسلم اتحاد کے زبردست داعی تھے لیکن وہ کانگریس کی ہندو بالادستی کی سوچ کو بدل نہ سکے۔ دوسری طرف کچھ مسلمان لیڈران مسلمانوں کی صفوں میں پورس کے ہاتھی کا کردار ادا کررہے تھے۔ ان حالات میں جناح نے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ اس موقع پر اقبال نے جناح کو واپس ہندوستان آنے اور مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر مجبور کیا۔ وہ مستقل مزاجی سے جناح کو ہندوستان کے حالات سے باخبر رکھتے۔ علامہ اقبال کی کوششوں سے بالآخر جناح واپس آئے اور ایک آخری بار ہندو مسلم ورکنگ ریلیشن شپ بنانے کی کوشش کی تاکہ انگریز کو نکالا جاسکے لیکن کانگریسی قیادت بلا شرکت غیرے حکومت کا خواب دیکھ رہی تھی۔ جناح ان ارادوں کو سمجھ گئے۔ انہوں نے اپنے سیاسی رہبر علامہ اقبال سے گفت و شنید اور ملاقاتوں کا سلسلہ طویل کردیا۔ یہ متواتر ملاقاتیں وہ چٹان بن کر ابھریں جن سے ٹکرا کر ہندو بالادستی کا خواب چکناچور ہوگیا۔
یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے جناح کو مسلمانوں کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرنے کا مشورہ دیا۔ کیونکہ مغرب میں رہ کر اقبال یہ تجربہ کرچکے تھے کہ مغربی تہذیب اور سیاسی نظام مسلمانوں کے لیے مناسب نہیں ہے اس لیے انہوں نے قائداعظم کو ایک مسلم ریاست کے قیام کے لیے قائل کرنا شروع کیا۔ جناح کے نام ایک خط میں واضح خاکہ پر مبنی مسلم صوبوں پر مشتمل وفاق کا ذکر ملتا ہے۔
قائداعظم خود بھی اقبال کو اپنا روحانی استاد مانتے تھے۔ یہ اقبال کی روحانی تربیت ہی تھی جو قائداعظم ہمیں یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اگر ہندوستان میں اسلام کو مکمل تباہی سے بچانا ہے تو پاکستان کا بننا اس کا واحد راستہ ہے۔ 7 ستمبر 1937 ء کو لکھے گئے خط میں اقبال مسلمان لیڈران کے درمیان عدمِ اتحاد کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ وہ قائداعظم کو لکھتے ہیں کہ لیگ کو اب بالآخر فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ محض اعلیٰ طبقے کے امیر مسلمانوں کی نمائندہ رہنا چاہتی ہے یا عام مسلمانوں کی جنہوں نے ابھی تک اس میں دلچسپی نہیں لی ہے۔ اس کے بعد ہمیں قائداعظم انتہائی متحرک ہو کر عام مسلمانوں تک پہنچتے دکھائی دیتے ہیں تاکہ انہیں برٹش راج کے بعد ہندو راج کے خطرے سے آگاہ کرسکیں ۔ ان کی یہ انتھک محنت 1940ء میں قرارداد پاکستان کی صورت میں رنگ لائی۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ میں باہمی نظریاتی اختلاف بہرکیف موجود ہے۔ اقبال کی باریک بین نظر سے کانگریسی راہنماؤں کی کوئی بھی مسلم مخالف کارگزاری چھپ نہ پاتی تھی۔ مارچ 1937 میں لکھے گئے ایک خط میں وہ قائداعظم کو نہرو کی تقریر کے جواب میں ایک کنونشن کے انعقاد کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دنیا کو بتانا ضروری ہے کہ ہندوستان کا مسئلہ معاشی نہیں بلکہ مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے ہندوستان میں ثقافتی مسئلہ سب سے بڑا ہے جس کے بہت دوررس اثرات مرتب ہوں گے۔
اگرچہ اقبال پاکستان کو بنتا نہ دیکھ سکے لیکن وہ مسلمانوں کا ہاتھ ایک ایسے ہاتھ میں دے گئے جس کا حوصلہ فولاد تھا۔ جس سے واقعی پوچھا گیا کہ بتا تیری رضا کیا ہے ۔ آخر وہ کیا وجہ تھی کہ محمد علی جناح جیسا بااصول اور جدت پسند انسان اپنے سیاسی نظریات بدل کر خود کو مسلمانوں کا قائد اعظم بنانے میں مطمئن ہوگیا۔ حالانکہ کانگریس کے مقابلے میں مسلم لیگ تب بھی کمزور ہی تھی۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ کانگریس میں جناح کو قدر و منزلت حاصل نہ تھی یا ان کا سیاسی قد چھوٹا تھا لیکن جناح پھر بھی کانگریس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ پاکستان کا بننا بظاہر ناممکن تھا- پھر بھی جناح اقبال کے اس خواب کے لیے اپنی صحت تک کی پروا چھوڑ دیتے ہیں۔ لگتا ہے کوئی غیر مرئی طاقت ہے جو ان کی راہنمائی کر رہی ہے یا کوئی ان دیکھا متحرک جذبہ ہے جو ان میں پارہ بھرے ہوئے ہے۔ اقبال اور جناح دونوں قدرت کا تحفہ تھے۔ دونوں کے ایک دوسرے پر گہرے اثرات ہیں۔ ایک چیز جو ہمیں قائداعظم اور علامہ اقبال میں مشترک نظر آتی ہے وہ مستقل مزاجی اور انتھک محنت ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ دونوں شخصیات اپنے وقت سے آگے جی رہی تھیں۔ دونوں کے سیاسی نظریات اور رجحانات اس وقت کے سطحیت کے پیروکاروں کی سمجھ سے بالاتر تھے۔ دونوں پر کفر کے فتوے لگا کر ان کا امیج خراب کرنے کی کوشش ہوئی۔ دونوں پر مسلمانوں کے کاز کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا گیا تاکہ ابن الوقت اپنے مقاصد حاصل کرسکیں۔ دونوں نے انگریزوں کی اعلیٰ عہدوں کی آفرز کو ٹھکرا کر مشکل راستہ چنا۔ ہندوؤں کے اصل مقاصد کو جان کر دونوں نے پاکستان کو ناگزیر قرار دیا اور یہ بات آج تک ثابت ہے کہ پاکستان نہ بنا ہوتا تو آج پچیس کروڑ مسلمان بھی ہندو شدت پسندی کے پاؤں تلے کچلے جارہے ہوتے۔
تبصرے